Please Wait
6242
- سیکنڈ اور
اس سلسلہ میں جو روایتیں شیعوں کے ائمہ{ع} سے نقل کی گئی ہیں وہ خدا کے زمین پر نزول کے اعتقاد کومنطقی طور پر باطل ھونا بیان کرتی ہیں اور ان روایتوں میں اس کا اعتقاد رکھنے والوں کے کفر کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے- زمین پر خداوند متعال کے نازل ھونے کا اعتقاد در حقیقت تحریف شدہ روایتوں سے غلط تصور کا نتیجہ ہے، جس کا سرچشمہ خداوند متعال کے مجسم ھونے کا اعتقاد ہے اور شیعہ وسنی علماء کی نظر میں خداوند متعال کا توجہ کے ساتھ جسم تصور کرنا کفر تک پہنچتا ہے-
مسلمانوں کے مختلف کلامی فرقوں اور مذاہب میں موضوعات جو صدر اسلام سے اختلافات اور مناقشات کا سبب بنے ہیں، ان میں خداوند متعال کی صفات، من جملہ ذاتی و خبری صفات ہیں- البتہ یہ کلامی مجادلات زیادہ تر صفات خبری میں پیش آئے ہیں- اور کبھی طرف مقابل کے کفر کا سبب بن جاتے ہیں-
فتوحات کے زمانے میں ، مسلمان رفتہ رفتہ اپنی ہمسایہ مغلوب اقوام کے افکار و عقائد اور رسومات و نظریات سے آشنا ھوئے، بعض مواقع پر یہ روابط مختلف اقوام کے دانشوروں کے افکار و نظریات کے اثرات کو قبول کرنے کا سبب بنے ہیں- بعض مذہبی فرقوں کے نظریات پر گہری نظر ڈالنے سے ہمیں معلوم ھوتا ہے کہ افلاطونی، یہودی اور زرتشتی وغیرہ جیسے فرقوں کے نظریات کس قدر اپنا اثر ڈال چکے ہیں-
عام صورت میں اعتقادی مباحث میں اور خاص کر خدا کی صفات کی بحث میں مسلمان ہمیشہ، دوسرے ادیان کے دانشوروں کے افکار سے متاثر ھوئےنا درست تفسیروں سے دوچار ھوئے ہیں-
قرآن مجید میں خداوند متعال کی طرف سے اپنے صفات خبری کی توصیف کے سلسلہ میں مناقشات کی فضا میں بعض افراد{ اہل حدیث} نے صفات خبری کی ظاہری قرائت سے قرآن مجید کی "ید الله فوق ایدیهم"، "و یبقی وجه ربک" جیسی آیات اور"ینزل الی السماء الدنیا"و یا "قلب المؤمن بین اصبعین من..." جیسی روایتوں کے سلسلہ میں ایک دوسرے سے جدال کیا ہے کہ یہ امر خدا کی تشبیہ اور تجسم کا سبب بنا ہے- اس سلسلہ میں اشاعرہ نے تجسم سے فرار کرنے کے لئے، اس سے متفاوت ایک مختصر قرائت عنوان کی ہے اور کسی کیفیت کے بغیر ان صفات کا اعتقاد پیش کیا ہے، تاکہ اپنے زعم کے مطابق تجسم سے مبرا ھو جائیں- لیکن ایک قسم کی مشکل سے دوچار ھوئے- بعض دوسرے افراد نے ان حالیہ دونظریوں کے مقابلے میں صفات خبری کی بے بنیاد تفسیر کرنے کی کوشش کی ہے-
ایسے حالات میں شیعوں کے ائمہ اطہار{ع} کو بھی ان مسائل کے بارے میں اپنے نظریات واضح صورت میں پیش کئے جانے چاہئے تھے تاکہ شیعوں کو اعتقاد کے لحاظ سے گمراہ ھونے سے بچایا جاتا- لہذا انھوں نے مناسب مواقع پر ایسے مباحث سے دوچار ھوتے وقت اس سلسلہ میں پیدا شدہ سوالات اور شبہات کا مدلل اور واضح صورت میں جواب دیا ہے-
اگر چہ ہم نے آپ کے سوال میں دئے گئے حوالہ کے مطابق، اس بحث سے متعلق روایت نہیں پائی، لیکن اصول کافی میں کچھ ایسی روایتیں موجود ہیں جن سے معلوم ھوتا ہے کہ ائمہ اطہار {ع} نے اس موضوع کے سلسلہ میں کوششیں کی ہیں-[1] امام صادق {ع} امام کاظم {ع} اور امام ہادی {ع} نے خدا کے دنیا کے آسمان یا زمین پر نازل ھونے والے مسئلہ کو استدلالی صورت میں چلینج کیا ہے اور مخاطب کو خدا کے لئے حد مقرر کرنے ، کوئی نقص عائد کرنے اور اسے مخلوقات کی شبیہ بنانے سے روکا ہے- قابل ذکر ہے کہ ان روایتوں میں خدا کے جسم کے قائل افراد کے کفر کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے-
لیکن بات یہ ہے کہ یہ روایت، یعنی خدا کے دنیا کے آسمان یا زمین پر نازل ھونے کے صحیح ھونے کی صورت میں کیا فائدہ ہے؟ اس کے جواب میں کہنا لازم ہے کہ عقلی اور نقلی دلائل سے یہ روایت اس صورت میں قابل قبول نہیں ہے-
۱-جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ عقلی دلائل خداوند متعال کے جسم ھونے کی نفی کرتی ہیں ، اوپر سے نیچے اترنے کا لازمہ خداوند متعال کو مجسم جاننے، اس پر نقص عائد کرنے اور مکان کے اس پر محیط جاننے کا مترادف ھوگا- اس کے علاوہ کسی جگہ سے کسی دوسری جگہ میں منتقل ھونے کا لازمہ خدا کے لئے محدود اور محرک ھونا ھوگا، جو مخلوقات کی خصوصیات میں سے ہیں کہ روایت میں بھی اس کی ظرافت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے-
۲-قرآن مجید نے واضح الفاظ میں اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے کہ خداوند متعال عالم امکان کا خالق اور محیط ہے-
آیات مبارکہ: "و هُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ ما كُنْتُمْ وَ اللَّهُ بِما تَعْمَلُونَ بَصير".[2] و "وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ وَ نَعْلَمُ ما تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَ نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَريد".[3] و "وَ هُوَ الَّذي فِي السَّماءِ إِلهٌ وَ فِي الْأَرْضِ إِلهٌ وَ هُوَ الْحَكيمُ الْعَليم".[4] وغیرہ اس امر پر دلالت کرتی ہیں، پس مناسب نہیں ہے کہ ہم یہ تصور کریں کہ خداوند متعال ایک خاص جگہ پر بیٹھا ہے اور خاص حالات کے مطابق اپنی جگہ بدلتا رہتا ہے-
لیکن، خدا کے دنیوی آسمان پر نازل ھونے کی روایت کیسے روایتوں کی کتابوں میں پیش کی گئی ہے اور عامۃ المسلمین میں شہرت حاصل کرگئی ہے؟
امام رضا{ع} کے ارشاد کے مطابق یہ روایت تحریف شدہ ہے- اس طرح کہ روایت میں امر خدا کا نزول مراد تھا کہ بعد میں لفظ" امر" روایت سے حذف کیا گیا ہے-[5]
اب ہمیں پیش کئے گئے سوال کے مطابق کہنا چاہئے: بعض شیعہ اور سنی علماء کے اعتقاد کے مطابق جو افراد قرآن مجید میں صفات خبری کے بارے میں یا جن روایتوں میں خداوند متعال کے لئے اس قسم کی صفات بیان کی گئی ہیں، کے بارے میں ایسی تفسیر کریں کہ جس کا نتیجہ خدا کی جسمانیت اور نقص نکلے اور اس پر اعتقاد رکھتے ھوں تو وہ کافر شمار ھوں گے-
یہاں پر ہم اہل سنت کے دو علماء کا بیان پیش کرتے ہیں، جو اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں:
۱- ابو حامد غزالی۔ " یداللہ" کی بحث میں کہتے ہیں :" جو شخص یہ تصور کرے کہ خداوند متعال کا جسم ہے اور وہ مختلف اجزاء کا مرکب ہے، وہ بت پرست ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ ہر جسم مخلوق ہے اور مخلوق کی عبادت کفر ہے"-[6]
۲- ابن حزم اندلسی بھی اپنی کتاب" الفصل" میں یوں بیان کرتے ہیں:" جو شخص یہ کہے کہ خداوند متعال اجسام میں سے ایک جسم ہے، اگر جاہل یا تاویل کرنے والا ھو تو معذور ہے، اس کی تعلیم و تربیت کرنا واجب ہے، پس اگر قرآن و سنت سے اس پر حجت قائم ھوئی اور وہ عناد پر مبنی اس کی مخالفت کرے، تو وہ کافر ہے-[7]
ان تمام حالات { خدا کی صفات کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان مختلف قرائتوں} کے باوجود شیعوں کے ائمہ اطہار {ع} نے عام مسلمانوں کے ساتھ برتاو کے سلسلہ میں معاشرت کرنے کا حکم دیا ہے- ان کے تشیع جنازوں میں شرکت کرنے اور ان کی مساجد میں حاضر ھونے کی سفارش کی ہے اور یہ امر اس بات کی دلیل ہے کہ انھیں مسلمان جانتے ہیں نہ کہ کافر-[8] شیعوں کے ائمہ اطہار {ع} اپنی امامت کی پوری تاریخ کے دوران مسلمانوں کے اعتقادات کی اصلاح کرتے رہے ہیں اور حتی کہ جو افراد خداوند متعال کے جسم کے قائل تھے، انھیں متوجہ کرتے رہے ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت کرتے رہے ہیں-
اس کے علاوہ شیعوں کے مراجع تقلید اور فقہا نے بھی کفر کی تعریف کے سلسلہ میں واضح صورت میں روشنی ڈالی ہے اور جو لوگ خدا کا شریک نہیں ٹھراتے اور پیغمبر خدا {ص} پر ایمان لائے ہیں، انھیں مسلمان جانتے ہیں-[9]
[1] کلینی، محمد بن یعقوب، الكافي، ج 1، ص 126-125، باب الحرکة و الانتقال، دار الكتب الإسلامية،طبع چهارم، تهران، 1365 هـ ش.
[2] حدید، 4.
[3] ق، 16.
[4] زخرف، 84.
[5] صدوق، محمد بن علی، من لایحضره الفقیه، ج 1، ص 421، مؤسسه انتشارات اسلامی، طبع سوم، قم،1413 هـ
[6] سبحانی، جعفر، محاضرات فی الالهیات، ص 133،طبع هشتم، مؤسسه امام صادق، قم ،1426 هـ .
[7] اندلسی، علی بن احمد، الفصل فی الملل و الهواء و النحل، ج 2، ص 269.
[8] الكافي، ج 2، ص 635. الكافي، ج 2، ص 635.
[9] امام خمینی، توضيح المسائل (المحشى للإمام الخميني)، ج 1، ص 76، م 106، طبع هشتم، دفتر انتشارات اسلامی ،قم ، 1424 هـ .