Please Wait
34940
جلق انسان کی ضروروت کو حقیقی صورت میں بر طرف نهیں کرتا هے اور حاجت روائی کا ایک کاذب طریقه هے ـ یعنی انسان کی شهوانی خواهش صرف منی نکلنے سے هی پوری نهیں هوتی هے، بلکه یه عمل عشق، جذبات اور انس و محبت کے ساتھ هونا چاهئے اور اسی لئے جو یه فعل انجام دیتے هیں اپنے اندر کمی اور نقص کا احساس کرتے هیں اور ممکن هے یه کام روحی اور جسمی بیماریوں کا سبب بنے ـ لیکن ازدواج، چونکه فطری اور حقیقی طور پر شهوانی خواهش گو پورا کرنے کا طریقه هے، اس لئے اس کے مفید اثرات اور بهت سے فائدے هیں ـ
بالفرض هم تصور کریں که یه دونوں فعل یکساں هیں اور ان میں کوئی فرق نهیں هے لیکن پھر بھى یه دلیل نهیں بن سکتی هے که ان کی ماهیت حقیقت میں ایک هی هوگی ـ تجربی علوم اور انسانی علم و دانش نے با وجود اس کے که کافی ترقی کی هے، لیکن اس قدر ترقی نهیں کی هے که اس قسم کے امور کے تمام مصالح و مفاسد اور نفع و نقصانات کو معلوم کرسکیں ـ خداوند متعال، جس نے انسان کو پیدا کیا هے اور اس کی تمام خصوصیات اور حالات کے بارے میں مکمل طور پر آگاه هے، نے ان هی خصوصیات کے پیش نظر، ایک عمل، اگرچه دوسرے عمل سے بظاهر کوئی فرق نهیں رکھتا هے، حلال اور واجب قرار دیا هے اور دوسرے کو حرام اور ممنوع قرار دیا هے ـ
فقهی لحاظ سے یه بات مسلم اور یقینی هے که جلق گناه اور حرام هے[1] اور گناه میں کچھـ نقصانات هیں جو آسانی کے ساتھـ قابل تلافی نهیں هوتے هیں اور اگر گناه کی وجه سے انسان کو کوئی نقصان نهیں پهنچتا تو وه عمل اسلام کے شرع مقدس میں گناه کے عنوان سے معرفی نهیں هوتا، اگر چه ممکن هے انسان گناه کے تمام برے اور تخریبی، اثرات کے بارے میں کافی علم نه رکھتا هو یا اپنے ناقص علم پر بھروسه کرکے گمان کرے که اسے تمام مجهولات کے بارے میں علم حاصل هواهے ـ
لیکن جلق کے گناه اور حرام هونے کے بارے میں متعدد روایتیں دلالت کرتی هیں:
رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا هے : "خدا، ملائکه اور تمام انسانوں کی لعنت هو اس شخص پر جو مشت زنی کرےـ"[2]
اس کے علاوه امام صادق علیه السلام نے فرمایا: "مشت زنی کرنے والے کے لئے قیامت کے دن دردناک عذاب هے"[3]
امام صادق علیه السلام سے جلق کے بارے میں سوال کیا گیا، تو حضرت (ع) نے فرمایا: "اس کی مثال اس شخص کی جیسی هے جس نے اپنے آپ کے ساتھـ نکاح (ازدواج) کیا هے، اگر هم ایسا فعل انجام دینے والے کو پهچان لیں تو اس کے ساتھـ کهانا نهیں کها ئیں گے ـ" حدیث کا راوی پوچھتا هے که قرآن مجید میں کهاں پر اس حکم کو سمجھاجا سکتا هے؟ آپ (ع) نے فرمایا: "اس آیهء شریفه سے: و من ابتغی وراء ذٰلک فاولئک هم العادون"[4] "جو شخص اپنی بیوی اور کنیز کے علاوه اپنی شهوت کو رفع کرے گا وه متجاوز هےـ " راوی نے پوچھا: زنا بڑا گناه هے یا جلق؟ حضرت (ص) نے فرمایا: "جلق ایک بڑا گناه هے"[5][6]
لیکن اس بارے میں که گناه کے اهم نقصانات هوتے هیں جو آسانی کے ساتھـ قابل تلافی نهیں هیں، قابل توجه بات هے که اولاً: گناه اعضا و جوارح سے دل کی طرف بڑهتے هیں، پس گناه قلب و دل کو ضرر پهنچاتاهے ـ قرآن مجید میں ارشاد الهٰی هے: " ان کے برے اعمال زنگ کے مانند ان کے دلوں پر بیٹھـ گئے هیں، اس لئے وه حقیقت کو درک نهیں کرسکتے هیں: " کلّا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون" مذکوره آیه میں لفظ "ران" زنگ کے معنی میں هے ـ گناه کا بدترین اثر دل کو تاریک کرنا اور نور علم اور حس تشخیص کو نابود کرنا هے [7]ـ
حضرت علی علیه السلام فرماتے هیں: "دلوں کے لئے گناه سے دردناک تر کوئی بیماری نهیں هے"[8]ـ
ثانیاً: دل کی بیماری سب سے اهم بیماری شمار هوتی هے، کیونکه انسان کے وجود کا کوئی بھی پهلو قلب و دل کے برابر کارآمد، قابل قدر ، حساس اور پر لطف نهیں هے ـ اس بیماری کے بارے میں مختلف تعبیریں بیان کی گئی هیں: قلب بیمار، قساوت قلب، زنگار فلب، دل کا اندھاهونا، دل پر مهرلگ جانا، دل پر قفل لگ جانا اور آخر کار سب سے اهم دل کا مرجاناهے ـ جب برتن الٹاهوتاهے تو اس میں کوئی چیز نهیں رکھی جاسکتی هے، دل بھی گناه کے نتیجه میں اسى طرح الٹا هوتا هے که علم و حقیقت اس میں سما نهیں سکتی هے ـ
لیکن اس مطلب کے بارے میں که حقیقت میں ازدواج اور مشت زنی کے درمیان کیا فرق هے؟ کهنا چاهئے که: انسان میں ایک پوشیده طاقت جنسی شهوت هے، که اسے صحیح صورت میں پورا کیا جانا چاهئے ـ اور اس کا صحیح طریقه کار ازدواج هے، جو شهوانی خواهشات کو پورا کرنے کی فطری اور حقیقی راه هے اور اسی لئے اس میں مفید اثرات اور بهت سے فوائد هیں ـ
ازدواج، آرام و سکون اور مرد وعورت کے درمیان مهر و محبت کا وسیله هے ـ [9] اس کے علاوه ازدواج سے جنسی شهوت پر کنٹرول کیا جاسکتا هے، جوان کا مضطرب روح اعتدال و آرام پیدا کرتا هے اور وه زندگی کے حقائق کو درک کرتا هے ـ
لیکن چونکه حلق خلاف فطرت هے، اس لئے انسان کی ضرورت کو حقیقی صورت میں پورا نهیں کرتا هے بلکه کاذب صورت میں پورا کرتا هے ـ چونکه انسان کی شهوانی خواهش صرف منی خارج هونے سے پوری نهیں هوتی هے، بلکه یه عشق، جذبه اور انس و محبت کے ساتھـ هونا چاهئے اس لئے جو افراد اس فعل کے مرتکب هوتے هیں وه اپنے اندر کمی اور نقص کا احساس کرتےهیں که ممکن هے اس کا نتیجه جسمانی اور روحانی بیماریاں هوںـ
یهاں پر هم اس خلاف اخلاق عمل کے بعض نقصانات کی طرف اشاره کرتے هیں:
الف) جسمانی نقصانات:
بعض اطباء جلق کے جسمانی نقصانات کے بارے میں معتقد هیں کی یه کام جنسی غدود کو متحرک کرنے کا سبب بن جاتهے جس کے نتیجه میں جنسی غدود زیاده فعالیت کرنے لگتا هے اور یه اس کی نامناسب فعالیت کا سبب بنا جاتاهےـ اس کے اثرات، من جمله غدود وذى میں ورم، نطفه کی نالی میں ورم، پیشاب کی نالی میں ورم، آله تناسل کا فلج هونا، بے اختیار منی کا نکل جانا، منی کا جلدی نکل جانا، همبستری کی بیماریاں اور بانجھـ هونا و غیره شامل هیں ـ اس کے علاوه:
1ـ آنکھوں کی بینائی کی کمزوری ـ
2ـ چهرے کا دبلا هونا
3ـ پٹھوں کی کمزوری
4ـ بدن کا دبلا اور پتلا هونا
5ـ سردرد اور چکر آنا
6ـ باربار زکام میں مبتلا هونا
7ـ خون کی کمی
8ـ زانو کا سست هونا
9ـ آنکھوں کے گرد سیاهی پیدا هونا
10ـ چهرے کا زرد هونا
11ـ شنوائی میں کمزوری اور اختلال کا پیدا هونا
12ـ چهرے پردانے نکلنا
13ـ نیند میں اختلال پیدا هونا
14ـ اس فعل کی شدت کی صورت میں اذیت و آزار پهنچنا جلق کے اور نقصانات شمار کئے گئے هیں
ب) نفسیانی نقصانات:
1ـ حافظه کی کمزوری، حواس باخته هونا اور تمرکز فکری کی ناتوانی سے دوچارهونا ـ
2ـ اضطراب، خوف اور پریشانی ان خصوصیات میں سے هیں جو مشت زنی کرنے والے کو نهیں چھوڑتی هیں، وه همیشه وسواس اور تذبذب کی حالت میں رهتا هے ـ
3ـ دل شکستگی: دل شکستگی کے نمایاں علائم میں سے، بے احساسی بے تفاوتی، بد ذوقی، سستی، گوشه نشینی، غم و اندوه، هنر، ورزش اور معنوی امورے عدم دلچسبی هے ـ
4ـ جھگڑا کرنا اور بد اخلاقی: مشت زنی کرنے والا ما حول کی معمولی تحریک کے مقابله میں حساس هوتا، دوسروں سے گفتگو کرنے کا حوصله نهیں رکھتا هے، جلدی رنجیده هوتا هے، فوراً آپے سے باهر هوتا هے اور روشنی، آواز اور رفت و آمد کے مقابله میں غیر معمولی حساسیت دکھا تا هے ـ
5ـ زندگی سے ناامید هوناـ
6ـ قوت تخلیق کی نابودی، استعدادوں اور توانائیوں کو هاتھـ سے دینا ـ
7ـ تعلیم، مطالعه علمی تحقیقات اور فکری سرگرمیوں کى رغبت کو کھودینا ـ
8ـ هوس رانی اور بے راه روى کا شکار هونا اور ناجائز جنسی تعلقات کا عادی هونا ـ
9ـ جذبات کا فقدان اور شر میلان جانا ـ
10ـ خود اعتمادى کا فقدا ن اور احساس کمتری، اور قوت فیصله کو کھودینا ـ
11ـ دل کی صفائی کو کھودینا اور معنوی امور، دعا کی مجالس اور جماعت میں شرکت کرنے میں عدم دلچسبی و غیره دکھانا ـ
12ـ احساس گناه، ضمیر کی ملامت ـ
ج) اجتماعی نقاصانات:
مشت زنی، انسان میں اجتماع سے دوری اختیار کرنے کی حس ایجاد کرتی هے اور تکرار اور افراط کے نتیجه میں ، اپنی جڑیں مضبوط کرتی هے ـ ایسا انسان گوشه نشینی اختیار کرنے کے نتیجه میں زوال سے دوچارهوتا هے اور خیالات کی دینا میں غرق هوتا هے ـ ذاتی لذتوں کی طرف توجه کرنا، اجتماعی روابط میں سستی ایجاد هونے کا سبب بن جا تا هے اور ایسا انسان اجتماعى زندگی کو خطره میں ڈالتا هے ـ [10]
ان (جسمانی، نفسیاتی اور اجتماعی) نقاصانات کے بارے میں بھی ذکر کرنا ضروری هے که علوم تجربی اور انسان کے علم و دانش، میں تمام ترقیوں کے با وجود انسان اس قدر ترقی نه کر سکا هے که اس قسم کے امور کے بارے میں تمام مصالح و مفاسد اور یا فوائد اور نقصانات سے آگاهی حاصل کرسکے ـ اور جو کچھـ اس سلسله میں بعض اطباء نے بیان کیا هے، وه حقیقت میں احتمالی آثار هیں که شاید کها جائے که اس برے عمل کی شدید عادت کی صورت میں رونماهوتے هیں اور جلق کے بارے میں ان آثار کو بیان کرنے اور ادواج کے بارے میں بیان نه کرنے کی دلیل، یه لگھتى هے که جلق ایک غیر فطری عمل هے اور یه سبب بن جاتا هے که انسان اپنے نفس پر کنٹرول کو کھودے اور شدید صورت میں اس فعل کا عادی بن جائے، لیکن ازدواج ایک فطری عمل هے اور یه عمل انسان کو تعادل بخشتا هے، اور اس کے نتیجه میں اس کی طاقت بڑھـجاتى هے اور وه اپنے نفس پر زیاده کنٹرول کر سکتا هے ـ
[1] توضیح المسائل مراجع، ج 2، ص 835.
[2] میزان الحکمه، ح 18748.
[3] میزان الحکمه، ح 18749.
[4] مٶمنون، 7.
[5] وسائل الشیعه، ج 28، ص 364، اس طرح ملاحظه هو: وسائل اشیعه، ج 14، ص 267.
[6] وسایل الشیعه،
[7] تفسیر المیزان آیه 14 سوره مطففین
[8] بحار الانوار، ج 73، ص 342.
[9] و من آیاته ان خلق من انفسکم ازواجاً لتسکنوا الیھا و جعل بینکم موده و رحمھ انّ فی ذلک لایات لقوم یتفکرون (سوره روم، آیه 21)
[10] جلق کے نقصانات سے مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے ملاحظه هو: مقاله پیامدھای خود ارضایی و مبارزه با آن، درگاه پاسخ گویی به مسائل دینی، گروه تربیتی با ھمکاری دکتر حسن قدوسی زاده و حجت الاسلام شاکرین، مقاله 9/12/85