هر انسان شهادتین کا اقرار کرنے، یعنی " اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمدا رسول الله " کهنے سے ایک شخص مسلمان شمار هو تا هے اور اس پر مسلمان کے احکام جاری هوتے هیں: اس کا بدن پاک اور اس کے بچے بھی پاک هوتے هیں اور ایک مسلمان عورت سے اس کی شادی اور مسلمانوں کے ساتھـ اس کا لین دین مباح ھوجاتا هے اس اقرار کا لازمه ،اهم فرائض دینی پر عمل کرنا هے جو عبارت هیں :نماز، روزه، خمس، زکوات، حج، غیب پر ایمان، ملائکه و معاد، بهشت و جهنم اور تمام انبیاء کو خدا کے رسولوں کی حیثیت سے قبول کرنا وغیره ھیں۔
اس کے علاوه قرآن مجید کے احکام اور نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی سفارشات اور ائمه معصومین علیهم السلام کی تاکیدات کے پیش نظر "ولایت ائمه اثناعشر"(باره اماموں کی ولایت)کو قبول کئے بغیر ،یه اسلام اور اس کے احکام پر عمل کر نا ،مکمل ایمان محسوب نهیں هوتا هے اور قابل قبول نهیں هے ـاس سے واضح هے که باطن میں بھی مشرک و منافق نهیں هونا چاهئے، کیونکه صرف اس کے ظاهری اعمال اس کے لئے فائده بخش نهیں هیں،وه اسے خدا کے غیض و غضب سے دوچار کرتے هیں اور اس کے لئے کسی قسم کا کمال اور سعادت فراهم نهیں کرتے هیںـ
" اسلام " لغت میں تسلیم و فرمانبرداری کے معنی میں هے اور اصطلاح میں، یه ایک دین هے جو خداوند متعال کی طرف سے حضرت محمد مصطفی صلی الله علیه و آله وسلم کے ذریعه آخری شریعت الهی کے عنوان سے لایا گیا هے جو ایک وسیع، آفاقی اور لافانی (قیامت تک ناقابل منسوخ) دین هے - اهم ترین چیز جو اس دین کو دوسرے ادیان پر امتیاز بخشتی هے، یهی نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی خاتمیت پر اعتقاد اور آپ (ص) کی طرف سے مندرجه ذیل ابعاد میں خالص توحیدی معارف پیش کرنا هے :
الف) توحید ذاتی: خدا وند متعال یکتا هے اس کا نه کوئی شریک هے اورنه هم پله ـوه مختلف اجزاء کا مرکب نهیں هے-
ب) خالقیت وربوبیت: میں توحید:عالم هستی کا خالق اور اسے مستقل طور پر چلانے والا صرف وه هے ،دوسرے ، حتی ملائکه اس کے کارندے اور بندے هیں جو وجود،خالقیت اور امور کے انتظام کر نے میں خداوند متعال کے اوامر کو نافذ کر نے والے هیں-
ج)تشریعی توحید : انسان کے لئے قانون سازیه کا حق رکھنے والا تنها مرجع خداوند متعال هے اور دوسرے صرف خداوند متعال کی طرف سے انھیں دی گئی اجازت کے حدود میں ،بیان،وضاحت اورتشریع کا اختیار رکھتے هیںـ
د)الوهیت میں توحید: صرف وهی معبود اور شایان پرستش هے،نه کھ دوسرے طاغوت اور مخلوقات ـ
اس لئے اسلام میں داخل هو نے کی شرط ،ان دو اصولوں کا اقرار اور ان کی ضروریات کو قبول کرنا هے ـ کلمه"لا اله الا الله"دین اسلام کا لب لباب اور جوهر هے اور توحید کے تمام پھلووں کا حامل هےـاور نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی رسالت کا اقرار ،اس کی خاتمیت اور اس کے دین کی خاتمیت کا اقرار اور دوسری تمام راه و روش اور عادات کا انکار اور منسوخ کر نے کے نتیجه میں اس رسول الهی کی تمام تعلیمات اور اوامر ونواھی کے سامنے سر تسلیم خم هو نا هےـ
لهذا جوشخص ان دو مطالب کی شهادت دیتا ھے ،وه تمام پارٹیوں ،مکاتب اور ادیان سے جدا هو کر مسلمانوں میں شامل هوتا هے اور اس پر ایک مسلمان کے احکام جاری هو تے هیں ،جیسے اس سے شادی اور لین دین کرنا حلال اور جائز هوتا هے اور وه خود اور اس کے بچے پاک هو تے هیں [1]،اس کی جان سب کےلئے محترم هے اور اس کا دفاع کرنا اسلامی حاکم اور اسلامی معاشره کے ذمه ھے –اس امر کا ذکر کر نا ضروری هے که مخفی شرک ،جیسے:نفس پرستی ، زر پرستی اور جاه طلبی انسان کے اصطلاحی اسلام سے خارج هو نے کا سبب نهیں ھوتی۔
شیعه اثنا عشری کے نقطه نظر سے، آیات اور معصومین علهیم السلام کی روایات کے مطابق، رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کے بعد باره اماموں کو امام اور ولی و وصی کے طور پر قبول کرنا بھی ایمان اور بارگاه الهی میں اعمال کے قبول هو نے کی شرط هے، کیونکه نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم اور قرآن مجید کو تحریف سے پاک وحی کے طور پر تصدیق کرنے کا لازمه یه هے که قرآن مجید اور رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی سفارشات اور تاکیدات پر مکمل طور پر عمل کیا جائے ـ قرآن مجید اور رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی سفارشات میں اهل بیت علیهم السلام سے تمسک پیدا کرکے ان کی اطاعت کر نا شامل هے اور ائمه علیهم السلام کی نافرمانی حقیقت میں خدا اور رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کے اوامر کی نافر مانی هےـ
قابل ذکربات هے که شیعوں کے اعتقادات کے مطابق: جس طرح گناهان کبیره کا مرتکب شخص کافر شمار نهیں هو تا هے اور اسلام کے دائره سے خارج نهیں هو تا هے، اسی طرح اهل سنت بھی ائمه معصومین علیهم السلام کی ولایت کو قبول نه کرنے کے سبب دین سے خارج نهیں هوتے هیں بلکه وه مسلمان هیں اور ان کے ساتھـ رابطه رکھنے اور معاشرت بر قرار کرنے میں کوئی حرج نهیں هے ـ
لیکن خوارج گناه کبیره کے مرتکب اور فاسق کو کافر جانتے هوئے اس کا خون بهانا مباح جانتے تھے ـ معتزله ان لوگوں کو نه مومن جانتے تھے اور نه کافرـ اور وهابی سجده گاه پر سجده کرنے، ائمه اطهار(ع) کی ضریح چومنے اور ان کی خاک تربت کو تبرک جاننے کو شرک کے مصادیق جانتے هیں اور شیعوں کو مشرک کے عنوان سے مشھور کرتے هیں!
لهذا ایک مسلمان اس وقت مکمل اسلام کا حامل هے که جب:
الف) توحید کو اس کے تمام ابعاد میں قبول کرے
ب) نبی اکرم صلی اللی علیه وآله وسلم کی رسالت اور آپ(ص) کی خاتمیت کا اعتقاد رکھتا هو
ج) آپ(ص) کے تمام اوامر و نواھی، من جمله ولایت کے تسلیم اور قبول کرلے -
د) موت کے بعد زندگی کے اعتقاد کو قبول کرنا اور اس سلسله میں قرآن مجید، رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم اور ولی علیه السلام کی طرف سے بیان کئے گئے جزیئات اور اوصاف کو قبول کرنا-
قرآن مجید نے ایمان کی حد کے بارے میں یوں خاکه کھینچاهے: " نیکی وه هے که : ١- خدا، ٢ـ قیامت،٣- ملائکه، ٤- کتاب اور٥- انبیاء پر ایمان لایا جائے[2]" اور آشکار کفر و نفاق اور شرک کو جهنم میں داخل هونے اور اسلام و ایمان سے خارج هونے کا سبب جانے هے[3]-
لیکن چونکه حقیقی ایمان کا لازمه قوانین شرع پر عمل کرنا هے، خدا اور رسول خدا صلی الله علیه وآله کے احکام پر عمل کئے بغیر ایمان اور اسلام کا اظهار، اگر چه اس پر اسلام کے ظاهری احکام جاری هونگے ، لیکن اس کو حقیقی هدایت اور سعادت حاصل نهیں هوگی- اس لئے قرآن مجید حیات طیبه کو حاصل کرنے کی شرط ایمان اور عمل صالح کو ایک ساتھـ مانتا هے[4]ـ
جو ان دو میں سے صرف ایک کا حا مل هو، یعنی ایمان کا دعوی کرتاهے لیکن عمل نهیں کرتاهے یا صالح هے لیکن ایمان نهیں رکھتا هے، وه اس مرغ کے مانند هےجس کا صرف ایک پر هے اور وه کبھی پرواز کرکے سعادت و کمال کی بلند یوں تک نهیں پهنچ سکتا هے، مگر یه که اپنی روش میں تبدیلی لائے اور اپنے ایمان کو عمل صالح سے اور عمل صالح کو اسلام کے اظهار اور اس کے معارف کو قبول کرنے سے انجام دے تا که اس راه سے بارگاه الهی کا تقرب حاصل کرے اور بهشت میں داخل هوجائے-
یهاں پر چند نکات کی طرف اشاره کرنا ضروری هے:
١) ایمان اور عمل صالح کے درمیان ایک متقابل رابطه هےـ جس قدر ایمان قوی تر هو، اس کے عمل صالح کی کیفیت و کمیت اور گناه و سرکشی سےاجتناب بھی بیشتر هوگا اور جس قدر اعمال صالح اور گناهان کبیره سے اجتناب کی طرف زیاده توجه کی جائے، دل میں ایمان بھی اسی قدر زیاده نفوذ جگه پیدا کرتا هے یهاں تک که انسان سعادت کے کمال تک پهنچتا هے اور انسانیت کی بلندی پر سرافراز وجلوه گر هوتاهے- اور اس کے برعکس گناه اور ان پر اصرار دل سے ایمان کے تدریجی طور پر محو هونے کا سبب بن جاتاهے اور گناه کا مرتکب هونا ایمان کی کمزوری کی نشانی هے-
٢) دوسرے انبیاء اور ان کی اصلی کتابوں کی تصدیق کرنے کا لازمه ان کی شریعت پر عمل کرنا نهیں هے، کیونکه ان میں سے بعض کی شریعت صرف ان کی قوم تک محدود تھی اور بعض دوسروں کی شریعت بھی بعد والی شریعت اور کتاب کے آنے سے منسوخ هوئی هے یعنی ان کے اختتام کی تاریخ گزر چکی هےـ لهذا ان کی تصدیق انھیں انبیائے الهی کے طور پر قبول کرنے اور ان کے مقام و منزلت اور زحمتوں کا احترام کرنے کے معنی میں هے، نه ان کی شریعت پر عمل کرنے کے معنی میں-
٣) اهم عبادتی اعمال، جو ایک مسلمان کو غیر مسلمان سے جدا کرتے هیں،" فروع دین " کے عنوان سے مشهور هیں اور جن کے ذمه یه عبادتی تکالیف هوں ان کے لئے ان کو یاد کرنا اوران سب پر عمل کرنا ، ضروری هے، اور ان میں سے کسی ایک کی بھی ضرورت کا انکار کرنا ضروریات دین کے انکار کے برابر هے اس لئے ان میں سے هر ایک کی ضرورت کا انکار بھی اسلام سے خارج هونے کا سبب بن جاتا هے اور اس کا مرتکب مرتد شمار هوتاهے اور خاص شرائط کے حامل هونے کی صورت میں (ارتداد فطری، مرد هونے اور...) اس کا خون بهانا مباح هوتاهے-
دوسری طرف ، ان کی ضرورت کا انکار کئے بغیر ان پر عمل نه کرنا بھی انسان کے لئے بهشت کےدرجات سے محروم هونے کا سبب بن جاتا هے اور اگر آخر عمر تک ان پر عمل نه کرنے پر باقی رهے اور اس کی تلافی نه کرے تو عذاب دائم کا مستحق بن جائیگا-
٤) ایمان مطلق هونا چاهئے، کیونکه اصولی طور پر ایمان منفک ھونے کے لائق نهیں هے- اگر کوئی حقیقی معنوں میں مٶمن هے تو وه یه نهیں کهه سکتا هے: میں نے معارف میں سے صرف ایک حصه کو قبول کیا هے اور احکام تکلیفی میں سے صرف بعض پر عمل کرتاهوں، کیونکه قرآن مجید کے مطابق اس قسم کا عمل نفس پرستی اور اپنے ذاتی خواهشات کے مطابق عمل کرنا هے اور یه کفر شمار هوتاهے، نه که خدا، روز جزا اور انبیاء کی نبوت پر ایمان[5]-
٥) ایمان اور عمل صالح کے مختلف مراتب هیں ان میں قوی اور ضعیف کی صورت بھی پائی جاتی هے- تمام صالح مومنین ایک هی درجه پر نهیں هوتے هیں اور خدا کے سامنے اور بهشت میں سبوں سب کا رتبه یکسان نهیں هے- لهذا ایمان کو گھرائی بخشنے اور عمل صالح کی کمیت و کفیت کو ارتقا کے منازل تک پهنچانے کے لئے حقیقی معارف کو حاصل کرنے کی زیاده سے زیاده کوشش کرنی چاهئے تا که بلند مراتب حاصل کئے جائیں-
منابع و مآخذ:
سبحانی، جعفر،" ملل و نحل "، ج٢، مرکز مدیریت حوزه، طبع دوم، قم ،١٣٦٦، ص٥٣.
شهرستانی، عبدالکریم،"ملل و نحل"،ج١-٢، الانجلو مصر، طبع دوم،١٣٧٥ ق، مصر، ص٤٦.
سعیدی مهر، محمد،آموزش کلام اسلامی، ج١ و٢، طه، طبع دوم، سال ٨١،قم، صص ١٦٣-١٦١ از جلد اول و ص ١٣٥ از جلد دوم-
طوسی، خواجه نصیرالدین،کشف المراد،شکوری، طبع چهارم، سال ٧٣، قم،ص٤٥٤-
مصباح یزدی، محمد تقی،آموزش عقاید، ج٣، سازمان تبلیغات اسلامی، طبع دوازدهم، سال٧٦، قم، ص١٦٣-١٢٦، دروس ٥٨-٥٤-
مصباح یزدی، محمد تقی، "اخلاق در قرآن" ج١، موسسه آموزشی و تحقیقی امام خمینی قدس سره، قم ، صص ١٤٥-١٢٢-
[1]- البته غیر مسلمان (اهل کتاب یا غیر اهل کتاب) کے بدن کی طهارت و پاکی کے بارے میں اسلامی علما کے نظریات میں اختلاف پایا جاتا هے، مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے ان کی توضیح المسائل کی طرف رجوع کیا جاسکتا هے-
[2] بقره/ ١٧٧ و ٢٨٥، نساء/١٣٦.
[3] نساء/ ١٤٥و ١٤٠
[4] نحل/ ٩٧- بقره/١٠٣- نساء/ ١٢٢ و٥٧.
[5]- بقره/ ٨٥- نساء ١٥١ تا ١٥٠.