Please Wait
11890
امام زمانہ[عج] کے ساتھ رابطہ کے بارے میں نظریاتی اصولوں پر اپنی جگہ بحث ھونی چاہئے، بہر حال، مقدس اردبیلی ، سید بحر العلوم ، سیدا بن طاوس وغیرہ جیسی بعض عظیم شخصیتوں کے علاوہ بہت سے افراد کی امام زمانہ {عج} سے ملاقات کی تفصیلات بعض شیعہ علماء کی قابل اعتبار کتابوں میں درج کی گئ ہیں- اس کے علاوہ بہت سے افراد ایسی شخصیتوں سے ملاقات کرنے میں کامیاب ھوئے ہیں جن کا امام زمانہ {عج} سے خاص رابطہ تھا اور امام زمانہ {عج} ان افراد کی مدد اور دستگیری کے لئے تشریف لائے ہیں-
ایک نظریہ کے مطابق، امام زمانہ[عج] سے خاص رابطہ رکھنے والے افراد، اوتاد، ابدال، رجال الغیب وغیرہ ہیں- اوتاد، ابدال سے بلند تر مرتبہ پر فائز ھوتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ وہی حضرت عیسی، خضر، الیاس اور ادریس[علیہم السلام] ہیں، جو امام زمانہ {عج} کے نزدیک ترین افراد ہیں اور ابدال اور عرفا کا سلسلہ ان کے بعد شروع ھوتا ہے- عام طور پر یہ افراد گمنام ھوتے ہیں اور ان کی تعداد کے بارے میں بھی کوئی خاص اتفاق نظر نہیں پایا جاتا ہے اس کے باوجود ان کی ذاتی خصوصیات کے بارے میں روایتوں میں اشارہ کیا گیا ہے-
غیبت کے زمانہ میں امام زمانہ{عج} سے رابطہ کے ممکن ھونے کے بارے میں ہمیشہ دو کلی نظریئے پیش کئے گئے ہیں- بعض لوگ ، غیبت کے زمانہ میں امام زمانہ {عج} سے رابطہ ممکن نہیں جانتے ہیں اور بعض افراد کا اعتقاد ہے کہ اس قسم کا رابطہ ممکن ہے اور یہ متحقق ھوچکا ہے بلکہ لوگوں کی طرف سے اس قسم کا رابطہ قائم کرنے کے لئے کوشش کی جانی چاہئے اور اس سلسلہ میں غفلت سے کام نہیں لینا چاہئے-
لیکن اس رابطہ کے مدعیون اور منکرین کے درمیان مراد یکساں نہیں ہے اور اگر ہم اس رابطہ کے خاص معنی من جملہ لوگوں کا امام زمانہ {عج} سے آشکار و اختیاری رابطہ کومد نظر رکھیں، جو امر غیبت سے منافات رکھتا ہے ، تو اسے تمام علماء نے اجماعی طور پر قبول نہیں کیا ہے اور بعض افراد نے اس رابطہ کو معنوی رابطہ اور عدم مشاہدہ سے تعبیر کیا ہے-
امام زمانہ[عج] سے رابطہ کے اقسام کے بارے میں، جسے ملاقات سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، مندرجہ ذیل چند موارد کے بارے میں اشارہ کیا جاسکتا ہے:
۱- حضرت {عج} کو ناشناس صورت میں دیکھنا {بعض روایتوں میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے}-[1]
۲- پہچان اور ظاہری حس کے ساتھ امام زمانہ[عج] کو دیکھنا-
۳- امام زمانہ {عج} سے شہودی حالت میں ملاقات کرنا {جو سیر و سلوک عرفان سے حاصل ھوتی ہے}
امام زمانہ {عج} کے ساتھ تیسری قسم کی ملاقات ، اس کی ماہیت میں ابہام کی وجہ سے، اسے مسترد یا قبول کرنے کے سلسلہ میں ، اس کے بارے میں علماء نے کم بحث کی ہے اور حضرت {عج} سے رابطہ کے بارے میں زیادہ اختلاف نظر آپ {عج} سے ظاہری اور حقیقی ملاقات یعنی اس کی دوسری قسم کے بارے میں ہے-
اس کے باوجود بعض افراد امام زمانہ {عج} سے ملاقات کو عرفانی اور شہودی مقام پر جانتے ہیں، من جملہ آیت اللہ سید علی آقائے قاضی اور آیت اللہ انصاری ہمدانی سے، امام زمانہ {عج} سے رابطہ کے بارے می کچھ مطالب نقل کئے گئے ہیں کہ ان میں اکثر اشارہ باطنی رابطہ کے بارے میں ہے[2] اور کلی طور پر اکثر عرفا نے بھی کم و پیش یہی نظریہ پیش کیا ہے-
مرحوم محدث نوری[3] نے اپنی کتاب " النجم الثاقب" میں بعض شیعہ بزرگوں کی امام زمانہ {عج} سے ملاقات کے بارے میں بحث کی ہے اور شائد اس سلسلہ میں یہی کتاب معتبر ترین اور جامع ترین کتاب ہے-
اس کتاب میں اس موضوع کے بارے میں نظریات اور علمی اصولوں پر بحث کی گئی ہے اور بعض علماء کے امام زمانہ {عج} سے ملاقات کے ناممکن ھونے کے استدلال کو رد کرنے کے سلسلہ میں بحث کی گئی ہے- ان کا اعتقاد ہے کہ امام زمانہ {عج} کے ساتھ رابطہ قائم ھونا، اور بہت سے بزرگوں کے ذریعہ ان واقعات کا نقل کرنا اس کے موثق ھونے میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رکھتا ہے، اور یہ بذات خود اس رابطہ کے ممکن ھونے کی اہم ترین دلیل ہے-
مقدس اردبیلی، سید بحر العلوم ، سیدا بن طاوس کے علاوہ بہت سے غیر معروف افراد کے امام زمانہ {عج} سے ملاقات کی تفصیلات اس کتاب میں درج کی گئی ہیں- اس کے علاوہ بہت سے افراد ایسی شخصیتوں سے ملاقات کرنے میں کامیاب ھوئے ہیں جن کا امام زمانہ {عج} سے خاص رابطہ قائم تھا اور امام زمانہ {عج} ان افراد کی مدد و دستگیری کے لئے تشریف لائے ہیں۔[4]
اوتاد و ابدال:
امام زمانہ{عج} کے ساتھیوں کے بارے میں کئی روایتیں نقل کی گئی ہیں ان روایتوں سے یہ معلوم ھوتا ہے کہ بعض افراد کا امام زمانہ {عج} سے قریبی رابطہ رہا ہے، لیکن ایسے افراد ہمیشہ لوگوں کے لئے گمنام رہے ہیں-
امام باقر {ع} سے یوں نقل کیا گیا ہے: «لَا بُدَّ لِصَاحِبِ هَذَا الْأَمْرِ مِنْ عُزْلَةٍ وَ لَا بُدَّ فِي عُزْلَتِهِ مِنْ قُوَّةٍ وَ مَا بِثَلَاثِينَ مِنْ وَحْشَةٍ...»؛[5] اس امر کے صاحب { امام مہدی عج} کی گوشہ نشینی ناگزیر ہے اور وہ گوشہ نشینی کے زمانہ میں طاقت اور توانائی رکھنے کے لئے ناگزیر ہیں اور اپنے تیس ساتھیوں کے ہمراہ باہر آتے ہیں اور کسی قسم کا خوف نہیں رکھتے ہیں-"
اس بناپر امام زمانہ {عج} کے ساتھی وہی ابدال ہیں، کہ جب ان افراد میں سے کوئی وفات پاتا ہے تو دوسرا شخص اس کا جانشین بن جاتا ہے-
عرفان میں ابدال اور اوتاد کے بارے میں مفصل بحث کی گئی ہے اور بعض روایتوں میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے-
ابدال کے وجود اور عالم خلقت میں ان کے خاص مقام و منزلت اور اسی طرح امام زمانہ {عج} سے ان کے رابطہ اور مسئلہ ظہور کے بارے میں کافی روایتیں نقل کی گئ ہیں، لیکن ان کی تعداد کے بارے میں علماء اور عرفاء کے اقوال میں ہمیشہ اختلاف رہا ہے اور روایتوں میں بھی اس سلسلہ میں کوئی قطعی بات نہیں ملتی ہے- بعض روایتوں میں چالیس افراد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے،[6] اور بعض دوسری روایتوں میں امام {ع} کے ساتھیوں کی تعداد تیس بتائی گئی ہے ، جیسا کہ امام باقر{ع} کی مذکورہ روایت میں اشارہ کیا گیا ہے- بعض روایتوں میں حضرت علی{ع} سے شام کے چند ابدالوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے-[7]
آخر پر قابل بیان ہے کہ اوتاد، ابدال سے بلند مرتبہ پر فائز ھوتے ہیں، اور ایک نظریہ کے مطابق عیسی، خضر، الیاس اور ادریس {علیہم السلام} اوتاد کے مقام پر فائز ہیں اور امام زمانہ {عج} کے قریبی ساتھی ہیں اور عرفاء کا سلسلہ ان کےبعد شروع ھوتا ہے-
ابدال کی بعض صفتیں:
پیغمبر اسلام {ص} سے نقل شدہ بعض روایتوں میں ابدال کی بعض صفتوں کے بارے میں اشارہ کیا گیا ہے اور ہم ذیل میں ان میں سےبعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱- ابدال کا دل، حضرت ابراھیم {ع} کا جیسا ھوتا ہے[8]{ شائد اس تشبیہ سے مراد یہ ہے کہ وہ دین خدا پر حضرت ابراھیم کے مانند شدت، صلابت، بردباری اور استحکام و پائیداری کے ساتھ قائم ھوتے ہیں}
۲- ابدال، انسانوں کی بلاوں کے لئے ڈھال ھوتے ہیں اور ان کے واسطے سے خداوند متعال لوگوں سے بلاوں کو دور کرتا ہے-[9]
۳- جو لوگ ان سے ظلم کرتے ہیں، ان کے ساتھ نیکی اور احسان کرتے ہیں، اور جو ان کے ساتھ برائی کرتے ہیں، ان کے ساتھ معافی کا برتاو کرتے ہیں اور قضائے الہی پر ہمیشہ راضی ھوتے ہیں اور ہر قسم کے حرام سے اپنے آپ کو پاک و منزہ رکھتے ہیں اور خدا کے لئے غضبناک ھوتے ہیں-[10]
۴- ابن مسعود نے پیغمبر اکرم {ص} سے یوں روایت کی ہے:" جان لو کہ انھوں { ابدال} نے یہ مقام ہرگز نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور صدقہ دینے کی وجہ سے حاصل نہیں کیا ہے –" عرض کی گئی: اے رسول خدا؛ پس یہ لوگ کیسے اس مقام پر پہنچےہیں؟ پیغمبر اسلام {ص} نے فرمایا: مسلمانوں کے حق میں سخاوت، بخشش اور خیر خواہی کی وجہ سے-"[11]
اور ایک دوسری روایت میں نقل کیا گیا ہے:
" میری امت کے ابدال ، اپنے اعمال کی وجہ سے بہشت میں داخل نہیں ھوتے بلکہ رحمت خدا اور مسلمانوں کی نسبت سخاوت، دل کی سلامتی اور مہر بانی کی وجہ سے بہشت میں داخل ھوتے ہیں-[12]
اس سلسلہ میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے ہماری اسی سائٹ کے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں:
سوال: ۱۰۲۹{ سائٹ: ۱۰۸۴}
[1] بعض روایتیں اس مطلب کی دلالت کرتی ہیں کہ بظاہر اس سلسلہ میں علماء کے درمیان اختلاف نہیں تھا- من جملہ مندرجہ ذیل روایت جو امیرالمومنین {ع} سے نقل کی گئی ہے:" «ان حجتها علیها قائمة ماشیةٌ فی طرُقِها, داخلة فی دورها و قُصُورها جَوّالةٌ فی شرق هذه الارض وغربها تسمع الکلام وتسلم علی الجماعة تری ولاتُری ...؛ حجت حق زمین پر استوار ہیں – راستوں پر چلتے ہیں، گھروں میں داخل ھوتے ہیں اور مشرق و مغرب میں گردش کرتے ہیں، لوگوں کی باتوں کو سنتے ہیں اور لوگوں کو سلام کرتے ہیں اور ان کو دیکھتے ہیں لیکن خود دکھائی نہیں دیتے-{ الغیبہ النعمان، ص ۱۴۴}
[2] آقا سیدہاشم حداد نے فرمایا ہے:" حضرت آقا آیت اللہ قاضی اپنے کلام ،اپنے اٹھنے بیٹھنے اور کلی طور پر اپنی حالت بدلتے وقت لفظ " یا صاحب الزمان" کو زیادہ زبان پر جاری فرماتے تھے ایک دن ایک شخص نے ان سے پوچھا: کیا آپ حضرت ولی عصر {عج} کی خدمت میں پہنچے ہیں؟ انھوں نے جواب میں فرمایا : وہ آنکھ اندھی ہے جو ہر روز صبح نیند سے اٹھتے وقت امام زمانہ کو نہ دیکھے" اسوہ عارفان{ گفتہ ہا و ناگفتہ ہا دربارہ مرحوم قاضی{رح} ص ۱۰۹ صادق حسن زادہ، محمد طیار مراغی-
اسی طرح آیت اللہ شیخ محمد جواد انصاری ہمدان {رض} نے عرفائے باللہ کی طرف سے کئےگئے اس سوال کے جواب میں کہ کیا غیبت کے دوران امام زمانہ {عج] کا دیدار ممکن ہے؟ فرمایا: جب خدا کو دیکھا جاسکتا ہے، تو امام کو جوخدا کی مخلوق ہیں، اسے کیوں نہیں دیکھا جاسکتا ہے – ایک دوسری جگہ پر ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ نے امام زمانہ {ع} سے ملاقات کی ہے؟ فرمایا: " مازددت یقینا" کتاب" در کوی بے نشانہا" سری درزندگ عارف باللہ و سال-
[3] - علامہ حاج میرزا محدث زری، علماء کے درمیان " خاتم المحدثین " کے لقب سے مشہور تھے کہ آیت اللہ العظمی میرزائے بزرگ شیرازی نے ان کی کتاب " بدر مشعشع " کی اپنی ایک تقریظ میں انھیں علامہ زمان اور نادرہ دوران کہا ہے- وہ خاص افراد کے درمیان علامہ نوری کو میرزائے نوری، محدث نوری اور حاجی نوری کے نام سے یاد کرتے تھے-
[4]ملاحظہ ھو: کتاب «نجم الثاقب» تالیف محدث نوری.
[5] محمد بن یعقوب الکافی، ج1، ص 340، شیخ طوسی، کتاب الغیبه، ص 102؛ محمدباقر مجلسی، بحارالأنوار، ج 52، ص 153، ح 6.
[6] ابن عساکر، 1/60
[7] « الْأَبْدَالُ يَكُونُونَ بِالشَّامِ وَهُمْ أَرْبَعُونَ رَجُلًا كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللَّهُ مَكَانَهُ رَجُلًا ...»، ابن عساکر، 1/60؛ ابن اثیر، 107؛ ابن حنبل، 112
[8] مسند احمد، ج 5، ص 322.
[9] طبراني، المعجم الکبیر، ج 10، ص 324.
[10] حلية الاولياء، ج 1، ص 8.
[11] طبراني، ایضا، ج 1، ص 224
[12] « إن أبدال أمتي لم يدخلوا الجنة بالأعمال ، ولكن إنما دخلوها برحمة الله ، وسخاوة الأنفس ، وسلامة الصدور ، ورحمة لجميع المسلمين»