Please Wait
کا
10517
10517
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2010/11/27
سوال کا خلاصہ
واجب اور مستحب زکواة سے متعلق چیزوں کو بیان کیجئے۔ کیا کرنسی نوٹوں پر زکواة ہے؟
سوال
الف﴾ کیا زکواة صرف معروف ۹ چیزوں پر ہی واجب ہے؟ ب﴾ یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے گھوڑے کے لئے بھی ایک نصاب مقرر کیا تھا، وہ کس باب سے تھا؟ اس کے علاوہ جو روایتیں تمام چیزوں یا کل اموال کو زکواة سے متعلق جانتی ہیں وہ کس باب سے متعلق ہیں؟ ج﴾ بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ سونا اور چاندی، جن پر زکواة دینا واجب تھا، اس زمانہ میں رائج الوقت سکہ ھوتے تھے اور مبادلہ میں استعمال ھوتے تھے۔ نتیجہ کے طور پر آج ان کا معادل صرف سونے اور چاندی کے بنے ھوئے جواہرات نہیں ہیں، بلکہ خود پیسے ﴿ اموال اور کرنسی نوٹ ﴾ ہیں۔ کیا یہ تصور صحیح ہے؟
د﴾ کیا اسلام میں ذکر کیا گیا سونا اور چاندی، جو زکواة سے متعلق ہیں، وہی دنیارو درہم ہیں؟
ایک مختصر
واجب زکواة سے متعلق وہی مشہور ۹ چیزیں ہیں، جن کو روایات سے استناد کرکے توضیح المسائل میں ذکر کیا گیا ہے۔ مستحب زکواة سے متعلق چیزوں کو بھی شرائط کے ساتھ روایات اور فقہی کتابوں میں ذکر کیا گیا ہے، جیسے: گھوڑی﴿ مادیان﴾، چنا، مٹروغیرہ۔ اس کے علاوہ بعض فقہا مستحب اور بعض احتیاط لازم کے طور پر تجارت کے مال ﴿ سرمایہ اور کسب و کار کے مال﴾ کو زکواة سے متعلق جانتے ہیں ۔ یہ جو امام علی علیہ السلام نے گھوڑے کے لئے زکواة قرار دی ہے، وہ حکم حکومتی کے باب سے ھوسکتا ہے جو آپ﴿ع﴾ کے زمانہ سے مخصوص ہے، بعد والے ائمہ ﴿ع﴾ کی طرف سے گھوڑے پر زکواة کو واجب قرار نہ دینے سے اس احتمال کی تائید ھوتی ہے۔
ماضی بعید میں، گراں قیمت دھات، من جملہ سونے اور چاندی کے سکے ھوا کرتے تھے اور ان سے مبادلہ کے وسیلہ کے طور پر استفادہ کیا جاتا تھا۔ حقیقت میں یہ سکے“ دینار طلائی” اور “ چاندی کے درہم” کے عنوان سے اس زمانہ کے رائج پیسے تھے، لیکن عصر حاضر میں“ دینار طلائی” اور “ چاندی کے درہم” رفتہ رفتہ محض اعتباری تقود میں تبدیل ھوئے ہیں۔
ماضی بعید میں، گراں قیمت دھات، من جملہ سونے اور چاندی کے سکے ھوا کرتے تھے اور ان سے مبادلہ کے وسیلہ کے طور پر استفادہ کیا جاتا تھا۔ حقیقت میں یہ سکے“ دینار طلائی” اور “ چاندی کے درہم” کے عنوان سے اس زمانہ کے رائج پیسے تھے، لیکن عصر حاضر میں“ دینار طلائی” اور “ چاندی کے درہم” رفتہ رفتہ محض اعتباری تقود میں تبدیل ھوئے ہیں۔
تفصیلی جوابات
جواب حاصل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر توجہ کرنا ضروری ہے: ١۔ مراجع محترم تقلید کے فتاوی کے مطابق: “زکواة ۹ چیزوں پر واجب ہے: اول: گندم، دوم: جو، سوم: خرما، چہارم: کشمش، پنجم: سونا، ششم: چاندی، ہفتم: اونٹ، ہشتم: گائے، نہم : گوسفند۔[1] ”
پس واجب زکواة مذکورہ نو﴿۹﴾ چیزوں پر ہے اور اگر کوئی ان نو چیزوں میں سے کسی ایک کا مالک ھو، تو شرائط اور حکم کے مطابق، زکواة کی معین شدہ مقدار کو مشخص شدہ مصارف میں سے کسی ایک میں صرف کریں۔[2]
لیکن بعض فقہا، مذکورہ مشہور نو﴿۹﴾ چیزوں کے علاوہ مال تجارت ﴿ سرمایہ کسب و کار تجارت﴾ پر بھی احتیاط لازم کے طور پر زکواة واجب جانتے ہیں۔[3] اور بعض فقہا کسب و کار تجارت کے سرمایہ پر زکواة دینا مستحب جانتے ہیں۔[4]
۲۔ کئی چیزوں پر زکواة دینا مستحب ہے، ہم ان میں سے ذیل میں دو چیزوں کے بارے میں اشارہ کرتے ہیں:
١ ۔۲۔ گھوڑی﴿مادیان﴾ اس کی زکواة حسب ذیل ادا کرنا ہے:
ہرگھوڑی کی زکواة سال میں سونے کے دو دینار ہیں اوراگر اس گھوڑی کے ماں باپ دونوں اصل نہ ھوں تو زکوةایک دینار ہے۔
اس سلسلہ میں روایات، احادیث اور فقہ کی کتابوں میں بیان کی گئی ہیں۔[5] گھوڑی کی زکواة دینا مستحب ہے، جیسا کہ ایک حدیث کے مطابق امام علی نے ہر گھوڑی کے لئے دو دینار کا نصاب معین فرمایاہے۔[6]
یہ جو امام علی علیہ السلام نے گھوڑے کے لئے زکواة قرار دی ہے، وہ حکم حکومتی کے باب سے ھوسکتا ہے جو آپ﴿ع﴾ کے زمانہ سے مخصوص ہے، بعد والے ائمہ ﴿ع﴾ کی طرف سے گھوڑے پر زکواة کو واجب قرار نہ دینے سے اس احتمال کی تائید ھوتی ہے۔[7]
۲ ۔۲۔ بعض دوسرے اشیاء:
الف: ہر وہ چیز جو زمین سے نکلتی ہے اور وہ کلو اور وزن میں ھوتی ہے، مثال کے طور پر چاول، چنا، مٹر، مسور کی دال، ماش اور اس کے مانند چیزیں، ان کا نصاب گندم ، خرما اور کشمش کے نصاب کے مانند ہے۔ لیکن سبزیجات، خربوزہ، کھیرے کی مانند چیزوں کی زکواة مستحب نہیں ہے ۔
ب﴾ ملکیت، مانند باغ، کاروان سرا، دوکان وغیرہ جو کرایہ لینے کے قابل ھوں۔[8] اورا سی طرح تجارت کے مال کی زکواة کو بعض فقہا مستحب جانتے ہیں۔[9]
ان چیزوں کے بارے میں بعض روایتیں پائی جاتی ہیں کہ مثال کے طور پر زمین سے نکلنے والی چیزیں اگر وزن کرنے کی قابل ھوں پرتو ان پر زکواة دینا مستحب ھے لیکن سبزیوں اور ان کی مانند چیزوں پر زکواة مستحب نہیں ہے۔[10]
۳۔ سونا اور چاندی
ماضی بعید میں گراں قیمت دھات ، من جملہ تا نبے، چاندی اور سونے پر ضرب لگائے گئے سکے ھوا کرتے تھے اور ان سے مبادلہ کے عنوان سے استفادہ کیا جاتا تھا۔ اور حقیقت میں یہ سکے“ دینار طلائی” اور “ چاندی کے درہم” کے عنوان سے اس زمانہ کے رائج پیسے تھے۔[11]
روایتوں اور فقہی کتابوں میں مسکوک سونا اور چاندی کو “ دینار”، “ درہم” اور “ مثقال”[12] کے عنوان سے زکواة کے لئے ذکر کیا گیا ہے۔[13] اور ان کی زکواة، شرائط ﴿جیسے رائج ھونے﴾ کے مطابق توضیح المسائل میں[14] ذکر کی گئی ہے۔
لیکن دین اسلام کی تشریع کے زمانہ میں متداول حقیقی نقود من جملہ دینار طلائی اور چاندی کے درہم عصر حاضر میں رفتہ رفتہ نقود اعتباری محض میں تبدیل ھوئے ہیں۔ آج کل اعتیاری پیسے یا وہی کرنسی نوٹ ، رائج پیسوں کے عنوان سے سونے اور چاندی کے سکوں یعنی ان ہی دینار و درہم کی جگہ پر مبادلہ میں استعمال ھوتے ہیں۔
۴۔ کرنسی نوٹوں پر زکواة
کرنسی نوٹوں پر زکواة واجب ھونے یا نہ ھونے کے سلسلہ میں ہم ذیل میں بعض مراجع تقلید کے فتو ؤں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
حضرات آیات عظام:
امام خمینی ﴿رہ﴾ نقد اوراق ﴿جیسے کرنسی نوٹوں﴾[15] پر زکواة نہیں ہے۔[16]
گلپائیگانی: ﴿رہ﴾ کرنسی نوٹوں پر زکواة نہیں ہے۔[17]
مکارم شیرازی:﴿رہ﴾ احتیاط مستحب یہ ہے کہ تمام رائج پیسوں جیسے: کرنسی نوٹ، اگر دوسرے شرائط رکھتے ھوں، تو زکواة دینی چاہئیے۔[18]
اس موضوع سے متعلق دوسرے عناوین:
سوال نمبر: ٦۲۲١ ﴿سائٹ: ٦٦۰۹﴾
سوال نمبر:۳۴۷۳﴿ سائٹ: ۳٦۹۷﴾
پس واجب زکواة مذکورہ نو﴿۹﴾ چیزوں پر ہے اور اگر کوئی ان نو چیزوں میں سے کسی ایک کا مالک ھو، تو شرائط اور حکم کے مطابق، زکواة کی معین شدہ مقدار کو مشخص شدہ مصارف میں سے کسی ایک میں صرف کریں۔[2]
لیکن بعض فقہا، مذکورہ مشہور نو﴿۹﴾ چیزوں کے علاوہ مال تجارت ﴿ سرمایہ کسب و کار تجارت﴾ پر بھی احتیاط لازم کے طور پر زکواة واجب جانتے ہیں۔[3] اور بعض فقہا کسب و کار تجارت کے سرمایہ پر زکواة دینا مستحب جانتے ہیں۔[4]
۲۔ کئی چیزوں پر زکواة دینا مستحب ہے، ہم ان میں سے ذیل میں دو چیزوں کے بارے میں اشارہ کرتے ہیں:
١ ۔۲۔ گھوڑی﴿مادیان﴾ اس کی زکواة حسب ذیل ادا کرنا ہے:
ہرگھوڑی کی زکواة سال میں سونے کے دو دینار ہیں اوراگر اس گھوڑی کے ماں باپ دونوں اصل نہ ھوں تو زکوةایک دینار ہے۔
اس سلسلہ میں روایات، احادیث اور فقہ کی کتابوں میں بیان کی گئی ہیں۔[5] گھوڑی کی زکواة دینا مستحب ہے، جیسا کہ ایک حدیث کے مطابق امام علی نے ہر گھوڑی کے لئے دو دینار کا نصاب معین فرمایاہے۔[6]
یہ جو امام علی علیہ السلام نے گھوڑے کے لئے زکواة قرار دی ہے، وہ حکم حکومتی کے باب سے ھوسکتا ہے جو آپ﴿ع﴾ کے زمانہ سے مخصوص ہے، بعد والے ائمہ ﴿ع﴾ کی طرف سے گھوڑے پر زکواة کو واجب قرار نہ دینے سے اس احتمال کی تائید ھوتی ہے۔[7]
۲ ۔۲۔ بعض دوسرے اشیاء:
الف: ہر وہ چیز جو زمین سے نکلتی ہے اور وہ کلو اور وزن میں ھوتی ہے، مثال کے طور پر چاول، چنا، مٹر، مسور کی دال، ماش اور اس کے مانند چیزیں، ان کا نصاب گندم ، خرما اور کشمش کے نصاب کے مانند ہے۔ لیکن سبزیجات، خربوزہ، کھیرے کی مانند چیزوں کی زکواة مستحب نہیں ہے ۔
ب﴾ ملکیت، مانند باغ، کاروان سرا، دوکان وغیرہ جو کرایہ لینے کے قابل ھوں۔[8] اورا سی طرح تجارت کے مال کی زکواة کو بعض فقہا مستحب جانتے ہیں۔[9]
ان چیزوں کے بارے میں بعض روایتیں پائی جاتی ہیں کہ مثال کے طور پر زمین سے نکلنے والی چیزیں اگر وزن کرنے کی قابل ھوں پرتو ان پر زکواة دینا مستحب ھے لیکن سبزیوں اور ان کی مانند چیزوں پر زکواة مستحب نہیں ہے۔[10]
۳۔ سونا اور چاندی
ماضی بعید میں گراں قیمت دھات ، من جملہ تا نبے، چاندی اور سونے پر ضرب لگائے گئے سکے ھوا کرتے تھے اور ان سے مبادلہ کے عنوان سے استفادہ کیا جاتا تھا۔ اور حقیقت میں یہ سکے“ دینار طلائی” اور “ چاندی کے درہم” کے عنوان سے اس زمانہ کے رائج پیسے تھے۔[11]
روایتوں اور فقہی کتابوں میں مسکوک سونا اور چاندی کو “ دینار”، “ درہم” اور “ مثقال”[12] کے عنوان سے زکواة کے لئے ذکر کیا گیا ہے۔[13] اور ان کی زکواة، شرائط ﴿جیسے رائج ھونے﴾ کے مطابق توضیح المسائل میں[14] ذکر کی گئی ہے۔
لیکن دین اسلام کی تشریع کے زمانہ میں متداول حقیقی نقود من جملہ دینار طلائی اور چاندی کے درہم عصر حاضر میں رفتہ رفتہ نقود اعتباری محض میں تبدیل ھوئے ہیں۔ آج کل اعتیاری پیسے یا وہی کرنسی نوٹ ، رائج پیسوں کے عنوان سے سونے اور چاندی کے سکوں یعنی ان ہی دینار و درہم کی جگہ پر مبادلہ میں استعمال ھوتے ہیں۔
۴۔ کرنسی نوٹوں پر زکواة
کرنسی نوٹوں پر زکواة واجب ھونے یا نہ ھونے کے سلسلہ میں ہم ذیل میں بعض مراجع تقلید کے فتو ؤں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
حضرات آیات عظام:
امام خمینی ﴿رہ﴾ نقد اوراق ﴿جیسے کرنسی نوٹوں﴾[15] پر زکواة نہیں ہے۔[16]
گلپائیگانی: ﴿رہ﴾ کرنسی نوٹوں پر زکواة نہیں ہے۔[17]
مکارم شیرازی:﴿رہ﴾ احتیاط مستحب یہ ہے کہ تمام رائج پیسوں جیسے: کرنسی نوٹ، اگر دوسرے شرائط رکھتے ھوں، تو زکواة دینی چاہئیے۔[18]
اس موضوع سے متعلق دوسرے عناوین:
سوال نمبر: ٦۲۲١ ﴿سائٹ: ٦٦۰۹﴾
سوال نمبر:۳۴۷۳﴿ سائٹ: ۳٦۹۷﴾
[1] . توضیح المسائل (المحشی للامام الخمینی)، ج 2، ص 107، م 1853.
[2] ۔ایضاً
[3] ۔ایضاً:سيستانى: «دهم: مال التجارة بنا بر احتياط لازم...». ۔
[4] ۔ایضاً: فاضل: لیکن مستحب ہے کسب و کار اور تجارت کے سرمایہ کی زکواة بھی ہر سال ادا کی جائے۔ مکارم: لیکن مستحب ہے کسب و کار اور تجارت کے سرمایہ کی زکواة بھی ہر سال ادا کی جائے۔ اسی طرح ﴿گندم، جو اور کشمش کے علاوہ ﴾ دوسرے غلات پر بھی زکواة دینا مستحب ہے۔
[5] ۔ حلّى، حسن بن يوسف، تذکرة الفقهاء، ج 5، ص 231 – 232، مؤسسه آل البيت (ع)، قم، طبع اول: اس روایت کے مانند:«زرارة قال للصادق (ع): هل في البغال شيء؟ قال: «لا» فقلت: فكيف صار على الخيل و لم يصر على البغال؟ فقال: «لأنّ البغال لا تلقح، و الخيل الإناث ينتجن، و ليس على الخيل الذكور شيء» قال، قلت: هل على الفرس و البعير يكون للرجل يركبها شيء؟ فقال: «لا، ليس على ما يعلف شيء، إنّما الصدقة على السائمة المرسلة في مرجها عامها الذي يقتنيها فيه الرجل، فأمّا ما سوى ذلك فليس فيه شيء». (كلينى، ابو جعفر محمد بن يعقوب،الکافی، ج3، ص 530، دار الكتب الإسلامية، تهران، طبع چهارم، 1407ق).
[6] ۔ الکافی، ج3، ص 530:«عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ وَ زُرَارَةَ عَنْهُمَا جَمِيعاً (ع) قَالا وَضَعَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (ع) عَلَى الْخَيْلِ الْعِتَاقِ الرَّاعِيَةِ فِي كُلِّ فَرَسٍ فِي كُلِّ عَامٍ دِينَارَيْنِ وَ جَعَلَ عَلَى الْبَرَاذِينِ دِينَاراً».
[8] ایضاً۔؛ محقق حلّي، نجم الدين جعفر بن حسن، شرائع الإسلام في مسائل الحلال و الحرام، ج 1، ص 130، مؤسسه إسماعيليان، قم، طبع دوم، 1408ق؛ خوئی، سید ابوالقاسم، منهاج الصالحين، ج1، ص 29، نشر مدينة العلم، قم، چاپ 28، 141
[9] ۔ توضیح المسائل (المحشی للامام الخمینی)، ج 2، ص 107، م 1853؛ الغایة القصوی فی ترجمة العروة الوثقی، ج 2، ص 199؛ شرائع الإسلام في مسائل الحلال و الحرام، ج 1، ص 130.
[9] ملاحظہ ھو: حرعاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج ۹، ص ٦١۔ ٦۴ مؤسسہ آل بیت ﴿ع﴾، قم ، طبع اول، ١۴۰۹ ق، اس روایت کے مانند کل ما کیل یا لصاع فبلغ الاوساق فعلیہ الذکاة وقال جعل رسولاللہ ﴿ص﴾ الصدقة فی کل شیء انبتت الارض انا ماکان فی الخضر والبقول وکل شیء یفسد من یومہ”
[9] ملاحظہ ھو: حرعاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج ۹، ص ٦١۔ ٦۴ مؤسسہ آل بیت ﴿ع﴾، قم ، طبع اول، ١۴۰۹ ق، اس روایت کے مانند کل ما کیل یا لصاع فبلغ الاوساق فعلیہ الذکاة وقال جعل رسولاللہ ﴿ص﴾ الصدقة فی کل شیء انبتت الارض انا ماکان فی الخضر والبقول وکل شیء یفسد من یومہ”
[10] ۔ مصباحی، غلامرضا، مجله پژوهشی دانشگاه امام صادق (ع)، شماره 13و 14؛ حائری، سید کاظم ، فصلنامه فقه اهل بیت فارسی، شماره 19 و 20.
[11] ۔ واعظ زاده خراسانى، محمد، ترجمة الجمل و العقود في العبادات، ص 281.
[12] ۔ملاحضہ ھو ۔:الکافی، ج 3، ص 515 – 517؛ توضیح المسائل (المحشی للامام الخمینی)، ج 2، ص 128 – 130؛ ترجمة الجمل و العقود في العبادات، ص 270 – 271؛ الغاية القصوى في ترجمة العروة الوثقى، ج2، ص 208 – 209؛ خمينى، سيد روح اللَّه، تحریر الوسیله، ج 1، ص 322 – 323، مؤسسه دار العلم، قم، طع اول؛ و کتب فقهی دیگر.
[13] ۔ رساله های توضیح المسائل مراجع تقلید، احکام زکات.
[14] ۔ تحریر الوسیله، ج 2، ص 615، م 5.
[15] ایضاً۔، ص 614، م 7.
[16] ۔ گلپایگانی، سید محمدرضا، مجمع المسائل، ج 1، ص 410، س 4، دار القرآن الكريم، قم، چاپ دوم، 1409ق.
[17] ۔ توضیح المسائل (المحشی للامام الخمینی)، ج 2، ص 131.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے