Please Wait
7400
اس کے پیش نظر که ائمه اطهار علیهم السلام هر قسم کے گناه، خطا اور بھول چوک سے پاک و منزه هیں،ائمه اطهار علیهم السلام کے صحیح کردار اور سیرت کے بارے میں اعتقاد رکھنا چاهئے اور همیں اپنی طاقت کے مطابق ان کے اسرار ودلائل کشف کر نے کی کوشش کر نی چاهئے تاکه اپنی زندگی میں نمو نه عمل کے عنوان کے تحت ان سے استفاده کریں-
دوسری جانب ائمه اطهار علیهم السلام کے طریقه کار اور سیرت کا تجزیه کر کے ان کی تمام پالیسیوں کے بارے میں ان کی عقلمندی اور دور اندیشی کو معلوم کیا جاسکتا هے ، کیوں ائمه اطهار علیهم السلام کا طریقه کار اور پالیسی پوری تاریخ میں موثر هو نے اور سر انجام کا میابی کے پیش نظر ھی هوتی هے –حضرت علی علیه السلام کی خاموشی نے دشمنوں کے ناجائز فائده اٹھانے کے منصوبوں کو ناکام بنادیا تاکه اسلام کا تازه پودا اپنی رشد و بالیدگی کو جاری رکھـ سکے-
حضرت علی علیه السلام خود فر ماتے هیں که ان کی خاموشی کا محرک اسلامی اتحاد کا تحفظ اور عالم اسلام کی مصلحتوں کا لحاظ کر نا تھا-
ائمهاطهارعلیهم السلام کے طرز عمل اور سیرت کے بارے میں دو زاویوں کو مد نظر رکھـ کر فیصله کیا جاسکتا هے-
اولاً: ائمه اطهار علیهم السلام معصوم هیں اور ان کا قول وفعل اور بیان هرقسم کی بھول چوک سے پاک و منزه هے، خاص کر ان مواقع میں جو معاشره کی امامت و هدایت سے متعلق هیں - ا یسے مواقع کے سلسله میں ائمه اطهار علیهم السلام کی عصمت کے بارے میں تمام علمااتفاق نظر رکھتے هیں-اس بنیادی اصول کی پابندی کر تے هوئے ائمه اطهار علیهم السلام کے طرز عمل اور سیرت کے صحیح هو نے کا اعتقاد رکھنا چاهئے اور همیں اپنی طاقت کے مطابق اس کے اسرا ر اور دلائل معلوم کر نے کی کوشش کر نی چاهئے تاکه اپنی زندگی میں نمونه عمل کے طور پر اس سے استفاده کریں –
ثانیاً : غور وخوض کے نتیجه میں ائمه اطهار علیهم السلام کی پالیسیوں اور فیصلوں کے بارے میں ان کی عقلمندی اور دور اندیشی کو پایا جاسکتا هے ، کیونکه ائمه اطهار علیهم السلام کا طرز عمل اور پالسیاں ، پوری تاریخ میں موثر هو نے اور حق کی باطل پر آخر کار فتح کے پیش نظرهوا کرتی هیں – اگر چه ان کے اپنے زمانه میں یه کامیابی حاصل نه هو پائے اور وه اپنی زندگی میں بے شمار رنج اور مصیبتوں سے دو چار هو جائیں اور انھیں بر داشت کریں – اس لحاظ سے امام علی علیه السلام کا صبر و خاموشی پوری تاریخ میں آپ (ع) کی مظلو میت کی ایک واضح فر یاد هے – حضرت علی علیه السلام کی خاموشی نے دشمنوں کے ناجائز فائده اٹھانے کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا- ، چنانچه ابو سفیان امام علی علیه السلام کی بیعت اور خلفا کے خلاف اقدام کر نے کے لئے آماده هو چکا تھا-لیکن امام علی علیه السلام نے آگاهی اور دور اندیشی سے مسلمانوں کے اس بد خواه کی تجویز کو ٹھکرا دیا-
ایک دن جب حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها نے امام علی علیه السلام سے پو چھا : آپ اتنی طاقت اور توانائی رکھنے کے باوجود ان نکموں کو تنبیه کر نے کے سلسله میں کوئی اقدام کیوں نهیں کر تے؟ توآپ(ع) نے فر مایا : " اگر تم چاهتی هوکه تمھارے والد گرامی ر سول الله(صلی الله علیه وآله وسلم)کا نام اسی طرح باقی رهے تو همیں صبر کر نا چاهئے"-[1] ایک اور هدایت کے مطابق امام علی علیه السلام نے فر مایا : " خدا کی قسم اگر دین کی نابودی ، کفر کے پلٹنے اور مسلمانوں کی پرا کندگی کا خطره نه هو تا تو میں اس طرح صبر نه کر تا-"[2]
مذکوره دو تاریخی نمونے اور دوسرے بے شمار نمو نے اس بات کی دلالت کرتے هیں که زمانه کی حساسیت کا تقاضا تھا که اهل بیت علیهم السلام ، خاص کر امام علی علیه السلام ظاهری اسلام کے تحفظ کے لئے بھی ، جیسا که بیان هوا ،صبر کریں اور " آنکھـ میں کانٹے اور گلے میں هڈی" کے مانند زندگی گزاریں-
لیکن اهم نکته یه هے که اس صبر کے ضمن میں ، حق وحقیقت بھی تاریخ میں واضح هو جائے اور پوری تاریخ میں ظلم و خیانت کی تاریکی تمام لوگوں کے لئے عیاں هو جائے – امام علی(ع) اور حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها کی حکمت عملی یهی تھی که، انهوں نے رنج و مصیبت کو اس طرح بر داشت کیا که ظالموں کی رو سیاھی پوری تاریخ میں دور نه هو سکے اور هر انصاف پسند انسان اهل بیت علیهم السلام کی حقانیت کی گواهی دے-
لهذا ایک کلی اصول کے طور پر کها جاسکتا هے که: اگر مظلو میت کے ذریعه حق کا اظهار کیا جائے تو وه زیاده پائیدار هو تا هے اور جس قدر مظلو میت زیاده هو پوری تاریخ میں اس کا اثر زیاده هو گا- "حقانیت ومظلو میت" کے ملاپ کا نقطه عروج اهل بیت علیهم السلام خاص کر امام علی (ع) ، حضرت فاطمه زهرا (ع) اور امام حسین علیهم السلام کی زندگی میں مشاهده کیا جاسکتا هے- اس لحاظ سے اگر چه حضرت علی علیه السلام کو بیعت کے لئے گھیسٹ کر لے جانا اور اس سلسله میں حضرت زهرا علیها سلام کی مصیبتیںتاریخی اور ظاهری لحاظ سے ایک " زبر دستی" اور واضح ظلم تھا، لیکن ملکو تی اور معنوی لحاظ سے ایک " انتخاب" تھا- اسی لئے بعض اهل معرفت نے کها هے که: " علی(ع) کو زبر دستی نهیں لے جایا گیا بلکه وه خود گئے، لیکن اس طرح که پوری تاریخ میں غاصبوں کے ظلم سے کوئی انکار نه کر سکے-"