Please Wait
6218
- سیکنڈ اور
اولاً: "مرگ بر امریکہ" {امریکہ مردہ باد} کا نعرہ بعض احزاب میں رائج ایک سیاسی نعرہ ہے اور دنیا کے بعض ممالک میں وہاں کی سیاسی اور مذہبی پارٹیاں بھی یہ نعرہ دیتی ہیں اور یہ صرف ایران سے اختصاص نہیں رکھتا ہے۔ آج کل تمام دنیا میں امریکہ کی استکباری سیاست کے خلاف جلسے جلوس نکالے جاتے ہیں اور ان میں "امریکہ مردہ باد" کے نعرے بلند کیے جاتے ہیں اور اس طرح اپنے اعتراضات کو دنیا والوں تک پہنچاتے ہیں۔
ثانیاً: ایران کے اعلیٰ درجہ کے مسئولین نے بارہا اعلان کیا ہے کہ ان نعروں میں امریکہ کے عوام مدنظر نہیں ہیں بلکہ اس کے مخاطب امریکہ کی خارجی سیاست کے مسئولین ہیں کہ جنہوں نے گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران براہ راست مداخلت کر کے ایرانی قوم کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے ہیں اور اس طرح ایران کے عوام کے ساتھ اپنی دشمنی کو ثابت کیا ہے۔
ثالثاً: یہ صحیح ہے کہ پیغمبراسلام {ص} نے اپنے حسن اخلاق سے دنیا کے بہت سے لوگوں کے دلوں کو جیتا ہے، لیکن اسی پیغمبر رحمت نے اپنے زمانہ کے استکباری سرداروں کے مقابل نرم پالیسی اختیار نہیں کی ہے۔
رابعاً: جرائت و اطمینان کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے عوام بھی امریکی حکام کی اس جارحانہ سیاست سے اتفاق نظر نہیں رکھتے ہیں، اس کی مثال خود امریکی عوام کے، ان کے حکام کی سیاست کے خلاف اعتراضات ہیں۔
اس سوال کا جواب مندرجہ ذیل نکات کو بیان کرنے پر مبنی ہے:
۱۔ "امریکہ مردہ باد" کا نعرہ ایک سیاسی نعرہ ہے اور دنیا کے بعض ممالک میں بعض سیاسی اور مذہبی پارٹیوں میں رائج ہے اور صرف ایران سے مخصوص نہیں ہے۔
۲۔ یہ نعرہ اس وقت شروع ہوا ہے، جب ایران میں پہلوی نظام کے سرنگوں ہونے کے بعد امریکہ نے اس مطلق العنان بادشاہی نظام کی حمایت سے اجتناب نہیں کیا اور ایران کی آزادی اور حق خود ارادیت کو سرکاری طور پر قبول نہیں کیا، بلکہ انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی ایران کے عوام کے خلاف اپنی دشمنی اور مخالفت کو جاری رکھا۔ ایران کے سرمایہ کو منجمد کرنا، محمد رضا پہلوی کو پناہ دینا، انقلاب دشمن عناصر کو اکسانا اور ایران کے مختلف علاقوں میں شورش برپا کرنا، ایرانی عوام کے خلاف امریکہ کی دشمنی کے واضح نمونے تھے۔
۳۔ عام طور پر جن ممالک میں سیاسی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں، وہاں کے حاکم، استعماری طاقتوں کے آلہ کار یا اس قسم کی طاقتوں کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے آلہ کار حکام بڑی طاقتوں کےمنافع کو پورا کرتے ہیں اور یہ طاقتیں بھی ان ممالک کے منابع و سرمایہ کو لوٹ لیتی ہیں اور ان ممالک کو فقر و بدبختی میں رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لہٰذا ہمارے ملک کے جیسے انقلاب اس قسم کی سیاستوں کو ختم کرنے کے لیے وجود میں آتے ہیں اور ان کے نعرے بھی استعماری طاقتوں کے سربراہوں کی تباہی کے لیے ہوتے ہیں۔ جب تک استکباری سیاستیں جاری ہیں، یہ نعرے بھی تب تک جاری رہیں گے۔
۴۔ امریکہ کی استکباری سیاست کے خلاف آج تمام دنیا میں نعروں سے بھی بالاتر زبردست مظاہرے ہو رہے ہیں اور ان میں نعروں کے علاوہ امریکہ کے پرچم اور وہاں کے صدر جمہوریہ کے پتلے بھی جلائے جا رہے ہیں اور اس طرح وہ اپنے اعتراضات کو دنیا والوں تک پہنچاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے اعتراضات میں امریکی عوام کی شخصیت اور ان کے مقدسات مدنظر نہیں ہیں۔
۵۔ ایران کے اعلیٰ درجہ کے حکام نے بھی بارہا یہ اعلان کیا ہے کہ ان نعروں میں امریکی عوام مدنظر نہیں ہیں، بلکہ مخاطب امریکہ کی خارجی سیاست کے مسئولین ہیں جنھوں نے گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ، اپنی براہ راست مداخلت سے ایرانی قوم کو ناقابل تالفی نقصانات پہنچائے ہیں اور اس طرح ایران کے لوگوں کے خلاف اپنی دشمنی کو ثابت کیا ہے۔ ۲۸ مرداد ۱۳۳۲ ہجری شمسی {۱۸، اگست ۱۹۸۳ء} کی تختہ الٹنے کی سازش سے آج تک اور ایرانی عوام کے سرمایہ کو منجمد کرنے سے ، صدام کی جارحیت کی حمایت تک اور ایرانی قوم کے خلاف سیاسی اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنے سے جوہری توانائی حاصل کرنے میں رکاوٹیں ڈالنے تک امریکی حکام نے ایرانی عوام کے ساتھ دشمنی ثابت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے۔
۶۔ جرائت اور اطمینان کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے بہت سے باشندے بھی امریکی حکام کی اس جارحانہ پالیسی کی تائید نہیں کرتے ہیں۔ اس کی مثال خود امریکی عوام کی طرف سے اس قسم کی سیاست کی مخالفت ہے۔ وہی لوگ جو ان نعروں سے مضطرب ہیں، اگر ان کا ضمیر بیدار ہو۔۔۔ اور ضرور ایسا ہی ہے۔۔۔ تو اپنے حکام کی غلط سیاست سے بھی مضطرب ہوں گے۔ اور اپنے حکام کے توسط سے دنیا کے دوردراز علاقوں میں جارحیت اور بے دفاع لوگوں کا خون بہانے پر مضطرب ہوتے ہیں۔ چونکہ امریکی حکام فلسطین میں صہیونیوں کےہاتھوں قتل عام کی حمایت کرتے ہیں، اس لیے یہ نعرے مظلوم لوگوں کے طلب انصاف کی آواز کو دنیا تک پہنچاتے ہیں، جو مشرکین کی برائت جیسی تقریبات اور مظاہروں میں دئے جاتے ہیں۔
۷۔ یہ صحیح ہے کہ پیغمبراسلام{ص} نے اپنے حسن اخلاق اور سیرت سے دنیا کے بہت سے لوگوں کے دلوں کو جیت لیا اور انہیں دین اسلام کی طرف مائل کردیا: "فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَليظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِك..[1]" لیکن اسی پیغمبر رحمت{ص} نے زمانہ کی استکباری طاقتوں کے سربراہوں کے بارے میں نرم پالیسی اختیار نہیں کی ہے:" مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَ الَّذينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَماءُ بَيْنَهُم...[2]"؛ " محمد، پیغمبرخدا{ص} ، اور جو آپ {ص} کے ساتھ ہیں، کافروں پر سخت گیر ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مہربان ہیں۔"
۸۔ ایرانی قوم کا نعرہ مردہ باد امریکہ مردہ باد اور اسرائیل مردہ باد اس قدر حق بجانب ہے کہ اس سے پیچھے ہٹنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
۹۔ اس بنا پر جو اپنے آپ کو دنیا کے مطلق العنان حکمراں سمجھتے ہیں اور آزادی کے ساتھ ہر ملک میں فوجی مراکز قائم کرتے ہیں اور وہاں پر فوج کشی کرتے ہیں، اور دنیا میں جہاں پر بھی ظلم و بربریت ہو، وہاں پر ان کے اثرات گواہ ہیں اور ان کے پروگراموں میں دنیا میں کہیں پر بھی کسی مظلوم قوم کی حمایت کے اثرات نہیں ملتے ہیں، تو قدرتی بات ہے کہ مظلوم قوموں کی فریاد ایسی ہی حکومتوں کی موت اور تباہی کے لیے ہوتی ہے؛
۱۰۔ ان مطالب کے جمع کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ "امریکہ مردہ باد" کے نعرہ سے مراد امریکی عوام اور ان کا ملک نہیں ہے، اور اس کی دلیل بھی یہی ہے کہ انقلاب کے بعد بھی امریکہ اور ایران کے درمیان ثقافتی روابط برقرار ہیں۔
اس موضوع سے متعلق قابل ملاحظہ عنوان؟:
"امریکا و انگلیس و برائت از مشرکین"، سوال: 6861 {سائٹ:7510}