Please Wait
9707
- سیکنڈ اور
قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق، علم غیب مکمل صورت میں صرف خداوند متعال کے اختیار میں ہے کہ تمام کائنات پر جہت سے احاطہ رکھتا ہے- خداوند متعال کے بعض نیک اور شائستہ بندوں کو بھی خدا کی تعلیم اور ان کی نفسانی شائستگی کی بناپر کچھ علوم کے اسرار اور علم غیب کے بارے میں آگاہی حاصل ھوتی ہے اور نا قابل دید چیزوں کو دیکھتے ہیں اور نا قابل سماعت چیزوں کو سنتے ہیں- اور یہ ایک لطف الہی ہے جو خداوند متعال کی طرف سے انبیاء {ع} اور اولیائے الہی کو عطا ھوتا ہے- لہذا ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ انبیائے الہی وحی{ جو ایک غیبی امر ہے} اور یا دوسرے غیبی امور کے بارے میں خبر دیتے ہیں- مستقبل کے حوادث کے بارے میں پیشنگوئی کرتے ہیں اور بالکل ان کی پیشنگوئیوں کے مطابق حوادث واقع ھوتے ہیں- اور چونکہ پیغمبر اسلام {ص} کے بعد ائمہ معصومین {ع}انسانوں کی ہدایت کرنے کے لئےتمام مادی اور معنوی لحاظ کے مامور ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ وہ بھی بہت سے غیبی امور سے باخبر و آگاہ ھوں – اسی بنا پر جن امور میں غیب کےبارے میں باخبر ھونا ضروری ہو اور وہ اس کا مطالبہ کریں تو خداوند متعال اس علم کو ان کے اختیار میں قرار دیتا ہے-
"غیب" کسی چیز کے حواس و ادراک سے پوشیدہ ھونے کے معنی میں ہے ، اور شہادت، آشکار ھونے کے معنی میں ہے – ایک چیز، ممکن ہے کسی کے لئے غیب ھو اور کسی دوسرے کے لئے مشہود ھو- یہ امر اس شخص کے وجودی حدود اور عالم وجود پر اس کے احاطہ سے وابستہ ہے- قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق، علم غیب مکمل صورت میں صرف خداوند متعال کے اختیار میں ہے کہ تمام کائنات پر ہر جہت سے احاطہ رکھتا ہے- قرآن مجید اس سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے: "کہدو: غیب { اور معجزات} صرف خدا کے لئے { اور اس کے حکم سے } ہے"-[1] غیرخدا کی محدودیتوں اور خداوند متعال کے ہر چیز پر مکمل احاطہ کے پیش نظر، ظاہر ہے کہ علم غیب، صرف خداوند متعال سے مخصوص ہے اور اس کے علاوہ کوئی علم غیب نہیں رکھتا ہے اور وہ عالم غیب اور شہادت سے آگاہ ہے اور حقیقت میں تمام چیزیں اس کے لئے مشہود ہیں، لیکن دوسروں کے لئے غیب ہیں، ان میں سے بعض چیزیں ان کے لئے مشہود ہیں لیکن کچھ چیزیں ان کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں ،ان کے بارے میں وہ کوئی آگاہی نہیں رکھتے ہیں یا انتہائی معمولی درجہ کی آگاہی رکھتے ہیں-
اس بنا پر علم غیب کا خداوند متعال سے مخصوص ھونے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ بعض افراد، خداوند متعال کی تعلیم اور ان کی اپنی نفسانی شائستگی کی بناپر، بعض اسرار اور غیبی امور کے بارے میں آگاہ ھوں اور نا قابل دید چیزوں کو دیکھ سکیں اور نا قابل سماعت چیزوں کو سن سکیں- یہ خداوند متعال کی طرف سے انبیاء{ع} و اولیائے الہی کو عطا ھونے والی ایک مہربانی اور عنایت ھوتی ہے – لہذا ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ انبیاء {ع} وحی{ جو ایک غیبی امر ہے} اور یا دوسرے غیبی امور کے بارے میں آگاہ ھوتے ہیں یا مستقبل میں رونما ھونے والے حوادث کے بارے میں پیشنگوئی کرتے ہیں اور ان کی پیشنگوئی کے بالکل مطابق واقعات رونما ھوتے ہیں وغیرہ-[2]
اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے اور قابل بحث ہے کہ کیا ائمہ معصومین {ع} مطلق علم غیب رکھتے تھے اور تمام ماضی اور مستقبل میں رونما ھونے والے حوادث کے بارے میں اور اپنی شہادت کے زمان و مکان کے بارے میں علم رکھتےتھے – بعض افراد وسیع پیمانہ پر ائمہ معصومین{ع} کے علم کے منکر ہیں-
لیکن اکثر شیعہ علماء قرآن مجید کی بعض آیات ، جیسے: " خدا صاحبان ایمان کو انھیں حالات میں نہیں چھوڑ سکتا جب تک خبیث اور طیب کو الگ الگ نہ کردے اور وہ تم کو غیب پر مطلع بھی نہیں کرنا چاہتا، ہاں اپنے نمایندوں میں سے کچھ لوگوں کو اس کام کے لئے منتخب کر لیتا ہے-[3] اور" وہ عالم غیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا ہے، مگر جس رسول کو پسند کر لے تو اس کے آگے پیچھے نگہبان فرشتے مقرر کر دیتا ہے-"[4] سے استناد کر کے اعتقاد رکھتے ہیں کہ اولیائے الہی بھی، جن امور میں ضروری ھو غیب کا علم رکھتے ہیں ، اس مطلب کا ائمہ معصومین{ع} کی روایتوں سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے- امام صادق {ع} اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:" جب امام ارادہ کرتا ہے کہ کسی چیز کو دیکھ لے ، تو خداوند متعال اسے تعلیم دیتا ہے-"[5]
اس بنا پر، اس قسم کی آیات کے پیش نظر اور اس کے پیش نظر کہ چونکہ انبیاء انسان کو تمام مادی اور معنوی لحاظ سےہدایت کرنے کے لئے مامور تھے، اس لئے ان کو علم و دانش سے کافی حد تک آراستہ ھونا چاہیئے تاکہ اس ماموریت کو بخوبی انجام دے سکیں اور پیغمبر اکرم {ص} کے جانشین اماموں کے لئے بھی یہی حکم ہے، اس لئے ان کے پاس بھی وسیع پیمانےپر علم غیب ھوتا ہے-[6]
اس سلسلہ میں امام صادق {ع} سے ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ {ع} نے فرمایا:" جب امام ارادہ کرتا ہے کہ کسی چیز کو دیکھ لے تو خداوند متعال اسے تعلیم دیتا ہے-"[7]
[1] یونس، 20
[3] آل عمران ، 179مَّا كاَنَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلىَ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتىَ يَمِيزَ الخَْبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَ مَا كاَنَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلىَ الْغَيْبِ وَ لَاكِنَّ اللَّهَ يجَْتَبىِ مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فََامِنُواْ بِاللَّهِ وَ رُسُلِهِ وَ إِن تُؤْمِنُواْ وَ تَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ
[4] الجن 26و27عَلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلىَ غَيْبِهِ أَحَدًاإِلَّا مَنِ ارْتَضىَ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَينِْ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا
[5] کلینی، اصول کافی، ج 1، باب، ان الائمه اذا شا ؤوا ان یعلموا، علموا، ح 3اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے ملاحظہ ھو: عنوان: انسان و آگاهی از علم غیب، سؤال 2298.
[6] البتہ غیب کی آگاہی ہر جگہ پر کمال کی علامت نہیں ہے ، بلکہ بعض اوقات نقص شمار ھوتی ہے- مثال کے طور پر جس رات کو امام علی {ع} پیغمبر اکرم {ص} کے بسترے پر سو گئے، اگر حضرت علی {ع} کو علم ھو تاکہ اسے کوئی خطرہ نہیں ہے، تو وہ حضرت کے لئے کمال نہیں ھوتا، کیونکہ اس صورت میں سب آنحضرت {ص} کے بسترے پر سونے کے لئے حاضر ھوتے- یہاں پر علم نہ رکھنا ہی کمال ہے { قرآتی، تفسیر نور، ج ۴، ص ۲۴۵}
[7] عنوان: علم غیب امامان بہ شہادت خود، سوال: ۵۷۹{ سائٹ ۶۲۱} کا اقتباس-