Please Wait
6696
اسلام میں بعض قوانین ان کافر افراد کے بارے میں موجود ھیں جو مسلمان ھوئے ھیں۔ ان ھی قوانین میں ایک قانون یھ ھے کھ اگر انھوں نے اپنے کفر کی حالت میں خدا کے کسی بھی حق کو ضائع کیا ھے۔ جیسے کوئی عبادت انجام نھیں دی ھے یا کوئی گناه انجام دیا ھے تو وه خدا کی طرف سے مورد عفو قرار پاتے ھیں۔
لیکن جو حقوق لوگوں سے متعلق ھیں وه بخشے نھیں جاتے ھیں بلکھ ان کا ادا کرنا ضروری ھے یا صاحبان حق کی رضا حاصل کرنا ھے۔ پس اگر ایک قاتل یا جارح اپنے کفر کے زمانے میں ان برے اعمال کا مرتکب ھوا ھو اور بعد میں مسلمان ھوجائے تو وه صرف خدا کے عذاب سے امان میں ھوگا۔ لیکن مالی اور بدنی سزا کو اسی دنیا میں بھگتنا پڑے گی۔ مگر یھ کھ اولیای دم یا باقی شکایت کرنے والے اس کی سزا معاف کریں ۔کیوں کھ یھ حقوق اسلام سے متعلق نھیں ھیں کھ مسلمان ھونے سے اسلام انھیں بخش دے ، بلکھ یھ حق لوگوں سے متعلق ھیں اور سب ادیان اور عالم کے عاقلوں کے پاس قابل احترام ھیں ۔
قرآن کریم ایمان لانے سے پھلے کافروں کے برے اعمال کے بارے میں فرماتا ھے " پیغمبر آپ کافروں سے کهه دیجئے کھ یھ لوگ اپنے کفر سے باز آجائیں تاکه گذشتھ گناه معاف کردیئے جائیں گے" [1] پیغمبر اسلام نے بھی فرمایا ھے: "اسلام ، ایمان لانے سے پھلے والے برے اعمال کو بخش دیتا ھے بالکل توبھ کرنے کے مانند جو برے اعمال، گناه اور کفر کو پوشیده رکھتا ھے" [2] یھ حدیث شریف اسلام میں ایک قانون کی بنیاد بن گئی ھے جس کو " قاعده جب " کھتے ھیں۔
گزشتھ آیات اور حدیت کے معنی یھ ھیں کھ جو کوئی مسلمان ھونے کا قصد کرتا ھے اس کو اپنے ما قبل اور برے اعمال سے جو اس نے بجالائے ھیں خوف اور ڈر نھیں ھونا چاھئے کیونکھ خداوند متعال اپنے حقوق (جو کفر کے زمانے میں اس کی گردن پر تھے ) کو بخش دیتاھے ۔ پس ضروری نھیں ھے کھ جو عبادات اس نے ترک کی ھیں ان کی قضا کرے یا جس مال کی زکات ادا نھیں کی ھے اسے ایک ھی مرتبھ ادا کرے کیونکھ خداوند بخشنے والا مھربان ھے اور اپنے حق سے جو بندے کی گردن پر ھے ، سے درگزرکرتا ھے [3]
پس جو مسلمان ھوتا ھے اگر اپنے کفر کی حالت میں ا یسے اعمال کا مرتکب ھوا ھے جن کے لئے اسلام میں خاص سزا معین ھوئی ھے جیسے شراب پینے کی سزا ، مسلمان ھونے کے بعد شرعی حد جو کفر کے زمانے میں اس کے اوپر لاگو تھی ، وه اس کے اوپر جاری نھیں کی جائے گی بلکھ عطوفت اور مھربانی کے ساتھه اس سے سلوک کیا جائے گا اور اسے یھ اطمینان دیا جائے گا کھ گزشتھ اعمال کے بارے میں اسے کسی طرح کا خوف نھیں رکھنا چاھئے ، البتھ یھ بخشش صرف اسلامی اور خدا کے حق کے بارے میں ھے لیکن اگر اس کے ذمے لوگوں کا کوئی حق ھو ، یا اس نے کسی بندے پر ظلم یا تجاوز کیا ھوتو ان کی ادائیگی کے بارے میں اس کو اقدام کرنا چاھئے اور ان کے حقوق کو ادا کردے یا اس کے متعلق سزا بھگت لے ، مثال کے طورپراگر کسی شخص سے قرضھ لیا ھے اور اب اس کا مقروض ھے یا کوئی مال چوری کیا ھے اسے اپنے مالک کو واپس کردے یا ان کی رضا حاصل کرلے اسی طرح اگر اس نے کوئی جرم کیا ھے ، کسی کو زخمی کیا ھے یا قتل کا مرتکب ھوا ھے ان اعمال کی نسبت وه مسئول ھے اور اس سے متعلق سزا کو بھگت لے۔ کیوں کھ خداوند اپنے حقوق سے درگزر کرتا ھے نھ کھ دوسروں کے حقوق سے پس لوگوں کے ضائع شده حقوق اپنی جگھ محفوظ ھیں اور وه ان کی تلافی کا اقدام کرے۔
البتھ توجھ کرنی چاھئے کھ صرف احکام اسلامی ھی اس طرح نھیں ھیں بلکھ دنیا کے سھبی دوسرے ادیان اور شرائع اور عقلاء کے درمیان اس طرح کے اعمال کے متعلق قوانیں پائے جائے ھیں [4]
بعض علماء نے اس نکتھ کا بھی اضافھ کیا ھے که اگر کوئی شخص مسلمان ھوا اور کسی شخص یا کسی فرد کا حق اس کے ذمے تھا اور یھ نیا مسلمان ان کی ادا پر قادر نھ تھا تو اسلامی حاکم ، اپنی صلاح کے مطابق ان حقوق کو بیت المال سے ادا کرسکتا ھے اور اس طرح اس تازه مسلمان کی مشکل کو حل کرے گا ، مثال کے طورپر اگر دیت ( خون بھا ) اس کے ذمھ ھو اور وه کفر کی حالت میں قتل میں شریک رھا ھو اور اب مسلمان ھوا ھے تو خون بھا اس کے ذمھ ، برقرار ھے اور اسے اس کو ادا کرنا ھے لیکن مسلمان حاکم کو یھ اختیار ھے کھ حکومتی خزانھ سے اس کے قرض کو چکا دے۔ [5]
بھر حال یھ فرد ھر حکومت میں (من جملھ اسلامی حکومت کے بھی) سزا کا مستحق ھے اور جو افراد اس کی طرف سے مورد ظلم واقع ھوئے ھیں وه ایک اسلامی نظام میں ، عدالتوں میں جاکر اس سے شکایت کرکے سزا کا تقاضا کرسکتے ھیں۔
[1] سوره انفال / ۳۸۔
[2] طریحی ، مجمع البحرین، ماده " جب " السیرۃ الحلبیۃ ، ج ۳ ص ۱۰۵، یھ حدیث دوسری صورت میں بھی نقل ھوئی ھے جیسے : اسلام اپنے ما قبل کو مٹا دیتا ھے ، مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار ج ۳۴۰ ص ۳۳۰۔
[3] رجوع کریں ، محقق ھمدانی ، مصباح الفقیھ ، کتاب الزکاۃ ، ص ۱۷، نجفی ، محمد حسین جواھر الکلام ، ج ۱۷ ص ۱۰۔
[4] مکارم شیرازی ، ناصر، القواعد الفقھیھ ، ج ۳ ص ۱۶۹، ۔۔۔ ۱۸۳ ( قاعده الجب)
[5] حسینی جرجانی ، ابو الفتح ، تفسیر شاھی ، ج ۳ ص ۹۶