Please Wait
کا
6261
6261
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2011/07/02
سوال کا خلاصہ
اس کے باوجود کہ اسلام پہلے گناہ کو قبول نہیں کرتا ہے، پھر بھی بعض روایتوں اور علماء کے بیانات میں حضرت آدم ﴿ع﴾ کے گناہ کے بارےمیں اشارہ ھوا ہے؟
سوال
اسلام پہلے گناہ کو قبول نہیں کرتا ہے، لیکن وضو کی علت کے مسئلہ کے بارے میں، امام خمینی ﴿رہ﴾ نے“ آداب نماز ” میں ایک روایت نقل کی ہے کہ وضو میں چہرہ کو دھونے کی علت یہ ہے کہ انسان حضرت آدم﴿ع﴾ کے اس گناہ کو یاد کرے کہ انھوں نے درخت ممنوعہ کو دیکھ کر ۔ ۔ ۔ پہلے گناہ کے نقطہ نظر کو مسترد کرنے کے باوجود یہ حدیث کیسے قابل فہم ہےِ ؟ فلسفہ، عرفان اور فقہ اس مسئلہ کا کیسے جواب دیتے ہیں؟
ایک مختصر
جس روایت کے بارے میں امام خمینی ﴿رہ﴾ نے وضو کے واجب ھونے کی علت کا استدلال کیا ہے، اس میں حضرت آدم ﴿ع﴾ کے فعل کو اپنے استدلال کی علت کے طور پر قرار دیا ہے اور اس میں کوئی صراحت نہیں ہے کہ حضرت آدم ﴿ع﴾ کا یہ فعل گناہ تھا، کیونکہ اسلام حضرت آدم ﴿ع﴾ کے اس عمل کو ترک اولی جانتا ہے کہ اگر اولیائے الہی کی طرف سے ترک اولی کا ارتقاب ھو جائے تو اس کی کچھ سزا ہوسکتی ہے۔ چنانچہ حضرت یونس﴿ع﴾ اور دوسرے انبیاء ﴿ع﴾ کے بارے میں بھی اس قسم کی چیزیں پائی جاتی ہیں۔ البتہ وضوکے واجب ھونے کی علت کے بارے میں کچھ دوسری روایتیں بھی موجود ہیں کہ یہ اس خاص مورد کے بارے میں عدم انحصار کی دلیل ہے۔
تفصیلی جوابات
ابتدائی اور ذاتی گناہ یا پہلے گناہ کا اعتقاد، عیسائیوں کے اہم اور بنیادی اعتقادات میں شمار ھوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت آدم ﴿ع﴾ اور حضرت حوا﴿ع﴾ نے بہشت میں اس درخت ممنوعہ سے جو کھا لیا، وہ گناہ تھا۔ اس اعتقاد کے مطابق، انسانی نسل حضرت آدم ﴿ع﴾ کے اس گناہ کی وارث ہے اور انسان اپنے اعمال کی برائی کی وجہ سے نہیں، بلکہ صرف اس لئے کہ آدم ﴿ع﴾ کی نسل سے ہیں، ذاتی طور پر گناہ گار پیدا ھوتے ہیں۔
[1]
عیسائیوں کا اعتقاد ہے کہ حضرت آدم ﴿ع﴾ کے گناہ نے تمام انسانوں کو گناہ سے دوچار کیا ہے اور اس وجہ سے ابتدائی طہارت اور معصومیت ختم حوئی ہے اور الہی صورت مخدوش ھوئی ہے، اس طرح کہ تمام انسان ذاتی طور پر شرور اور گناہ سے آلودہ حالت میں پیدا ھوتے ہیں [2] اور گناہ کے بندے ہیں اور اس طرح موت اور بے نظمی دنیا میں داخل ھوئی ہے۔ [3]
جان لوین، پہلے گناہ کو طبیعی اور ماورائے طبیعی الطاف کو تباہ و برباد ھونے کا سبب جانتا ہے۔ اس کے اعتقاد کے مطابق اس گناہ نے انسان کو ماورائے طبیعی الطاف سے مکمل طور پر محروم کرکے رکھ دیا ہے، جبکہ اس قسم کے الطاف، یعنی ایمان و صداقت، آسمانی زندگی اور حیات جاودان کے لئے ضروری ہیں۔ [4]
حضرت آدم ﴿ع﴾ کے بارے میں اس نظریہ کے پیش نظر، یہ سوال پیدا ھوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ خداوند عادل، حضرت آدم ﴿ع﴾ کے گناہ کی سزا کو ہمارے نام لکھ دے، جبکہ ہمارا اس میں کوئی کردار نہیں تھا۔
عیسائیوں نے اس سوال کے متعدد جوابات دئے ہیں، کہ ان میں سے کوئی ایک جواب اطمینان بخش نہیں ہے اور قرآن مجید کی آیات سے بھی سازگار نہیں ہیں۔ مسیحیوں کی طرف سے نمایندگی [5] کے اور گروہی [6] شخصیت کے عنوان سے پیش کئےگئے نظریات تمام کے تمام اس امر میں مشترک ہیں کہ حضرت آدم ﴿ع﴾ کا گناہ سبب بنا ہے کہ تمام انسان گناہگار پیدا ھو جائیں اور مستحقق سزا ہیں۔
لیکن اسلام، حضرت آدم ﴿ع﴾ اور حضرت حوا ﴿ع﴾ کے فعل کا گناہ ھونا قبول نہیں کرتا ہے، چنانچہ علامہ طباطبائی، قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں، اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت آدم ﴿ع﴾ دو وجوہات کی بنا پر کسی گناہ کے مرتکب نہیں ھوئے ہیں:
١۔ خداوند متعال کی طرف سے حضرت آدم ﴿ع﴾ کو درخت ممنوعہ کے نزدیک جانے کی نہی، ارشادی تھی نہ مولوی، کیونکہ یہ نہی بہشت میں صادر ھوئی تھی اور بہشت تکلیف اور امر و نہی مولوی کی جگہ نہیں ہے۔ ارشادی نہی میں، نہی شدہ شخص کو مصلحت مد نظر ھوتی ہے اور نہی کرنے والا چاہتا ہے کہ اسے اس چیز کی طرف ارشاد کرے جس میں اس کی مصلحت ہے اور اس قسم کے امر و نہی میں عمل کرنے میں نہ کوئی ثواب ھوتا ہے اور نہ مخالفت کرنے میں کوئی سزا ھوتی ہے، یہ امر و نہی بالکل اس امر و نہی کے مانند ھوتے ہیں کہ ہمیں مشورہ دینے والا یا طبیب بیمار کو کہتا ہے کہ اس میں صرف مخاطب کی مصلحت مدنظر ھوتی ہے کہ مخالفت کرنے کی صورت میں شخص صرف اسی ضرر اور مفسدہ سے دوچار ھوتا ہے، جو آمر و ناہی کے مد نظر ھوتے ہیں۔ [7]
۲۔ حضرت آدم ﴿ع﴾ پیغمبر تھے اور قرآن مجید نے انبیاء کی ذات کو پاک و منزہ اور ان کی مقدس نفوس کو گناہ اور فسق سے مبرا قرار دیا ہے۔ عقلی برہان اور قرآن مجید کی آیات بھی اس نظریہ کی تائید کرتی ہیں۔ [8]
علامہ طباطبائی نے بھی بحث انبیاء ﴿ع﴾ کی عصمت پر ایک مفصل بحث کی ہے اور مختلف جہات سے عقلی و نقلی دلائل کے ذریعہ ثابت کیا ہے۔ [9] و [10]
ایک طرف، عیسائیوں کا یہ کہنا کہ حضرت آدم ﴿ع﴾ نے گناہ کیا ہے اور گناہ ان کا لازمہ بن گیا ہے، ایک غلط بات ہے، کیونکہ خداوند متعال نے حضرت آدم ﴿ع﴾ کو اس درخت سے کھانے کے بعد اور بہشت سے باہر نکلنے کے بعد، منتخب فرما کر ان پر نظر رحمت عنایت فرمائی: «ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَ هَدی».اور مزید ارشاد فرمایا:“ [11] «فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِماتٍ فَتابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحيم». [12]
اس بنا پر یہ کہنا کہ“ انسان سے مرتکب ھونے والی خطا اس کی لاینفک ہے” ایک صحیح توجیہ نہیں ہے اور گناہ کے انسان کا لازم و ملزوم ھونے کا فرض، اس کے لئے عفو و بخشش کی کوئی گنجائش باقی نہیں رکھتا ہے، جبکہ قرآن مجید میں عفو و بخشش کاموضوع کثرت سے بیان ھوا ہے اور کتاب مقدس بھی اس کے بارے میں خاموش نہیں ہے۔ [13] اس بنا پر، حضرت آدم ﴿ع﴾ کے گناہ اور اس کے اثرات کے بارے میں عیسائیوں کا عقیدہ ایک غلط اور بے بنیاد عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ ، انسانوں کی ایک بڑی تعداد کے بارے میں الہی عفو وبخشش کے موضوع کا کئی صدیوں تک انکار کرتا رہا ہے۔
مذکورہ بیان شدہ مطالب کے پیش نظر واضح ھوتا ہے کہ کتاب طہارت میں وضوع کے واجب ھونے کی علت کے بارے میں نقل کی گئی روایت کے متعلق امام خمینی ﴿رہ﴾ کا کلام، اسلام کی نظر میں پہلے گناہ کو قبول نہ کرنے کے منافی نہیں ہے۔
امام خمینی ﴿رہ﴾ نے وضوع کے باب میں "حول حقيقة الطهارة المعتبرة في الصلاة" کے عنوان سے ایک بحث کی ہے اور اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ: حضرت آدم ﴿ع﴾ اور ان کی ذریت پر وضو مطلق طور پر واجب قرار دیا گیا ہے، خواہ انسان سے حدس صادر ھوگا یا نہ۔ [14] اس بحث کا فائدہ یہ ہے کہ جب انسان پیدا ھوتا ہے، کیا وہ کسی حدث کے واقع ھونے سے پہلے پاک ہے یا نہیں؟ حضرت امام خمینی ﴿رہ﴾ فرماتے ہیں: یہ جدید مولود بھی خداوند متعال کے وجوب وضو کے حکم میں شامل ھوتا ہے، غسل کے بر خلاف، کہ جب تک غسل واجب ھونے کا حدث عارض نہ ھوجائے، غسل واجب نہیں ھوتا ہے، موصوف یہاں پر ایک روایت سے استناد کرتے ہیں، جس میں وضو کی علت بیان کی گئی ہے:
یہودیوں کی ایک جماعت پیغمبر خدا ﴿ص﴾ کی خدمت میں حاضر ھوئی اور آنحضرت ﴿ص﴾ سے کچھ سوالات کئے گئے، ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ: اے محمد! وضو میں کس لئے ان چار اعضاء کو دھونا ضروری ہے، جبکہ یہ اعضاء پاکیزہ ترین اعضاء ہیں؟ ﴿ چار اعضاء سے مراد چہرہ اور دو ہاتھ اور سر اور پاؤں ہیں جن کو بالترتیب دھویا اور مسح کیا جاتا ہے﴾
پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ نے جواب میں فرمایا: جب شیطان نے حضرت آدم ﴿ع﴾ کو وسواس سے دوچار کیا، تو حضرت آدم ﴿ع﴾ اس درخت کے قریب گئے اور اس درخت کو دیکھنے لگے، پس ان کی آبرو چلی گئی﴿ شائد اس کا مراد یہ ھو کہ ان کا رنگ تغییر ھوا، کیونکہ خود کو فریب دے چکے تھے﴾ اس کے بعد اٹھے اور اس درخت کی طرف چلے گئے اور یہ پہلا قدم تھا کہ جو غلط راستہ پر رکھا گیا، اس درخت کے میوہ کو توڑ کر کھالیا، اس کے نتیجہ میں ان کے بدن پر زیب تن زرین لباس اڑ گیا اور حضرت آدم ﴿ع﴾ اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر رونے لگے اور جب خداوند متعال نے ان کی توبہ کو قبول کیا اور اس کے بعد ان پر اور ان کی ذریت پر ان چار اعضاء کو دھونا واجب قرار دیا۔
چونکہ انہوں﴿ آدم﴾ نے اس درخت پر نگاہ کی، پس خداوند متعال نے اس لئے چہرہ کو دھونے کا حکم دیا۔ اور چونکہ ہاتھوں سے اس کے میوے توڑے تھے، اس لئے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونے کا حکم دیا، اور چونکہ اپنے ہاتھوں کو سرپر رکھ چکے تھے اس لئے انھیں سرپر مسح کرنے کا حکم دیا اور چونکہ دونوں پاؤں سے غلط راستہ پر قدم رکھا تھا، اس لئے دونوں پاؤں کو مسح کرنے کا حکم فرمایا۔ [15]
اگر ہم روایت کے متن پر تھوڑا سا غور کریں تو معلوم ھوگا کہ روایت میں کہیں پر بھی حضرت آدم ﴿ع﴾ کے گناہ کا ذکر نہیں آیا ہے اور وضوء کی علت کو حضرت آدم ﴿ع﴾ کے فعل سے نسبت دی گئی ہے۔ اور اس سے اسلام انکار نہیں کرتا ہے کہ حضرت آدم ﴿ع﴾ ترک اولی کے مرتکب ھوئے ہیں، بلکہ جس چیز کو اسلام قبول نہیں کرتا ہے، اس کام کا گناہ ھونا ہے ، کہ عقلی و نقلی دلیل سے ہم نے اس کے برخلاف ثابت کیا۔ دوسری جانب، اولیائے الہی کے لئے ترک اولی کی سزا ایک معمولی امر ہے، جیسا کہ حضرت یونس﴿ع﴾ اور دوسرے انبیاء ﴿ع﴾ میں بھی ہم اس امر کا مشاہدہ کرتے ہیں، پس وسوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ وضو کا واجب ھونا، اس ترک اولی کی وجہ سے تھا کہ حضرت آدم ﴿ع﴾ نے انجام دیا ہے۔ اس کے علاوہ روایتوں میں وضو کے بارے میں دوسری علتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ [16] اور صرف اس علت تک مخصوص نہیں ہےبلکہ ایسی علتیں اور حکمتیں بھی ہیں جن کے بارےمیں ہم آگاہی نہیں رکھتے ہیں۔
عیسائیوں کا اعتقاد ہے کہ حضرت آدم ﴿ع﴾ کے گناہ نے تمام انسانوں کو گناہ سے دوچار کیا ہے اور اس وجہ سے ابتدائی طہارت اور معصومیت ختم حوئی ہے اور الہی صورت مخدوش ھوئی ہے، اس طرح کہ تمام انسان ذاتی طور پر شرور اور گناہ سے آلودہ حالت میں پیدا ھوتے ہیں [2] اور گناہ کے بندے ہیں اور اس طرح موت اور بے نظمی دنیا میں داخل ھوئی ہے۔ [3]
جان لوین، پہلے گناہ کو طبیعی اور ماورائے طبیعی الطاف کو تباہ و برباد ھونے کا سبب جانتا ہے۔ اس کے اعتقاد کے مطابق اس گناہ نے انسان کو ماورائے طبیعی الطاف سے مکمل طور پر محروم کرکے رکھ دیا ہے، جبکہ اس قسم کے الطاف، یعنی ایمان و صداقت، آسمانی زندگی اور حیات جاودان کے لئے ضروری ہیں۔ [4]
حضرت آدم ﴿ع﴾ کے بارے میں اس نظریہ کے پیش نظر، یہ سوال پیدا ھوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ خداوند عادل، حضرت آدم ﴿ع﴾ کے گناہ کی سزا کو ہمارے نام لکھ دے، جبکہ ہمارا اس میں کوئی کردار نہیں تھا۔
عیسائیوں نے اس سوال کے متعدد جوابات دئے ہیں، کہ ان میں سے کوئی ایک جواب اطمینان بخش نہیں ہے اور قرآن مجید کی آیات سے بھی سازگار نہیں ہیں۔ مسیحیوں کی طرف سے نمایندگی [5] کے اور گروہی [6] شخصیت کے عنوان سے پیش کئےگئے نظریات تمام کے تمام اس امر میں مشترک ہیں کہ حضرت آدم ﴿ع﴾ کا گناہ سبب بنا ہے کہ تمام انسان گناہگار پیدا ھو جائیں اور مستحقق سزا ہیں۔
لیکن اسلام، حضرت آدم ﴿ع﴾ اور حضرت حوا ﴿ع﴾ کے فعل کا گناہ ھونا قبول نہیں کرتا ہے، چنانچہ علامہ طباطبائی، قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں، اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت آدم ﴿ع﴾ دو وجوہات کی بنا پر کسی گناہ کے مرتکب نہیں ھوئے ہیں:
١۔ خداوند متعال کی طرف سے حضرت آدم ﴿ع﴾ کو درخت ممنوعہ کے نزدیک جانے کی نہی، ارشادی تھی نہ مولوی، کیونکہ یہ نہی بہشت میں صادر ھوئی تھی اور بہشت تکلیف اور امر و نہی مولوی کی جگہ نہیں ہے۔ ارشادی نہی میں، نہی شدہ شخص کو مصلحت مد نظر ھوتی ہے اور نہی کرنے والا چاہتا ہے کہ اسے اس چیز کی طرف ارشاد کرے جس میں اس کی مصلحت ہے اور اس قسم کے امر و نہی میں عمل کرنے میں نہ کوئی ثواب ھوتا ہے اور نہ مخالفت کرنے میں کوئی سزا ھوتی ہے، یہ امر و نہی بالکل اس امر و نہی کے مانند ھوتے ہیں کہ ہمیں مشورہ دینے والا یا طبیب بیمار کو کہتا ہے کہ اس میں صرف مخاطب کی مصلحت مدنظر ھوتی ہے کہ مخالفت کرنے کی صورت میں شخص صرف اسی ضرر اور مفسدہ سے دوچار ھوتا ہے، جو آمر و ناہی کے مد نظر ھوتے ہیں۔ [7]
۲۔ حضرت آدم ﴿ع﴾ پیغمبر تھے اور قرآن مجید نے انبیاء کی ذات کو پاک و منزہ اور ان کی مقدس نفوس کو گناہ اور فسق سے مبرا قرار دیا ہے۔ عقلی برہان اور قرآن مجید کی آیات بھی اس نظریہ کی تائید کرتی ہیں۔ [8]
علامہ طباطبائی نے بھی بحث انبیاء ﴿ع﴾ کی عصمت پر ایک مفصل بحث کی ہے اور مختلف جہات سے عقلی و نقلی دلائل کے ذریعہ ثابت کیا ہے۔ [9] و [10]
ایک طرف، عیسائیوں کا یہ کہنا کہ حضرت آدم ﴿ع﴾ نے گناہ کیا ہے اور گناہ ان کا لازمہ بن گیا ہے، ایک غلط بات ہے، کیونکہ خداوند متعال نے حضرت آدم ﴿ع﴾ کو اس درخت سے کھانے کے بعد اور بہشت سے باہر نکلنے کے بعد، منتخب فرما کر ان پر نظر رحمت عنایت فرمائی: «ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَ هَدی».اور مزید ارشاد فرمایا:“ [11] «فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِماتٍ فَتابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحيم». [12]
اس بنا پر یہ کہنا کہ“ انسان سے مرتکب ھونے والی خطا اس کی لاینفک ہے” ایک صحیح توجیہ نہیں ہے اور گناہ کے انسان کا لازم و ملزوم ھونے کا فرض، اس کے لئے عفو و بخشش کی کوئی گنجائش باقی نہیں رکھتا ہے، جبکہ قرآن مجید میں عفو و بخشش کاموضوع کثرت سے بیان ھوا ہے اور کتاب مقدس بھی اس کے بارے میں خاموش نہیں ہے۔ [13] اس بنا پر، حضرت آدم ﴿ع﴾ کے گناہ اور اس کے اثرات کے بارے میں عیسائیوں کا عقیدہ ایک غلط اور بے بنیاد عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ ، انسانوں کی ایک بڑی تعداد کے بارے میں الہی عفو وبخشش کے موضوع کا کئی صدیوں تک انکار کرتا رہا ہے۔
مذکورہ بیان شدہ مطالب کے پیش نظر واضح ھوتا ہے کہ کتاب طہارت میں وضوع کے واجب ھونے کی علت کے بارے میں نقل کی گئی روایت کے متعلق امام خمینی ﴿رہ﴾ کا کلام، اسلام کی نظر میں پہلے گناہ کو قبول نہ کرنے کے منافی نہیں ہے۔
امام خمینی ﴿رہ﴾ نے وضوع کے باب میں "حول حقيقة الطهارة المعتبرة في الصلاة" کے عنوان سے ایک بحث کی ہے اور اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ: حضرت آدم ﴿ع﴾ اور ان کی ذریت پر وضو مطلق طور پر واجب قرار دیا گیا ہے، خواہ انسان سے حدس صادر ھوگا یا نہ۔ [14] اس بحث کا فائدہ یہ ہے کہ جب انسان پیدا ھوتا ہے، کیا وہ کسی حدث کے واقع ھونے سے پہلے پاک ہے یا نہیں؟ حضرت امام خمینی ﴿رہ﴾ فرماتے ہیں: یہ جدید مولود بھی خداوند متعال کے وجوب وضو کے حکم میں شامل ھوتا ہے، غسل کے بر خلاف، کہ جب تک غسل واجب ھونے کا حدث عارض نہ ھوجائے، غسل واجب نہیں ھوتا ہے، موصوف یہاں پر ایک روایت سے استناد کرتے ہیں، جس میں وضو کی علت بیان کی گئی ہے:
یہودیوں کی ایک جماعت پیغمبر خدا ﴿ص﴾ کی خدمت میں حاضر ھوئی اور آنحضرت ﴿ص﴾ سے کچھ سوالات کئے گئے، ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ: اے محمد! وضو میں کس لئے ان چار اعضاء کو دھونا ضروری ہے، جبکہ یہ اعضاء پاکیزہ ترین اعضاء ہیں؟ ﴿ چار اعضاء سے مراد چہرہ اور دو ہاتھ اور سر اور پاؤں ہیں جن کو بالترتیب دھویا اور مسح کیا جاتا ہے﴾
پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ نے جواب میں فرمایا: جب شیطان نے حضرت آدم ﴿ع﴾ کو وسواس سے دوچار کیا، تو حضرت آدم ﴿ع﴾ اس درخت کے قریب گئے اور اس درخت کو دیکھنے لگے، پس ان کی آبرو چلی گئی﴿ شائد اس کا مراد یہ ھو کہ ان کا رنگ تغییر ھوا، کیونکہ خود کو فریب دے چکے تھے﴾ اس کے بعد اٹھے اور اس درخت کی طرف چلے گئے اور یہ پہلا قدم تھا کہ جو غلط راستہ پر رکھا گیا، اس درخت کے میوہ کو توڑ کر کھالیا، اس کے نتیجہ میں ان کے بدن پر زیب تن زرین لباس اڑ گیا اور حضرت آدم ﴿ع﴾ اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر رونے لگے اور جب خداوند متعال نے ان کی توبہ کو قبول کیا اور اس کے بعد ان پر اور ان کی ذریت پر ان چار اعضاء کو دھونا واجب قرار دیا۔
