Please Wait
کا
16121
16121
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2012/04/17
سوال کا خلاصہ
قرآن مجید میں آیا ہے کہ انسان کا رزق حلال ھونے کے علاوہ طیب یعنی پاک بھی ھونا چاہئے۔ حلال اور پاک میں کیا فرق ہے؟
سوال
قرآن مجید میں آیا ہے کہ انسان کا رزق، حلال ھونے کے علاوہ پاک بھی ھونا چاہئیے۔ حلال و پاک میں کیا فرق ہے؟
ایک مختصر
صحیح لغات[1] کے مطابق لفظ" طیب" کے معنی پاک و پاکیزہ ہیں۔ ابن منظور اس معنی کو قبول کرنے کے ضمن میں اعتقاد رکھتے ہیں کہ لفظ " طیب" وسیع معنی میں استعمال ھوتا ہے اور مختلف مواقع پر ان موارد کے متناسب اس کے معنی ھوتے ہیں۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ " پاک زمین" تو اس کے یہ معنی ھوتے ہیں کہ قابل زراعت زمین ،جس میں پودے اگ سکیں۔ نسیم پاک، ملایم ھوا کو کہتے ہیں جس میں تیزی نہ ھو، طعام طیب، یعنی حلال غذا اور پاک عورت، یعنی، پاک دامن خاتون۔ قرآن مجید میں" الطیبات للطیبین والطیبون للطیبات" کا جملہ اسی معنی میں آیا ہے۔[2]
" قاموس قرآن" نامی کتاب کے مولف نے" طیب" کے معنی دلچسپی اور طبیعت پسندی کئے ہیں اور راغب اصفہانی سے نقل کرتے ھوئے کہتے ہیں: اصل میں "طیب" وہ چیز ہے جس سے انسان کے حواس اور نفس لذت محسوس کریں اور پاک کرنے کو " استطابہ" کہا جاتا ہے، کیونکہ پاک کرنا کسی چیز سے دلچسپی کا سبب بن جاتا ہے۔"
وہ قرآن مجید کی چند آیات کو بیان کرکے اس معنی کی وضاحت کرتے ہیں۔ من جملہ اس آیہ شریفہ کو بیان کرتے ہیں: يا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلالًا طَيِّباً وَ لا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّيْطانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ"؛" اے لوگوا جو کچھ زمین پر حلال و پاک ہے اسے تناول کرو اور شیطانی وسوسوں کی پیروی نہ کرو، کیونکہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے"۔[3]
صاحب قاموس کہتے ہیں :" کھانے کے جائز ھونے کی دو شرطیں ہیں: ایک، حلال ھونا یعنی اس میں دوسروں کا حق نہ ھو اور دوسری شرط دلچسپ اور طبیعت پسند ھونا، یعنی نفرت والی چیز نہ ھو، جیسے: گوبر اور فضلہ وغیرہ۔
اگر ہم حلال کو اس کے تمام شرائط کے ساتھ شرعی حلال جاننا چاہیں، تو ضروری ہے کہ ہم دوسری آیات و روایات سے استفادہ کریں ورنہ بظاہر حلال وہ ہے کہ اس میں دوسروں کا حق نہ ھو اور دوسروں کے حقوق سے نہ ٹکراتا ھو۔ شیطانی وسوسوں کے تابع ھونا بظاہر حلال و طیب سے تجاوز کرنا ہے۔ اس آیہ شریفہ سے استفادہ ھوتا ہے کہ جو چیز مطلق دلچسپ و پسندیدہ ھو اور اس میں دوسروں کا کوئی حق نہ ھو، اسے کھانا جائز ہے ۔
آیہ شریفہ میں طیبات اور خبائث سے مراد، حقیقی طیبات اور خبائث ہے اور ان کا معیار صرف لوگوں کا نظریہ نہیں ہے، اس لحاظ سے جو کچھ شرع میں حرام قرار دیا گیا ہے، وہ اس کی حقیقی خبائث کی وجہ سے ہے، اگر چہ عرف میں اس کو خبائث شمار نہیں کرتے ھوں، جیسے: زنا اور بے حیائی کہ بظاہر ممکن ہے بعض لوگ انھیں خبائث شمار نہ کرتے ھوں۔ اسی طرح ذبیحہ، جس میں اسلامی شرائط کی رعایت نہ کی گئی ھو اور حشرات اور درندوں کا گوشت وغیرہ کہ بہت سے لوگوں کی نظر میں خبائث شمار نہیں ھوتے ہیں، لیکن چونکہ یہ سب چیزیں حقیقت میں خبائث ہیں، اس لئے حرام ہیں اور جن محرمات کے بارے میں شرع میں بیان کیا گیا ہے، حقیقت میں وہ واقعی خبائث کی مثالیں ہیں کہ انسان ان کے بعض خبائث سے آگاہ نہیں ہے۔[4]
" قاموس قرآن" نامی کتاب کے مولف نے" طیب" کے معنی دلچسپی اور طبیعت پسندی کئے ہیں اور راغب اصفہانی سے نقل کرتے ھوئے کہتے ہیں: اصل میں "طیب" وہ چیز ہے جس سے انسان کے حواس اور نفس لذت محسوس کریں اور پاک کرنے کو " استطابہ" کہا جاتا ہے، کیونکہ پاک کرنا کسی چیز سے دلچسپی کا سبب بن جاتا ہے۔"
وہ قرآن مجید کی چند آیات کو بیان کرکے اس معنی کی وضاحت کرتے ہیں۔ من جملہ اس آیہ شریفہ کو بیان کرتے ہیں: يا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلالًا طَيِّباً وَ لا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّيْطانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ"؛" اے لوگوا جو کچھ زمین پر حلال و پاک ہے اسے تناول کرو اور شیطانی وسوسوں کی پیروی نہ کرو، کیونکہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے"۔[3]
صاحب قاموس کہتے ہیں :" کھانے کے جائز ھونے کی دو شرطیں ہیں: ایک، حلال ھونا یعنی اس میں دوسروں کا حق نہ ھو اور دوسری شرط دلچسپ اور طبیعت پسند ھونا، یعنی نفرت والی چیز نہ ھو، جیسے: گوبر اور فضلہ وغیرہ۔
اگر ہم حلال کو اس کے تمام شرائط کے ساتھ شرعی حلال جاننا چاہیں، تو ضروری ہے کہ ہم دوسری آیات و روایات سے استفادہ کریں ورنہ بظاہر حلال وہ ہے کہ اس میں دوسروں کا حق نہ ھو اور دوسروں کے حقوق سے نہ ٹکراتا ھو۔ شیطانی وسوسوں کے تابع ھونا بظاہر حلال و طیب سے تجاوز کرنا ہے۔ اس آیہ شریفہ سے استفادہ ھوتا ہے کہ جو چیز مطلق دلچسپ و پسندیدہ ھو اور اس میں دوسروں کا کوئی حق نہ ھو، اسے کھانا جائز ہے ۔
آیہ شریفہ میں طیبات اور خبائث سے مراد، حقیقی طیبات اور خبائث ہے اور ان کا معیار صرف لوگوں کا نظریہ نہیں ہے، اس لحاظ سے جو کچھ شرع میں حرام قرار دیا گیا ہے، وہ اس کی حقیقی خبائث کی وجہ سے ہے، اگر چہ عرف میں اس کو خبائث شمار نہیں کرتے ھوں، جیسے: زنا اور بے حیائی کہ بظاہر ممکن ہے بعض لوگ انھیں خبائث شمار نہ کرتے ھوں۔ اسی طرح ذبیحہ، جس میں اسلامی شرائط کی رعایت نہ کی گئی ھو اور حشرات اور درندوں کا گوشت وغیرہ کہ بہت سے لوگوں کی نظر میں خبائث شمار نہیں ھوتے ہیں، لیکن چونکہ یہ سب چیزیں حقیقت میں خبائث ہیں، اس لئے حرام ہیں اور جن محرمات کے بارے میں شرع میں بیان کیا گیا ہے، حقیقت میں وہ واقعی خبائث کی مثالیں ہیں کہ انسان ان کے بعض خبائث سے آگاہ نہیں ہے۔[4]
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے