Please Wait
کا
6831
6831
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2012/08/16
سوال کا خلاصہ
کیا ازدواج کے خاص شرائط ہیں؟
سوال
کیا ازدواج کے خاص شرائط ہیں؟ کیا اگر عورت اور مرد دل سے راضی ھوں، تو بھی عارضی ازدواج کےصیغہ کو زبان پر جاری کرنے کی ضرورت ہے؟
ایک مختصر
دین اسلام کے مطابق دائمی اور عارضی ازدواج کے لئے کچھ شرائط ہیں، جو حسب ذیل ہیں:
١۔ صیغہ عقد کا پڑھنا ﴿ صرف زن و مرد کا راضی ھونا کافی نہیں ہے، بلکہ اس رضامندی کے ساتھ خاص الفاظ کا انشاء بھی ضروری ہے﴾
۲۔ احتیاط واجب کے طور پر صیغہ عقد، صحیح عربی میں پڑھنا ضروری ہے، اور اگر مرد و زن خود صحیح عربی میں صیغہ نکاح نہ پڑھ سکتے ھوں، تو جس زبان میں بھی صیغہ پڑھیں صحیح ہے، اور ضروری نہیں ہے کہ وکیل قراردیں، لیکن ان کو ایسا لفظ کہنا چاہئیے جس کے معنی “ زوجت” اور “قلبت” ھوں۔
۳۔ اگر صیغہ عقد کو مرد اور عورت خود پڑھنا چاہیں تو عقد دائمی میں پہلے عورت کہے: زوجتک نفسی علی الصداق المعلوم﴿ میں نے معین شدہ مہر پر اپنے آپ کو آپ کی بیوی قرار دیا﴾ اس کے بعد بلا فاصلہ ، مرد کہے:“ قبلت الترویج” ﴿ میں نے ازدواج کو قبول کیا﴾، تو عقد صحیح ہے۔ اگر زن و مرد کسی دوسرے شخص کو اپنی طرف سے وکیل قرار دیں اور مثال کے طور پر مرد کا نام “ احمد” ھو اور عورت کا نام “ فاطمہ” تو پہلے عورت کا وکیل کہے:“ زوجت موکلتی فاطمہ لموکلک احمد علی الصداق المعلوم” اور اس کے بعد بلا فاصلہ مرد کا وکیل کہے: قبلت لموکلی احمد علی الصداق المعلوم” تو عقد صحیح ہے۔
لیکن عارضی عقد کے بارے میں ، مدت اور مہر معین کرنے کے بعد عورت کہے: زوجتک نفسی فی المدة المعلومہ علی المھر المعلوم” ﴿ میں نے معین مدت کے لئے معین مہر پر خود کو آپ کی بیوی قرار دیا﴾۔اس کے بعد بلافاصلہ مرد کہے: “ قبلت”﴿ میں نے قبول کیا﴾ تو عقد صحیح ہے۔ اور یا یہ کہ عورت کا وکیل، مرد کے وکیل سے کہے کہ: “ متعت موکلتی لموکلک فی المدة المعلومہ علی المھر المعلوم، اس کے بعد بلافاصلہ مرد کا وکیل کہے: قبلت لموکلی ھکذا” تو عقد صحیح ہے۔
۴۔ مھر کا معین کرنا اور عقد کے وقت اس کا ذکر کرنا۔
۵۔ مرد اور عورت یا ان کے نکاح پڑھنے والے وکلاء کا قصد انشاء سے عقد پڑھنا۔ یعنی اگر خود مرد اور عورت صیغہ پڑھتے ھوں تو عورت کو “ زوجتک نفسی” پڑھتے وقت یہ مقصد مد نظرھو کہ خود کو اس کی بیوی قرار دیتی ہے اور مرد کا “ قبلت الترویج” پڑھتے وقت یہ قصد ھو کہ اسے اپنی بیو قرار دینا قبول کرتا ہے۔
٦۔ صیغہ نکاح پڑھنے والا بالغ اور عاقل ھونا چاہئے۔
۷۔ اگر مرد اور عورت کا وکیل یا ان کا ولی صیغہ نکاح پڑھتا ھو، تو اسے میاں اور بیوی کو ذھن میں معین کرنا چاہئیے۔
۸۔ بالغ اور رشیدہ لڑکی، یعنی جو اپنی مصلحت کی تشخیص دے سکتی ھو اگر وہ شوہر کرنا چاہے تو اگر وہ کنواری ھو تو اسے اپنے باپ یا دادا سے اجازت لینی چاہئیے، اور اگر کنواری نہ ھو اور ازدواج کرنے کی وجہ سے اس کی بکارت ختم ھوئی ھو تو اسے اپنے باپ یا دادا سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