چونکہ انہوں﴿ آدم﴾ نے اس درخت پر نگاہ کی، پس خداوند متعال نے اس لئے چہرہ کو دھونے کا حکم دیا۔ اور چونکہ ہاتھوں سے اس کے میوے توڑے تھے، اس لئے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونے کا حکم دیا، اور چونکہ اپنے ہاتھوں کو سرپر رکھ چکے تھے اس لئے انھیں سرپر مسح کرنے کا حکم دیا اور چونکہ دونوں پاؤں سے غلط راستہ پر قدم رکھا تھا، اس لئے دونوں پاؤں کو مسح کرنے کا حکم فرمایا۔ [15]
اگر ہم روایت کے متن پر تھوڑا سا غور کریں تو معلوم ھوگا کہ روایت میں کہیں پر بھی حضرت آدم ﴿ع﴾ کے گناہ کا ذکر نہیں آیا ہے اور وضوء کی علت کو حضرت آدم ﴿ع﴾ کے فعل سے نسبت دی گئی ہے۔ اور اس سے اسلام انکار نہیں کرتا ہے کہ حضرت آدم ﴿ع﴾ ترک اولی کے مرتکب ھوئے ہیں، بلکہ جس چیز کو اسلام قبول نہیں کرتا ہے، اس کام کا گناہ ھونا ہے ، کہ عقلی و نقلی دلیل سے ہم نے اس کے برخلاف ثابت کیا۔ دوسری جانب، اولیائے الہی کے لئے ترک اولی کی سزا ایک معمولی امر ہے، جیسا کہ حضرت یونس﴿ع﴾ اور دوسرے انبیاء ﴿ع﴾ میں بھی ہم اس امر کا مشاہدہ کرتے ہیں، پس وسوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ وضو کا واجب ھونا، اس ترک اولی کی وجہ سے تھا کہ حضرت آدم ﴿ع﴾ نے انجام دیا ہے۔ اس کے علاوہ روایتوں میں وضو کے بارے میں دوسری علتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ [16] اور صرف اس علت تک مخصوص نہیں ہےبلکہ ایسی علتیں اور حکمتیں بھی ہیں جن کے بارےمیں ہم آگاہی نہیں رکھتے ہیں۔
[1]
.
Paul Helm, Faith and Understanding, Eerdmans Pulishingco. Edinburgh University Press, 1997, P. 153.، به نقل از مجله علمی تخصصی معرفت 74،سال ١۲، شماره ١١، 1382(صاحب امتیاز: موسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی "ره")، ص22
[2]
رومیان، 5:19، به نقل از مجله علمی تخصصی معرفت 74،سال ١۲، شماره ١١، ")،ص 23، (صاحب امتیاز: موسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی .
[3]
سارو خاچیکی، اصول مسیحیت، چ دوم، انتشارات حیات ابدی، 1982 م، ص81، به نقل از مجله علمی تخصصی معرفت 74،سال ١۲، شماره ١١، ص24، (صاحب امتیاز: موسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی "ره").
[4]
جی لسلی دانستن، آیین پروتستان، ترجمه عبدالرحیم سلیمانی اردستانی، چ 1، ص105-106، قم، مؤسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی، 1381، به نقل از مجله علمی تخصصی معرفت 74،سال ١۲، شماره ١١، 1382 ص 23 ، (صاحب امتیاز: موسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی "ره")
[5]
چارلز هورن، نجات شناسی، ترجمه سارو خاچیکی، طبع1، انتشارات آفتاب عدالت، تهران، 1361، ص11، به نقل از مجله علمی تخصصی معرفت 74،سال ١۲، شماره ١١، ص 24، 1382(صاحب امتیاز: موسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی "ره").
