Please Wait
8961
اگرچھ آج کی دنیا میں موجود ادیان کے بعض حقائق قابل مشاهده ھیں، لیکن حقیقت کی مکمل صورت ، یعنی حقیقی توحید صرف اسلام میںقابل مشاھده ھے ، اس دعوی کو ثابت کرنے کی سب سے اھم دلیل ، ان ادیان میںقابل اعتبار سند کا فقدان اور ان کی کتابوں میں عقلی تحریف و تناقض کا وجود ھے جبکھ اس کے مقابل اسلام میں تحریف سے پاک و منزه قرآن مجید ، قابل اعتبار سند اور تاریخ ، دین اسلام کی جامعیت اور اس کی تعلیمات ھیں جو عقل سلیم سے ھم آھنگ ھیں۔
جواب واضح ھونے کے لئے مندرجھ ذیل چند مطالب پر بحث و تحقیق کرنا ضروری ھے:
الف) اسلام کے علاوه دنیا میںموجود ادیان کی عدم کفایت:
اسلام کے علاوه دنیا میںموجود ادیان کی عدم کفایت بیان کرنے سے پھلے ضروری ھے کھ قارئین کرام کی توجھ کو درج ذیل دو نکات کی طرف مبذول کریں:
پھلا نکتھ : ھماری مراد یھ نھیں ھے کھ جو کچھه موجوده ادیان میں ھے ، وه سب باطل ھے اور ان میں کوئی بھی حق بات پائی نھیں جاتی بلکھ ھمارا مقصد یھ ھے کھ موجوده ادیان میں ایسے مطالب پائے جاتے ھیں جو قابل قبول نھیں ھیں اور یھ ادیان مکمل حقیقت کی ترجمانی نھیں کرسکتے ھیں۔
دوسرا نکتھ : ھم اس مختصر تحقیق میںموجوده دنیا کے دو اھم ادیان یعنی عیسائیت اور یھودیت کے ناکافی ھونے کا ایک سرسری جائزه لیں گے اس طرح دوسرے ادیان کی جو ان دو ادیان کے مقابل میںمقبولیت اور اعتبار کے لحاظ سے کم تر درجے کے ھیں ، حیثیت خود بخود معلوم ھوجائے گی ۔
وه دلائل جو ثابت کرتے ھیں کھ موجوده عیسائیت حقیقت کی مکمل ترجمان نھیں ھوسکتی ھے ، مندرجھ ذیل ھیں:
۱۔ انجیل متواتر نھیں ھے اور اس کی سند قطعی نھیں ھے ۔
حضرت عیسی علیھ السلام ، بنی اسرائیل میںسے تھے ، آپ (ع) کی زبان عبرانی تھی اور آپ نے بیت المقدس میں نبوت کا اعلان کیا ، وھاں کےباشندے بھی عبرانی تھے اور صرف ایک معمولی تعداد کے علاوه حضرت عیسی علیھ السلام پر ایمان نھیں لائے جن کے بارے میںبھی ھمیں کوئی اطلاع نھیں ھے ، لیکن بیت المقدس کے باشندوں میںسے چند افراد ، جو یونانی زبان جانتے تھے ، ایشیائے صغیر میںپھیل گئے اورلوگوں کو عیسائیت کی طرف دعوت دی ، اوریونانی زبان میںچند کتابیں لکھیں ، اور ان کتابوں میں کچھه مطالب شامل کرکے یونان اور روم کے باشندوں سے کھا: (حضرت عیسی نے یوں کھا اور کیا ۔ جنھوں نے حضرت عیسی علیھ السلام کو دیکھا تھا اور ان کے اعمال و اقوال کے شاھد تھے اور ان کی زبان کو جانتے تھے ، وه فلسطین میںتھے اور حضرت عیسی علیھ اسلام کو پیغمبر کے عنوان سے قبول نھیں کرسکے تھے ، اس لئے ، انھوں نے یونانی زبان میںلکھی گئی حکایتون کو جعلی کھا، جن لوگون نے ان کتابون اورحکایتوں کو قبول کیا وه دور رھنے والے لوگ تھے جنھوں نے نھ شھر بیت المقدس کو دیکھا تھا اور نھ حضرت عیسی علیھ السلام کو دیکھا تھا اور نھ ان کی زبان جانتے تھے ، اگر انجیل میںلکھی گئی داستانیں جھوٹ بھی ھوتین تو نھ لکھنے والوں کے لئے کوئی ممانعت تھی اور نھ سننے والوں کے لئے ان کی تردید کرنے کی گنجائش تھی۔
مثلا ، انجیل متی میںآیا ھے کھ جب حضرت مسیح علیھ السلام پیدا ھوئے ، مشرتق سے کئی مجوسی آگئے اور پوچھا : جو یھودی بادشاه پیدا ھوا ھے کھاں ھے ؟ ھم نے اس کے ستاره کو مشرق میںدیکھا ھے ۔ انھوں نے اسے نھیں دکھایا ، اچانک اسی ستاره کو دیکھا کھ آسمان پر حرکت کرتے ھوئے حضرت عیسی علیھ السلام کے گھر کے اوپر رک گیا ، تب وه سمجھه گئے کھ حضرت عیسی اسی گھر میں ھیں ، اس قسم کی حکایت انجیل میں لکھی گئی ھے ، جو بالکل جعلی ھے ، انھوں نے اسے انجیل میںلکھا ھے اور رسوائی کی پروا بھی نھیں کی ھے ۔ اس لئے کھ عبرانی زبان میںبیت المقدس کے باشندوں کے لئے نھیں لکھا ھے ۔ بلکھ اجنبیوں کے لئے لکھا ھے اور اجنبیوں میںزیاده مبالغھ کیا جاسکتا ھے ۔ھمارا یقین ھے کھ کئی بھی نجومی یھ اعتقاد نھیں رکھتا ھے کھ ھر شخص کی پیدائش پر ایک ستاره پیدا ھوتا ھے اور اس کے سر پر حرکت کرتا ھے ، نھ مجوسیوں کا یھ اعتقاد ھے اور نھ غیر مجوسیوں کا ، اس کے علاوه قدیم عیسائی حضرت عیسی علیھ السلام کے قتل کئے جانے پر اختلاف نظر رکھتے تھے ۔ بعض انجیلوں میںلکھا گیا تھا کھ حضرت عیسی علیھ السلام ھر گز قتل نھیں کئے گئے ھیں ، کیوں کھ اگر کوئی شھر میںقتل کیا جائے تو اس امر کی طرف لوگوں کی کثرت توجھ کے پیش نظر یھ امر مخفی نھیں رھتا ، خاص کر اگر کسی کو پھانسی پر لٹکایا جائے ، لیکن چونکھ انجیل لکھتے والوں نے اسے اجنبیوں کے لئے اور اجنبیوں کی زبان میںلکھا ھے اور یھ اجنبی بیت المقدس میں نھیں تھے تا کھ حضرت عیسی علیھ السلام کے قتل کئے جانے کے بارے میں آگاه ھوجاتے ، انجیل لکھنے والوں نے پوری آزادی کے ساتھه جو مصلحت سمجھی اسے لکھه ڈالا ھے اور کوئی پروا نھیں کی ھے ، حضرت مسیح علیھ السلام کے تین سو سال بعد ایک مجلس تشکیل دی گئی اور عیسائی علماء نے صلاح مشوره کیا کھ اس سلسلھ میںموجود اختلافات کو کیسے دور کیا جائے انھوں نے اس بات پر اتفاق کیا کھ تمام انجیلوں میں سے صرف چار انجیلوں کو منتخب کریں اور ان کے مطالب کو صحیح جان لیں اور باقی انجیلوں کو باطل قرار دیں ، جن کی کوئی حد نھیں تھی۔ انجیلوں میںحضرت عیسی علیھ السلام کے قتل نه کئے جانے کو مسترد کیا گیاَ [1]
۲۔ عیسائیت کے ناکافی ھونے کی دوسری دلیل ، موجوده انجیل میںتحریف و تناقض کے متعدد مقامات کا ھونا ھے ، اس سلسلھ میںمزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مندجھ ذیل کتابون کا مطالعھ کیا جاسکتا ھے:
۔ راه سعات تالیف : علامھ شعرانی ۔[2]
۔ " اظھار حق " تالیف : فاضل ھندی ۔
" قرآن مجید اور دوسری آسمانی کتابیں" تالیف : شھید ھاشمی نژاد۔
۳۔ تیسری دلیل ، مسیحیت کے بعض عقائد کا عقل و منطق سے سازگار نھ ھونا ھے ۔ مثلا یھ کھ یھ لوگ اعتقاد رکھتے ھیں کھ خدا کا بیٹا انسان کے روپ میںمجسم ھوگا یھ ، انسانوں کے گناھوں کو اپنے ذمھ لیتا ھے اور صلیب پر لٹکائے جانے کا رنج و الم برداشت کرکے لوگوں کے گناھوں کا کفاره ادا کرتا ھے ۔ انجیل یوحنا میں یوں لکھا گیا ھے : " کیونکھ خداوند متعال ، دنیا کو اس قدر دوست رکھتا ھے کھ اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بھیجا ، جو اس پر ایمان لائے وه هلاک نھیں ھوگا ، بلکھ جاودانی حیات پائے گا ، کیوں کھ خدا وند متعال نے اپنے بیٹے کو اس لئے دنیا میںنھیں بھیجا ھے کھ وه دنیا پر حکومت کرے بلکھ اس لئے بھیجا ھے کھ اس کے ذریعھ دنیا نجات پائے" [3]
دین ، یھودیت کے بارے میں بھی یھی اشکالات پائے جاتے ھیں ، کیوں کھ اولا توریت کے تین نسخے ھیں :
عبرانی نسخھ ، جو یھود اور پروٹسٹنٹ علماء کے نزدیک قابل اعتبار ھے ۔
۲۔ سامری نسخھ ، جو سامریوں ( بنی اسرائیل کے ایک دوسرے گروه ) کے نزدیک قابل اعتبار ھے ۔
۳۔ یونانی نسخھ ، جو غیرپروٹسٹنٹ یھودی علماء کے نزدیک قابل اعتبار ھے۔
سامریوں کا نسخھ موسی اور یوشع وغیره کی پانچ کتابوں پر مشتمل ھے اور عھد عتیق (توریت) کی دوسری کتابوں کو قابل اعتبار نھیں جانتے ھیں۔ پھلے نسخھ میں حضرت آدم علیھ السلام کی خلقت اور نوح کے طوفان تک کے زمانھ کو ۱۶۵۶ سال لکھا گیا ھے اور دوسرے نسخھ میںاس مدت کو ۱۳۰۷ سال اور تیسرے نسخھ میں۱۳۶۲ سال لکھا گیا ھے پس تینوں نسخے صحیح نھیں ھوسکتے ھیں بلکھ ان میں سے صرف ایک ھی صحیح ھوسکتا ھے اور وه بھی معلوم نھیں کھ کونسا نسخھ صحیح ھے ۔[4]
ثانیا : توریت میںبھی ایسے مطالب موجود ھیں ، جو انسانی عقل کے لئے قابل قبول نھیں ھیں۔ مثلا توریت میں خداوند متعال کو ایک انسان کی شکل میںپھچنوایا گیا ھے ، جو چلتا ھے ، گانا گاتا ھے اور جھوٹ بولنے والا اور فریب کار ھے ، کیونکھ اس نے حضرت آدم علیھ السلام سے کھا تھا کھ اگر نیک و بد درخت کا میوه کھائے گا تو مرجائے گا ، لیکن آدم اور حوا نےا س درخت کا میوه کھالیا اور نھ صرف مرگئے بلکھ نیکی و بدی سے بھی آگاه ھوگئے ۔ [5]
اور یا خداوند متعال اور حضرت یعقوب علیھ السلام کے درمیاں کشتی کی داستان توریت میں آئی ھے ۔ [6]
اسلام کی حقانیت اور برتی کے دلائل:
۱۔ اسلام کے معجزه کا زنده و جاوید ھونا ، کیونکھ اس دین کا اصلی معجزه قرآن مجید ھے ، جو کتاب ، منطق اور دانش کی صورت میں ھے سابقھ انبیاء کے معجزوں کے بر عکس ھے جو محسوس قسم کے تھے اسلام کا معجزه اسی وجھ سے ھمیشھ زنده ھے اور اس کا ابدی ھونا پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی زندگی سے مخصوص نھیں ھے ، اسی وجھ سے اسلام کا معجزه جاوید و ابدی ھے ۔
اس کے علاوه قرآن مجید قدم قدم پر دنیا والون کو چیلینج کرکے اپنی ابدیت اور جاودانی کا اعلان کرتا ھے : "اگر تمھیں اس کام کے ابارے میں کوئی شک ھے جسے ھم نے اپنے بندے پر نازل کیا ھے تو اس جیسا ایک ھی سوره لے آؤ " [7]
۲۔ قرآن مجید کا تحریف سے محفوظ ھونا : یعنی قرآن مجید میں کسی قسم کی تغییر و تبدیلی رونما نھیں ھوئی ھے ۔
وعده الھی: "ھم نے ھی اس قرآن کو نازل کیا ھے اور ھم ھی اس کی حفاظت کرنے والے ھیں۔ [8] کے علاوه پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آله وسلم نے بھی اس کی حفاظت کے سلسلھ میں خاص اھتمام کیا ھے ۔ اولا:آپ کاتبان وحی کو حکم دیتے تھے کھ آیات اور سوروں کو تحریر کریں۔ ثانیا : قرآن مجید حفظ کرنے کے لئے اپنے بھت سے اصحاب کی ھمت افزائی فرماتے تھے۔ اس لئے آنحضرت (ص) کے زمانھ میںبھت سے لوگ حافظان قرآن کے نام سے مشھور تھے ۔ ثالثا: قرأت کی ترغیب: یعنی اپنی خصوصیات اور تجوید کے ساتھ الفاظ کی قرأت کرنا ، صرف مطالعھ و مفاھیم کو سمجھنے تک محدود نھ کردینا [9]، یھی عوامل قرآن مجید کو تحریف کی آفت سے بچانے کا سبب بن گئے ۔
۳۔ اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کی تیسری راه پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی خاتمیت کے مسئلھ پر توجھ کرنا ھے ، اسلامی کتابوں[10] میںاس بات کی تاکید کی گئی ھے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم خداوند متعال کے آخری نبی ھیں اور ان کے بعد کوئی نبی مبعوث نھیں ھوگا۔
تمام انسانی معاشروں میںایک ناظم و سرپرست کا آخری دستور العمل معیار قرار پاتا ھے اور واجب الاطاعت و نافذ ھوتا ھے ، نئے احکام کے آنے کے بعد خود بھ خود سابقھ احکام لغو ھوجاتے ھیں۔
دوسرے ادیان کی کتابوں میں یھ بات نھیں کھی گئی ھے کھ ان کا پیغمبر خداوند متعال کا آخری نبی ھے بلکھ انھوں نے اپنے پیرؤں کو ایک صورت میںپیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے ظھور اور آمد کی بشارت دی ھے ۔ [11]یعنی ایک طرح سے اپنے وقتی اور عارضی ھونے کا مطلب بیان کیاھے ۔
۴۔ چوتھا مطلب، جس کو مد نظر رکھنا چاھئے اسلام کی جامعیت ھے ، اسلام انسان کی زندگی کے مختلف و متعدد پھلوؤں جیسے : روحی ، نفسیاتی ، انفرادی ، اجتماعی اور مادی و معنوی ابعاد میں تعلیمات رکھتا ھے ، اسلام کے دینی مفاھیم کی جامعیت اور برتری کو پھچاننے کے لئے اسلام کی مقدس کتابوں اور دوسرے ادیان کی دینی کتابوں کا ایک تقابلی مطالعھ کرنا چاھئے ۔ اس صورت میں اعتقاد ، توحید و صفات الھی ، انفرادی و اجتماعی اخلاق ، حقوق ، اقتصاد ، سیاست اور حکومت وغیره کے ابواب میںاسلام کی برتی اور جامعیت واضح ھوجائے گی۔
۵۔ پانچواں نکتھ : موجوده دنیا میںرائج ادیان کے درمیان ، تنھاو منفرد دین جس کی ایک زنده اور قابل اعبار تاریخ ھے ، وه اسلام ھے۔ یھاں تک مورخین نے پیغمبر اسلا صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے زمانے کے جزئیات بھی درج کئے ھیں جب کھ دوسرے ادیان کے پاس کوئی قابل اعتبار تاریخی سند موجود نھیں ھے ، حتی کھ اسی وجھ سے بعض مغربی مفکرین نے حضرت عیسی علیھ السلام کے وجود پر بھی شک کیا ھے ، اگر ھمارے قرآن مجید نے حضرت مسیح اور دوسرے انبیاء علیھم السلام کا نام نھ لیا ھوتا ، تو شاید عیسائیت اور یھودیت کا رواج نھ ھوتا اور ان کے انبیاء کو انسانی معاشره میںاس قدر مقبولیت نھ ملتی۔[12]
[1] شعرانی ، ابو الحسن ، راه سعادت ، ص ۱۸۷۔ ۱۸۸۔ ۱۹۷-
[2] شعرانی ، ابو الحسن ، راه سعادت ، ص ۱۸۷۔ ۱۸۸۔ ۱۹۷، ۲۲۱۔
[3] انجیل یوھنا۔ ۳، ۱۶۔ ۱۷۔
[4] راه سعادت ، ۲۰۶، ۲۰۷۔
[5] تورات ، سفر پیدایش ، باب دوم و سوم۔
[6] ایضا ، باب ۲۱، آیھ ۲۴
[7] سوره بقره / ۲۳۔
[8] سوره حجر/ ۹۔
[9] راه سعادت ، ص ۲۲، ۲۱۵، ۲۴۔ ۲۵۔
[10] سوره احزاب، ۴۰ ، صحیح بخاری ، ج ۴، ص ۲۵۰۔
[11] راه سعادت ص ۲۲۶، ۔ ۲۴۱۔ ، انجیل یوحنا، ۲۱، ۴۱۔
[12] مجموعھ آثار ، ج ۱۶ ، ص ۴۴۔