۹۔ عقد پڑھنے کے وقت عورت کسی کی دائمی یا عارضی بیوی نہ ھو اور عقد دائم یا عارضی کی حالت میں کسی دوسرے مرد کی عدت میں نہ ھو۔
١۰۔ مرد اور عورت ازدواج کے لئے راضی ھوں اور جبر و اکراہ کی وجہ سے ازدواج کرنے پر مجبور نہ ھوں۔[1]
١١۔ اس کے علاوہ عورت جب کسی مرد کے عقد میں آنا چاہتی ھو، تو اگر اس سے پہلے کسی دوسرے کے عقد میں رہی ھو اور اس سے طلاق لیا ھو یا عارضی عقد کی مدت ختم ھوئ ھو، تو اس کی عدت کی مدت بھی ختم ھونی چاہئیے۔
١۲۔ ایک اور شرط یہ ہے کہ جب کوئی عورت کسی کے عقد میں تھی، جس مرد کے ساتھ ازدواج کرنا چاہتی ہے، اس کے ساتھ زنا نہ کیا ھو، کیونکہ اگر کوئی مرد کسی شوہر دار عورت سے زنا کرے تو وہ عورت ہمیشہ کے لئے اس مرد پر حرام ھوتی ہے۔[2]
جو کچھ نقل کیا گیا وہ امام خمینی ﴿رح﴾ کےفتوی کے مطابق ہے اور پیش کئے گئے شرائط کا ایک اجمال ہے اور مزید آگاہی کے لئے فقہی کتابوں اور مراجع کی توضیح المسائل کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر کسی خاص مرجع تقلید کا فتوی جاننا چاہتے ھو تو ، مرجع تقلید کا نام لے کر دوبارہ ہم سے خط و کتابت کیجئے۔
بہر حال سوال کے دوسرے حصہ کے بارے میں حضرت آیت اللہ مھدی ہادوی تہرانی ﴿دامت بر کاتہ﴾ کا جواب حسب ذیل ہے:
دائمی یا عارضی عقد کے بغیر مرد اور عورت کے درمیان ہر قسم کا جنسی رابطہ حرام ہے اور عقد کے متحقق ھونے کے لئے صرف دل کی رضا مندی کافی نہیں ہے۔
١۔ صیغہ عقد کا پڑھنا ﴿ صرف زن و مرد کا راضی ھونا کافی نہیں ہے، بلکہ اس رضامندی کے ساتھ خاص الفاظ کا انشاء بھی ضروری ہے﴾
۲۔ احتیاط واجب کے طور پر صیغہ عقد، صحیح عربی میں پڑھنا ضروری ہے، اور اگر مرد و زن خود صحیح عربی میں صیغہ نکاح نہ پڑھ سکتے ھوں، تو جس زبان میں بھی صیغہ پڑھیں صحیح ہے، اور ضروری نہیں ہے کہ وکیل قراردیں، لیکن ان کو ایسا لفظ کہنا چاہئیے جس کے معنی “ زوجت” اور “قلبت” ھوں۔
۳۔ اگر صیغہ عقد کو مرد اور عورت خود پڑھنا چاہیں تو عقد دائمی میں پہلے عورت کہے: زوجتک نفسی علی الصداق المعلوم﴿ میں نے معین شدہ مہر پر اپنے آپ کو آپ کی بیوی قرار دیا﴾ اس کے بعد بلا فاصلہ ، مرد کہے:“ قبلت الترویج” ﴿ میں نے ازدواج کو قبول کیا﴾، تو عقد صحیح ہے۔ اگر زن و مرد کسی دوسرے شخص کو اپنی طرف سے وکیل قرار دیں اور مثال کے طور پر مرد کا نام “ احمد” ھو اور عورت کا نام “ فاطمہ” تو پہلے عورت کا وکیل کہے:“ زوجت موکلتی فاطمہ لموکلک احمد علی الصداق المعلوم” اور اس کے بعد بلا فاصلہ مرد کا وکیل کہے: قبلت لموکلی احمد علی الصداق المعلوم” تو عقد صحیح ہے۔
لیکن عارضی عقد کے بارے میں ، مدت اور مہر معین کرنے کے بعد عورت کہے: زوجتک نفسی فی المدة المعلومہ علی المھر المعلوم” ﴿ میں نے معین مدت کے لئے معین مہر پر خود کو آپ کی بیوی قرار دیا﴾۔اس کے بعد بلافاصلہ مرد کہے: “ قبلت”﴿ میں نے قبول کیا﴾ تو عقد صحیح ہے۔ اور یا یہ کہ عورت کا وکیل، مرد کے وکیل سے کہے کہ: “ متعت موکلتی لموکلک فی المدة المعلومہ علی المھر المعلوم، اس کے بعد بلافاصلہ مرد کا وکیل کہے: قبلت لموکلی ھکذا” تو عقد صحیح ہے۔
۴۔ مھر کا معین کرنا اور عقد کے وقت اس کا ذکر کرنا۔
۵۔ مرد اور عورت یا ان کے نکاح پڑھنے والے وکلاء کا قصد انشاء سے عقد پڑھنا۔ یعنی اگر خود مرد اور عورت صیغہ پڑھتے ھوں تو عورت کو “ زوجتک نفسی” پڑھتے وقت یہ مقصد مد نظرھو کہ خود کو اس کی بیوی قرار دیتی ہے اور مرد کا “ قبلت الترویج” پڑھتے وقت یہ قصد ھو کہ اسے اپنی بیو قرار دینا قبول کرتا ہے۔
٦۔ صیغہ نکاح پڑھنے والا بالغ اور عاقل ھونا چاہئے۔
۷۔ اگر مرد اور عورت کا وکیل یا ان کا ولی صیغہ نکاح پڑھتا ھو، تو اسے میاں اور بیوی کو ذھن میں معین کرنا چاہئیے۔
۸۔ بالغ اور رشیدہ لڑکی، یعنی جو اپنی مصلحت کی تشخیص دے سکتی ھو اگر وہ شوہر کرنا چاہے تو اگر وہ کنواری ھو تو اسے اپنے باپ یا دادا سے اجازت لینی چاہئیے، اور اگر کنواری نہ ھو اور ازدواج کرنے کی وجہ سے اس کی بکارت ختم ھوئی ھو تو اسے اپنے باپ یا دادا سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
۹۔ عقد پڑھنے کے وقت عورت کسی کی دائمی یا عارضی بیوی نہ ھو اور عقد دائم یا عارضی کی حالت میں کسی دوسرے مرد کی عدت میں نہ ھو۔
١۰۔ مرد اور عورت ازدواج کے لئے راضی ھوں اور جبر و اکراہ کی وجہ سے ازدواج کرنے پر مجبور نہ ھوں۔[1]
١١۔ اس کے علاوہ عورت جب کسی مرد کے عقد میں آنا چاہتی ھو، تو اگر اس سے پہلے کسی دوسرے کے عقد میں رہی ھو اور اس سے طلاق لیا ھو یا عارضی عقد کی مدت ختم ھوئ ھو، تو اس کی عدت کی مدت بھی ختم ھونی چاہئیے۔
١۲۔ ایک اور شرط یہ ہے کہ جب کوئی عورت کسی کے عقد میں تھی، جس مرد کے ساتھ ازدواج کرنا چاہتی ہے، اس کے ساتھ زنا نہ کیا ھو، کیونکہ اگر کوئی مرد کسی شوہر دار عورت سے زنا کرے تو وہ عورت ہمیشہ کے لئے اس مرد پر حرام ھوتی ہے۔[2]
جو کچھ نقل کیا گیا وہ امام خمینی ﴿رح﴾ کےفتوی کے مطابق ہے اور پیش کئے گئے شرائط کا ایک اجمال ہے اور مزید آگاہی کے لئے فقہی کتابوں اور مراجع کی توضیح المسائل کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر کسی خاص مرجع تقلید کا فتوی جاننا چاہتے ھو تو ، مرجع تقلید کا نام لے کر دوبارہ ہم سے خط و کتابت کیجئے۔
بہر حال سوال کے دوسرے حصہ کے بارے میں حضرت آیت اللہ مھدی ہادوی تہرانی ﴿دامت بر کاتہ﴾ کا جواب حسب ذیل ہے:
دائمی یا عارضی عقد کے بغیر مرد اور عورت کے درمیان ہر قسم کا جنسی رابطہ حرام ہے اور عقد کے متحقق ھونے کے لئے صرف دل کی رضا مندی کافی نہیں ہے۔
[1] امام خمینی ، سید روح اللہ ، توضیح المسائل مراجع، ج ۲، از ص ۴۴۹ تا ۴٦۰، دفتر انتشارات اسلامی، قم، ھشتم، ١۴۲۴ ھ ق؛ تحریر الوسیلہ، ج ۲، ص ۷۰١ تا ۷۰۷ و نیز از ص ۷۳۴ تا ۷۳٦۔ .
[2]۔ اقتباس از عنوان: ۹٦١﴿ ازدواج محدد بعد از ازدواج موقت﴾۔
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے