Please Wait
کا
8951
8951
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2014/11/18
سوال کا خلاصہ
پیغمبر اسلام (ص) کے معراج پر جانے کا فلسفہ کیا ہے؟
سوال
پیغمبر اسلام (ص) کیوں معراج پر گئے؟ کیا خداوند متعال ہر جگہ پرموجود نہیں ہے؟
ایک مختصر
اس سوال پر بحث کرنے سے پہلے ہم یاد دہانی کرتے ہیں کہ معراج کا مقصد صرف قرب الہی نہیں ہے، بلکہ اس کے دوسرے مقاصد بھی مد نظر تھے۔ ہم اس مقاصد کے سلسلہ میں بحث کرتے ہیں۔ لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ اگر چہ خداوند متعال ہر جگہ پر حاضر ہے، لیکن بعض مواقع پر اس کے ساتھ قوی تر رابطہ بر قرار کیا جاسکتا ہے،اس قسم کی حالت کو حج میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔
لیکن معراج کا مقصد، جیسا کہ بعض تفاسیر میں آیا ہے، یہ تھا کہ پیغمبر اسلام (ص) عالم ہستی، خاص کر عالم بالا میں خداوند متعال کی عظمت کے اسرار کا مشاہدہ کرکے لوگوں کی ہدایت کے لئے ایک تازہ ادراک و نظریہ حاصل کرسکیں۔ بہ مقصد سورہ اسراء کی ابتداء اور سورہ نجم کی آیت نمبر 18 میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔[1]
احادیث کی کتابوں میں بھی پیغمبر اسلام (ص) کے معراج کے بعض مقاصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، من جملہ:
1۔ یونس بن عبدالرحمن کہتے ہیں: میں نے امام کاظم (ع) سے پوچھا: خداوند متعال کس وجہ سے اپنے پیغمبر (ص) کو آسمان کی طرف اوپر لے گیا اور وہاں سے سدرة المنتہی کی طرف اور وہاں سے نور کے حجابوں کی طرف لے گیا اور وہاں پر ان کے ساتھ گفتگو اور سرگوشیاں کیں، حتی کہ خداوند متعال کی مکان سے توصیف نہیں کی جاسکتی ہے اور اس کے لئے زمان معنی نہیں رکھتا ہے، لیکن خداوند متعال نے چاہا کہ اپنے فرشتوں اور آسمانوں کے ساکنوں کی، پیغمبر (ص) کو دکھا کر نوازش کرے اور اپنی تخلیق کے عجائبات اپنے پیغمر(ص) کو دکھائے تاکہ وہاں سے لوٹنے کے بعد لوگوں کو خبر دیدیں اور یہ مسئلہ اس طرح نہیں ہے جیسا کہ فرقہ مشبّہہ کہتے ہیں۔[2] خداوند متعال ان چیزوں سے پاک و منزہ ہے، جو اس کی توصیف میں کہا جاتا ہے"۔[3]
2۔ ثابت دینار کہتے ہیں: میں نے امام زین العابدین(ع) سے پوچھا:" کیا خداوند متعال کا ( معین و مخصوص) کوئی مکان ہے جہاں پر وہ رہتا ہے؟ امام نے جواب میں فرمایا: خداوند متعال اس سے پاک و منزہ ہے(کہ اس کے بارے میں کسی خاص مکان کا تصور کیا جائے"۔) میں نے پوچھا: پس خداوند متعال کیوں حضرت محمد (ص) کو آسمان پر لے گیا؟ امام (ع) نے جواب میں فرمایا: ( آنحضرت (ص) کو آسمان کی طرف لے جانے کی یہ دلیل نہیں ہے کہ خداوند متعال کا کوئی خاص مکان ہے بلکہ آنحضرت (ص) کو آسمان پر لےگیا تاکہ عالم ملکوت کا انھیں مشاہدہ کرائے۔ اور اپنی تخلیق کے عجائبات کو انھیں دکھائے"۔[4]
لیکن معراج کا مقصد، جیسا کہ بعض تفاسیر میں آیا ہے، یہ تھا کہ پیغمبر اسلام (ص) عالم ہستی، خاص کر عالم بالا میں خداوند متعال کی عظمت کے اسرار کا مشاہدہ کرکے لوگوں کی ہدایت کے لئے ایک تازہ ادراک و نظریہ حاصل کرسکیں۔ بہ مقصد سورہ اسراء کی ابتداء اور سورہ نجم کی آیت نمبر 18 میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔[1]
احادیث کی کتابوں میں بھی پیغمبر اسلام (ص) کے معراج کے بعض مقاصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، من جملہ:
1۔ یونس بن عبدالرحمن کہتے ہیں: میں نے امام کاظم (ع) سے پوچھا: خداوند متعال کس وجہ سے اپنے پیغمبر (ص) کو آسمان کی طرف اوپر لے گیا اور وہاں سے سدرة المنتہی کی طرف اور وہاں سے نور کے حجابوں کی طرف لے گیا اور وہاں پر ان کے ساتھ گفتگو اور سرگوشیاں کیں، حتی کہ خداوند متعال کی مکان سے توصیف نہیں کی جاسکتی ہے اور اس کے لئے زمان معنی نہیں رکھتا ہے، لیکن خداوند متعال نے چاہا کہ اپنے فرشتوں اور آسمانوں کے ساکنوں کی، پیغمبر (ص) کو دکھا کر نوازش کرے اور اپنی تخلیق کے عجائبات اپنے پیغمر(ص) کو دکھائے تاکہ وہاں سے لوٹنے کے بعد لوگوں کو خبر دیدیں اور یہ مسئلہ اس طرح نہیں ہے جیسا کہ فرقہ مشبّہہ کہتے ہیں۔[2] خداوند متعال ان چیزوں سے پاک و منزہ ہے، جو اس کی توصیف میں کہا جاتا ہے"۔[3]
2۔ ثابت دینار کہتے ہیں: میں نے امام زین العابدین(ع) سے پوچھا:" کیا خداوند متعال کا ( معین و مخصوص) کوئی مکان ہے جہاں پر وہ رہتا ہے؟ امام نے جواب میں فرمایا: خداوند متعال اس سے پاک و منزہ ہے(کہ اس کے بارے میں کسی خاص مکان کا تصور کیا جائے"۔) میں نے پوچھا: پس خداوند متعال کیوں حضرت محمد (ص) کو آسمان پر لے گیا؟ امام (ع) نے جواب میں فرمایا: ( آنحضرت (ص) کو آسمان کی طرف لے جانے کی یہ دلیل نہیں ہے کہ خداوند متعال کا کوئی خاص مکان ہے بلکہ آنحضرت (ص) کو آسمان پر لےگیا تاکہ عالم ملکوت کا انھیں مشاہدہ کرائے۔ اور اپنی تخلیق کے عجائبات کو انھیں دکھائے"۔[4]
[1]۔ ملاحظہ ھو: مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ج 12، ص 17، دارالکتب الاسلامیة، تھران، طبع اول، 1374ش۔
[2]۔ فرقہ مجسّمہ و مشبہہ، بعض روایتوں کے ظاہر سے یہ تصور کرتے ہیں کہ خداوند متعال کا ظہور انسان کا جیسا ہے، جس کے رخسار انسان کے مانند، چشم و گوش اور جسم و دست و پا انسانوں کے مانند رکھتا ہے۔ اسی طرح تصور کرتے ہیں کہ ذات اقدس الہی کی کمال معرفت اس میں ہے کہ انسان یہ اعتقاد رکھے کہ خداوند متعال تمام مخلوقات کے اوپر عرش و کرسی پر بیٹحا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے مخالفوں کے بارے میں غلط فکر کرتا ہے ۔ جہاں پر وہ کہتے ہیں: خدا وند متعال کا کوئی خاص مکان نہیں ہے اور وہ ہر جگہ پر ہے"۔ مجسمہ و مشبہہ کے پیرو تصور کرتے ہیں کہ وہی مادی جسم خدا کے لئے بھی ہے جبکہ ان کے مخالف کہتے ہیں خداوند متعال کا جسم نہیں ہے کہ کسی جگہ پر ہو۔ ملاحظہ ہو: عسکری، سید مرتضی، نقش ائمہ در احیای دین، ج 2، ص 353، مرکز فرھنگی انتشارات منیر، تھران، 1382ش۔
[3]۔ شیخ صدوق، علل الشرائع، ج 1،ص 132، کتابفروشی داوری، قم، طبع اول، 1385ش۔
[4]۔ ایضاً، ص131۔132۔
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے