لغت میں "فنا" نابودی اور نیستی کے معنی هے- اس کے مقابل میں "بقا" باقی رهنے کے معنی میں هے- مثال کے طور پر خداوند متعال بقا کے ذمره میں سے هے اور دوسری تمام مخلوقات نابودی اور فنا کے زمره سے هیں-
اصطلاح میں، "فنا" خود کو نه دیکھنے اور نه پانے کے معنی میں هے- البته اپنے آپ سے بے خبری کے معنی میں نهیں هے، بلکه انسان خداوند متعال کے حضور میں اپنے آپ کو کچھه بھی نهیں دیکھتا هے اور جو کچھه غیر خدا هے اس سے اپنا دل خالی رکھتا هے-
عرفان میں مقام فنا:
منزل و مرتبه کو مقام کهتے هیں که عارف برسوں کے رنج و تکلیف اور تهذیب نفس کے بعد اس مقام کو حاصل کرتا هے- اس بنا پر کسی چیز کا تغیر اور زوال جو مشکلات سے طے هوتا هے، عادتاً اور غالباً وه چیز آسانی کے ساتھه هاتھه نهیں آتی هے اور وه پائدار اور باقی رهنے والی هے-
فنا کے مقام پر، انسان خود کو اور اپنی بندگی کو ، اپنے رحجانات اور تمناوں کو اور اطراف کی دنیا کو خداوند متعال کے مقابلے میں کچھه نهیں پاتا اور صرف خداوند متعال پر نظر ڈالتا هے- اولیائے الهٰی جس چیز کا مشاهده کرتے هیں وه حق هے خواه وه بالواسطه هو یا بلا واسطه- یه واسطه، کبھی وهی اسماء و صفات الهٰی هیں اور صاحبان سلوک و معرفت کے لئے، یه نوری پردے بھی هٹ جاتے هیں: " الھی ھب لی کمال الانقطاع الیک۔ ۔ ۔ حتی تخرف البصار القلوب حجب النور۔ ۔ ۔" بیشک یه فنا کی آخری منزل هے، که اس کے بعد انسان کلی طور پر محو هو جاتا هے اور چهرے سے مکمل اضمحلال مترشح هوتا هے- یهاں پر انسان حقیقت کے کانوں سے سنتا هے، حقیقت کی آنکھوں سے دیکھتا هے اور حقیقت کی زبان سے بولتا هے- یه مطلب اصل ذات حق تعالیٰ کو نه جاننے سے کوئی منافات نهیں رکھتا هے، کیونکه اصل ذات حق تعالیٰ خود ذات حق کے علاوه کسی کے لئے معلوم نهیں هے-
لغت میں "فنا" کے معنی نیستی اور نابودی هیں- اس کے مقابل میں "بقا" باقی رهنے اور پائداری کے معنی میں هے- یه لفظ قرآن مجید میں استعمال نهیں هوا هے اگرچه اس کے بعض مشتقات استعمال هوئے هیں، جیسے: " کلّ من علیھا فان و یبقی وجه ربک۔ ۔ ۔۔" خداوند متعال نے اس آیه شریفه میں فنا {فان} کو بقی {یبقیٰ} کے مقابل میں قرار دیا هے، یعنی خداوند متعال صرف "بقا" هے اور دوسری تمام مخلوقات "فنا" سے متصف هیں-
لیکن "فنا" کے اصطلاحی معنی اور اس کے لغوی معنی یکساں نهیں هیں- اصطلاح میں اس کے معنی اپنے آپ کو نه دیکھنے اور نه پانے کے هیں- لیکن اپنے آپ سے بے خبر رهنے کے معنی میں نهیں هیں، بلکه انسان خداوند متعال کی بارگاه میں اپنے آپ کو کچھه نهیں دیکھتا هے اور صرف خداوند متعال کی فکر میں هوتا هے-
عرفا کی نظر میں فنا کی تعریف:
فنا کی تعریف میں ابو سعید خرّاز کهتے هیں: " فنا، بندے کا بندگی اور بقا کے لحاظ سے فنا هونا [1]– اور جلوه الهٰی سے بنده کی بقا هے-
قشیری کا اعتقاد هے که: " جس کسی پر سلطان حقیقت کا غلبه حاصل هو جائے اور وه عین و اثر کے طور پر اغیار میں سے کسی کو نه دیکھه سکے ، اسے کها جاتا هے که وه خلق سے فانی هو کر حق پر باقی رها هے-"
میر سید شریف جرجانی کهتے هیں: " بُرے اوصاف کے زوال کو فنا کهتے هیں، جیسا که اوصاف محدوده کے وجود کو بقا کهتے هیں[2]-"
مقامِ "فنا":
عرفان میں دو اصطلاحیں پائی جاتی هیں:
۱۔ مقام
۲۔ حال
"مقام" اس منزل و مرتبه کو کهتے هیں، جسے سالها سال کی محنت، مشقت، تهذیب اور تلاش و کوشش کے بعد عارف حاصل کرتا هے- اس لئے ، اس کا زوال یا اس میں تبدیلی کا رونما هونا عام طور پر یا غالباً نا ممکن هے- به الفاظ دیگر عارف کی تدریجی مشقت و محنت اور مسلسل سیر و سلوک اسے زهد و تقویٰ کی راه میں ایک خاص مقام کا مالک بنا دیتا هے اور چونکه یه مراحل اور منازل بڑی مشقت سے حاصل هوتے هیں اس لئے آسانی کے ساتھه نابود نهیں هوتے-
لیکن "حال" ، "مقام" کے برعکس هے- یه ایک قسم کی کیفیت اور تبدیلی هے جو مختلف مقامات طے کرنے کے بعد عارف کے دل پر طاری هوتی هے- اسی طرح ممکن هے که یه کیفیت اچانک طاری هو جائے اور ممکن هے که اچانک ختم بھی هو جائے- لهزا، "حال" ایک مستقل اور پائدار کیفیت نهیں هے اور مسلسل تبدیلی هوتی رهتی هے[3]-
فنا کے مقام پر، انسان، حضرت حق کے مقابل میں اپنے آپ اور اپنی بندگی اور دنیا میں اپنے اطراف میں پائے جانے والے رجحانات اور آرزوں کو نهیں دیکھتا هے اور صرف خداوند متعال پر نظر رکھتا هے-
اس طرح فنا کے معنی وه لغوی معنی نهیں هیں جن کے مطابق فنا ایک نقص هوتا هے، بلکه یه کمال کے بلند مراتب میں سے ایک هے- اس لئے عرفا کهتے هیں: " فنا کا نتیجه حق کے حضور بقا اور پایندگی هے-" شیخ سعدی علیه الرحمه نے کیا خوب کها هے که:
بلندی از آن یافت کر پست شد
درنیستی کوفت تا هست شد
فنا کے مقام کو پانے کا طریقه کار:
چونکه انسان اور خداوندتعالیٰ کے درمیان گناه اور خود خواهی کے علاوه کوئی رکاوٹ موجود نهیں هے، اس لئے غیر خدا سے تعلق رکھنا حجاب شمار هوتا هے اور ظلمت کے یه پردے حق کی وادی میں پهنچنے کے لئے رکاوٹ بن جاتے هیں- اب اگر کوئی گناه، پرده اور تعلق نه هو اور انسان کی بنیادی توجه اپنی هستی کی طرف هو جائے، تو اس کے لئے محدود صورت میں حق کے شهود کا امکان هے اس کے بعد فنا کا مقام حاصل هوتا هے-
لیکن اس راه میں بهت سے پڑاو اور منزلیں هوتی هیں جن پر مفصل بحث کرنے کی یهاں پر گنجائش نهیں هے، البته خدا کے دیدار سے مراد جو شهود اور بقا وغیره کے عناوین سے بیان کیا جاتا هے، وه ظاهری آنکھوں سے دیکھنا نهیں هے، کیونکه آیه شریفه "لا تدرکه الابصار[4]" کی تعبیر کے مطابق اس سے مراد فکری راهیں بھی نهیں هے اور فکری راه کو شهود اور لقاء کی راه نهیں کها جاتا هے، بلکه قرآن مجید کے ارشاد کے مطابق اس سے مراد غیر از خدا هر ایک چیز سے هاتھه دھونا هے- نیک کام انجام دینا اور خدائے واحد کا شریک ٹھرانے سے پرهیز کرنا هے، که اگر کوئی خدا کا مشاهده کر کے مقام فنا تک پهنچنا چاهے، یعنی حق تعالیٰ بلا واسطه دیکھنا چاهے تو اسے اپنے آپ اور دوسروں سے چشم پوشی کرنا چاهئیے-
" فمن کان یرجو القاء ربه فلیعمل عملاً صالحاً و لا یشرک بعبادۃ ربه عهداً [5]"
{ لهزا جو بھی اس کی ملاقات کا امیدوار هے اسے چاهئیے که عمل صالح کرے اور کسی کو اپنے پروردگار کی عبادت میں شریک نه بنائے}
حضرت موسی علیه السلام بھی خداوند متعال کے دیدار کی واقعے میں جب بیهوش هو جاتے هیں، تو هوش میں آنے کے بعد بارگاه الهٰی میں عرض کرتے هیں: " خداوندا؛ فنا هونے اور هر قسم کے تعلق سے دوری اختیار کئے بغیر تجھے دیکھا نهیں جا سکتا هے[6]-"
لیکن یهاں پر جو چیز انتهائی اهمیت کی هے، وه یه هے که یه جو کها جاتا هے که بعض صاحبان سیروسلوک، بلاواسطه خدا کو دیکھتے هیں، اس کے کیا معنی هیں؟ اور اجمالی طور پر ان تعلقات سے مراد کیا هے؟
اس معنی کی وضاحت میں بهتر هے که امام خمینی {رح} کی اس گراں بها عبارت پر توجه دی جائے جو انھوں نے کتاب شریف "اربعین" میں بیان فرمائی هے، انهوں نے فرمایا هے:
" مکمل تقویٰ حاصل کرنے اور اپنے دل کے تمام رجحانات سے دوری اختیار کرنے، انیت اور انانیت کے درمیان فرق کرنے اور حق و اسماء و صفات حق تعالیٰ کی طرف توجه کرنے اور ذات الهٰی کے عشق میں غرق هونے اور قلبی چاهتوں سے اجتناب کرنے کے بعد سالک کے لئے صفائے قلب حاصل هوتی هے جو اسماء اور سفات الهٰی تجلی کا سبب بن جاتی هے۔ ۔ ۔ ۔ اور سالک کی پاک روح اور حق تعالیٰ کے درمیان سے پردے هٹ جاتے هیں – بعض ارباب سلوک کے لئے ممکن هے که نوری حجاب اور اسماء و صفات هٹا کر اپنے آپ کو صرف خدا سے متعلق پائیں اور اس مشاهده میں حق تعالیٰ کے قیوم هونے اور آپ اپنی ذات کے فنا هونے کا مشاهده کریں[7]-"
اس مفهوم کے بارے میں مناجات شعبانیه میں بهترین صورت میں اشاره کیا گیا هے: " الهی ھب لی کما الانقطاع الیک۔ ۔ ۔ حتی تخرق ابصار القلوب حجب النور۔۔ ۔۔ ۔ ۔[8]"
بیشک ممکن هے انسان ایک ایسے مقام پر پهنچ جائے که اس کے اور اس کے معبود کے درمیان حق تعالیٰ کے اسماء اور صفات کے نور کے علاوه کوئی چیز حائل نه هو- اس کے علاوه یه بھی ممکن هے که انسان ایک ایسے مقام پر پهنچے جهاں پر یه نوری پردے بھی هٹ جائیں- سالک ان پردوں کو بھی عبور کر لیتا هے اور کلی طور پر محو تر هو جاتا هے تب اس وقت جو کچھه دیکھتا هے- وه سب حق هوتا هے اور جو کچھه سنتا هے وه عین حق هوتا هے- گویا وه اپنی آنکھوں سے حق کو دیکھتا هے، اپنے کان سے حق کو سنتا هے اور زبان سے حق کی بات کرتا هے اور غیر حق کے بارے میں نابینا هوتا هے- یه فنا فی الله کی آخری منزل هے یعنی مکمل طور پر مضمحل هونا اور مکمل تلاش کی منزل پالینا-
فنا اور لقاء الله کے مقام کے بارے میں جو یه تمام وضاحتیں پیش کی گئیں ان کے مطابق جاننا چاهئیے که " "اکتناه ذات" همیشه کے لئے ناممکن هے، یعنی خداوند متعال کی ذات کے بارے میں علم حاصل کرنا حضرت احدیت کے علاوه کسی اور کے لئے ممکن نهیں هے اور فنا کی بحث کی اس قضیه سے کوئی منافات نهیں هے-
[1] "فنا" کے لفظ کو پهلی بار ابو سعید خراز نے عرفانی اصطلاحات میں شامل کیا هے-
[2] خرمشاهى، بهاءالدین، حافظ نامه، انتشارات سروش، ص 975.
[3] سعدی کهتے هیں :
زمصرش بوی پیراهن شنیدی
ولی در چاه کنعانش ندیدی
بگفت احوال ما برق جهان است
گهی پیدا و دگر دم نهان است
[4] انعام، 103.
[5] کهف، 110.
[6] جوادى آملى، عبداللَّه، تفسیر موضوعى قرآن کریم، ج 7، ص 255 به بعد.
[7] امام خمینى، اربعین حدیث، ص 454.
[8] بحارالأنوار، ج 91، ص 98؛ مفاتیح الجنان مناجات شعبانیه.