Please Wait
کا
7528
7528
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2012/05/01
سوال کا خلاصہ
کیا اس کلام کی سند روایت پر مبنی کوئی ضمانت ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ:" للمصیب اجران وللخاطی اجر واحد"
سوال
سلام اور شکریہ کے بعد، میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس کلام، للمصیب اجران و للخاطی اجر واحد" کی سند روایت پر مبنی کوئی ضمانت ہے؟
ایک مختصر
" للمصیب اجران وللمخطی، اجر واحد" والی روایت، اہل سنت کی طرف سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی گئی ہے، اور شیعوں کے تقریبا تمام علماء نے بھی اسے قبول کیا ہے۔
لیکن اصل حدیث پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یوں نقل کی گئی ہے:
" من اجتھد فاصاب فلہ اجران، ومن اخطاء فلہ اجر واجد۔"
لیکن اصل حدیث پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یوں نقل کی گئی ہے:
" من اجتھد فاصاب فلہ اجران، ومن اخطاء فلہ اجر واجد۔"
تفصیلی جوابات
" للمصیب اجران وللمخطی، اجر واحد" والی روایت، اہل سنت کی طرف سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی گئی ہے، اور شیعوں کے تقریبا تمام علماء نے بھی اسے قبول کیا ہے۔ لیکن کتاب " الصراط المستقیم الی مستحقی التقدیم" کے مولف نے اس حدیث کو اہل سنت کی طرف سے پیغمبر اکرم ص سے یوں نقل کیا ہے: " من اجتھد فاصاب فلہ اجران، ومن اخطاء فلہ اجر واحد۔"[1]
علم اصول کے مباحث میں سے ایک بحث " تخطئہ" اور " تصویب" ہے۔ تخطئہ، تصویب کے مقابلے میں ہے اور لغت میں کسی کو خطا کی نسبت دینے کے معنی میں ہے،اور اصطلاح میں، حکم واقعی تک پہنچنے میں مجتہد کے احتمال خطا سرزد ھونے، یعنی حکم واقعی تک نہ پہنچنے کے معنی میں ہے۔[2]
علمائے امامیہ تخطئہ کے قائل ہیں اور ان کا یہ اعتقاد ہے کہ خداوند متعال کے ہاں ہر ایک واقعہ کے لئے ایک حقیقی حکم ہے، جو لوح محفوظ پر تمام لوگوں کے لئے، من جملہ عالم و جاہل مسلمان اور کافر کے لئے درج ہے۔ اور ہم سب پر اسی واقع کی تکلیف ہے اور تمام امور بھی اسی واقع کے مطابق ہیں، لیکن مجتہد کا استنباط کبھی اس واقع کے مطابق ھوتا ہے اور وہ " مصیب " کہلاتا ہے کہ اس صورت میں، واقعی حکم مجتہد اور ان کے مقلدین کے لئے واضح ھوتا ہے۔ اور کبھی مجتہد کا نظریہ خلاف واقع ھوتا ہے اور وہ " مخطی" کہلاتا ہے کہ اس صورت میں وہ اور اس کے مقلد مغدور ھوتے ہیں۔ " تخطئہ" کو قبول کرنے والے علمائے شیعہ کا قول یہ ہے کہ: " للمصیب اجران و للمخطی، اجر واحد" " یعنی جو مجتہد اپنے اجتہاد میں حقیقی حکم تک پہنچتا ہے اس کے لئے دو اجر ہیں، لیکن جو مجتہد اپنی تمام کوششوں کے باوجود حقیقی حکم تک نہیں پہنچتا ہے، اس کے لئے صرف ایک اجر ہے۔"[3] و [4]
جیسا کہ آپ جانتے ہیں، لغت میں اجتہاد کوشش کے معنی میں ہے۔[5] یہ لفظ مختلف علوم میں علمی کوشش و تلاش کے معنی میں استعال ھوتا ہے، اس طرح کہ یہ کوشش کرنے والا شخص اس علم میں ماہر اور کارشناس کے عنوان سے پہچانا جائے۔ اجتہاد کی مشہور ترین اصطلاح ، دینی اور فقہ و اصول کے احکام سے متعلق ہے۔ اس اصطلاح میں اجتہاد کے معنی، دینی منابع سے شرعی حکم حاصل کرنا ہے۔ جو استدلال کے ذریعہ ایک قسم کے قواعد و ضوابط سے استفادہ کرکے انجام پاتا ہے اور اس کو اصول فقہ کے قواعد کہا جاتا ہے۔[6]
آیت اللہ شہید مطہری (رہ) اجتہاد کے اصطلاحی معنی بیان کرتے ھوئے فرماتے ہیں: " اجتہاد" یعنی اسلام کے مقررات کو صحیح طریقہ سے ادراک کرنے کے لئے اس کے منابع، یعنی کتاب، سنت، اجماع و عقل سے استفادہ کرکے عالمانہ کوشش کرنا ۔"[7]
اس بنا پر، اصطلاح میں، اجتہاد دینی منابع و متون سے استنباط کر کے احکام الہی کو استخراج کرنے کے لئے اس کے اپنے طریقہ کار، مقدمات اور شرائط ھوتے ہیں۔ اجتہاد، ایک یسا ملکہ ہے، کہ یہ ملکہ رکھنے والا آسانی کے ساتھ استنباط کے طریقہ کار ،ادلہ اور قواعد سے استفادہ کرتا ہے، خواہ یہ فقہ میں حو یا تفسیر، تاریخ، فلسفہ یا دوسرے علوم میں۔
فقہ میں اجتہاد، کے لئے مقدمہ اور تمہید کے طور پر کئی علوم میں مہارت رکھنے کی ضرورت ھوتی ہے، ان علوم میں: متوسط حد میں منطق، عربی ادبیات (صرف و نحو) معانی و بیان، معقول و حکمت کے علاوہ علم رجال، درایہ اور اصول فقہ (جو اجتہاد کی اصلی اور حقیقی کلید ہے )شامل ہیں۔
طریقہ کار اور قواعد و ضوابط پر مبنی اجتہاد، جس نتیجہ پر بھی پہنچ جائے، قابل قبول اور اجتہاد کرنے والا اجر کا مستحق ھوتا ہے۔ اگر اس کا اجتہاد واقع کے مطابق ھو تو اسے دو اجر و پاداش ملتے ہیں اور اگر واقع کے بر خلاف ھوتو اسے ایک اجر ملتا ہے۔
اس بنا پر، اجتہاد کی مذکورہ تعریف کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) کے کلام کے معنی معلوم ھوتے ہیں۔ اس بناء پر اجتہاد کے صحیح مقدمات کے بغیراگر اپنی رائے، قیاس اور استحسان پر مبنی کوئی حکم صادر کیا جائے اور یہ حکم خطا ھو اور حقیقی حکم کے مطابق نہ ھو، تو قیاس یا استحسان سے کام لینے والے شخص کو خدا کے پاس ایک اجر ملنا قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ اگر اس طرح ھو کہ ہر شخص استنباط کے قوانین کی رعایت کئے بغیر، استحسان اور قیاس پر مبنی حکم جاری کرے اور اس کا حکم خلاف واقع ھو اور اس کے باوجود خدا کے پاس اسے اجر ملے تو کوئی عقل سلیم اسے قبول نہیں کرسکتی ہے۔ کیونکہ اس نے اجتہاد کے قواعد اور مقدمات کو سیکھنے کی کوشش نہیں کی ہے، بلکہ اس نے دوسرے احکام کے پیش نظر قیاس سے کام لے کر استحسنات عقلی کی بنا پر حکم جاری کیا ہے اور اس کا یہ حکم علمی بنیاد پر نہیں ہے۔ شیعوں کی احادیث کی کتابوں کے مطابق یہ اجتہاد قابل قبول نہیں ہے۔ اور ہمارے اعتقاد کے مطابق یہ اجتہاد باطل اور بے محل ہے، خوارج بھی اسی خطا کے مرتکب ھوئے ہیں اور استنباط کے قوانین کی عدم رعایت اور ناقص اجتہاد سے کام لیتے ھوئے امام علی (ع) کے مقابلے میں یہ نعرہ بلند کیا: " لا حکم الا للہ" اور جنگ کو جاری رکھنے سے سرپیچی اور نافرمانی کی ،کیونکہ خدا کی واضح دلیل یعنی امام اور حجت الہی کی موجود گی میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ھوتی ہے۔
علم اصول کے مباحث میں سے ایک بحث " تخطئہ" اور " تصویب" ہے۔ تخطئہ، تصویب کے مقابلے میں ہے اور لغت میں کسی کو خطا کی نسبت دینے کے معنی میں ہے،اور اصطلاح میں، حکم واقعی تک پہنچنے میں مجتہد کے احتمال خطا سرزد ھونے، یعنی حکم واقعی تک نہ پہنچنے کے معنی میں ہے۔[2]
علمائے امامیہ تخطئہ کے قائل ہیں اور ان کا یہ اعتقاد ہے کہ خداوند متعال کے ہاں ہر ایک واقعہ کے لئے ایک حقیقی حکم ہے، جو لوح محفوظ پر تمام لوگوں کے لئے، من جملہ عالم و جاہل مسلمان اور کافر کے لئے درج ہے۔ اور ہم سب پر اسی واقع کی تکلیف ہے اور تمام امور بھی اسی واقع کے مطابق ہیں، لیکن مجتہد کا استنباط کبھی اس واقع کے مطابق ھوتا ہے اور وہ " مصیب " کہلاتا ہے کہ اس صورت میں، واقعی حکم مجتہد اور ان کے مقلدین کے لئے واضح ھوتا ہے۔ اور کبھی مجتہد کا نظریہ خلاف واقع ھوتا ہے اور وہ " مخطی" کہلاتا ہے کہ اس صورت میں وہ اور اس کے مقلد مغدور ھوتے ہیں۔ " تخطئہ" کو قبول کرنے والے علمائے شیعہ کا قول یہ ہے کہ: " للمصیب اجران و للمخطی، اجر واحد" " یعنی جو مجتہد اپنے اجتہاد میں حقیقی حکم تک پہنچتا ہے اس کے لئے دو اجر ہیں، لیکن جو مجتہد اپنی تمام کوششوں کے باوجود حقیقی حکم تک نہیں پہنچتا ہے، اس کے لئے صرف ایک اجر ہے۔"[3] و [4]
جیسا کہ آپ جانتے ہیں، لغت میں اجتہاد کوشش کے معنی میں ہے۔[5] یہ لفظ مختلف علوم میں علمی کوشش و تلاش کے معنی میں استعال ھوتا ہے، اس طرح کہ یہ کوشش کرنے والا شخص اس علم میں ماہر اور کارشناس کے عنوان سے پہچانا جائے۔ اجتہاد کی مشہور ترین اصطلاح ، دینی اور فقہ و اصول کے احکام سے متعلق ہے۔ اس اصطلاح میں اجتہاد کے معنی، دینی منابع سے شرعی حکم حاصل کرنا ہے۔ جو استدلال کے ذریعہ ایک قسم کے قواعد و ضوابط سے استفادہ کرکے انجام پاتا ہے اور اس کو اصول فقہ کے قواعد کہا جاتا ہے۔[6]
آیت اللہ شہید مطہری (رہ) اجتہاد کے اصطلاحی معنی بیان کرتے ھوئے فرماتے ہیں: " اجتہاد" یعنی اسلام کے مقررات کو صحیح طریقہ سے ادراک کرنے کے لئے اس کے منابع، یعنی کتاب، سنت، اجماع و عقل سے استفادہ کرکے عالمانہ کوشش کرنا ۔"[7]
اس بنا پر، اصطلاح میں، اجتہاد دینی منابع و متون سے استنباط کر کے احکام الہی کو استخراج کرنے کے لئے اس کے اپنے طریقہ کار، مقدمات اور شرائط ھوتے ہیں۔ اجتہاد، ایک یسا ملکہ ہے، کہ یہ ملکہ رکھنے والا آسانی کے ساتھ استنباط کے طریقہ کار ،ادلہ اور قواعد سے استفادہ کرتا ہے، خواہ یہ فقہ میں حو یا تفسیر، تاریخ، فلسفہ یا دوسرے علوم میں۔
فقہ میں اجتہاد، کے لئے مقدمہ اور تمہید کے طور پر کئی علوم میں مہارت رکھنے کی ضرورت ھوتی ہے، ان علوم میں: متوسط حد میں منطق، عربی ادبیات (صرف و نحو) معانی و بیان، معقول و حکمت کے علاوہ علم رجال، درایہ اور اصول فقہ (جو اجتہاد کی اصلی اور حقیقی کلید ہے )شامل ہیں۔
طریقہ کار اور قواعد و ضوابط پر مبنی اجتہاد، جس نتیجہ پر بھی پہنچ جائے، قابل قبول اور اجتہاد کرنے والا اجر کا مستحق ھوتا ہے۔ اگر اس کا اجتہاد واقع کے مطابق ھو تو اسے دو اجر و پاداش ملتے ہیں اور اگر واقع کے بر خلاف ھوتو اسے ایک اجر ملتا ہے۔
اس بنا پر، اجتہاد کی مذکورہ تعریف کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) کے کلام کے معنی معلوم ھوتے ہیں۔ اس بناء پر اجتہاد کے صحیح مقدمات کے بغیراگر اپنی رائے، قیاس اور استحسان پر مبنی کوئی حکم صادر کیا جائے اور یہ حکم خطا ھو اور حقیقی حکم کے مطابق نہ ھو، تو قیاس یا استحسان سے کام لینے والے شخص کو خدا کے پاس ایک اجر ملنا قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ اگر اس طرح ھو کہ ہر شخص استنباط کے قوانین کی رعایت کئے بغیر، استحسان اور قیاس پر مبنی حکم جاری کرے اور اس کا حکم خلاف واقع ھو اور اس کے باوجود خدا کے پاس اسے اجر ملے تو کوئی عقل سلیم اسے قبول نہیں کرسکتی ہے۔ کیونکہ اس نے اجتہاد کے قواعد اور مقدمات کو سیکھنے کی کوشش نہیں کی ہے، بلکہ اس نے دوسرے احکام کے پیش نظر قیاس سے کام لے کر استحسنات عقلی کی بنا پر حکم جاری کیا ہے اور اس کا یہ حکم علمی بنیاد پر نہیں ہے۔ شیعوں کی احادیث کی کتابوں کے مطابق یہ اجتہاد قابل قبول نہیں ہے۔ اور ہمارے اعتقاد کے مطابق یہ اجتہاد باطل اور بے محل ہے، خوارج بھی اسی خطا کے مرتکب ھوئے ہیں اور استنباط کے قوانین کی عدم رعایت اور ناقص اجتہاد سے کام لیتے ھوئے امام علی (ع) کے مقابلے میں یہ نعرہ بلند کیا: " لا حکم الا للہ" اور جنگ کو جاری رکھنے سے سرپیچی اور نافرمانی کی ،کیونکہ خدا کی واضح دلیل یعنی امام اور حجت الہی کی موجود گی میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ھوتی ہے۔
[1] عاملى نباطى، على بن محمد بن على بن محمد بن يونس، الصراط المستقيم إلى مستحقي التقديم، محقق، مصحح، رمضان، ميخائيل، ج 3، ص 236، المكتبة الحيدرية، نجف.
[2] . ملاحظہ ھو: شیخ محمد صنقور، المعجم الاصولی، ص 369-372، مؤلف، قم، طبع اول، 1412ق.
[3]. علمای شیعی و سنی در عقلیات ـ در غیر احکام شرعی، موضوعات خارجی و احکام عقلی غیر مربوط به حکم شرعی ـ به اتفاق، به تخطئه اعتقاد دارند؛ یعنی برآنند که ممکن است حکم مجتهد نسبت به آنها مطابق واقع و یا مخالف آن باشد.
[4] اصفهانی، محمد حسین، الفصول الغرویة، ص 406، دار احیاء العلوم، الاسلامیة، 1404ق.
[5] ابن منظور، لسان العرب، ج 3، ص 135، واژه «جهد».
[6] طباطبائی، سید محمد حسین، مجموعه مقالات، با کوشش، خسروشاهی، سید هادی، ج 1، ص 201، تهران، دفتر نشر و فرهنگ اسلامی، 1371ش.
[7]. مطهری، مرتضی، مجموعه آثار، ج 3، ص 197، تهران، صدرا، 1372ش.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے