Please Wait
7573
تجلی کے نظریہ کے مطابق، عالم ہستی، خداوند متعال کی تجلی ہے اور انسان، خلیفہ الہی کے عنوان سے خدا کے اسم اعظم کی تجلی شمار ھوتا ہے، جس نے اپنے سفرکے تنزل میں اپنی اس ذات کی حقیقت سے تنزل کرکے اور تنزلات کے تقاضے کے مطابق اپنی اصلی حالت سے دور ھوکر اپنے لئے کچھ پردے اختیار کئے ہیں- انسان کا سب سے تنزل یافتہ مرتبہ اس کا نفس امارہ ہے کہ جو اپنی خواہشات کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتا ہے اور اپنے آپ کو مکمل طور پر آزاد سمجھتا ہے- اس کے بعد عقل و روح یا قلب و اسرار واقع ھوتے ہیں- انسان" اسرار" کے مقام پر خود کو خدا سے منسلک ہوتے مشاہدہ کرتا ہے اور اپنے نام نہاد وجود کو حق تعالی کے وجود کے سائے میں باطل پاتا ہے اور ان سے بلند تر مراتب میں فنا فی ا للہ کے مقام تک پہنچنے میں آزاد اور غیر سے وابستگی سے بالکل پاک و منزہ ھوتا ہے-
اس بنا پر ظاہر ہے کہ ابتداء میں انسان کا اپنے نفس کے بارے میں آزادی اورخودی کا تصور ہوتاہے اور اپنے وجود کی حقیقی معرفت تک پہنچنے کے لیے، جو خداوند متعال اور اس کے صفات سے عین رابطہ ہے، اسے سیر و سلوک اور عبودیت کے مراتب میں راہ طے کرنے کی ضرورت ھوتی ہے-
یہاں پر یہ سوال پیدا ھوتا ہے کہ اس کی کیا ضرورت ہے کہ انسان اول اپنے آپ کو آزاد سمجھ لے اور یہ ضروری ھو کہ اس ادراک کے کمال کے مراتب تک پہنچنے میں عدم آزادی حاصل کرے؟ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ انسان ابتداء سے ہی اس حالت میں قرار پاتا اور اسے اس معرفت کو حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہ ھوتی؟
اس سوال کا فلسفیانہ جواب شے کے استعدادی امکان کے فرض کے بغیر واقع ھونا ہے، کیونکہ ہرشے کی فعلیت حاصل کرنے کے لئے استعدادی امکان ضروریات میں شمار ھوتا ہے اور فاعل کا فعل، قابل کی قابلیت کے بغیر ممکن نہیں ھوسکتا ہے- اسی وجہ سے، فاعل عطا کرنے میں جس قدر بھی فیاض مطلق ھو یہ فیض قابل کے استعداد کی راہ سے اس تک پہنچے گا-
عرفانی پہلو سے فلسفیانہ مباحث کے علاوہ اس مسئلہ کے جواب کو اختیار کے اسرار میں ڈھونڈنا چاہئیے، کیونکہ عرفان میں خدا کے متجلی ھونے کے معنی وہی عشق میں عاشق و معشوق کا اتفاق ہے اور ہم جانتے ہیں کہ خلافت و تجلی اور مظہریت کے مقام پر عشق کا تصور نا قابل تغیر ہے- یہ سب قابل کی طرف سے اختیار و اثر اور انفعال کے بغیر ممکن نہیں ہے، اس بنا پر انسان کو عشق الہی کے جواب میں اپنے نام نہاد وجود سے صرف نظر کرنا چاہئے اور اس کو فنا ھونے کے حق میں قرار دینا چاہئے اور یہ خلافت حاصل ہونا، اختیار کے گوہر کے بغیر ممکن نہیں ہے-
عرفان نظری کو بیان کرنے میں تجلی کی بحث خاص اہمیت کی حامل ہے اور یہ نظریہ وحدت شخصیہ کی مفسر ہے- عرفا کا اعتقاد ہے کہ عالم، تجلی حق ہے اور انسان کامل کی حقیقت خداوند متعال کی بلند ترین تجلی ہے کہ جو خداوند متعال کے اسم اعظم سے منسلک ہے-[1] اسی لحاظ سے عالم اور انسان کے درمیان تجلی کے عنوان سے جو نسبت ہے، وہ ماسوی اللہ پر الہی ولایت و خلافت کی نسبت ہے، کیونکہ انسان کی اصلی حقیقت وہی اس کا روح اللہ ھونا ہے کہ مبداء متعال کی نزدیک ترین مخلوق ہے اور مکمل مظہر اور جلوہ اور اسمائے حسنی و صفات الہی کا مظہر ہے-[2]
عالم اور انسان میں مسئلہ تجلی کے یہ دو پہلو، بہ الفاظ دیگر عالم شناسی اور معرفت شناسی کے دو پہلو آپس میں ربط رکھتے ہیں اور ایک ہی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں اور اسی لحاظ سے انسان تمام کائنات اور عالم ہستی کا خلاصہ ہے اور انسان کامل عالم امکان کا قطب شمار ھوتا ہے-
اس بیان کے پیش نطر، ظاہر ہے کہ انسان کا وہ پہلو جو خداوند متعال کی تجلی اور اس مقام کا مالک ہے، وہ وہی انسان کی بنیادی حقیقت ہے، کہ زمین اور تمام آسمان اس کے مسخر ہیں- لیکن اس کے باوجود انسان اپنے اس اصلی مقام سے " اسفل السافلین" تک گر گیا ہے- جیسا کہ خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:" لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ثم رددناه اسفل سافلین»؛[3] " ہم نے انسان کو بہترین حالت میں پیدا کیا ہے، پھر ہم نے اس کو پست ترین حالت کی طرف پلٹا دیا ہے-"
جب انسان اپنی اصلی حقیقت سے گرا، ہر مرتبے کے اقتضا کے مطابق اپنے وجود کے بارے میں ایک خاص تصور حاصل کرچکا ہے کہ وہی مرتبہ اس کے گرنے کا اقتضا ہے- اس لحاظ سے، پہلے مرتبے پر، جو نفس امارہ کا مقام ہے، وہ دنیا کی ظاہر حیات کا ناظر تھا اور وہ اپنے میلانات سے ماورا کی معرفت نہیں رکھتا ہے- دوسرا مرتبہ، عقل کا مرتبہ ہے، جو باقی لذتوں کو ادراک کرنے سے متعلق ہے اور وہ تمام اشیاء کو حق تعالی کے حضور میں دیکھتا ہے اور اس کے بعد والا مرتبہ انسان کے "اسرار" کا مقام ہے کہ اس مرتبے میں وہ خود کو بالکل خدا سے متعلق پاتا ہے اور اپنے اس توہم سے آزاد وجود کے عنوان سے خارج ھوتا ہے، جیسا کہ عرفا، آزاد وجود کو سب سے بڑا گناہ جانتے ہیں- انسان میں آزادی کے توہم کا سلسلہ مرتبہ راز اور اس سے بلند تر مراتب اور فنا فی اللہ کے مقام تک پہنچنے کے لئے جاری ہے اور اس طرح نہیں ہے کہ انسان ان ہی ابتدائی مراحل میں اپنی عدم آزادی اور عین مرتبط ھونے کے بارے میں شہودی ادراک رکھتا ھو اور اپنے آپ کو حق تعالی کی تجلی جانے، بلکہ ممکن ہے کہ وہ خود کو مکمل طور پر آزاد جانے-
ان وضاحتوں سے ظاہر ھوتا ہے کہ انسان اپنی پہچان کے مقام پر کلی طور پر دو امور سے روبرو ہے، ایک اس کی محدود اور نام نہاد خودی اور دوسری حقیقی و الہی خودی- انسان کی نام نہاد خودی اس کے نفس امارہ اور توہمات اور آزادی خواہی پر مبنی افکار کے ادراکات کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور وہ اپنے وجودی حقیقت کے بارے میں کافر ہے- لیکن انسان کی حقیقی خودی، جو اس کے باطن میں قابل شہود اور عرفانی ھوتی ہے، کی وجہ سےخود کو خدا سے بالکل مربوط پاتا ہے اور وہ اس مقام پر ھوتا ہے کہ پروردگار بندے کے دل کے آئینہ میں تجلی پاتا ہے-[4]
اس بنا پر، قابل توجہ ہے کہ جس بلند مقام کے بارے میں عرفا نے معرفت پائی ہے اور کائنات کو خدا کی تجلی اور انسان کو خدا کے اسم اعظم کی تجلی متعارف کیا ہے، یہ ایک ایسا امر نہیں ہے کہ انسان کے ہر مرتبے کے لئے، وہ بھی فکری تجزیوں کے لحاظ سے اور غفلتوں کے عالم میں ادراک اور معرفت پانے کے قابل ھو، اگر چہ وہ نظری لحاظ سے اس کا اعتقاد بھی رکھتا ھو-
ایک مشرک انسان صرف خاص موقعوں پر مذکورہ حقیقت کے بارے میں خواب غفلت سے بیدار ھوتا ہے، ان مواقع کے مانند کہ جبلتی لحاظ سے اپنی نیستی سے روبرو ھوتا ہے اور فطرت کا میثاق اسے یاد آتا ہے-[5]
اس بنا پر، کہ انسان عادی حالت میں اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے، وہ اس کے تنزل کا نتیجہ بلکہ اپنے وجود کی حقیقت کے بارے میں اس کے جہل کا نتیجہ ہے اور معرفت سے عاری انسان عدم استقلال اور خدا کی تجلی کے مقام کا تصور نہیں رکھتا ہے-
یہاں پر ممکن ہے کہ یہ سوال پیدا ھو جائے کہ اس میں کون سی حکمت ہے کہ انسان عام طور پر اس معرفت سے بیگانہ ھوتا ہےاور اسے اس کمال تک پہنچنا چاہئے اور کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ابتداء سے ہی اس معرفت کو اپنے اندر پاتا اور اپنے آپ کو خدا سے بالکل وابستہ اور اس میں فنا شدہ پاتا؟ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ خداوند متعال امتحانات اور بلاوں کو نازل کئے بغیر انسان کو اپنے اسماء و صفات کی تجلی بنا دیتا اور اس کی خلافت الہی کے کمال کی قطعی اور جبری طور پر ضمانت دیتا اور اس مقام کو کسی ضرورت کے بغیر کمال تک پہنچاتا اور اسے سیر و سلوک عطا کرتا؟
یہ سوال، اس کے مشابہ بہت سے سوالات کے مانند ہے کہ اسے مختلف عبارتوں میں پیش کیا جاسکتا ہے اور اس کے متعدد جواب دئے جا سکتے ہیں-
کلامی نقطہ نظر سے عدلیہ کے قائل مذہب کی بنا پر، کہ زمین اور آسمانوں اور تمام مخلوقات کی تخلیق میں عدل حکم فرما تھا اور عالم وجود، جو ہستی کے ہر مرتبے میں اسباب و نظام کے مطابق قائم ھوا ہے اور حکمت کے علاوہ کوئی امر نہیں ھوتا ہے، اور اس طرح نہیں ہے کہ خداوند متعال کی قدرت و فاعلیت امور کو حکمت کے نظام اور اقتضاء و اسباب ومسببات سے خارج جاری کرے- انسان کا کمال بھی اس قاعدے سے مستثنی نہیں ہے-
اس مطلب کے فلسفیانہ بیان کے مقام پر خاص طور پر استعدادی امکان کی بحث پر تکیہ کیا گیا ہے- اس وضاحت کے پیش نظر کہ استعدادی امکان، ہر شے کے متحقق ھونے کے اصلی ارکان میں سے ایک رکن ہے اور نا ممکن ہے کہ اس کے بغیر کوئی چیزمتحقق ھو جائے- اس بنا پر فاعل کا فعل، قابل کے قبول کرنے کی شرط پر مبنی ہے اور استعداد و قابلیت کے بغیر فعل و انفعال ممتنع اور نا ممکن ہے- بہ الفاظ دیگر، فاعل جس قدر بھی مکمل فیاضی کا مالک ھو، اس فیض کو قابل کی قبولیت کی راہ سے عطا کرنا چاہئیے اور فاعل کے فعل کی کیفیت و کمیت کا ظہور اس کی استعداد و قابلیت کے کم کیف پر مبنی ہے-[6] لیکن اس مطلب کی گہرائیوں کو عرفانی مباحث میں پایا جاسکتا ہے اور اس سوال کے جواب کو اختیار کے راز میں ڈھونڈنا چاہئے- اس بیان کے پیش نظر کہ عرفا کی نظر میں، انتہائی کمال، نور حقیقت و تجلی صفات الہی اور اخلاق الہی سے متخلق ھونے پر مبنی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ انسان کی خودی کے حجاب کو اٹھانے اور ربانی حقیقت سے ہم آہنگ ھونے کے سلسلہ میں عرفا کا نظریہ، صرف قابل کے عشق کی ماہیت میں تامل سے ہی بیان اور تفسیر کیا جاسکتا ہے اور یہ صیغہ اتحاد و تجلی حقیقت میں عاشق و معشوق اور عشق یکتائی کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے جو تجلی و مظہر کے تمام مراتب میں الفت شمار ہو تی ہے-
اس بنا پر اگر خدا کی تجلی اور فلسفیانہ زبان میں خدا سے عین ربط ھو اور اپنے نام نہاد وجود کو چھوڑکر عشق میں فنا ھو جائے، تو ظاہر ہے کہ یہ امر اختیار کے پہلو کو مد نظر رکھے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتا ہے اور عشق میں اتحاد واقع ھونے کا تصور طلب اور آزمائشوں کے بغیر، صرف عطیہ کے عنوان سے حاصل ھونا اور خدا کی طرف فعل اور تاثیر، انفعال و تاثر کے بغیر ہر مرتبہ حقیقت میں عشق کے منافی ھوگا اور خداوند متعال اس سے مقدس تر ہے کہ اپنی کسی مخلوق کو جبر کے ذریعہ اور اختیار کے بغیر عشق کے مقام پر فانی کردے اور خلافت الہی بھی عشق و اختیار کی راہ کے علاوہ حاصل ھونا ممکن نہیں ہے-
اس حقیقت کو واضح طور پر ادراک کرنے کے لئے قرآن مجید میں حضرت آدم{ع} کی داستان کے بارے میں اشارہ کیا جاسکتا ہے- ہم جانتے ہیں کہ خدا کے فرشتوں نے حضرت آدم {ع} کے سامنے سجدہ کیا، کیونکہ حضرت آدم{ع} روح الہی کے ماحصل تھے اور عملی طور پر اپنے آپ میں خلافت الہی کا مقام حاصل کر چکے تھے، لیکن اس مقام و منزلت کا مکمل ظہور بیشک ان امتحانات کے بعد حاصل ہوا تھا، جن کو حضرت آدم {ع} نے سر کر کے اور عشق الہی کا تجربہ کر کے اپنے آپ میں ظہور تک پہنچا دیا تھا-
بہ الفاظ دیگر، اکر چہ خداوند متعال نے حضرت آدم {ع} کو خلافت الہی کا مقام عطا کیا ہے، لیکن جب تک انہوں نے امتحانات سر نہیں کئے، تب تک اس امانت الہی کے حقیقی مقام و جوہر سے آگاہ نہیں ھوئے اور قرآن مجید کے بقول : " حملھا الانسان انہ کان ظلوما جھولا" [7]، "انسان نے امانت الہی کو اس حالت میں قبول کیا کہ وہ ظالم و جاہل تھا " حضرت آدم {ع} اس ممنوعہ درخت کے امتحان کے بعد اور فراق کی تلخی برداشت کرنے کے بعد ہی اپنی حقیقت اور اپنے خدا کی طرف پورے وجود کے ساتھ پلٹے اور اس مقام و منزلت کو اپنے اندر مکمل طور پر پایا اور پوری طرح اس کا تجربہ کیا، تب انھیں ابدی بہشت مل گئی، اب مکمل عرفان و معرفت حاصل ھونے کے بعد کبھی اس سے خارج ھونا ممکن نہیں ہے- یہ تمام انسانوں کی داستان ہے اور اس میں اصلی نکتہ اس مقام کے بارے میں امانت الہی کے فیض کو قبول کرنا ہے نہ خدا کی طرف سے یہ فیض عطا ھونا، کیونکہ تقدیر الہی میں احسن و فیاضیت کے لحاظ سے کوئی عیب و نقص نہیں تھا اور اگر چہ انسان کو یہ مقام عارفانہ کمال اور آگاہانہ طور پر اسے قبول کرنے کے بغیر عطا ھوا تھا، لیکن پھر بھی اس نے اسےآسانی کے ساتھ کھو دیا اور اسے دنیوی اور نفسانی خواہشات کی وجہ سے بھول گیا تھا، یہاں تک کہ اپنے حقیقی مقام و منزلت کے بارے میں آزمائشوں اور امتحانات کے ذریعہ آگاہ ھوا اور بہرحال یہ خود آگاہی انسان کو اپنے اختیار کے ذریعہ حاصل ھوتی ہے -وھ
[1] حیی کبیر، عرفان و معرفت قدسی، ص 158 ، قم مطبوعات دینی، طبع اول، 1386. ھ ش
[2] ایضا، ص 492.
[3] تین، 4- 5.
[4] «العبودیة جوهرة کنهها الربوبیة».
[5] جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ہے:«فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذا هُمْ يُشْرِكُونَ»؛[5]" پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ھوتے ہیں تو ایمان و عقیدہ کے پورے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں پھر جب وہ نجات دے کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو فورا شرک اختیار کرتے ہیں-"
[6] همائی، جلال الدین، مولوی نامه، ج1، ص 547و 548، طبع نهم، 1376، ھ ش موسسه نشر هما.
[7] حزاب، 72.