جو بات مسلم ہے، وہ یہ ہے کہ پانچ وقت کی نمازیں ابتداء میں دو رکعتی تشریع ھوئی ہیں- اسی طرح اس میں بھی کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ نماز کو وطن میں پڑھنے کی صورت میں دو رکعتوں کا اضافہ کیا گیا ہے، اب بحث اس بات پر ہے کہ کیا سفر میں بھی دو رکعت کا اضافہ ھوا ہے یا نہیں؟
اس سلسلہ میں ائمہ اطہار {ع} سے نقل شدہ روایتوں کے مطابق شیعہ فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ پیغمبر اکرم {ص} کے زمانہ میں نمازیں دو رکعتوں کی صورت میں تشریع ھوئی ہیں، اور وطن میں نمازپڑھنےکی صورت میں دو رکعتوں کا اضافہ ھوا ہے، لیکن سفرکے دوران نماز میں کوئی چیز اضافہ نہیں ھوئی ہے، اور اہل بیت {ع}سے نقل کی گئی روایتوں کے مطابق سفر میں نماز میں کوئی چیز اضافہ نہیں کی گئی ہے- لیکن اہل سنت کی روایتوں کے مطابق سفر میں نماز کے مسئلہ کے بارے میں فرق ہے- ان میں سے ایک گروہ کے افراد شیعوں کے نظریہ سے اتفاق رکھتے ہیں لیکن بعض قصر و تمام کے درمیان اختیار کے قائل ہیں-
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ہم اس سے متعلق آیہ شریفہ کو بیان کرتے ہیں اور اس کے بعد اس سلسلے میں تحقیق و تجزیہ کرتے ہیں:
خدا وند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: " وَ إِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذينَ كَفَرُوا إِنَّ الْكافِرينَ كانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُبيناً [1] " " اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنی نمازیں قصر کرو اور اگر تمھیں کفار کے حملہ کر دینے کا خوف ہے، کہ کفار تمہارے لئے کھلے ھوئے دشمن ہیں-"
ایسا لگتا ہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف کا اصلی سبب، لفظ " جناح" کے معنی کو سمجھنے میں فرق ہے، جو اس آیہ شریفہ میں ذکر کیا گیا ہے، اس لحاظ سے ضروری ہے کہ پہلے ہم اس کے مفہوم کو بیان کریں:
لغت میں جناح، کے معنی گناہ اور حق سے گمراہ ھونے کے معنی میں ہے-[2]
لا جناح { یعنی کوئی گناہ نہیں ہے} کے معنی کے پیش نظر، اہل سنت کی ایک جماعت سفر میں نماز کے قصر کے جائز ھونے کی قائل ھوئی ہے، کیونکہ قرآن مجید فرماتا ہے: " اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنی نمازیں قصر کرو-" اور اس میں،قصر کے معین ہونے کی بہ نسبت تخییر کی دلالت قوی تر ہے ،کیونکہ"جناح" کی نفی، واجب، مستحب اور مباح کی بہ نسبت مرجوح سے موافق ہے[3]-
لیکن، اس کی مشابہ آیت کے پیش نظر، جس میں لفظ " جناح" سے استفادہ کیا گیا ہے اور وہ لفظ وجوب پر دلالت کرتا ہے اور اہل سنت اور شیعوں کی طرف سے نقل کی گئی روایتوں سے بھی سفر میں نماز قصر کرنے کے وجوب کی دلالت پیش کی گئی ہے، اس سے معلوم ھوتا ہے کہ بنیادی طور پر بیان کے مقام پر قصر نماز تشریع ھوئی ہے، نہ کہ حکم کی نوعیت بیان کی گئی ہے، اس لحاظ سے مذکورہ آیہ شریفہ میں نماز کو قصر و تمام پڑھنے کے بارے میں اختیار کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے- اور اگر اس کو ترک کرنا جائز ھوتا، تو کہنا چاہئیے تھا کہ:" کوئی گناہ{ حرج} نہیں ہے اگر وہ قصر نہ پڑھے-[4]"
مثال کے طور پر آیہ شریفہ:" "إِنَّ الصَّفا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَإِنَّ اللَّهَ شاكِرٌ عَليمٌ [5]" { بیشک صفا ومروہ دونوں پہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں ہیں، لہذا جو شخص بھی حج یا عمرہ کرے اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ ان دونوں پہاڑیوں کا چکر لگائے اور جو مزید خیر کرے گا تو خدا اس کے عمل کا قدر دان اور اس سے خوب واقف ہے} – یہاں پر لفظ"لا جناح" بظاہر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانے کے اختیاری ھونے کی دلیل پیش کرتا ہے، لیکن مسلمانوں میں کوئی اس عمل کے اختیاری ھونے کا قائل نہیں ہے، کیونکہ یہ آیہ شریفہ مسئلہ کے شرعی نہ ھونے کے شبہہ کو دور کرنے کے لئے اصل حکم کی تشریع کو بیان کرنا چاہتی ہے، لیکن حکم کی نوعیت{ یعنی واجب ھونا} کو دوسری دلیلوں سے سمجھا جاتا ہے-
اس قسم کی مثالیں، جو بلا واسطہ واجب ھونا بیان نہیں کرتی ہیں، قرآن مجید میں تشریع کے مقام پر بکثرت پائی جاتی ہیں، جیسا کہ جہاد کی تشریع کے سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے:" ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ"[6]؛" آپ کا یہ عمل آپ کے لئے خیر ہے-" " روزہ کی تشریع کے سلسلہ میں ارشاد ھوتا ہے:" وَ أَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ"[7]؛ " رو زہ رکھنا آپ کے لئے بہتر ہے-" اور اسی طرح سفر میں نماز قصر پڑھنے کے بارے میں فرمایا ہے: " فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ"؛ [8] پس جب تم سفر میں نماز قصر پڑھو گے تو کوئی حرج { گناہ} نہیں ہے-"
فخرالدین طریحی، اس سلسلہ میں کہتے ہیں:" چونکہ مسلمانوں کا یہ اعتقاد تھا کہ یہ عمل گناہ شمار ھوتا ہے، اس لئے آیت فرماتی ہے، کہ اس میں کوئی گناہ {حرج} نہیں ہے-"[9]
ہماری زیر بحث آیت بھی ایسی ہی ہے، یعنی اصلی تشریع کو بیان کرنا چاہتی ہے، نہ کہ حکم کی نوعیت کو بیان کرنا چاہتی ہے-
زمخشری کہتے ہیں :" چونکہ لوگوں کو نماز پوری پڑھنے کے ساتھ الفت پیدا ھوگئی تھی اور شائد وہ یہ تصور کرتے تھے کہ سفر میں نماز قصر پڑھنا ایک قسم کا نقصان ہے، اس لئے فرمایا کہ اس میں کوئی گناہ نہیں ہے تاکہ نماز کو قصر پڑھنے میں انھیں آرام و سکون ملے-[10]
روایات:
اسلامی فقہ کے مسلمات میں سے ہے کہ ابتداء میں نمازوں کو قصر{ یعنی دو رکعتی} پڑھنے کا حکم { تشریع} ملا تھا[11]- اور اسی طرح بیشک وطن میں بڑھی جانے والی نماز میں دو رکعتوں کا اضافہ ھوا ہے، لیکن سفر میں پڑھی جانے والی نماز میں بھی دو رکعتوں کا اضافہ ھوا ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں اہل بیت {ع} کی طرف سے نقل کی گئی روایتوں کے پیش نظر شیعہ فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ نماز دو رکعت کی صورت میں تشریع ھوئی ہے اور اس کے علاوہ دو رکعتیں صرف وطن میں پڑھنے کی صورت میں اضافہ ھوئی ہیں، لیکن سفر کے دوران نماز میں کوئی چیز اضافہ نہیں کی گئی ہے، بلکہ اسی پہلی صورت میں، یعنی قصر ہی پڑھی جاتی ہے-
اہل سنت کی روایتیں اور ان کے فقہا کا نظریہ:
مسافر کی نماز کے بارے میں اہل سنت کی طرف سے نقل کی گئی روایتیں اور ان کے فقہا کے نظریات یکساں نہیں ہیں، ان میں سے بعض شیعوں کے اعتقاد کے مطابق نظریہ رکھتے ہیں ، یعنی ان کا یہ اعتقاد ہے کہ ابتدائی نماز پر کوئی چیز اضافہ نہیں کی گئی ہے، اس بنا پر سفر میں نماز صرف قصر پڑھی جاتی ہے، لیکن بعض افراد سفر میں نماز قصر اور پوری پڑھنے کے درمیان اختیار کے قائل ھوئے ہیں-
اہل سنت کی متعدد روایتوں کے منابع میں، نقل کیا گیا ہے کہ نماز قصر کی صورت میں تشریع ھوئی ہے اور وطن میں پڑھی جانے والی نماز میں دو رکعتوں کا اضافہ کیا گیا ہے، لیکن سفر میں پڑھی جانے والی نماز کے بارے میں موجود روایتیں تین حصوں میں تقسیم ھوتی ہیں:
۱-وہ روایتیں، جو یہ بیان کرتی ہیں کہ نماز، قصر کی صورت میں تشریع ھوئی ہے اور وطن میں پڑھی جانے والی نماز میں دو رکعتوں کا اضافہ کیا گیا ہے، لیکن سفر میں پڑھی جانے والی نماز میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اسی اپنی سابقہ {دو رکعتی }صورت میں باقی رہی ہے-
محمد بن ہاشم بعلبکی نے ولید سے اور اس نے ابو عمرو اوزاعی سےاور اس نے زہری سے پیغمبر اکرم {ص} کی نماز کے بارے میں سوال کیا اور زہری نے جواب میں کہا:" عروہ نے عائشہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا : خداوند متعال نے اپنے رسول {ص} پر نماز واجب کردی کہ ابتداء میں دو رکعتوں کی صورت میں تھی اور وطن میں پڑھی جانے والی نماز میں دو رکعت کا اضافہ کیا گیا اور سفر کے دوران نماز اپنی حالت میں باقی رہی-[12]"
وکیع کہتے ہیں: " ھشام بن عروہ نے اپنے باپ سے اور انھوں نے عائشہ سے نقل کیا ہے کہ عائشہ نے کہا:" جب نماز واجب ھوئی، تو اس وقت دو رکعتوں کی صورت میں تھی اور اس میں دو رکعتوں کا اضافہ کیا گیا، نتیجہ کے طور پر وطن میں پڑھی جانے والی نماز چار کعتی ھوئی[13]-
عبیدہ نے وقاء بن ایاس سے اور انھوں نے علی بن ربیعہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی {ع} سفر پر نکلے اور واپس لوٹنے تک اپنی نماز کو دو رکعت پڑھتے رہے-[14]
عثمان اور چار رکعتی نماز:
سفیان نے زہری سے اور انھوں نے عائشہ سے روایت نقل کی ہے کہ: نمازپنجگانہ دو دو رکعتوں میں تشریع ھوئی تھی، اور وطن میں پڑھی جانے والی نماز میں دو رکعتوں کا اضافہ کیا گیا اور سفر میں پڑھی جانے والی نماز اپنی حالت میں باقی رہی-
زہری کہتے ہیں:" میں نے عمرہ سے پوچھا کہ، پس عائشہ کیوں سفر میں نماز پوری پڑھتی تھیں؟ انہوں نے جواب میں کہا: انھوں نے تاویل کی جس طرح عثمان نے تاویل کی تھی- حدیث کو جاری رکھتے ھوئے کہتے ہیں: یہ واضح حدیث شافعی کی ہے اور مسلم نے اپنی کتاب" صحیح مسلم" میں علی بن خشرم سے روایت نقل کی ہے اور بخاری نے بھی عبداللہ بن محمد سے اور اس نے سفیان سے اس روایت کو نقل کیا ہے-
محمد بن عبداللہ حافظ کہتے ہیں:" ابو الفضل محمد بن ابراھیم نے مجھے خبردی ہے کہ احمد بن سلمہ نے رقتیبہ بن سعید اور اس نے عبدالوحید بن زیاد سے اور اس نے اعمش سے اور اس نے ابراھیم سے نقل کیا ہے کہ میں نے عبدالرحمن بن یزید سے سنا کہ وہ کہتے تھے: میں نے منی میں عثمان کی امامت میں چار رکعت نماز پڑھی، یہ قضیہ عبداللہ بن مسعود سے کہا گیا اور انھوں نے کلمہ استرجاع{ انا للہ و انا الیہ راجعون} پڑھا اور کہا: ہم منی میں رسول اللہ {ص}کے ساتھ اپنی نمازیں دو رکعتی پڑھتے تھے، پیغمبر{ص} کے بعد ابو بکر کے زمانہ میں اور ان کے بعد عمر کے زمانہ میں بھی منی میں اپنی نمازیں دو رکعتی پڑھتے تھے، کاش کہ میری دو رکعتی نمازیں قبول ھوتیں-
عبدا لرحمن بن یزید سے نقل کیا گیا ہے کہ: عثمان نے منی میں چار رکعت نماز پڑھی اور عبداللہ بن مسعود نے کہا: ہم رسول اللہ کے ساتھ منی میں اپنی نمازیں دو رکعتی پڑھتے تھے، پیغمبر اکرم {ص} کے بعد ابوبکرکے ساتھ اور ان کے بعد عمر کے ساتھ بھی منی میں اپنی نمازیں دو رکعتی پڑھتے تھے-
حفص سے نقل کیا گیا ہے کہ: ہم نے عثمان کی خلافت کے ابتدائی دور میں منی میں اپنی نمازیں دو رکعتی پڑھی ہیں اور بعد میں انھوں نے دو رکعتوں کا اضافہ کیا-[15]
۲-وہ روایتیں، جو یہ کہتی ہیں کہ: نماز قصر کی صورت میں تشریع ھوئی ہے اور سفراور وطن کا نام نہیں لیتے تھے بعد میں نماز میں دو رکعتوں کا اضافہ ھوا، اس روایت کے مانند کہ: عبید نے داود بن ابی ھند سے اور اس نے شعبی سے نقل کیا ہے کہ: نماز ابتداء میں دو رکعتوں کی صورت میں واجب ھوئی- جب پیغمبر اکرم {ص} مدینہ تشریف لائے ہر دو رکعتوں پردو رکعتوں کا اضافہ فر مایا، صرف نماز مغرب میں اضافہ نہ ھوا{ کیونکہ یہ نماز دو رکعتی نہیں تھی}-[16]
یہ دو قسم کی روایتیں اگر چہ ابتداء میں ایک دو سرے سے ٹکراتی ہوئی نظر آتی تھیں، لیکن چونکہ پہلی قسم کی روایتیں خاص اور دوسری قسم کی روایتیں عام ہیں، اس لئے اصول فقہ کا مشہورقاعدہ—ظہور خاص، ظہور عام پر اقوا ہے—دوسری قسم کی روایتیں پہلی قسم کی روایتوں سے تخصیص پاتی ہیں اور نتیجہ کے طور پرمذکورہ روایتوں کے معنی یوں ھوتے ہیں:" نماز میں دو رکعت کا اضافہ وطن میں ھوا ہے ، نہ کہ سفر میں، یعنی وطن میں پڑھی جانے والی نماز میں دو رکعتوں کا اضافہ ھوا ہے-
۳-وہ روایتیں، جو یہ بیان کرتی ہیں کہ: نماز قصر کی حالت میں تشریع ھوئی ہے اور وطن میں پڑھنے کی صورت میں اس میں دو رکعتوں کا اضافہ ھوا ہے، اسی طرح سفر میں پڑھی جانے والی نماز میں بھی دو رکعتوں کا اضافہ ھوا ہے-
حسین بن اسماعیل نے احمد بن تبعی سے اور اس نے قاسم بن حکم سے اور اس نے علاء بن زبیر سے اور اس نے عبدالرحمن بن اسود سے اور اس نے عائشہ سے نقل کیا ہے، عائشہ نے کہا:" میں عمرہ کے اعمال انجام دیتے وقت پیغمبر اکرم {ص} کے ہمراہ تھی- آنحضرت {ص} نے اپنی نماز قصر پڑھی، لیکن میں نے پوری پڑھی، آنحضرت{ص} نے روزے توڑ دئے، لیکن میں نے روزے رکھے، جب ہم مکہ میں داخل ھوئے تو میں نے عرض کی: اے رسول خدا{ص}، میرے ماں باپ آپ {ص} پر قربان ھوں، آپ{ص} نے اپنی نماز قصر پڑھی اور میں نے پوری پڑھی، آپ{ص} نے روزے تو نہیں رکھے لیکن میں نے رکھے، آنحضرت {ص} نے فر مایا: احسنت یا عائشہ{ یعنی تم نے ایک اچھا کام انجام دیا ہے} اور مجھ پر اعتراض نہیں کیا-"[17]
لیکن بعض اہل سنت کے بیان کے مطابق یہ حدیث جھوٹی ہے اور اس پر کوئی اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے-[18] کیونکہ بعید لگتا ہے کہ عائشہ نے پیغمبر اکرم{ص} کے برخلاف نماز پوری پڑھی ھو اور روزے رکھے ھوں اور مکہ پہنچے تک پیغمبر اکرم{ص} سے اس سلسلہ میں کوئی سوال نہ کیا ھو-
سفر میں پیغمبر اکرم{ص} اور خلیفہ اول اور دوم کی نماز:
ابن علیہ نے علی بن زید سے اور اس نے ابی نضرہ سے روایت نقل کی ہے کہ عمران بن حصین ہماری مجلس میں آگئے، حضار میں سے ایک جوان نے اٹھ کر حج، جنگ اور عمرہ کے دوران پیغمبر{ص} کی نماز کے بارے میں سوال کیا، اس کے بعدعمران نے ہمارے سامنے کھڑے ھوکر کہا: اس جوان نے مجھ سے ایک سوال کیا ہے، میں چاہتا ھوں کہ آپ بھی اس کا جواب سنیں، میں جنگ میں پیغمبر اکرم{ص} کے ہمراہ تھا، آنحضرت{ص} نے اپنی نمازیں دو رکعتی پڑھیں، یہاں تک کہ آپ{ص} مدینہ واپس لوٹے- میں حج میں پیغمبر اکرم{ص} کے ہمراہ تھا، آنحضرت{ص} نے اپنی تمام نمازوں کودو رکعتی پڑھا، یہاں تک کہ مدینہ واپس لوٹے- میں فتح مکہ کےوقت آنحضرت{ص} کے ہمراہ تھا، آنحضرت نے اٹھارہ شب مکہ میں قیام کیا، آپ{ص} نے اپنی تمام نمازیں دو رکعتی پڑھیں اور اہل مکہ سے ارشاد فرمایا: آپ چار رکعت پڑھیں اور میں{ قصرپڑھتا ھوں} مسافر ھوں- میں نے آنحضرت{ص} کے ہمراہ تین عمرے بجا لائے، لیکن آنحضرت{ص} نے اپنی تمام نمازیں دو رکعتی پڑھیں یہاں تک کہ مدینہ واپس لوٹے- میں نے ابو بکر کے ہمراہ حج ادا کیا ہے، ان کے ہمراہ جنگ کی ہے، لیکن انھوں نے بھی اپنی تمام نمازیں دو رکعتی پڑھیں، یہاں تک کہ مدینہ واپس لوٹے- اور میں نے عمر کے ہمراہ کئی حج ادا کیے، لیکن انھوں نے بھی اس سفر میں اپنی تمام نمازیں دو رکعتی پڑھیں یہاں تک کہ واپس مدینہ لوٹے- میں نے عثمان کی خلافت کے دوران ان کے ساتھ سات بار حج ادا کیا ہے، لیکن انھوں نے بھی اپنی نمازیں دو رکعتی پڑھیں، لیکن بعد میں انھوں نے منی میں اپنی نمازیں چار رکعتی پڑھیں-"[19]
سفر میں چار رکعتی نماز پڑھنے کے سلسلہ میں خلیفہ سوم کی توجیہ:
۱-ایوب اور بیہقی، خلیفہ سوم کے، سفر میں چاررکعتی نماز پڑھنے کی توجیہ کے بارے میں کہتے ہیں: عثمان کے منی میں نمازتمام پڑھنے کا سبب، یہ تھا، کیونکہ انکے ساتھ صحرانشین مسلمان زیادہ تھے، اور عثمان انھیں سکھانا چاہتے تھے کہ نماز چار رکعتی ہے-
حسنی، عبدالرحمن بن حمید سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ جب عثمان بن عفان نے منی میں اپنی نماز پوری پڑھی، تو ان لوگوں کے لئےایک خطبہ پڑھا اور اس میں کہا :" اے لوگو؛ نماز میں سنت، رسول اللہ{ص} اور خلیفہ اول و دوم کی سنت ہے، لیکن اس سال ایک نیا مسئلہ پیدا ھوا ہے، میں ڈر گیا کہ لوگ اسی{ دو رکعتی نماز} کو سنت سمجھ بیٹھیں گے-"
البتہ بہتر تھا کہ خلیفہ سوم بھی پیغمبر{ص} کے مانند اہل مکہ اور دوسرے لوگوں سے کہتے کہ: تم لوگ چار رکعتی نماز پڑھنا اور میں { قصر پڑھتا ھوں} مسافر ھوں-
۲-یونس نے زہری سے نقل کیا ہے کہ: جب عثمان نے طائف میں مال لے لیا اور وہاں پر قیام کرنے کا ارادہ کیا، تو انھوں نے اپنی نماز پوری پڑھی- اسی طرح مغیرہ نے ابراھیم سے نقل کیا ہے کہ: عثمان نے اپنی نماز چار رکعتی پڑھی، کیونکہ انھوں نے اس جگہ کو اپنا وطن قرار دیا تھا-
شیعہ راوی:
زرارہ اور محمد بن مسلم کہتے ہیں:" میں نے امام باقر {ع} کی خدمت میں عرض کی کہ: سفر میں نماز کے بارے میں آپ {ع} کیا فرماتے ہیں، اس کی کیفیت کیا ہے اور کتنی رکعتیں ہیں؟ حضرت{ع} نے جواب میں فرمایا: خدا وند عزو جل ارشاد فر ماتا ہے:" واذا ضربتم فی الارض- - -" " اگر آپ سفر پر جائیں تو آپ کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ نماز قصر پڑھیں-" پس سفر میں نماز کو قصر پڑھنا واجب ہے، جس طرح وطن میں نماز کو پورا پڑھنا واجب ہے- زرارہ اور محمد بن مسلم کہتے ہیں: ہم نے کہا کہ خداوند متعال فرماتا ہے:" آپ کے لئے کوئی حرج {گناہ} نہیں ہے-" اور یہ نہیں فرماتا ہے کہ:" ایسا کرنا، یعنی امرکے لفظ سے استفادہ کرکے نہیں فرمایا کہ قصر پڑھنا- جو اس کے واجب ھونے کی دلیل ھوتی، پس سفر میں قصر پڑھنا کیسے وطن میں پوری نماز پڑھنے کے مانند واجب ہے؟ حضرت{ع} نے فرمایا: کیا خداوند متعال نے صفا و مروہ کی سعی کے سلسلہ میں نہیں فرمایا ہے کہ "فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما"؛ جو بھی حج یا عمرہ بجا لائے اس کے لئے کوئی حرج {گناہ} نہیں ہے کہ صفا و مروہ کے درمیان چکر لگائے- کیا آپ نہیں دیکھتے کہ صفا و مروہ کی سعی واجب ہے؟
کیونکہ خداوند متعال نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے اور پیغمبر اکرم{ص} نے صفا و مروہ کے درمیان سعی کو بیان فرمایا ہے اور اس پر عمل کیا ہے اور اسی طرح سفر میں نماز قصر پڑھنا ایک ایسا عمل ہے کہ رسول خدا{ص} نے اس کو عملی جامہ پہنایا ہے اور خدا وند متعال نے اسی لمحہ اسے اپنی کتاب میں ذکر فرمایا ہے- - -
رسول خدا{ص} نے ذی خشت[20] نامی ایک علاقہ میں سفر کیا، آپ{ص} نے اپنی نماز قصر پڑھی اور رو زہ نہیں رکھا اور یہ کام اس کے بعد سنت بن گیا- - -[21] جیسا کہ اس سے پہلے بیان کیا گیا کہ نماز ابتداء میں دو رکعتی تشریع ھو ئی تھی، لیکن بعد میں ظہر، عصر اور عشا کی نمازوں میں وطن میں پڑھنے کی صورت میں دو رکعتوں کا اضافہ کیا گیا، جب ہم مسافر کی نماز میں اس کے اضافہ ھونے پر شک کریں، تو اصل عدم اضافہ ہے-
[1] نساء، ۱۰۱-
[2] طریحی، فخر الدين، مجمع البحرين، حسينى، سيد احمد، ج 2، ص 346، كتابفروشى مرتضوى، تهران، سال 1375 هـ ش، طبع سوم.
[3] استرآبادي، محمد بن علی، آيات الأحكام، ج 1، ص 266، مكتبة المعراجي، تهران، طبع اول.
[4] محدث نوری، مستدركالوسائل، ج 9، ص 437، مؤسسه آل البیت، قم، 1408 هـ ق، البتہ یہ مطلب صفا و مروہ کی سعی کے بارے میں حدیث میں ذکر کیا گیا ہے.
[5] بقره، 158؛ «صفا» و «مروه»
[6]سوره بقره، آيه 54.
[7] سوره بقره، آیه 184.
[8] طباطبایی، محمدحسین، ترجمه الميزان، ج 1، ص 580، دفتر انتشارات اسلامی جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، قم، سال 1374 هـ ش، طبع پنجم.
[9] محدث نوری، مستدركالوسائل، ج 9، ص 437.
[10] زمخشري جار الله، أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد، الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل، ، ج 1، ص 454، ناشر دار الكتاب العربي، طبع بيروت، سال 1407 ہ، طبع سوم؛ بيضاوى، ناصر الدين أبو الخير عبدالله بن عمر بن محمد، انوار التنزيل و أسرار التأويل، ج 1، ص 492، ناشر دار احياء التراث العربى، بيروت، 1418 ھ ، طبع: اول؛ حلى، سيد على بن طاووس، تفسیر ابی السعود، سعد السعود للنفوس منضود، ج 2، ص 147، محمد كاظم الكتبي، قم.
[11] ابو عبد الرحمن، احمد بن علی بن شعیب بن علی بن نسائی نیشابوری، سنن نسایی، ج 2، ص 232، ح 490، موقع الإسلام، http://www.al-islam.com (المکتبة الشاملة) ؛ ابن ابی شیبه کوفی، مصنف ابن ابی شیبه، ج 2، ص 337، سایت یعسوب (المکتبة الشاملة)؛ ابو یعلی موصلی، مسند ابی یعلی موصلی، ج 6، ص 188؛ طحاوی، مشکل الآثار، ج 9، ص 272، سایت الإسلام، http://www.al-islam.com (المکتبة الشاملة).
[12] بو عبد الرحمن، احمد بن علی بن شعیب بن علی بن نسائی نیشابوری، سنن نسایی، ج 2، ص 232، ح 490.
[13] ابن ابی شیبه کوفی، مصنف ابن ابی شیبه، ج 2، ص 337.
[14] ایضا-
[15] بیهقی، سنن کبری، ج 3، ص 143، سایت، http://www.al-islam.com (المکتبة الشاملة.
[16] ابن ابی شیبه كوفي، مصنف ابن ابی شیبه، ج 8، ص 355؛ بیهقی، معرفه السنن و الآثار، ج 2، ص 352، http://www.alsunnah.com(المکتبة الشاملة)؛ طحاوی، مشکل الآثار، ج 9، ص 272.
[17] دار قطنی، سنن دار قطنی، ج 6، ص 59، موقع وزارة الأوقاف المصرية، http://www.islamic-council.com (المکتبة الشاملة)..
[18]محمد، رشید رضا، تفسیر القران الحکیم ( تفسیر المنار)، ج 5، ص 368 و 370، ناشر دار المعرفة برای طبع و نشر، بیروت، لبنان، طبع دوم.
[19] ابن ابی شیبه كوفي، مصنف ابن ابی شیبه، ج 2، ص 337.
[20] -یہ جگہ مدینہ سے ایک دن کے فاصلہ پر ہے- یہاں تک ۲۴ میل{۸فرسخ} ہے-
[21] صدوق، من لا يحضره الفقيه، ج 1، ص 434 و 435، صدوق، من لا يحضره الفقيه، انتشارات جامعه مدرسین، قم، سال 1413 هـ -ترجمه غفارى، ج2،باب (در بيان نماز سفر)، ص 110 - 112.