Please Wait
6719
تفصیلی جواب...
معاشره میں لوگوں کے درمیان پیدا هونے والے اختلافات میں طرفین میں سے کسى کو لڑائى، جھگڑا اور پٹائى کرنے کا حق نهیں هےـ[1]
اسلام کى نظر میں اختلافات اور حق طلبى کے مسائل کو حل کرنے کا تنها راسته خیر خواه افراد یا اسلامى عدلیه کى طرف رجوع کرنا هےـ اس لئے اگر حقدار، ضد میں آکر حق چھیننے والے سے لڑائى جھگڑا کرے اور اس پر ایسا ضرب لگائے جس کے نتیجه میں اسے صدمه پهنچے یا وه زخمى هوجائے، تو اسلام کے تعزراتى قانون کے مطابق طرف مقابل (زخمى) کو قصاص یا دیه لینے کا حق هےـ
البته چور، ڈاکو اور قاتل کے مقابلے میں جان، مال اور ناموس کا دفاع کرنا ضرورى اور ایک جائز امر هےـ[2] لیکن اس بچاو کے اقدام میں ان سلسله مراتب کى رعایت کى جانى چاهئے جو حد سے زیاده بڑھنے میں رکاوٹ کا سبب بنتے هیں اور ان کے نچلے درجه پر اکتفا کرنا چاهئےـ
اسى سلسله میں بعض فقها نے فرمایا هے:" اور غیر محارب، واجب یا جائز دفاع میں اس کى سختى یاآسانى کے سلسله میں مراتب کى رعایت کرنا ضرورى هے ، اور اگر نجات کے لئے کوئى وسیله ممکن نه هو تو تسلیم هونے کى حرمت اور دفاع کے واجب هونے کے سلسله میں (ممکن مقدار کى حدمیں) قابل تامل هےـ"[3]
اس کے باوجوداگر کوئى شخص اپنى جان، مال یا ناموس کا دفاع کرتے هوئے ناخواسته طور پر کسى کو زخمى یا قتل کرڈالے، تو اسے کافى ادله و شواهد کے ذریعه کسى صالح عدالت میں اپنے دفاع کى حالت کو ثابت کرنا ضرورى هےـ یا اگر دفاع کى حالت میں نه تھا لیکن غیر عمدى زخم یا قتل کا مرتکب هوا هے تو اسے اس ظلم کے غیر عمدى هونے کو عدالت میں ثابت کرنا ضرورى هے، که اس صورت میں اسے دیه ادا کرنا چاهئے ـ اس کے علاوه اگر موجود ادله اور ظاهر کوئى اور چیز هو تو اس کا دعوىٰ قابل قبول نهیں هوگا اور عدالت موجود ادله اور ظاهر کے مطابق اس کے خلاف قصاص کا حکم صادر کرے گى ـ
نتیجه کے طور پر روایات اور فقها کے بیانات سے معلوم هوتا هے که:
1ـ جان، مال اور ناموس کا دفاع جائز هےـ
2ـ انسان اگر دفاع کى حالت میں قتل هو جائے تو اسے شهید کا اجر ملتا هےـ
3ـ دفاع کےمراتب کا ایک سلسه هے، اگر دفاع قاتل اور حمله آور کو قتل کرنے پر منحصر هو تو حمله آور کا خون بهانا جائز هے اور قاتل کو نه دیه ادا کرنا هے اور نه اس سے قصاص لیا جا ئےگا ـ البته مال کے سلسله میں ائمه اطهار علیهم اسلام نے ترجیح دى هے که انسان مال سے صرف نظر کرے اور حتى الامکان کوشش کرے که مال کے سلسله میں لڑائى جھگڑا قتل کى حد تک نه پهنچ جائےـ مثلاً کها گیا هے که چور کو بھاگنے کى حالت میں قتل کرنا جائز نهیں هےـ
4ـ عدالت میں دفاع کو ثابت کرنا اس کے جائز هونے سے کوئى ربط نهیں رکھتا هےـ[4]
بهرحال اس بحث کے کچھـ اوربھى جزئیات هیں که ان کو بیان کرنے کى یهاں پر گنجائش نهیں هے، لیکن کلى طور پر جواب وهى هے جسے هم نے بیان کیاـ
[1] حتى امربالمعروف ونهى عن المنکر کے بارے میں بھى، اس زمانه میں که اسلامى جمهوریه کا نظام تشکیل پایا هے، عام لوگ صرف زبانى تذکر اور نصیحت کى حد تک ذمه دارى رکھتے هیں اور امربالمعروف ونهى عن المنکرکے بعد والے مراحل پولیس اور عدلیه کے اختیار میں هیںـ
[2] جامع المسائل ( للبھجۃ) ج5،ص 212" جس مال کے لئے مضطر هو اس کا دفاع کرنا واجب هے اور اگر کسى دوسرے کى امانت هو تو اس کا دفاع کرنا واجب هے اور تسلیم هونا جائز نهیں هے، اس کے علاوه جائز هے، اگر جان کا خطره نه هوـ
[3] جامع المسائل (للبھجۃ)، ج5، ص213.
[4] القواعد الفھقیۃ (للمکارم)، ج2،ص:32;مبانى تحریر الواسیلۃ، ج1، ص: 428; مبانی تکملۃ المزاج، ج41ص432; المبسوط فی فقه الامامیۃ، ج 8، ص :76; تذکرۃ الفقھاء(ط ـ الحدیثۃ).ج9،ص435; مسالک الافھام الى تنفیح شرائح الاسلام، ج15،ص52;وسائل الشیعه،ج15،ص:120ـ123.