[6]
هنری تیسین، الهیات مسیحی، ترجمه: ط. میکائلیان، انتشارات حیات ابدی،ص180/182، به نقل از مجله علمی تخصصی معرفت 74،سال ١۲، شماره ١١، 1382 ص 24 ، (صاحب امتیاز: موسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی "ره").
[7]
محمدحسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، طبع 5، مؤسسه اسماعیلیان، قم، 1371، ج 3، ص 293ـ 292.
[8]
طباطبائی، محمدحسین المیزان فی تفسیر القرآن، طبع 5، مؤسسه اسماعیلیان، قم، 1371،ج 3، ص 293.
[9]
ملاحظہ ھو: ایضا، ج 12، ص 139ـ 134 / محمدتقی مصباح یزدی، آموزش عقاید، چاپ 7، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، جلد 1و 2، درسهای 24، 25 و 26.
[10]
حضرت آدم ﴿ع﴾ کی عصمت اور خدا کے بارے میں ہماری اسی سائٹ کے مندرجہ ذیل سوالات کا بھی مطالعہ کیا جاسکتا ہے،: 129 (سائٹ: 1069).
[11]
«سپس پروردگارش او را برگزید و بر او ببخشود و {وی را} هدایت کرد.» طه، 122.
[12]
سپس آدم از پروردگارش کلماتی را دریافت نمود؛ و [خدا [بر او ببخشود؛آری، او(ست که)توبهپذیرمهربان است.» بقره، 37
[13]
طباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج 3، ص 393ـ 394، چاپ 5، مؤسسه اسماعیلیان، قم، 1371،
[14]
فإنّ ظاهرها(أی ظاهر الروایة) أنّ الوضوء فرض علىٰ آدم و علىٰ ذريّته مطلقاً؛ مسبوقاً بالحدث أو غير مسبوق، فإنّ سبب وجوبه ليس مجرّد الأحداث المعروفة، بل لأنّ آدم (عليه السّلام) صدر منه العمل المعروف. امام خمینی(ره)، كتاب الطهارة (تقريرات)، ص 270، مؤسسه تنظيم و نشر آثار امام خمينى قدس سره، چاپ اول، تهران، 1428 ق،
[15]
شيخ صدوق، من لا يحضره الفقيه، ج1، ص 55 و 56 و 57، جامعه مدرسين، قم، 1404ق.
[16]
۔ امام علی بن موسی الرضا﴿ع﴾ نے محمد بن سنان کی طرف سے کئے گئے سوالات میں سے ایک سوال کے جواب میں یوںلکھا ہے:“ وضو کی علت جس کی وجہ سے منہ اور ہاتھ دھونا اور سراور پاؤں کا مسح کرنا بندوں پر واجب ھوا ہے، بیشک ظاہری اعضاء کے ساتھ خدا کے سامنے کھڑا ھونے اور اس کی طرف رخ کرنے اقور ان اعضاء کے ساتھ اعمال لکھنے والے فرشتوں کے ساتھ ملاقات کرنے کے لئے ہے۔ پس چہرے کو سجدہ بجالانے کے لئے اور خضوع و خشوع کی حالت پیدا کرنے کے لئے دھولیجئے اور اور اپنے ہاتھوں کو دھولو گے تاکہ گناھوں سے پاک و پاکیزہ ھوجاؤ گے ۔ سر اور اپنے دو پاؤں کا مسح کرتے ھو، کیونکہ یہ کھلے ہیں اور تمام حالات میں ان کے ساتھ مواجہ ھوتے ھو، پس سر اور پاؤں کے مسح پر اکتفا کیا جاتا ہے”
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے