Please Wait
کا
10095
10095
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2014/01/22
سائٹ کے کوڈ
fa38492
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
53514
- سیکنڈ اور
سوال کا خلاصہ
بہشت اور جہنم میں دن اور رات کی کیفیت کیا ہے؟
سوال
بہشت اور جہنم میں دن اور رات کی کیفیت کیا ہے؟
ایک مختصر
قرآن مجید کی بعض آیات میں موت کے بعد عذاب و نعمتوں کی طرف اشارہ کرتے ھوئے انھیں دن اور رات کے دوران قرار دیا گیا ہے۔ ایک آیہ شریفہ میں یوں آیا ہے:“ «النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْها غُدُوًّا وَ عَشِيًّا»؛[1] “ وہ جہنم جس کے سامنے یہ ہر صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں۔” اور بہشت کی نعمتوں کے بارے میں بھی یوں فرمایا گیا ہے: «وَ لَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيها بُكْرَةً وَ عَشِيًّا»؛[2] اور انھیں بہشت میں صبح و شام رزق ملتا رہے گا۔” باوجودیکہ قرآن کے مطابق بہشت میں کوئی سورج نہیں ہے، بہرحال بعض افراد نے ان آیات سے استفادہ کرکے یوں تصور کیا ہے کہ قیامت کے دن بہشت اور جہنم میں دن اور رات ہے۔ اور نور کے کم و زیادہ ھونے سے دن اور رات کے درمیان تشخیص دیا جاتا ہے۔[3] لیکن بعض دوسرے مفسرین نے دن اور رات کو برزخ سے مخصوص جانا ہے اور قیامت میں بہشت و جہنم کے بارے میں روز و شب کے قائل نہیں ہیں۔[4] اور یہ جو کہا گیا ہے کہ ان کی روزی دن اور رات کو فراہم کی جاتی ہے کے معنی بہشتی نعمتوں کا توقف کے بغیر پے در پے ھونا جانا ہے۔[5]
تفسیر علی بن ابراھیم میں دوسری آیت کے بارے میں آیا ہے کہ: یہ جو خدا وند متعال نے فرمایا ہے “ ان کی روزی شب و روز میں ملتی ہے ۔” سے مراد دنیوی بہشت ہے، یعنی وہ بہشت جو قیامت سے پہلے عالم برزخ میں واقع ہے، جہاں پر موت کے بعد مؤمنون کی ارواح وہاں پر متقل ھوتی ہیں۔ اس بہشت میں چاند اور سورج موجود ہیں، لیکن آخرت اور ابدی بہشت میں شب و روز نہیں ہے۔[6]
ایک روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے پہلی آیت کے بارے میں فرمای ہے:“ یہ جو خدا وند متعال نے فرعون کے بارے میں فرما یا ہےکہ“ شب و روز آگ میں ڈالا جائے گا۔” یہ دنیا﴿ یعنی اسی برزخ﴾ کے بارے میں ہے۔ لیکن آخرت اور جہنم میں جس ابدی عذاب سے وہ دوچار ھوں گے، اس کے بارے میں اسی آیت کے ضمن میں اشارہ کرکے یوں فرمایا ہے:“اور جس دن قیامت برپا ھوگی ، حکم دیا جائے گا کہ آل فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کیا جائے۔[7] و[8]
امام صادق علیہ السلام کے اس کلام کے یہ معنی ہیں کہ آیہ شریفہ کا پہلا حصہ آل فرعون کے بر زخی عذاب سے متعلق ہے اور آیہ شریفہ کا دوسرا حصہ قیامت کے دن کے عذاب سے متعلق ہے۔
ان وضاحتوں کے پیش نظر، یوں معلوم ھوتا ہے کہ دنیا اور برزخ کے درمیان رابطہ ھونے کی وجہ سے، برزخی بہشت و جہنم میں دن اور رات ہے۔ یہ رابطہ اس قدر قوی ہے کہ روایت میں برزخی بہشت و جہنم کو دنیوی بہشت و جہنم کہا گیا ہے۔ جس طرح روایت یں آیا ہے کہ ان دو بہشت و جہنم میں، سورج اور چاند موجود ہیں۔ لیکن قیامت کے دن، شب و روز نہیں ہے اور اس لحاظ سے وہاں پر ایک ہی قسم کے حالات حاکم ہیں۔
تفسیر علی بن ابراھیم میں دوسری آیت کے بارے میں آیا ہے کہ: یہ جو خدا وند متعال نے فرمایا ہے “ ان کی روزی شب و روز میں ملتی ہے ۔” سے مراد دنیوی بہشت ہے، یعنی وہ بہشت جو قیامت سے پہلے عالم برزخ میں واقع ہے، جہاں پر موت کے بعد مؤمنون کی ارواح وہاں پر متقل ھوتی ہیں۔ اس بہشت میں چاند اور سورج موجود ہیں، لیکن آخرت اور ابدی بہشت میں شب و روز نہیں ہے۔[6]
ایک روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے پہلی آیت کے بارے میں فرمای ہے:“ یہ جو خدا وند متعال نے فرعون کے بارے میں فرما یا ہےکہ“ شب و روز آگ میں ڈالا جائے گا۔” یہ دنیا﴿ یعنی اسی برزخ﴾ کے بارے میں ہے۔ لیکن آخرت اور جہنم میں جس ابدی عذاب سے وہ دوچار ھوں گے، اس کے بارے میں اسی آیت کے ضمن میں اشارہ کرکے یوں فرمایا ہے:“اور جس دن قیامت برپا ھوگی ، حکم دیا جائے گا کہ آل فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کیا جائے۔[7] و[8]
امام صادق علیہ السلام کے اس کلام کے یہ معنی ہیں کہ آیہ شریفہ کا پہلا حصہ آل فرعون کے بر زخی عذاب سے متعلق ہے اور آیہ شریفہ کا دوسرا حصہ قیامت کے دن کے عذاب سے متعلق ہے۔
ان وضاحتوں کے پیش نظر، یوں معلوم ھوتا ہے کہ دنیا اور برزخ کے درمیان رابطہ ھونے کی وجہ سے، برزخی بہشت و جہنم میں دن اور رات ہے۔ یہ رابطہ اس قدر قوی ہے کہ روایت میں برزخی بہشت و جہنم کو دنیوی بہشت و جہنم کہا گیا ہے۔ جس طرح روایت یں آیا ہے کہ ان دو بہشت و جہنم میں، سورج اور چاند موجود ہیں۔ لیکن قیامت کے دن، شب و روز نہیں ہے اور اس لحاظ سے وہاں پر ایک ہی قسم کے حالات حاکم ہیں۔
[1]. غافر، 46.
[2]. مریم، 62.
[3] ۔ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج 13، ص 107، دار الکتب الإسلامیة، تهران، طبع اول، 1374ش.
[4] ۔ قمی، علی بن ابراهیم، تفسیر القمی، محقق، مصحح، موسوی جزائری، سید طیب، ج 2، ص 52، دار الکتاب، قم، طبع سوم، 1404ق.
[5] ۔ طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج 14، ص 97، دفتر انتشارات اسلامی، قم، طبع پنجم، 1417ق.
[6] ۔ تفسير القمی، ج 2، ص 52.
[7]۔ غافر، 46.
[8] ۔ تفسیر القمی، ج 2، ص 258.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے