اسلامی علماء گزشتھ زمانوں میں زمان اور مکان کی ضروریات کے مطابق اپنے مباحث کو بیان کرتے تھے ۔ اور ان کے زمانے میں اسلامی مباحث کو ایک سیسٹم اور نظام کے مطابق بیان کرنے کی ضرورت نھیں تھی ۔ لیکن آج کے دور میں یھ بحث پیش آتی ھے۔ استاد مطھری ، شھید صدر، جیسے علماء نے اس کے بارے میں بحث کی ھے۔ ھمارے عقیدے کے مطابق استاد مھدی ھادوی کی کتاب' اندیشھ مدون " اس سلسلے میں بھترین اور سب سے کامل کتاب ھے جس میں قرآن، احادیث اور اسلام کی قدیمی میراث کے مختلف پھلو کو مد نظر رکھه کر عمیق صورت میں غور و خوض کرکے دین سے ایک جامع اور کار آمد تعریف اور اس کے پورے پھلوؤں کو بیان کیا گیاھے۔
اس سوال کے جواب میں کھ اسلام دین خاتم ھے جس کے احکام قوانین اور دستور ابدی ھیں یعنی بالکل جس طرح وه پھلے دن تھے ھمیشھ کیلئے باقی رھیں گے۔ لیکن زمان طبیعی طور پر تبدیل اور پرانا ھوتا ھے اور ھر دن نئے شرائط اور حالات رونما ھوتے ھیں ،جو گزشتھ شرائط سے بالکل مختلف ھوتے ھیں۔ اب کس طرح ممکن ھے که جو چیز اپنی ذات میں ثابت اور غیر متغیر ھو اس چیز کے ساتھه جو اپنی ذات میں غیر ثابت اور متغیر ھے موافق ھوگی؟ اس سلسلے میں یھ کھنا ضروری ھے کھ جو نظریھ سب سے جامع ھے اور عملی طورپر اس مسئلھ کے سب پھلوؤں کو بیان کرتا ھے وه" اندیشھ مدون " کا نظریھ ھے۔ اس نظریھ کے مطابق ان مبانی اور مقاصد کی بنیاد پر جن کی دین نے تعریف کی ھے زمان اور مکان کی حددرجھ پھچان سے ، دین کے تمام پھلوؤں میں معاشرے اور دنیا کی ضررتوں کے مطابق ایک کار آمد نظام تیار کیا جاسکتا ھے۔ یعنی ، دین کے کلی عناصر کا استنباط کرکے مذھب اور نظام اسلامی کے فلسفھ تک پھنچا جا سکتا ھے، البتھ کلامی روش سے فلسفھ تک پھنچنا اور اسلامی نظام تک پھنچنا فقھی اور تجزیاتی طریقے سے صورت پاتا ھے۔ جسے ھمارے فقھا بیان کرتنے ھیں اور انھوں نے بیان بھی کیا ھے ، لیکن اس طریقھ کو زمانے کے مطابق ھونے کی ضرورت ھے۔ جنھیں ترتیب دینے میں علوم اور سائنس کی کافی اھمیت ھے اور علوم میں ترقی اسلامی نظام کو بھتر ترتیب دینے میں اور حددرجھ عمیق بنانے میں مؤثر ھے۔ یھ کام صرف فقھاء کے ھاتھه میں نھیں ھے بلکھ یھ کام فقھاء اور سائنس کے علماء کی مشترک کوششوں کا نتیجھ ھے۔
شاید یھ سوال پیش آئے کھ اسلام دین خاتم ھے اور اس کے احکام اور دستورات ابدی ھیں۔ بالکل اسی طرح باقی ھے جس طرح رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے زمانے میں باقی تھے۔ دوسرے الفاظ میں یھ ایک ثابت اور غیر متغیر حقیقت ھے۔ جب که زمان خود بخود تبدیل اور پرانا ھوتا ھے زمان کی طبیعت تبدیلی کی متقاضی ھے۔ اور ھر دن نئے شرائط اور حالات پیش آتے ھیں جو گزشتھ شرائط کے ساتھه مختلف ھیں۔ اس بنیاد پر کس طرح ممکن ھے کھ جو چیز اپنی ذات میں ثابت اور غیر متغیر ھے۔ اس چیز کے ساتھه جو اپنی ذات میں متغیر اور تبدیل ھونے والی ھے موافق اور ھم آھنگ ھو؟ اس مسئلھ کے حل کیلئے مختلف جوابات اور طریقے بیان کئے گئے ھیں۔ لگتا ھے کھ استاد ھادوی تھرانی کا " نظریھ اندیشھ مدون" اس سلسے میں سب سے جامع اور علمی نظریھ ھے۔ جو علمی طورپر اس مسئلھ کے سبھی پھلووں پر بحث کرتا ھے " اندیشھ مدون" کا نظریھ یھ ھے کھ ان مبانی اور مقاصد کی بناد پر جو دین نے ھمارے لئے بیان کئے ھیں ۔ اور زمان و مکان کی عمیق پھچان سے، ھم دین سے ایک ایسا نظام ترتیب دے سکتے ھیں جو معاشرے اور دنیا کی ضروریات کے مطابق ھو ۔ اس نظریھ کے مطابق، معاشرے کے مختلف شعبوں میں اسلامی تعلیمات ایک سیسٹم کے حامل ھیں جو آپس میں جڑے ھوئے اور ھم آھنگ ھیں۔
پس ھم دنیا کے بارے میں اسلامی نقطھ نظر اور ان اھداف کے مطابق جنھیں دین معاشرے کے مختلف شعبوں میں بیان کرتا ھے، ایک ایسا بھترین علمی نظام ترتیب دے سکتے ھیں، جو دین کو بھتر انداز میں بیان کرے۔[1]
مثال کے طور پر جو اقتصاد رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے مدینھ طیبھ میں ھجرت کے پانچویں سال جاری کیا اس اقتصاد کے ساتھ جو ھم ایران میں ۱۴۲۰ میں جاری کررھے ھیں (البته اگر صحیح انکشاف صورت پائے اور انکشاف میں ھم کوئی غلطی نھ کریں) فلسفھ ، نظام اور مذھب ایک ھی ھونا چاھئے۔
البتھ ممکن ھے کھ خارج میں متحقق ھونے کی صورت میں مختلف ھوں کیوں کھ ھمارے زمانے اور اُس زمانے کے شرائط آپس میں مختلف ھیں۔
جو بھت سی خطائیں آج کے دور میں بعض مسائل میں ھوتی ھیں وه سب ان مفاھیم کو الگ الگ بیان نھ کرنے کی وجھ سے ھیں۔ مثال کے طور پر جب عدالتوں میں سرکاری وکیلوں کو ختم کیا گیا کیوں کھ وه یھ سوچتے تھے کھ سرکاری وکیل پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے زمانے میں موجود نھیں تھے۔ اور اس طرح عدالتیں اسلامی بن جائیں گی۔ لیکن توجھ کرنی چاھئے کھ کیاسرکاری وکیل واقعی طورپر اسلام کے عدالتی نظام کا عنصر ھے یا صرف طرز عمل کا عنصر ھے؟ شاید اس زمانے میں اُس طرح کے طرز عمل کی ضرورت نھیں تھی لیکن آج کے شرائط میں اس کا ھونا ضروری ھے ان موارد کے صحیح یا غلط ھونے میں اسلام کے اھداف اور اسکے صحیح نظام کو ھر میدان میں منکشف کرنے کی ضرورت ھے۔ اسی جستجو سے ھم اس نتیجھ پر پھنچ سکتے ھیں کھ کونسی چیزیں ثابت ھونی چاھئیں اور کونسی چیزیں شرائط کے تابع ھیں۔ جو مختلف صورتوں میں ممکن ھے فرق کریں۔ دین خاتم اگرچھ کسی خاص زمانے اور جگھ کیلئے نھیں آیا ھے اور اس کے طبیعی عناصر اس بات کے متقاضی ھیں کھ وه ثابت اور کلی ھو ۔ لیکن چونکھ وه ایک خاص شرائط میں حقیقت پاتا ھے اس لئے بعض وقتی عناصر اس میں راه پاجاتے ھیں اور اس کا مطلب ھرگز یھ نھیں کھ ثابت اور کلی عناصر انھیں خاص شرائط میں نھ ھوں۔
دوسرے الفاظ میں، ھر زمانے میں متغیر اور ثابت عناصر کا ایک سلسلھ موجود ھوتا ھے بعض عناصر سب شرائط میں مطابق ھوتے ھیں، بغیر اس کے کھ خاص شرائط ان میں اثر کریں۔ اور بعض دوسرے قابل انطباق نھیں ھوتے۔ مثال کے طور پر ایک معصوم اور فقیھ ( جو معصوم کا نائب ھوتاھے ) کا حکومت کا سربراه ھونا ایک ثابت اصل ھے لیکن یھ کھ معصوم (ع) یا وه فقیھ جو معصوم (ع)کا نائب ھوتا ھے کس طرح اپنی حکومت کو تشکیل دے یھ شرائط اور مواقع کے تابع ھے۔
مثال کے طور پر حضرت علی علیھ السلام کی حکومت میں ھم قوتوں کو علیحده نھیں دیکھتے ھیں۔ قوه قانون گزار،قوه نافذه اور قوه عدلیھ آپس میں ملے ھوئے ھیں اگر کسی آدمی کو کسی جگھ کا والی بنایا تو وه وھاں پر قانون گذار اور قانون کا نافذ کرنے والا اور قاضی بھی ھوتا تھا۔ اور سب کاموں کو ایک ھی جگھ انجام دیتا تھا البتھ حضرت علی علیھ السلام کے قاضی بھی ھوتے تھے جو صرف قضاوت کے فرائض انجام دیتے تھے لیکن حضرت علی علیھ السلام کی حکومت کے نظام میں قوتوں کا الگ الگ ھونا جس طرح ایران کے قانون میں ھے موجود نھیں ھے۔
اسلامی جمھوریھ ایران کے قانون میں بعض حصے ثابت دینی عناصر سے متعلق ھیں۔ جن کا اجتماعی ، سیاسی اور ثقافتی شرائط کے ساتھه کوئی رابطھ نھیں ھے اور بعض حصے جمھوریھ اسلامی ایران کے شرائط یعنی خاص زمانے اور مکان کے ساتھه متعلق ھیں ایک فقیھ کا حکومت کا سربراه ھونا ثابت عناصر میں سے ھے۔ لیکن جو حکومتی نظام موجوده شرائط میں ولی فقیھ کے لئے نظر میں رکھا گیا ھے متغیر عناصر میں سے ھے۔ آئین میں " صدر جمھوریھ " لوگوں کے انتخاب سے منتخب ھوتا ھے اور اس کا حکم رھبر کے ذریعے تائید پاتا ھے۔ لیکن عدلیھ کا سربراه ولی فقیھ کے ذریعے سیدھے مقرر ھوتا ھے ان دو کا انتخاب ثابت دینی عناصر میں سے نھیں ھے۔ اگر اس کے برعکس ھوتا اورصدر جمھوریھ کا منتخب ھونا رھبری کے خاص اختیارات میں ھوتا اور عدلیھ کے سربراه کو لوگ ووٹوں کے ذریعے منتخب کرتے تو شرعی طورپر کوئی فرق نھیں پڑتا، لیکن مصلحتوں کے مطابق فرق پڑتا ھے۔ مصلحت کبھی اس بات کی متقاضی ھے کھ قوه نافذه کے سربراه کا لوگ انتخاب کریں۔ اور عدلیھ کا سربراه رھبر کے ذریعے منصوب ھو۔ پھلی صورت میں لوگوں کی حمایت قانون کے نفاذ میں زیاده اثر رکھتی ھے اور صدر کیلئے لوگوں کا ووٹ لوگوں کی موجودگی کے احساس کیلئے ایک مثبت قدم اور ایک مصلحت شمار ھوتی ھے۔ اور دوسری صورت میں قوه عدلیھ کے استقلال کی حفاظت اور یھ بات کھ رھبر کا انتخاب استقلال کی حفاظت میں مؤثر ھے۔ یھ بھی ایک مثبت قدم اور ایک مصلحت شمار ھوتی ھے۔ پارلیمنٹ کے ارکان کا انتخاب لوگوں کے ذریعے اور نمایندوں کی طرف سے پارلیمنٹ کے سربراه کو انتخاب کرنا بھی اسی طرح ھے۔ یھ سب خاص شرائط کی وجھ سے ھے جس میں ھم رھتے ھین ممکن ھے دوسرے شرائط میں اس کی زیاده اثر دار شکل اور زیاده کار آمد کام کی وجھ سے اپنے اھداف میں نزدیک ھوں۔
عناصر ثابت و متغیر کے ایک زمانے میں ھونے کا اصلی تفکر ھماری فقھ میں الھی قوانین اور ولایی قوانین کے ذریعے بیان ھوا ھے الھی احکام سے فقھاء کی مراد ثابت احکام ھیں اور ولایی قوانین سے انکی مراد متغیر عناصر اور احکام ھیں۔ دین میں ثابت اور متغیر کی بحث انسانی پھچان کی بنیاد پر ھے۔ جس کی طرف شھید مطھری نے اشاره کیا ھے انسان کا ایک پھلو ثابت ھے اور ایک پھلو متغیر۔ ثابت احکام انسان کے ثابت پھلو سے متعلق ھیں اور متغیر احکام انسان کے متغیر پھلو سے متعلق ھیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلام میں نظریھ اندیشھ مدون اسی انسانی پھچان کے نظریھ کی بنیاد پر ھے۔
احکام اور شرعی قوانین :
اسلام میں "نظریھ اندیشھ مدون" کے سلسلے کے ساتھه ساتھه اوربھی احکام اور قوانین موجود ھیں۔ جو حقیقت میں ان ھی مفاھیم کا عینی اور خارجی مظھر ھیں۔ دوسرے الفاظ میں نظام اور طریقھ کار قانون کی شکل میں ظاھر ھوتا ھے اور قانون ھی مذھب ، نظام اور طریقھ کار کو معاشرے میں حقیقت عطا کرتا ھے جو کچھه سماج میں متحقق ھونا اور عملی جامھ پھننا چاھتا ھے وه قانون اور حکم کی صورت میں متحقق ھوتا ھے۔ اسلامی قوانین، فلسفیانھ نظام اور مذھب کی شکل میں متحقق ھوتے ھیں۔ مثال کے طور پر جب اسلام مالکیت کو قبول کرتا ھے تو اس کے مطابق قوانین اور احکام پیدا ھوتے ھیں۔ یا جب اسلام غربت اور امیر کے درمیان ایک معقول فاصلھ چاھتا ھے تو وه حکم میں اس کا اثر دکھاتا ھے اور اسی مقصد کیلئے زکات دینا اور خمس نکالنا اور دیگر مالی صدقات اور خیرات حکم اور قانون کی صورت میں ظاھر ھوتے ھیں۔ یا جب اسلام اقتصادی آزادی کو قبول کرتا ھے۔ تو بعض استحقاقی اثرات پیدا ھوتے ھیں اور جو معاھدے فقھی کتابوں میں بیان ھوئے ھیں۔ وه حقوق کی آزادی اور اراده کی بنیاد پر بیان ھوتے ھیں۔ یھ معاھدے اور ان کے اثرات ایسے ھی اسلامی اقتصادی نظام کے مطابق تشکیل پاتے ھیں۔ یھ قوانین اگر چھ اپنی ذات میں جزئی ھیں لیکن آپس میں ایک دوسرے سے متعلق ھیں یعنی ممکن ھے ابتدائی نظر میں وه آپس میں بے ربط دکھائی دیں لیکن جس نے ان قوانین کو قرار دیا وه ان کے باھمی ربط کی طرف متوجھ تھا۔ اگر اس نظر سے احکام اور قوانین کو دیکھیں، یعنی ان کو آپس میں ایک مربوط سلسلھ جانیں تو ھم ان کے درمیان غیر ھم آھنگی کو سمجھه سکتے ھیں اور نقل ھونے میں موجوده غلطیوں کو دور کرسکتے ھیں۔
چونکھ مذھب اور نظام ثابت ھے، جو قوانین، نظام اور مذھب سے سرچشمھ لیتے ھیں وه بھی ثابت ھیں لیکن چونکھ طریقھ کار متغیر ھے اس لئے جو احکام اور قوانین طریقھ کار سےسر چشمھ حاصل کرتے ھیں وه متغیر ھوں گے۔ دوسرے الفاظ میں نظام اور طریقھ کار اپنےساتھه احکام اور قوانین کو ایجاد کرتے ھیں۔ نظام کے احکام اور قوانین خاص شرائط اور وقت سے کوئی رابطھ نھیں رکھتے۔ لھذا وه ثابت اور کلی ھیں لیکن طریقھ کار کے احکام اور قوانین خاص شرائط سے متعلق ھیں پس وه متغیر اور وقتی ھیں ۔
آخری نکتھ یھ کھ جیسا کھ بیان ھوا اسلام دو عناصر کلی ( ثابت ) اور وقتی (متغیر ) سے تشکیل پایا ھے۔
کلی عناصر کا استنباط اور اس کے فلسفھ تک پھنچنا کلامی روش سے ممکن ھے اور اسلامی مذھب اور نظام کو حاصل کرنا ، فقھی اور تجزیاتی طریقے سے صورت پاتا ھے[2] جس کو ھمارے فقھاء بیان کرتے ھیں اور انھوں نے کافی حد تک بیان بھی کیا ھے۔ ھاں ، طریقھ کار کو زمانے کے مطابق ھونا چاھئے جس کو بنانے میں سائنس اور علوم کو کام میں لانا ھوگا اور یقینی طور پر ان کی ترقی طریقھ کار کو بھتر اور عمیق بنانے میں مؤثر ھے اور یھ کام صرف فقھاء کے اوپر نھیں ھے بلکھ انسانی علوم اور فقھاء کی مشترک کاوشوں کا نتیجھ ھے۔