Please Wait
6722
ایک متن کے اعتبار کو صرف اس کی ابتداء میں خلاصہ سے ہی موازنہ نہیں کرنا چاھیئے اگر چہ اس طریقہ کار کو بعض علمی تحقیقات کے لیے مناسب جانا جاسکتا ہے۔ لیکن ہم اس وقت بھی مشاھدہ کررہے ہیں کہ مسلمانون کے بہت سے معتبر دینی دائرۃ المعارف، گوناگون مسائل کو ایک خاص مقصد کے پیش نظر پیش کرتے ہیں، اکثر موارد میں اس روش سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس سے ان کے اعتبار کو کوئی خدشہ نہیں پہنچتا ہے۔
قرآن مجید بھی مسلمانوں کا سب سے اہم دینی دائرۃ المعارف ہے اور گوناگون مسائل کو ایک مقصد کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اکثر مواقع پر اس روش سے استفادہ نہیں کیا جاتا ہے کیونکہ اس قسم کا خلاصہ پیش کرنا سورہ میں موجود مطالب کو بہتر صورت میں ادراک کرنے میں کوئی خاص اثر نہیں رکھتا ہے۔
جواب کی ابتداء میں ہم عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اگرچہ حجیم جزئی مسائل کے بارے میں تحقیق کی روش یہی ہے جو آپ نے اپنے سوال میں بیان کی ہے اور اکثر تھیسز اور علمی مقالے بھی ایک روش میں تدوین ہوتے ہیں لیکن اس موضوع سے ایک کلی نتیجہ حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کا ہر معتبر متن اس روش کے مطابق ہونا چاھیئے اور اگر ایسا نہ ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
اس قسم کے متون کے قابل اعتبار نہ ہونے کی صورت میں ہمیں قبول کرنا چاہیئے کہ اکثر قدیمی دانشوروں کی کتابیں اور تحقیقات اس روش سے استفادہ نہیں کرتے تھے اور اس کے علاوہ جن کتابوں میں کلی موضوعات پیش کئے جاتے ہیں ان کے لیے خلاصہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی یے ایسا نہیں ہے کہ اس قسم کی کتابیں قابل استناد اور معتبر نہ ہوں بیشک آپ بھی اس قسم کے نظریہ کو قبول نہیں کریں گے۔
اس بنا پر ، کسی متن کے اعتبار کو اس کی ابتداء میں خلاصہ لکھنے کی شرط سے مخصوس نہیں کیا جاسکتا ہے اور اصولی طور پر متون کے لیے خلاصہ نویسی کی روش پیش کرنا صرف ان تالیفات سے متعلق جانا جاسکتا ہے جن میں شرح و تفسیر زیادہ ہو اور مطالب مکرر لکھے گئے ہوں اور ان میں کافی جزئیات پائے جاتے ہوں قدرتی بات ہے کہ جو شخص اس قسم کی تالیفات کا مطالعہ کرنا چاھتے ہیں اگر اس کی ابتداء میں مولف کا مقصد ایک خلاصہ میں بیان کیا گیا ہو تو اس کا تجزیہ و تحلیل آسانی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے لیکن جن تالیفات کی ابتداء میں خلاصہ بیان کرنے سے اس کے کلی مطالب کو سمجھنے میں کوئی مدد نہ ملے تو اس صورت میں ایسا لگتا ہے کہ اس قسم کا خلاصہ نہ صرف اس کے اعتبار کا سبب بن سکتا ہے بلکہ یہ ایک اضافی تحریر ھوگی کہ جس کامطالعہ کرنے والے کا وقت ضائع کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا فائدہ نہیں ہوگا اور اس بناپر ایسے دائرۃ المعارف جن میں متون درج ہوتے ہیں، عام طور پر ان کی ہر فصل کی ابتداء میں کوئی خلاصہ پیش نہیں کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس میں موجود مطالب قابل اعتبار ہوتے ہیں-
اس سلسلہ میں ، جاننا چاھیے کہ قرآن مجید کے سورے حقیقت میں ایسے دائرۃ المعارف ہیں جن میں گوناگون مطالب درج ہیں جن کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے اکثر موارد میں سورہ کی ابتداء میں اس کا خلاصہ بیان کرنا آیات کو بہتر صورت میں سجمھنے میں کوئی مدد نہیں کرسکتا ہے البتہ بعض موارد جن کے لیے خلاصہ بیان کرنا پڑھنے والے کو پرورردگار کے مقاصد کو سمجھنے میں مدد کرسکتا ہے وہاں پر اس قسم کا خلاصہ موجود ہے مثال کے طور پر سورہ یوسف کہ جس کی ابتداء میں اس ییغمبر الھی اور اس کے بھائیوں کی داستان کو خلاصہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ ان حوادث میں پروردگار کی قدرت کی بکثرت نشانیاں پائی جاتی ہیں[1] اور اس طرح اس داستان کی نسبت مفصل تشریح پیش کرنے کے سلسلہ میں خداوند متعال کا اصلی مقصد اعلان کیا گیا ہے اور یہ کہ یہ سورہ صرف داستان سرائی نہیں کرتا ہے ، اس کے بعد سورہ کے اختتام تک ان الہی نشانیوں کو ایک ایک کرے بیان کیا گیا ہے۔