Please Wait
6730
دین کاتدریجی صورت میں بھیجا جاناایک جهت سے انسان کی فکری اور روحانی توانائیوں کے مطابق هے اور دوسری جهت سے اس کی دنیوی اور اجتماعی ضرورتوں کے مطابق هے - اس لحاظ سے چونکه ابتدائی انسان مناسب فکری قوت نهیں رکھتا تھا اس لئے وه مستقبل کے زمانوں میں رونما هو نے والے معارف کو ادراک نهیں کر سکتا تھا اور اسی طرح رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کی بعثت سے پهلے والے انسان بھی آپ(ص) کی تعلیمات کے لئے مناسب فکری و معنوی توانائی نهیں رکھتے تھے – چنانچه ابتدائی انسان خاندان کی صورت میں زندگی بسر کر تے تھے اور اجتماعی زندگی اور اس کے روابط کی ضرورت کا احساس نهیں کرتے تھے ، اس لئے ان میں فهم کی توانائی اور اجتماعی تعالیم اور احکام حاصل کر نے کا تصور هی نهیں تھا – اسلام سے پهلے محدود اجتماعی زندگی بسر کر نے والے انسان ، ان وسیع تعلیمات کی ضورت کا احساس نهیں کرتے تھے – اس لئے ان کی فکر اور توانائیوں سے زیاده تر بیت و تعلیمات اور غیر ضروری احکام ایک لغو بات تھی ،بلکه ان چیزوں کا تعلم وتفهیم ان کے لئے تکلیف مالا یطاق (طاقت سے زیاده ذمه داری) تھی- لیکن معاشروں کی ضروری ترقی اور انسان کی فکری و روحی بلندی کے بعد بعض ایسے قوانین و معارف اس کے اختیار میں دیئے گئے که قیامت تک ان پر عمل کر کے انسان اپنی تر قی وسر بلندی کے دنیوی و اخروی مدارج کو طے کر سکتا هے-
دین کی تشریع اور انسان کی سربلندی وترقی کی طرف هدایت کر نے کے لئے تکالیف وضع کر نے کا مقصد انسان کو دنیوی الجهنوں سے نجات دلاکر اسے حقیقی انسانیت کی راه میں گامزن کر نا هے- ایک طرف سے انسان کی عقلی اور روحانی توانائی اور دوسری طرف سے اس کی ضرورتیں ، رشد و تکامل کی حالت میں هیں اور وه ابتدا سے هی آخری تعلیمات کوحاصل کر نے کی طاقت نهیں رکھتا تھا- خداوند متعال کی اطلاع آگاهی کے طریقه کار کی نسبت انسان کی مثال اس بچے کی جیسی هے جسے ابتدائی مراحل میں صرف بعض مفاهیم ، اس کے بعد بعض حروف و اعداد سکھائے جاتے هیں تاکه تعلیم و تر بیت کے لئے آماده هو جائے اور علمی مراحل کو تفصیل اور لوازمات کے ساتھـ یکے بعد دیگرے کامیابی کے ساتھـ طے کر ے اور اس جگه پر پهنچ جائے جهاں اسے فارغ التحصیل اور محقق کها جائے- اس کے بعد دوسرے اس کی تلاش اور کوششوں کے ماحصل سے استفاده کر کے بهر مند هو تے هیں – جس طرح پهلی جماعت میں بچے کویو نیور سٹی کی تعلیم نهیں دی جاتی هے- اسی طرح انسان ابتدا ئی مراحل میں مستقبل میں آنے والے انبیا کی تعلیمات اور احکام کو حاصل نهیں کر سکتا تھا اور نه اسے اس کی ضرورت تھی کیو نکه گزشته امتیں ، خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفی صلی الله علیه وآله وسلم کی تعلیمات کو حاصل کر نے کی طاقت بھی نهیں رکھتی تھیں-
مذکوره مطالب کے علاوه ،انبیا کی عمر اور ان کی روحانی اور فکری قوتوں کی محدودیت بھی دین کی تدریجی تکمیل کا ایک سبب تھا- اگر چه یه امر مسلم هے که هر نبی ، اپنے هم عصر لوگوں کی نسبت هر جهت سے افضل ، اکمل و اعلم هو تا تھا- اس لئے پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم فر ماتے هیں :" خدا وند متعال نے کسی پیغمبر کو مبعوث نهیں کیا هے ، مگر یه که اس نے اپنی عقل کو کمال تک پهنچایا هو اور اس کی (روحانی و عقلی) توانائیاں اس کی پوری امت کے به نسبت افضل و بر تر هو-[1]
اس کے علاوه حضرت امام حسن عسکری علیه السلام نے فر مایا : "خدا وند متعال نے پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے قلب وروح کو بهترین اور لطیف ترین قلوب میں سے پایا ، لهذا انهیں پیغمبر ی کے لئے منتخب کیا-[2] چو نکه انسان کی عقل و فهم اور وسعت قلب کی گهری شناخت ایک باطنی امر هے، "یه خداوند متعال هے که جو جانتا هے که اس کی رسالت کهاں (اور کس شخص میں ) قراردے-"[3] اور چونکه نبی(ص) حتی امام (ع) کو انتخاب و نصب کر نے کی طاقت انسان میں مفقود هے- اس لئے تعلیم کی مقدار اور اس کی کیفیت اور شریعتوں کی تجدید اور گزشته شریعتوں کی تنسیخ ، سب خدا وند متعال کی حکمت، علم اور اذن سے مر بوط هے اور اس کا فیصله اور معین کر نا انسان کی طاقت سے باھر هے–
دوسری جانب گزشته امتوں میں تبلیغ اور آگاهی کی محدودیت اس امر میں ایک رکاوٹ تھی که تمام زمانوں کے لئے صرف ایک هی دین باقی رهے اور یهی دین تمام لوگوں تک پهنچ جائے – خاص کر جب یه محدودیت ایک طرف حفظ ، درج اور آگاهی اور دوسری طرف نبی اکرم (ص) کے زمانه کے لحاظ سے بعید هو نے، کی وجه سے اقوام کے بزرگوں کے توسط سے تعلیمات اور احکام الهی میں نسیان پیدا کرنے کا سبب بن جاتا اور اس شریعت کے ذریعه هدایت کا مقصد نابود هو کے ره جاتا- لیکن اسلام کے بعد ،خاص کر اس دین کے اسلاف کی میراث کو " کتابت" کی تاکید و تحفظ اور تجارت کی وسعت اور ثقا فتی لین دین کو تر ویج بخشنے کے سبب یه مشکل حل هو گئ- یه سب عوامل ایک طرف اور بعض احکام و شریعتوں کا عارضی اور عبوری هو نا دوسری طرف سے ، مثلاً یهو دیوں کے لئے بعض پابندیاں تنبیه اور سزا کا پهلو رکھتی تھیں اور حضرت مسیح علیه السلام کی بعثت کے نتیجه میں وه پابندیاں اٹھا لی گئیں- [4]
دین اسلام بھی اس امر سے مستثنی نهیں تھا، اس لئے یه دین بھی ٢٣ سال کی مدت کے دوران تدریجاً تکمیل تک پهنچا هے اور اس دوران، بعض احکام جیسے شراب، جوا اورزنا وغیره کی حد کے احکام تدریجاً بیان هوئے اور حج تمتع کے الهی مناسک کی ، پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے آخری حج ، یعنی هجرت کے دسویں سال (بعثت کے ٢٣ویں سال) تر بیت دی گئی اور اس پر عمل کیا گیا ، اور بعض دوسرے احکام جیسے نجوی کی حالت میں صدقه دینا منسوخ کئے گئے-[5] کیونکه یه امر کسی حکیم اور سیاست دان سے مخفی نهیں هے که ایک قوم کے افکار ، حالات اور رفتار ، ایک رات میں وجود میں نهیں آتے هیں ، بلکه ایک قوم کی عمر ان حالات سے وابسته رهتی هے جو اسلاف سے سینه به سینه اور نسل به نسل منتقل هو تے هیں ، ان کو دفعتاً بدلا نهیں جاسکتا هے خاص کر اگر ان پر جاهلانه تعصب کی روح حاکم هو-
بے شک ، پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم میں ان تمام احکام کو شب قدر یا شب معراج میں دفعتاً وصول کر نے کی طاقت موجودتھی، لیکن دوسروں میں یه طاقت موجود نهیں تھی تاکه دفعتاً بدل جائیں اور ایک هی جگه پر ان تمام احکام کی تر بیت حاصل کر کے ان پرعمل کریں-
چنانچه امام علی علیه السلام کو بھی بدعتوں کو دور کر نے میں ان هی مشکلات کا سامناکرنا پڑا اور یهی مشکلات آپ کے لئے امت کی اصلاح کر نے کی فرصت اور قوت سلب کر نے کا سبب بنے- پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی زندگی کے آخری ایام تک آپ (ص) بھی ان مشکلات سے دوچار تھے اور اگر چه قرآن مجید مکمل هو چکا تھا، لیکن اس کی تفسیر کا بیان لوگوں کے فهم و ادراک کے مناسب نهیں تھا-
اس لئے اسلام کی خالص تعلیمات پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے باوسعت سینے میں امانت کے طورپر قرار پائیں تاکه آپ(ص) لوگوں کے مرشد اور احکام و معارف کو بیان کر نے والے بن جائیں اور یه امر آپ (ص)سے دوسرے تمام ائمه اطهار علیهم السلام میں منتقل هوا- ائمه اطهار علیهم السلام نے زبر دست کوششیں کیں که ایسے شاگردوں اور امت کی پرورش کریں جو کتاب وسنت کی طرف رجوع کر کے نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم اور ائمه اطهار علیهم السلام کی روش اور تعلیمات کے سلسله میں امام عصر(عج) کے ظهور تک تاریخ کے مختلف ادوار میں اپنی راه کو پاسکیں – خاص کر جبکه وحی کا اصلی منبع ، یعنی قرآن مجید اب تک هر قسم کی تحریف اور تبدیلی سے محفوظ رها هے اور جو جعلی اور صحیح احادیث میں فرق کر نے کا معیار بھی هے-
علمائے شیعه کی علمی سیرت نے یه ثابت کر دیا هے که یه دین ، دین کامل هے اور قیامت تک انسان کی دنیوی و معنوی ضرورتوں کو پورا کر سکتا هے- اگر دشمن رکاوٹ نه بنیں تو تمام دنیا میں قسط ، عدل وانصاف اور صلح و صفا کا ماحول بر پا کیا جاسکتا هے- اگر چه وعده الهی کے مطابق یه دشمنان رکاوٹیں ڈالنے سے دسبردار نهیں هوں گے ، یهاں تک که مصلح موعود (عج) کے با اقتدار هاتھوں سے ان کو راه سے هٹا دیا جائے گا اور تمام دنیا میں عدل و انصاف کا بول بالا هوگا-
منابع وماخذ:
١- سبحانی ، جعفر، الا لهیات، ج٣،ص٦٤-٢٢،ص٥٢٨-٤٨٥،ص٢٢٥-
٢- شیروانی ،علی، درسنامه ی عقاید ،ص١٢٨،١٦١- ١٦٥-
٣- مصباح یزدی ،محمد تقی، آموزش عقاید،ج١و٢، درس ٢٩،٣١،٣٥-
٤- مصباح یزدی، محمد تقی، راه راهنماشناسی ،ج٤،ص١-٥٥،ج٥،ص١٣-٥٦، ١٧٧- ١٨٩-
٥- مطهری ،مرتضی ،خاتمیت ،صص ٣٧- ٦٣ ،٩٩، ص١٤٣-١٦٣-