Please Wait
12721
- سیکنڈ اور
چونکہ قرآن مجید، پیغمبر اسلام {ص} کا لافانی معجزہ اور خداوند متعال کا کلام ہے، اس لئے صدر اسلام سے مسلمانوں کے درمیان خاص احترام و قدر و منزلت کا حامل رہا ہے- قرآن مجید کی آیات اور سفارشوں اور پیغمبر اسلام {ص} کی احادیث کی رو سے، مسلمان اس آسمانی کتاب کی قرائت کے سلسلہ میں بھی خاص اور اپنی نوعیت کے شرائط اور آداب کی رعایت کرتےرہے ہیں- قرآن مجید کی تلاوت کے سلسلہ میں اس قسم کے آداب، اس آسمانی کتاب کی تلاوت کے ظاہری آداب شمار ھوتے ہیں- لیکن چونکہ روایتوں کے مطابق قرآن مجید کا ایک ظاہر اور کئی باطن ہیں، اس لئے اس کی قرائت کے آداب بھی کئی ظاہری اور باطنی آداب پر مشتمل ہیں، یہ ایک ایسا امر ہے جس کے بارے میں قرآن مجید کی بعض آیات اور پیغمبر اسلام {ص} اور ائمہ اطہار{ع} کی روایتوں میں بخوبی اشارہ کیا گیا ہے-
شائد، قرآن مجید کی تلاوت کے آداب کوظاہری اور معنوی یا باطنی آداب میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ظاہری آداب کے سلسلہ میں کچھ مقدمات اور شرائط کی رعایت کرنا ضروری ہے، جو اپنی جگہ پر بیان ھوئے ہیں-
قرآن مجید کے باطنی آداب، خود قرآن مجید کی آیات اور روایات سے معلوم ھوتے ہیں- قرآن مجید نے قرآن مجید کی تلاوت کرنے والوں کی یوں سفارش کی ہے کہ قرآن مجید کو ترتیل اور سنجیدگی کے ساتھ پڑھنا چاہئیے، اس سلسلہ میں ارشاد ھوتا ہے :" اور قرآن کو ترتیل { ٹھر ٹھر کر آرام سے اور ترتیب و سنجیدگی } کے ساتھ پڑھو-[1]" ایک دوسری آیت میں ارشاد ھوتا ہے:" اور جن لوگوں کو ہم نے قرآن دیا ہے وہ اس کی با قاعدہ تلاوت کرتے ہیں اور انھیں اس پر ایمان بھی ہے اور جو اس کا انکار کرے گا اس کا شمار خسارہ والوں میں ھوگا-[2]"
یہ دو آیات اور اس سلسلہ میں نقل کی گئی روایات ، تلاوت کے ظاہری آداب کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں اور قرآن مجید کی تلاوت کے باطنی آداب کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں- سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۲۱ کے ذیل میں نقل کی گئی ایک حدیث میں آیا ہے، کہ امام صادق {ع} نے فرمایا ہے:" جو لوگ قرآن مجید کی تلاوت کے حق کے مطابق تلاوت کرتے ہیں، وہ ہم اہل بیت {ع} ہیں[3]-
حقیقت میں امام صادق {ع} نے تلاوت کرنے والوں کا حقیقی مصداق بیان کیا ہے- ممکن ہے بہت سے مومن قرآن مجید کی تلاوت کے ظاہری اور باطنی آداب کی رعایت کرنے کے نتیجہ میں قرآن مجید کے حقیقی قاریوں کے مقام پر پہنچے جائیں، اس لئے آیہ شریفہ :« كِتابٌ أَنْزَلْناهُ إِلَيْكَ مُبارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آياتِه»،[4] کو بیان کرتے ھوئے ہمارے چھٹے امام {ع} فرماتے ہیں:" اس کا مراد یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات کو دقت کے ساتھ پڑھیں اور اس کے حقائق کو سمجھ لیں اور اس کے احکام پر عمل کریں اور اس کے وعدوں کے بارے میں پر امید رہیں اور اس کے انتباہات سے ڈریں، اس کی داستانوں سے عبرت حاصل کریں اور اس کے اوامر کے سامنے تسلیم ھو جائیں اور اس کے نواہی کو قبول کریں، خدا کی قسم آیات کو حفظ کرنے کا مراد سوروں کے حروف کو پڑھنا اور تلاوت کرنا نہیں ہے- انھوں نے قرآن مجید کے حروف کو حفظ کیا ہے، لیکن خود قرآن کو ضائع کردیا ہے، اس کا مراد صرف یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات میں غور و فکر اور اس کے احکام پر عمل کرو، جیسا کہ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:" یہ ایک مبارک کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور صاحبان عقل نصیحت حاصل کریں-[5] اس نورانی حدیث کے پیش نظر ہم قرآن مجید کے باطنی آداب کے بارے میں مندرجہ ذیل مطالب کی طرف اشارہ کرسکتے ہیں:
۱-جب تلاوت کے دوران کسی وعدہ پر پہنچ جائے، اس تک پہنچنے کی امید رکھنی چاہئیے اور اگر کسی اتبیاہ پر پہنچ جائے، اس سے دوچار ھونے سے ڈرنا چاہئیے، پس اگر بہشت یا جہنم سے متعلق آیات پر پہنچ جائے، تو رک کر خداوند متعال سے بہشت کی درخواست کرنی اور جہنم سے پناہ مانگنی چاہئیے-[6] امام علی {ع} مو منین کی خصوصیات کے بارے میں فرماتے ہیں:" لیکن وہ رات کے وقت کھڑے ھوکر قرآن مجید کی اس کے خاص آداب کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں، جب کسی ایسی آیت پر پہنچتے ہیں جس میں ہمت افزائی ھو تو اس سے امید باندھتے ہیں تاکہ اسے حاصل کریں، ان کی حالت اس فرد کی جیسی ھوتی ہے جو کسی عزیز کی آمد کے شوق میں چشم براہ ھوتا ہے ، لیکن جب کسی ایسی آیت پر پہنچتے ہیں جس میں خوف و ترس ہے، تو دل وجان سے اس پر غور کرتے ہیں، ان کے رونگھٹے کھڑے ھوتے ہیں اور ان کے دل خوف و ہراس سے دو چار ھوتے ہیں اور اس خوف سے ان کے بدن ضعیف ھوتے ہیں، جیسا کہ وہ جہنم کے شعلوں اور آگ کی زنجیروں کی آواز سنتے ہیں، زمین پر گر جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسوں جاری ھوتے ہیں، خدا سے پناہ چاہتے ہیں تاکہ{ اس عذاب سے} نجات پائیں-[7]"
۲-قرآن مجید کی تلاوت کے دوسرے باطنی آداب میں سے، قرآن مجید کو سمجھنا اور اس کی آیات میں تدبر کرنا اور انھیں جاننا اور احکام الہی پر عمل کرنا ہے-امام صادق {ع} امیرالمومنین {ع} سے نقل کرکے فرماتے ہیں:" آگاہ رہنا کہ جس تلاوت میں تدبر نہ ھو اس میں کوئی خیر نہیں ہے-[8]
۳-اس امر پر توجہ کرنا کہ قرآن مجید انسان کا کلام نہیں ہے اور خالق کی عظمت کو مد نظر رکھنا، کہ کلام کی تعظیم، متکلم کی تعظیم ہے-
۴-قرآن مجید کی تلاوت کے دوسرے باطنی آداب میں سےتخلیہ ہے یعنی خود کو تلاوت کرنے والی ہر آیت کے متناسب بنانا ، اگر انبیاء {ع} کی داستان یا کوئی قصہ پڑھتا ہے اس سے عبرت حاصل کرے اور اگر الہی اسماء و صفات کو پڑھتا ہے تو اس کے مصادیق کے بارے میں غور کرے-[9]
۵-قرآن مجید کی تلاوت کے باطنی آداب میں سے ایک اور چیز تخلیہ ہے، جو لوگ قرآن مجید سے کوئی مطلب سیکھنا چاہتے ہیں، قرآن مجید کی طرف رجوع کرنے والے کو پہلے سے اپنے ذہن کو شبہات سے خالی کرنا چاہئیے تاکہ وہ قرآن کو سمجھنے میں اثر نہ ڈالیں-[10]
۶-قرآن مجید کی تلاوت کے باطنی آداب میں اپنے سے نا پسند صفتوں خاص کر تکبر، ریاکاری[11] اورحسد و طمع کو دور کرنا ہے ، کیونکہ اگر انسان ان بری صفتوں والے دل سے قرآن مجید کی تلاوت کرے تو خدا وند متعال کے کلام کے معنی و مفہوم اس میں متجلی نہیں ھوسکتے ہیں-
۷-قرآن مجید کی تلاوت کے بلند ترین آداب میں سے روحی اور معنوی طہارت ہے- جب تک نہ انسان پاک ھو جائے، قرآن مجید اپنی حقیقت کو اسے نہیں دکھاتا ہے، کیونکہ خود قرآن مجید نے ارشاد فرمایا ہے: لا یمسّه الا المطهّرون،[12] بقول شاعر:
پاک شو اول و پس دیدہ برآن پاک انداز
{ پہلے خود پاک ھوجاو تاکہ قرآن مجید پر پاک نظر ڈال سکو گے}
۸-قرآن مجید کی تلاوت کے معنوی آداب میں سے یہ بھی ہے کہ قرآن مجید کا قاری قرآن مجید کو نہ صرف ایک متن کے عنوان سے دیکھے بلکہ ایک شفا بخش نسخہ کے عنوان سے دیکھے اور اس س اسی کی توقع رکھے- روایت میں آیا ہے کہ ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے قرآن مجید کو اسی نظریہ سے دیکھا ہے اور اس سے اپنی بیماریوں کی دوا حاصل کی ہے- خداوند متعال ایسے قاریوں کی وجہ سے، جو دلوں کی شفا کو قرآن مجید سے حاصل کرتے ہیں، لوگوں کے دشمنوں کو دور کرتا ہے اور ان پر باران رحمت نازل کرتا ہے-[13]
[1] مزمل،4.
[2] بقره، 121.
[3] کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج1، ص 215، دار الکتب الاسلامیه، تهران، 1365 ھ ش.
[4] سورۀ ص، 29.
[5] مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج1، ص 432، دار الکتب الاسلامیه، تهران، 1374 ھ ش.
[6] مشهدی، محمد،تفسير كنز الدقائق و بحر الغرائب، ج2، ص 132، سازمان انتشارات وزارت ارشاد، تهران، 1368 ھ ش.
[7] نهج البلاغه، صبحى صالح، صفحهى 304.
[8] کافی، ج1، ص 36.
[9]کاشفی سبزواری، ملا حسین، جواهر التفسیر، ص 270، دفتر نشر میراث مکتوب، تهران،
[10] ایضا-
[11] إِنَّ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ فُلَانٌ قَارِئٌ وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ لِيَطْلُبَ بِهِ الدُّنْيَا وَ لَا خَيْرَ فِي ذَلِكَ وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ لِيَنْتَفِعَ بِهِ فِي صَلَاتِهِ وَ لَيْلِهِ وَ نَهَارِهِ . نک: حر عاملی، محمد بن حسن، وسائلالشيعة، ج 6، ص182، آل البیت (ع)، قم، 1409ھ.
[12] واقعه، 79.
[13] إ وَ رَجُلٌ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَوَضَعَ دَوَاءَ الْقُرْآنِ عَلَى دَاءِ قَلْبِهِ فَأَسْهَرَ بِهِ لَيْلَهُ وَ أَظْمَأَ بِهِ نَهَارَهُ وَ قَامَ بِهِ فِي مَسَاجِدِهِ وَ تَجَافَى بِهِ عَنْ فِرَاشِهِ فَبِأُولَئِكَ يَدْفَعُ اللَّهُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْبَلَاءَ وَ بِأُولَئِكَ يُدِيلُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنَ الْأَعْدَاءِ وَ بِأُولَئِكَ يُنَزِّلُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ الْغَيْثَ مِنَ السَّمَاءِ فَوَ اللَّهِ لَهَؤُلَاءِ فِي قُرَّاءِ الْقُرْآنِ أَعَزُّ مِنَ الْكِبْرِيتِ الْأَحْمَرِ . کافی، ج2، ص 627.