Please Wait
کا
9237
9237
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2014/10/06
سوال کا خلاصہ
محمد بن یعقوب کلینی کون تھے ؟ اور انھوں نے کون سی کتابیں تالیف کی ہیں ؟
سوال
محمد بن یعقوب کلینی کون تھے ؟ اور انھوں نے کون سی کتابیں تالیف کی ہیں ؟
ایک مختصر
محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی ، شیعوں کے ایک نامور دانشور اور محدث تھے ۔ وہ بنیادی طور پر ایرانی تھے اور تیسری صدی ہجری کے دوسرے نصف حصہ اور چوتھی صدی ہجری کے پہلے نصف حصہ میں زندگی کرتے تھے۔ وہ شہر رے کے اطراف میں واقع کلین نامی گاوں میں پیدا ہوئے ہیں اور بغداد میں دار فانی کو وداع کر گئے ہیں ۔ عظیم دانشوروں نے ان کی تعریفیں کی ہیں، جو بذات خود ان کی بلند شخصیت کی دلیل ہے ۔
کلینی، ۶ کتابوں کے مولف ہیں کہ ان میں سے اکثر اس وقت مو جود نہیں ہیں ۔ لیکن کتاب کافی، کلینی کی اہم ترین تالیف شمار ہوتی ہے ، جس سے صدیوں سے حدیث شناس استفادہ کرتے آئے ہیں ۔
کلینی، ۶ کتابوں کے مولف ہیں کہ ان میں سے اکثر اس وقت مو جود نہیں ہیں ۔ لیکن کتاب کافی، کلینی کی اہم ترین تالیف شمار ہوتی ہے ، جس سے صدیوں سے حدیث شناس استفادہ کرتے آئے ہیں ۔
تفصیلی جوابات
محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی رازی[1] کو ان کی کنیت،ابوجعفرسے پہچانا جاتا ہے[2]۔ ان کی صحیح تاریخ پیدائش مشخص نہیں ہے[3] ۔ اس کے باوجود یہ امرقطعی ہے کہ وہ تیسری صدی ہجری کے دوسرے حصہ میں پیدا ہوئے ہیں۔ کلینی، شہر رے کے اطراف میں موجود "کلین"نامی گاوں میں پیدا ہوئے ہیں ،اسی لئے وہ کلینی کے نام سے مشہور ہیں[4]۔ اس بناء پر کلینی بنیادی طور پر ایرانی ہیں۔
ان کے والد شہر رے کے علماء میں سے تھے،وہ کلین نامی گاوں میں زندگی بسرکےتے تھے اور وفات کے بعد وہیں پر سپرد خاک کئے گئے ہیں[5]۔
افسوس ہے کہ عالم تشیع کے اس عظیم دانشور، یعنی کلینی کی قابل فخر زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہپیں اور اسی وجہ سے ان کی زندگی کے بارے میں مبہم نکات پائے جاتے ہیں۔
لیکن جس چیز نے گزشتہ صدیوں کے دوران امت اسلامیہ میں کلینی کو متعارف کرایا ہے،وہ ان کی مشہور کتاب "کافی"ہے اور یہ کتاب ان کی نامور شخصیت کو متعارف کرانے کے لئے کافی ہے ۔
ان کی زندگی کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے غیبت صغریٰ کا زمانہ ادراک کیا ہے اور امام زمانہ[عج]کے خاص نائبوں کے ہم عصر تھے،حتیٰ کہ بعض یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ انھوں نے اپنی کتاب "کافی" کو امام زمانہ[عج] کی خدمت میں پیش کیا ہے[6] ۔
کلینی،اپنے شہر کے عظیم علماء میں شمار ہوتے تھے[7]۔ انھیں حدیث نقل کرنے کے سلسلہ میں مختلف مشائخ کی طرف سے اجازت حاصل تھی اور ان کے مختلف مشائخ کے پیش نظر یہ ممکن ہے کہ انھوں نے مختلف شہروں کا سفر کیا ہو۔ سر انجام انھوں نے علم حاصل کرنے کے لئے بغداد ہجرت کی،جو اس وقت عالم اسلام کا مرکز شمار ہوتا تھا۔[8]
کلینی عظیم علماء لی نظر میں :
کلینی ایک ایسی شخصیت تھے،جن کی مدح و ثنا میں بہت سے علماء نے زبان کھولی ہے اور ان کی یہ تعریف و تمجید ہمیں کلینی کو سمجھنے میں قطعا مدد کرسکتی ہیں۔ یہاں پر ہم ایسے افراد کی ایک مختصر تعداد کا ذکر کرتے ہیں جنھوں نے کلینی کی تعریف و تمجید کی ہے:
شیعوں کے ایک عظیم رجالی شخصیت کے عنوان سے نجاشی،کلینی کے بارے میں کہتے ہیں:
"کلینی حدیث نقل کرنے کے سلسلہ میں قابل اعتبارترین اوردقیق ترین شخص تھے[9] ۔" اسی قسم کا کلام علم رجال کے افراد سے بھی نقل کیا گیا ہے[10]۔ شیخ طوسی بھی کلینی کو ثقہ اور حدیث شناس کےعنوان سے متعارف کراتے ہیں[11] ۔ سید بن طاوس،کلینی کو ایک ایسے فرد کے عنوان سے یاد کرتے ہیں جن کے ثقہ اور امانتدار ہونے کے بارے میں لوگ اتفاق نظر رکھتے ہیں[12] ۔
اہل سنت کےدرمیان بھی کلینی کی عظمت و بزرگی اس قدر تھی کہ ابن اثیر،انھیں اپنی صدی کے شیعوں کی مشہور ترین اور سب سے با اثر شخصیت کے عنوان سے متعارف کراتے ہیں[13] ۔
کلینی کے مشائخ اور ان کی تالیفات:
کلینی شیعوں کے عظیم محدث ہیں اور ان کے مشائخ بھی قابل توجہ اہمیت کے حامل ہیں،لیکن ان کے تمام مشائخ کا یہاں پر نام لینا ممکن نہیں ہے ۔ لیکن کلی طور پر کہا جاسکتاہے کہ وہ اپنی اکثر روایتوں کوعلی بن ابراہیم بن ہاشم قمی اور محمد بن یحیی عطاراشعری سے نقل کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے نامور مشائخ کے عنوان سے ابوالعباس محمد جعفررزّاز،ابو علی احمد بن ادریس اشعری، حمید بن زیاد،ابو سلیمان داود بن کورہ قمی،احمد بن محمد عاصمی اور حسین بن محمد اشعری[14] کا نام قابل ذکر ہے ۔
ان کی تالیفات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے چھ کتابیں تالیف کی ہیں :
۱ ۔ الکافی ۲۔ تفسیر الرویا ۳۔ الرد علی القرامطہ ۴۔ رسائل الا ئمہ ۵۔ کتاب الر جال ۶۔ ماقبل فی الائمہ من الشعر
ان کی اکثر کتابیں مفقود ہو چکی ہیں۔ آج صرف دوسری کتابوں میں درج کئے گئے ان کتابوں کے نام معلوم ہوتے ہیں ۔ اس کے باوجود کلینی کی مشہور ترین کتاب "کافی" اس وقت موجود ہے[15]۔ کلینی نے اس کتاب کی تالیف میں تقریبا بیس سال صرف کئے ہیں[16]۔ اور یہ اس کتاب کی اہمیت اور قدر و منزلت کی واضح دلیل ہے۔
اب ہم یہاں پر اس کتاب کے بارے میں چند اہم نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
۱۔ کتاب "کافی" شیعوں کی حدیث کی اہم چار کتابوں میں سے شمار ہوتی ہے ،جن پر شیعہ علماء اعتماد اور بھروسہ کر تے ہیں، شائد "کافی" کتب اربعہ کی باقی کتابوں سے زیادہ قدر و قیمت رکھتی ہو،کیونکہ یہ کتاب کتب اربعہ کی دوسری کتابوں سے پہلے تالیف کی گئی ہے اور غیبت صغری کے زمانہ میں تالیف کی گئی ہے اور اس کتاب کی احادیث کی سند زیادہ طولانی نہ ہونے کی وجہ سے اس کتاب پر زیادہ اعتبار کیا جا سکتا ہے ۔
۲۔ کتاب "کافی" میں کلینی کے لکھے گئے مقدمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی کتاب تالیف کرنا چاہتے تھے،جس میں علم دین کے تمام ابواب موجود ہوں تاکہ دینی علوم کے طالب علموں کے لئے ایک مرجع کی حیثیت رکھتی اور محققین اس سے استفادہ کرسکتے[17] ۔
۳ ۔ اس کتاب کی اس زمانہ میں مختلف ابواب اور اصول و فروع کی ترتیب سے تالیف کرنا قابل توجہ بات ہے اور اسی چیز نے اس کتاب کو اس کے بعد تالیف کی جانے والی دوسری کتابوں پر بر تری بخشی ہے،البتہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولف نے کس قدر زحمتیں اٹھائی ہیں،اور اس امر نے اس کتاب کی طرف رجوع کرنے والوں کے کام کو آسان بنادیاہے ۔
۴۔ اس کتاب میں روایتوں کی سند بیان کی گئی ہے اور اس میں"عدۃمن اصحابنا"اور یا "جماعۃ من اصحابنا" کی عبارتوں سے مراد بعض مشخص افراد کی طرف اشارہ ہے،جو مولف کے مشائخ ہیں۔
اس سلسلہ میں فیض کاشانی کہتے ہیں:"کلینی نے خود پر لازم قرار دیا تھا کہ خاص موارد کے علاوہ تمام روایتو ں میں اپنے اور معصومین[ع] کے درمیان سند کے سلسلہ کو بیان کریں گے[18] ۔ لیکن یہ امر اس کتاب کی تمام احادیث کی تائید کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس کتاب میں ضعیف اور غیر قابل استناد احادیث بھی موجود ہیں اور یہ امر اس کتاب اور اس کے مولف کی قدر و قیمت کے منافی نہیں ہے۔ لہذا ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ علامہ مجلسی ان کی شایان شان تعریف و تمجید کرنے کے باوجود اپنی کتاب "مرآۃ العقول فی شرح اخبار آل رسول" میں کافی کی بعض احادیث کو ضعیف،مرسل وغیرہ جانتے ہیں ۔
کلینی کی وفات:
کلینی سنہ۳۲۸ [19]ھجری میں اور ایک دوسرے قول کے مطابق سنہ۳۲۹ ھجری میں بغداد میں رحلت کر گئے ہیں اور اسی شہر میں باب الکوفہ کے مقام پر سپرد خاک کئے گئے ہیں [20]۔
ان کے والد شہر رے کے علماء میں سے تھے،وہ کلین نامی گاوں میں زندگی بسرکےتے تھے اور وفات کے بعد وہیں پر سپرد خاک کئے گئے ہیں[5]۔
افسوس ہے کہ عالم تشیع کے اس عظیم دانشور، یعنی کلینی کی قابل فخر زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہپیں اور اسی وجہ سے ان کی زندگی کے بارے میں مبہم نکات پائے جاتے ہیں۔
لیکن جس چیز نے گزشتہ صدیوں کے دوران امت اسلامیہ میں کلینی کو متعارف کرایا ہے،وہ ان کی مشہور کتاب "کافی"ہے اور یہ کتاب ان کی نامور شخصیت کو متعارف کرانے کے لئے کافی ہے ۔
ان کی زندگی کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے غیبت صغریٰ کا زمانہ ادراک کیا ہے اور امام زمانہ[عج]کے خاص نائبوں کے ہم عصر تھے،حتیٰ کہ بعض یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ انھوں نے اپنی کتاب "کافی" کو امام زمانہ[عج] کی خدمت میں پیش کیا ہے[6] ۔
کلینی،اپنے شہر کے عظیم علماء میں شمار ہوتے تھے[7]۔ انھیں حدیث نقل کرنے کے سلسلہ میں مختلف مشائخ کی طرف سے اجازت حاصل تھی اور ان کے مختلف مشائخ کے پیش نظر یہ ممکن ہے کہ انھوں نے مختلف شہروں کا سفر کیا ہو۔ سر انجام انھوں نے علم حاصل کرنے کے لئے بغداد ہجرت کی،جو اس وقت عالم اسلام کا مرکز شمار ہوتا تھا۔[8]
کلینی عظیم علماء لی نظر میں :
کلینی ایک ایسی شخصیت تھے،جن کی مدح و ثنا میں بہت سے علماء نے زبان کھولی ہے اور ان کی یہ تعریف و تمجید ہمیں کلینی کو سمجھنے میں قطعا مدد کرسکتی ہیں۔ یہاں پر ہم ایسے افراد کی ایک مختصر تعداد کا ذکر کرتے ہیں جنھوں نے کلینی کی تعریف و تمجید کی ہے:
شیعوں کے ایک عظیم رجالی شخصیت کے عنوان سے نجاشی،کلینی کے بارے میں کہتے ہیں:
"کلینی حدیث نقل کرنے کے سلسلہ میں قابل اعتبارترین اوردقیق ترین شخص تھے[9] ۔" اسی قسم کا کلام علم رجال کے افراد سے بھی نقل کیا گیا ہے[10]۔ شیخ طوسی بھی کلینی کو ثقہ اور حدیث شناس کےعنوان سے متعارف کراتے ہیں[11] ۔ سید بن طاوس،کلینی کو ایک ایسے فرد کے عنوان سے یاد کرتے ہیں جن کے ثقہ اور امانتدار ہونے کے بارے میں لوگ اتفاق نظر رکھتے ہیں[12] ۔
اہل سنت کےدرمیان بھی کلینی کی عظمت و بزرگی اس قدر تھی کہ ابن اثیر،انھیں اپنی صدی کے شیعوں کی مشہور ترین اور سب سے با اثر شخصیت کے عنوان سے متعارف کراتے ہیں[13] ۔
کلینی کے مشائخ اور ان کی تالیفات:
کلینی شیعوں کے عظیم محدث ہیں اور ان کے مشائخ بھی قابل توجہ اہمیت کے حامل ہیں،لیکن ان کے تمام مشائخ کا یہاں پر نام لینا ممکن نہیں ہے ۔ لیکن کلی طور پر کہا جاسکتاہے کہ وہ اپنی اکثر روایتوں کوعلی بن ابراہیم بن ہاشم قمی اور محمد بن یحیی عطاراشعری سے نقل کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے نامور مشائخ کے عنوان سے ابوالعباس محمد جعفررزّاز،ابو علی احمد بن ادریس اشعری، حمید بن زیاد،ابو سلیمان داود بن کورہ قمی،احمد بن محمد عاصمی اور حسین بن محمد اشعری[14] کا نام قابل ذکر ہے ۔
ان کی تالیفات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے چھ کتابیں تالیف کی ہیں :
۱ ۔ الکافی ۲۔ تفسیر الرویا ۳۔ الرد علی القرامطہ ۴۔ رسائل الا ئمہ ۵۔ کتاب الر جال ۶۔ ماقبل فی الائمہ من الشعر
ان کی اکثر کتابیں مفقود ہو چکی ہیں۔ آج صرف دوسری کتابوں میں درج کئے گئے ان کتابوں کے نام معلوم ہوتے ہیں ۔ اس کے باوجود کلینی کی مشہور ترین کتاب "کافی" اس وقت موجود ہے[15]۔ کلینی نے اس کتاب کی تالیف میں تقریبا بیس سال صرف کئے ہیں[16]۔ اور یہ اس کتاب کی اہمیت اور قدر و منزلت کی واضح دلیل ہے۔
اب ہم یہاں پر اس کتاب کے بارے میں چند اہم نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
۱۔ کتاب "کافی" شیعوں کی حدیث کی اہم چار کتابوں میں سے شمار ہوتی ہے ،جن پر شیعہ علماء اعتماد اور بھروسہ کر تے ہیں، شائد "کافی" کتب اربعہ کی باقی کتابوں سے زیادہ قدر و قیمت رکھتی ہو،کیونکہ یہ کتاب کتب اربعہ کی دوسری کتابوں سے پہلے تالیف کی گئی ہے اور غیبت صغری کے زمانہ میں تالیف کی گئی ہے اور اس کتاب کی احادیث کی سند زیادہ طولانی نہ ہونے کی وجہ سے اس کتاب پر زیادہ اعتبار کیا جا سکتا ہے ۔
۲۔ کتاب "کافی" میں کلینی کے لکھے گئے مقدمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی کتاب تالیف کرنا چاہتے تھے،جس میں علم دین کے تمام ابواب موجود ہوں تاکہ دینی علوم کے طالب علموں کے لئے ایک مرجع کی حیثیت رکھتی اور محققین اس سے استفادہ کرسکتے[17] ۔
۳ ۔ اس کتاب کی اس زمانہ میں مختلف ابواب اور اصول و فروع کی ترتیب سے تالیف کرنا قابل توجہ بات ہے اور اسی چیز نے اس کتاب کو اس کے بعد تالیف کی جانے والی دوسری کتابوں پر بر تری بخشی ہے،البتہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولف نے کس قدر زحمتیں اٹھائی ہیں،اور اس امر نے اس کتاب کی طرف رجوع کرنے والوں کے کام کو آسان بنادیاہے ۔
۴۔ اس کتاب میں روایتوں کی سند بیان کی گئی ہے اور اس میں"عدۃمن اصحابنا"اور یا "جماعۃ من اصحابنا" کی عبارتوں سے مراد بعض مشخص افراد کی طرف اشارہ ہے،جو مولف کے مشائخ ہیں۔
اس سلسلہ میں فیض کاشانی کہتے ہیں:"کلینی نے خود پر لازم قرار دیا تھا کہ خاص موارد کے علاوہ تمام روایتو ں میں اپنے اور معصومین[ع] کے درمیان سند کے سلسلہ کو بیان کریں گے[18] ۔ لیکن یہ امر اس کتاب کی تمام احادیث کی تائید کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس کتاب میں ضعیف اور غیر قابل استناد احادیث بھی موجود ہیں اور یہ امر اس کتاب اور اس کے مولف کی قدر و قیمت کے منافی نہیں ہے۔ لہذا ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ علامہ مجلسی ان کی شایان شان تعریف و تمجید کرنے کے باوجود اپنی کتاب "مرآۃ العقول فی شرح اخبار آل رسول" میں کافی کی بعض احادیث کو ضعیف،مرسل وغیرہ جانتے ہیں ۔
کلینی کی وفات:
کلینی سنہ۳۲۸ [19]ھجری میں اور ایک دوسرے قول کے مطابق سنہ۳۲۹ ھجری میں بغداد میں رحلت کر گئے ہیں اور اسی شہر میں باب الکوفہ کے مقام پر سپرد خاک کئے گئے ہیں [20]۔
[1] امین، سید محسن، أعیان الشیعة، ج 10، ص 99، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1406ق.
[2] شیخ طوسی، الفهرست، محقق، مصحح، آل بحر العلوم، سید محمد صادق، ص 395، نجف، المکتبة المرتضویه،
[3] حسینى جلالى، سید محمد حسین، فهرس التراث، ج 1، ص 372، قم، دلیل ما، 1422ق.
[4] أعیان الشیعة، ج10، ص 99.
[5] ایضا
[6] مزید معلومات کےلئے ملاحظہ ہو: 2785؛ عرضه کتاب کافی بر امام زمان(عج)
[7] سبحانى، جعفر، موسوعة طبقات الفقهاء، ج 4، ص 478، قم، مؤسسه امام صادق، 1418ق.
[8] أعیان الشیعة، ج 10، ص 99.
[9]طبع ششم، 1365ش. نجاشی، احمد بن علی، فهرست أسماء مصنفی الشیعة(رجال نجاشی)، ص 377، قم، دفتر انتشارات اسلامی
[10] ر.ک: علامه حلى، خلاصة الاقوال، ص 145، قم، دار الذخائر، 1411ق؛ ابن داود حلى، کتاب الرجال، ص 341، انتشارات دانشگاه تهران، 1383ق.
[11] الفهرست، ص 395.
[12] ابن طاووس، علی بن موسی، کشف المحجة لثمرة المهجة، محقق، مصحح، حسون، محمد، ص 219، قم، بوستان کتاب، طبع دوم، 1375ش.
[13] بن اثیر جزری، مبارک بن محمد، جامع الأصول فی أحادیث الرسول، ج 12، ص 895، مکتبة الحلوانی، مطبعة الملاح، مکتبة دار البیان، دارالفکر، طبع اول، بیتا.
[14] موسوعة طبقات الفقهاء، ج 4، ص 479.
[16] رجال ابن داود، ص 341.
[17] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق، مصحح، غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، ج 1، ص 8، تهران، دار الکتب الإسلامیة، طبع چهارم، 1407ق.
[18] فیض کاشانی، محمد محسن، الوافی، ج 1، ص 31، اصفهان، کتابخانه امام أمیر المؤمنین علی(ع)، طبع اول، 1406ق.
[19] لفهرست، ص 395.
[20] رجال النجاشی، ص 377.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے