Please Wait
15656
اسلامی معارف اور اسلامی فقہ صدر اسلام کے واقعات اور پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانشینی کے مسئلہ کے بعد دو حصوں میں ہوگئے ۔ وہ فقہ جو پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ان کے اہل بیت(ع) سے لی گئی اور وہ فقہ جس کا فتوا دینے والے پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد صاحبہ اور تابعین تھے جو اہل سنت کے نام سے مشہور ہوئے۔
اسلامی فتوحات کے بعد فقہی مسائل کی کثرت اور ان کی بڑھتی ہوئی ضرورت ، نت نئے مسائل کے سامنے آنے نیز فقہ کے میدان میں دقیق وعلمی تحقیقات ، یعنی دوسری صدی ہجری کی ابتدسے چوتھی صدی ہجری کے اوائل تک کہ اہل سنت کی فقہ اپنے اوج پر پہنچی اہل سنت کے چار مذاہب تشکیل پائے۔
اجتہاد مطلق (فقہ کے تمام ابواب میں کسی خاص مذہب کو مد نظر رکھے بغیر کیا جانے والا اجتہاد)665ھ تک اہل سنت کے فقہیوں میں مکمل طور پر رائج تھا ، لیکن بعض اسباب کی بنا پر اہل سنت کے دوسرے مذاہب نظر انداز کئے گئے اور چار مذاہب کے علاوہ باقی مذاہب غیر قانونی ہوگئے اور تمام حکومتی عہدے مثلا قضاوت اور امامت جمعہ و فتوا دینے کا عہدہ انہیں دئے جاتے تھے جو چار مشہور مذاہب کی پیروی کرتے ہوں۔
ادھر گذشتہ برسوں میں اہل سنت کے در میان اجتہاد مطلق کا باب کھولنے کی خبریں سنی جارہی ہیں ۔ وہ لوگ ایک مذہب پر اجتہاد کے بعد چار مذاہب پر اجتہاد کی طرف مائل ہوئے اور آج انسانی زندگی میں اچانک بہت سی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے اجتہاد مطلق کے طلبکار ہوئے ہیں۔
احکام کی تشریع پیغمبر اکرمصل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں شروع ہوئی اور آپ کی حیات کے دوران جاری رہی ۔شیعوں کی نگاہ میں سنت و سیرت پیغمبرصل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فقہی و غیر فقہی احکام و مسائل کا بیان کرنا ۔ آپصل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت (ع) کے ذمہ تھا۔ لیکن اہل سنت کی نگاہ میں صحابہ ہی لوگوں کی دینی ہدایت کے ذمہ دار تھے۔
احکام اور اصولا فقہی باریکیوں اور سنت پیغمبر اکرمصل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالب و مفاہیم کا بیان کرنا 45ہجری تک اصحاب پیغمبرصل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذمہ تھا[1] البتہ اس سال کے بعد بھی بعض اصحاب زندہ تھے لیکن زیادہ تر فقہا ان کے علاوہ تھے ۔ اس کے بئد یہ ذمہ داری تابعین کے ذمہ تھی جو پہلی صدی ہجری کے آخر اور دوسری صدی ہجری کی ابتدا تک جاری رہی[2]
اہل سنت کے فقہی مذاہب کے وجود میں آنے کا زمانہ
فقہ اہل سنت ، اہل بیت (ع) کی امامت و رہبری کے مسئلہ کو قبول نہ کرنے کے بعد راہ اہل بیت سے دوسری راہ پر چل نکلی۔ ان لوگوں نے فقہی مسائل میں صحابہ اور ان کے بعد تابعین کی طرف رجوع کیا۔
اسلامی فتوحات کے بعد مسائل کے زیادہ ہونے کی وجہ سے فقہ کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور فقہ کے
میدان میں نت نئی علمی تحقیقات یعنی جب فقہ اہل سنت دوسری صدی ہجری کی ابتدا سے چوتھی صدی کے اوائل تک اپنے اوج کو پہنچی تو ان کے چار مذاہب تشکیل پائے ، اہل سنت کے یہاں متعدد فقہی مذاہب کی تشکیل ، فقہی مسائل کی کثرت اور اسلامی معاشرہ اور مسلمانوں کی اسلامی احکام کے سلسلہ میں بڑھتی ضرورت کا نتیجہ تھی ۔ البتہ ان مذاہب کی وسعت کے لئے مذہب اہل بیت(ع) کو معاشرہ سے دور کرنے کی غرض سے بعض سیاسی سازشوں سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ کیونکہ حکومتوں کے فقہ و فقاہت اہل بیت(ع) کے کنارہ کشی اختیار کرنے کے سبب خود حکومتوں نے اس خلا کو بھرنے کے لئے ظاہری طور پر ہی سہی بعض فقیہوں کا سہارا لیا۔ قابل ذکر ہے کہ شروع میں یہ فقہی مذاہب صرف چار نہیں تھے ، بلکہ بہت سے علمائے اہل سنت اپنی اپنی رائے اور مکتب کے مالک تھے اور ایک نے اپنی جغرافیائی حیثیت کے مدنطر اپنے طرفدار بھی پیدا کرلئے تھے ، منجملہ مذہب حسن بصری (21-110 ہ) مذہب اوزاعی (88- 157 ہ) مذہب داود بن علی اصفہانی(202-270ہ)جو مذہب ظاہری کے نام سے مشہور تھا اور مذہب محمد بن جریر طبری(224-310 ہ) کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔[3] لیکن بعد میں بعض مسائل کے پیش نظر یہ سارے مذاہب چار مذاہب میں منحصر ہوگئے۔
اہل سنت کے چاریں فقہی مذاہب کیوں؟
اہل سنت کے متعدد مذاہب میں بہت سے فقہی اختلافات کو دیکھتے ہوئے ، ان مذاہب کو محدود کرنے کے لئے ایک عام ماحول بننے لگا ۔ البتہ ان مذاہب کو چار کے عددمیں محدود کرنے کے حکومت کے اول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ عوام مذاہب کو معین تعداد میں محدود کر سکتے تھے بلکہ یہ حکومت تھی جو اس انحصار کے مصادیق کو مشخص کرسکتی تھی اور بعض اوقات ایک مذہب کو دوسرے پر ترجیح دے سکتی تھی اور کبھی اگر ایک مذہب کے پیروکار فتوا و قضاوت کے منصب پر پہنچے تھے تو اپنے مذہب کو پھیلاتے اور اسے عام کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ مثال کے طور پر حنفی مذہب اپنے پیروکاروں قوت و توانائی کی وجہ اہل سنت میں سب زیادہ پھیلا ۔ عباسی حکومت کا قاضی القضاۃ ابویوسف جس کا عباسی احترام کرتے تھے ، اس مذہب کو زیادہ رائج کرتاتھا اور عملی طور سے جولوگ حنفی مذہب ہوتے تھے وہ قضاوت کے عہدے پاتے تھے ۔[4] مذاہب اہل سنت کے حسب ذیل ہیں :
- ابوحنیفہ ، نعمان ابن ثابت (وفات150 ہ)
- مالک ابن انس(وفات 179 ہ)
- شافعی ، محمد بن ادریس(وفات 204 ہ)
- احمد بن حنبل(وفات 240 ہ)
اہل سنت کے درمیان اجتہاد کا باب کیوں پیدا ہوا؟
اصول اجتہاد اسلامی حیات اور اس کے قوانین کی شگفتی کی اصل ہے ۔ اجتہادہی کی روشنی میں مسلمان اسلامی معاشرہ کو گذشتہ صدیوں میں غیر اسلامی قوانین سے بے نیاز کرسکے۔ اجتہاد مطلق 665 ھ تک اہل سنت فقہا کے در میاں رائج تھا ، لیکن بعض اسباب کی بنا پر دیگر مذاہب کو نظر انداز کیا گیا اور چار مذاہب کے علاوہ بقیہ تمام مذاہب قانونی طور سے منسوخ ہوگئی ساتھ ہی قضاوت ،امامت جمعہ و افتا کے عہدے ان لوگوں کے اختیار میں آگئے جو ان چار مذاہب سے تعلق رکھتے تھے ۔[5] لیکن اہل سنت کی اجتہاد مطلق سے روگردانی کے اسباب کو جب امور میں سمیٹا جا سکتا یے۔[6]
۱- مذہبی تعصب :
ہر مذہب کے ماننے والے اپنے رئیس امام سے بہت لگاؤ رکہتے ہیں اور اس کے سلسلہ میں ہر طرح مخالفت کو جائز نہیں جانتے ۔ اس بارہ میں ایک شبہہ عالم کا کہنا ہے کہ( اہل سنت کے یہاں باب اجتہاد کے بند ہونے کا ایک سبب یہ ہوا ۔ اور ممکن تھا کہ یہی سبب شیعوں کے یہاں بہی باب اجتہاد کے بند ہونے کا سبب ہوتا ۔ وہ چار ائمہ اہل سنت یعنی ابوحنیفہ ، مالک ابن انس ، احمد بن حنبل ، محمد ابن ادریس شافعی کے عہد کے بعد ایک عظیم علمی شخصیت (شیخ طوسی رح) کا وجود جس نے اہل سنت کے معاشرہ اور علمی مراکز نیز فقہی طریق کار پر ایسا حیرت انگیز ملموس اثر ڈالا جس نے اظہار مخالفت اور اجتہاد کی طاقت ان سے چھین لی ۔[7]
۲ـ امر قضاوت میں مشکلات :
کبھی مختلف عدالتوں سے صادر ہونے والے فیصلوں میں شدید اختلاف وجود میں آتا تھا ـ اس طرح کہ اگر ایک محکمہ عدالت کا قاضی مجتہد ہوتا تو وہ اپنے اجتہاد کے مطابق فتوا دیتاتھا جس کے سبب عوام کی طرف سے بڑی تنقیدیں ہوتی تھیں کیونکہ ان کو یہ نظر آتاتھا کہ ہر عدالت سے ایک خاص موضوع کے لئے مختلف احکام صادر ہوتے ہیں لہذا حکومت نے قاضیوں کو حکم دیاکے عوام کے نزدیک احکام مقبولیت کو برقرار رکھنے اور بعض نزاع و جھگڑوں کو برطرف کرنے کے لئے قاضی ان چار مذاہب میں سے کسی ایک کے مطابق فیصلہ کرےـ
۳ـ سیاسی اسباب :
اس بارہ میں کہا گیا ہے کہ ( بظاہر سیاسی مراکز اس زمانہ میں علما اور علمی مراکز کے فکری بلوغ و ترقی سے خوفزدہ تھے ،کیونکہ علماء و مجتہدیں تھے جو اجتہاد کی بالیدگی اور فکری آزادی کے ذریعہ اسلام کا دفاع کرتے تھے ، ظالم حکام کی رائج کردہ بدعتوں اور کج رویوں پر روک لگا تے تھے اور اسلام کو زندہ و سر بلند کرکے معاشرہ میں رائج کرتے تھے ۔ یہ وہ چیز تھی جو حکام ظلم و جور کے مزاق سے سازگار نہیں ہے ۔[8]
البتہ مقید اجتہاد اہل سنت کے در میاں کسی حد تک پایا جا تا رہا ہے۔ اس طرح کا اجتہاد مجتہد کو مجال دیتا ہے کہ محدود طور پر ایک خاص مذہب کے دائرہ میں اس مذہب کے اصول و اساس کے مطابق احکام کے سلسلہ میں اجتہاد کرکے اور بیاں کرکے ، لیکن ان چار مذاہب کی تعیین کے بعد اجتہاد مطلق کا دروازہ بند ہوگیا۔
اہل سنت کا اجتہاد مطلق کی طرف پلٹنا
گذشتہ چند برسوں میں اہل سنت[9] کے در میان اجتہاد مطلق کا دروازہ کھلنے کی باتیں سنی جارہی ہیں یہ لوگ ایک مذہب میں اجتہاد (یعنی فقیہ صرف ایک مذہب کے فقہی اعتقادات مثلا حنفی ، کے دائرہ میں اجتہاد کرسکتا ہے) سے چار مذاہب کے در میان اجتہاد (یعنی فقیہ کے اجتہاد کا دائرہ ایک مذہب سے چار مذاہب تک وسیع ہوتا ہے اور وہ ان چاروں مذاہب کی بنیاد پر اجتہاد کا حق رکھتا ہے) کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور انسانی زندگی کے اندر آنے والی اچانک بہت سی تبدیلیوں کے مد نظر اجتہاد مطلق کے طلبگار ہوئے ہیں۔
آج اہل سنت کے مفکرین خود سے پونچھتے ہیں : عوام ایسے لوگوں کی تقلید کیوں کریں جو ہم سے سیکڑوں سال پہلے زندگی بسر کرتے تھے اور آج کے مسائل سے متعلق کوئی معلومات نہیں رکھتے؟
یوں ہی وہ پوچھتے ہیں : اگر تقلید لازم و واجب ہے تو کیا اہل سنت کے یہ چار امام خود بھی مقلد تھے یا نہیں؟ اور کس کی تقلید کرتے تھے؟
یہ افکار اہل سنت کے بہت سے پڑھے لکھے افراد میں پیھلے ہوئے ہیں اور یہ اس راہ میں آگے بڑھنے کی علامت ہے کہ اہل سنت میں بھی اجتہاد کا دروازہ کھل جائے۔
مربوط عناوین :
سوال796(سائٹ:855)(اجتہاد در شیعہ)
سوال795(سائٹ:854)(اجتہاد در قرآن و روایت)
سوال 4923(سائٹ:5182)(انگیزۂ پیدایش مذاہب)
[1] - سبحانی ، جعفر، تاریخ الفقہ الاسلامی و ادوار ، ص۱۴ ، موسسہ امام صادقؑ، قم ، ۱۴۲۷ ق۔
[2] - ہمان۔
[3]- ہمان ، ص۶۴۔
[4] - کثیری ، سید محمد ، السلفیۃ بین اہل سنتۃ و الامامیۃ ، ص۱۰۷، نشر الغدیر ، بیروت، ۱۴۱۸ ق۔
[5] - سبحانی ، جعفر ، راھنمای حقیقت ،ص۵۷۷، نشر مشعر، تہران ، ۱۳۸۷ش۔
[6] - کتاب تاریخ الفقہ الاسلامی و ادوارہ ، فصل اسباب غلق باب الاجتہاد سے استفادہ کرتے ہوئے۔
[7] - رضوانی ، علی اصغر ، شیعہ شناسی و پاسخ بہ شبہات ، ج۲، ص۶۱۵، نشر معشر ، تھران، ۱۳۸۴ش۔
[8] - ہمان۔
[9] - بعض مفکرین اہل سنت منجملہ محمد علی سیایس اور علی منصور المصری نے اس سلسلہ میں متعدد مقالے لکھے ہیں۔