اعلی درجے کی تلاش
کا
6629
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2014/10/26
سوال کا خلاصہ
کیا جس کا رابطہ خدا سے زیادہ ہو وہ زیادہ بلا و مصیبت سے دوچار ہوتا ہے؟
سوال
جو مسئلہ میں، پیش کرتا ہوں، در حقیقت وہ ایک سوال ہے جو اچانک میرے ذہن میں پیدا نہیں ہوا ہے بلکہ میں نے اس کے ساتھ ایک مدت تک ایک قسم کی زندگی گزاری ہے، لیکن حال ہی میں اس کے بارے میں آگاہ ہوا ہوں۔ یہ موجوع، حافظ کے مشہور شعر کے بارے میں میرے ادراک سے متعلق ہے کہ فرماتے ہیں: ہر کہ در این بزم مقرب تر است جام بلا بیشتری می دہند جب میں اس شعر کا حقیقی دنیا اور اس میں موجود گونا گوں تاریخی اور موجودہ مسائل سے موازنہ کرتا ہوں تو اس کے صحیح ہونے پر ایمان لاتا ہوں۔ لیکن دوسری جانب یہ موضوع مجھے اذیت پہنچاتا ہے اور میرے ذہن کو مشوّش کرتا ہے، کیونکہ اگر فیصلہ کرتا ہوں کہ خداوند متعال سے اپنے تقرب کو افزائش بخشوں، تو یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اس لمحہ کے بعد مجھے آسمانی بلاؤں کا انتظار کرنا چاہئے جومیرے سرپر نازل ہو جائیں گی، لہذا تقرب الہی میرے لئے نہ صرف کوئی مدد نہیں کرنا بلکہ میری ذہنیت کو گزشتہ کی بہ نسبت کمزور تر کر دیتا ہے، اور میں احساس کرتا ہوں کہ تاریخی تجربوں کے پیش نظر مجھے بھی اس قسم کے شکست خوردہ انسانوں کی بڑی تعداد میں اضافہ ہونا چاہئیے۔ یہ موضوع تناقض اور رنج آور ہے اور گویا سنت الہی کا قاعدہ یہ ہےکہ جوبھی خداوند متعال سے اپنے رابطہ کو قوی اور مستحکم تر کرے اسے بد بختیوں، رنج و درد اور حتی کہ بعض اوقات ذلیل و خوار ہونے کے لئے آمادہ رہنا چاہئیے۔ اس موضوع کو بہت سے مومنین اور ماضی اور حال کے حقیقت کے متلاشیوں کی سوانح حیات میں بخوبی مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ یہ موضوعات اس امر کا سبب بنے ہیں کہ خداوند متعال سے بخوبی رابطہ برقرار نہیں کرسکا ہوں۔ اور اس قسم کے سوالات میرے ذہن کو شدید طور پر اذیت و آزار پہنچاتے ہیں۔ میں توقع رکھتا تھا کہ خدا پر توکل اور تقرب الہی سے اپنے قوت قلب کو تقویت بخشوں اور گزشتہ کی بہ نسبت زیادہ اطمینان سے اپنی زندگی کو جاری رکھوں، لیکن محسوس کر رہاہوں کہ اس کے برعکس پیش آیا ہے مہر بانی کرکے میری راہنمائی کرکے اس رنج سے مجھےنجات دلائیے، شکریہ۔
ایک مختصر
شیطان، فرزندان آدم کا قسم خوردہ دشمن ہے کہ اس نے خدا کی عزت و جلال کی قسم کھائی ہے کہ فرزندان آدم کو ہر گز نہ چھوڑے گا یہاں تک کہ انھیں گمراہ کردے گا، صرف مخلص انسان پر تسلط کی طاقت نہیں رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے قابل توجہ ہے کہ شیطان کی ریشہ دوانیوں سے کبھی غافل نہیں رہنا چاہئیے۔
مومن انسان بلاؤں سے دوچار ہوتے ہیں، لیکن توجہ کرنی چاہئیے کہ:
الف) جیسا کہ لغت شناسوں نے کہا ہےکہ: بلاء، امتحان و آزمائش کے معنی میں ہے۔
ب) دنیا امتحان گاہ ہے اور تمام انسانوں کا امتحان لیا جاتا ہے، منتہی یہ کہ امتحانات مختلف افراد کے بارے میں مختلف، یعنی شدید اور ضعیف ہوتے ہیں اور ظرفیتوں اور درجات کے مطابق امتحان لئے جاتے ہیں۔
ج) امتحان کے مواقع میں سے ایک، مشکلات و مصیبتوں سے دوچار ہونا ہے اور یہ صرف مومنوں سے مخصوص نہیں ہے، اگر چہ شاید ان کے امتحانات سخت تر ہوں۔
د) بالآخر، تقرب الہی، کمال کا ایک درجہ ہے، کہ ممکن ہے بندہ اس تک پہنچے، اس لحاظ سے ان کے امتحان کا مرتبہ گزشتہ مراحل کی بی نسبت سخت تر و اہم تر ہو۔
نتیجتاً، جو شخص کمال کے بلند درجہ پر پہنچنا چاہتاہے، اسے سخت تر امتحان کے لئے آمادہ رہنا چاہئیے، نہ غذاب و شدید تر مصیبت کے لئے۔ پس خدا پر توکل اور اس سے مدد طلب کرکے ترقی اور کمال کی راہ پر گامزن ہو جائیے۔
 
تفصیلی جوابات
موضوع کی وضاحت کے لئے ہم اس سوال کا جواب چند حصوں میں پیش کرتے ہیں:
اولاً : شیطان، فرزندان آدم کا قسم خوردہ دشمن ہے کہ اس نے خدا کی عزت و جلال کی قسم کھائی ہے کہ فرزندان آدم کو ہر گز نہ چھوڑے گا یہاں تک کہ انھیں گمراہ کردے گا، صرف مخلص انسان پر تسلط کی طاقت نہیں رکھتا ہے۔ [1]
اس لحاظ سے قابل توجہ ہے کہ شیطان کی ریشہ دوانیوں سے کبھی غافل نہیں رہنا چاہئیے، کیونکہ اس نے جو قسم کھائی ہے، اس کے مطابق ہمیشہ انسانوں میں وسواس ڈالنے کی کوششوں میں ہوتا ہے اور قابل توجہ ہے کہ شیطان اس راہ سے داخل ہوتا ہے جہاں سے انسان کو غافل کرسکے اور بظاہر قابل توجیہ بہانوں سے مومن انسان کی عبادتوں کی راہ سے کمال تک پہچنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔
ثانیاً: جیسا کہ آپ نے خود اعتراف کیا ہے کہ، روایات کے مطابق مومن انسان بلاؤں میں مبتلا ہوتے ہیں، لیکن قابل توجہ ہے کہ:
الف) جیسا کہ لغت شناسوں نے کہا ہے کہ بلاء امتحان و آزمائش کے معنی میں ہے۔ [2] اس بنا پر امتحان ہمیشہ انسان کے مصیبت سے دوچار ہونے کے معنی میں نہیں ہے۔
ب) دنیا امتحان گاہ ہے [3] اور انسانوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جس کا امتحان نہ لیا جائے، منتہی یہ کہ امتحان شدید اور ضعیف ہوتے ہیں اور ظرفیت اور درجات کے مطابق امتحان ہوتے ہیں۔ ان طالب علموں کے مانند جو پرائمری، مڈل، ہائرسیکنڈری، کالج اور یونیورسٹی کے مراحل طے کرتے ہیں، فطری بات ہے کہ ہر ایک اپنے مرحلہ کا امتحان طے کرتا ہے، یعنی یونیورسٹی کا طالب علم  پرائمری سکول کا امتحان نہیں دیتا ہے اور پرائمری سکول کا طالب علم یونیورسٹی کا امتحان نہیں دیتا ہے۔
ج) امتحان کے مواقع میں سے ایک، مشکلات اور مصیبتوں سے دوچار ہونا ہے اور یہ صرف مومنوں سے مخصوص نہیں ہے، اگر چہ کمال کے بلند مدارج طے کرنے کی وجہ سے ان کے امتحانات سخت تر ہوں۔ [4] لیکن اس کےیہ معنی نہیں ہیں کہ دوسرے لوگوں کا بلاؤں اور مصیبتوں سے امتحان نہیں لیا جائے گا، بلکہ ممکن ہے گناہگار انسان بھی بلاؤں سے دوچار ہو جائیں، یعنی بہت سے ایسے گناہ ہیں کہ ان کا مرتکب ہونے والا اسی دنیا میں سزا پائے گا۔ [5]
د) تقرب الہی، کمال کا ایک درجہ ہے کہ ممکن ہے بندہ اس تک پہنچ جائے، اس لحاظ سے اس کے امتحان کا مرتبہ، گزشتہ مراحل سے سخت تر اور اہم تر ہو۔
پس اگر کوئی کمال کے بلند تر درجات تک پہنچنا چاہتا ہو، تو اسے سخت تر امتحان کے لئے آمادہ رہنا چاہئیے ورنہ اسی پر اکتفاکرے جو اسے ملا ہے۔
نتیجہ یہ کہ جو کمال کے بلند درجہ پر پہنچتا ہے، اسے سخت تر امتحان کے لئے تیار رہنا چاہئے نہ عذاب اور شدید مصیبت کے لئے پس خدا پر توکل کرکے اور اس سے مدد طلب کرکے ترقی اور کمال کی راہ پر گامزن ہو کر کمال تک پہنچنے کی کوشش کیجئے۔
اس موضوع سے متعلق دوسرے عناوین:
جمع بین آیات و روایات نعمت های الاهی و بلاها، 4591 (سایت: 5113).
بلایای طبیعی (سیل، زلزله، طوفان و...) و عذاب الاهی، 288 (سایت: 434)
 

[1] ۔ ص، 82 و 83، " اس نے کہا: تو پھر تیری عزت کی قسم میں سب کو گمراہ کروں گا۔ علاوہ تیرے ان بندوں کے جنھیں تونے خالص بنایا ہے۔
[2] ۔ ابن منظور محمد بن مكرم، لسان‏العرب، ج 14،  ص  83 ،  ناشر دار صادر، بيروت، طبع: سوم‏، 1414 ق‏، بَلَوْتُ الرجلَ بَلْواً و بَلاءً و ابْتَلَيْته: اخْتَبَرْته، و بَلاهُ يَبْلُوه بَلْواً إذا جَرَّبَه و اخْتَبَره.
[3] ملک، 2، اس نے موت و حیات کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ تمھاری آزمائش کرےکہ تم میں حسن عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے؟"
[4] ۔ مستدرك‏الوسائل، ج 2، ص 427، حدیث، 2368-  31، وَ قَالَ النَّبِيُّ (ص) نبی اکرم (ص) نے فرمایا ہے: جب خداوند اپنے کسی بندے کو دوست رکھتا ہے اسے سختیوں اور مصائب سے دوچار کرتا ہے اگر اس نے صبر و شکیبائی کا مظاہرہ کیا اسے انتخاب کرتا ہے اور اگر خوشحال ہوا تو اسے اپنے لئے معین کرتا ہے۔
[5] ۔ کلینی، كافي، ج 2، ص 347، دار الکتب الاسلامیة، تهران، 1365 هـ ش، حدیث 4، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (ع) قَالَ فِي كِتَابِ عَلِيٍّ ع ثَلَاثُ خِصَالٍ لَا يَمُوتُ صَاحِبُهُنَّ أَبَداً حَتَّى يَرَى وَبَالَهُنَّ الْبَغْيُ وَ قَطِيعَةُ الرَّحِمِ وَ الْيَمِينُ الْكَاذِبَة ... .
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

زمرہ جات

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا