Please Wait
8816
اسلام کی شریعت مقدس میں ایک وقت میں دو بهنوں س شادی کرنا جائز نهیں هے ، اس بات کا تذکره ضروری هے که اگر دو یا اس سے زیاده بهنوں سے شادی ایک هی وقت میں هو و کوئی مضائقه نهیں هے ۔
دوسرے لفظوں میں ، جب بھی کوئی مرد کسی عورت سے عقد ( نکاح) کرے تو جب تک وه عورت اس کے عقد میں هے وه شخص بیوی کی بهن سے شادی نهیں کر سکتا، عقد چاهے دائمه هو یا موقت ، بلکه طلاق کے بعد بھی عده کے ختم هونے تک ( جب که عده رجعی هو) تو اس کی بهن سے شادی نهیں کرسکتا ، لیکن جب اپنی بیوی کو طلاق دے دے یا وه دنیا سے گزر جائے اور عده ختم هو جائے تو اس بیوی کی بهن سے شادی کرسکتا هے ۔[1]
اسلام میں ایک وقت میں دو بهنوں کے ساﺘﮭ شادی سے منع کرنے کا فلسفه شاید یه هو:
ایک یه که : بیوی کی شخصیت اورحرمت محفوظ رهے جیسا که بیوی کی بھانجی اور بھیجتی سے شادی میں بیوی کی رضایت شرط هے ۔
دوسرے: دوبهنیں هم نسب اور بهن هونے کے سبب ایک دوسرے سے بهت زیاده مانوس هوتی هیں لیکن جب ایک دوسرے کی رقیب بن جائیں گی تو اس محبت وپیار کو محفوظ نهیں رﮐﮭ سکتیں ، اس طرح ان کی شفقت و محبت میں ٹکراؤ پیدا هو جائے گا جو زندگی کے لئے نقصان ده هے اور خاندان کی بنیاد بکھر جائے گی ، اس لئے که همیشه پیار و محبت اور رقابت کا جذبه ان کے اندر کشمکش کی صورت میں موجود رهے گا ۔[2]
تیسرے: که یه بهن کے شوهر سے شادی کرنا عورتوں کی طبیعت اور مزاج کے سازگار نهیں هے کیونکه معمولا عوتیں بهن کے شوهر سے قرابت و رشته داری کا احساس کرتے هیں ''اور اسے اپنے خاندان کا حصه سمجھتی هیں۔
آخر میں اس نکته کی طرف توجه ضروری هے که اگر چه یه بات اپنی جگه ثابت هوچکی هے احکام الٰهی مصلحت و مفسده کی بنیاد پر وضع کئے گئے هیں لیکن ان مصالح و مفاسد کا جزئیات اور مصادیق سے کشف کرنا بهت مشکل هے ، اس لئے که :
ایک : مختلف علمی میدانوں میں وسیع امکانات کی ضرورت هے ۔
دوسرے : انسان علم و صنعت کے لحاظ سے جتنا بھی ترقی کرلے پھر بھی اس کی معلومات مجهولات کے مقابله میں سمندر کے سامنے ایک قطره کے مانند هے :''تمهیں تھوڑے سے علم کے سوا ﮐﭽﮭ اور عطا نهیں کیا گیا هے ''(سورهٔ اسراء ، آیت 85)
اولیائے دین خدا کی جانب سے سارے احکام کا فلسفه بیان نه کرنے کی وجه شاید یه هو که وه انسان که جس کے لئے ابھی تک سارے علمی حقائق کشف نهیں هوئے هیں اسے احکام کے تمام راز بتانا ایک معما کے مانند هے جو بعض اور سننے والوں کے لئے نفرت کا سبب بن سکتا هے ۔
امام علی علیه السلام فرماتے هیں : ''جس چیز کو نهیں جانتے اس کے دشمن هوتے هیں ''[3] اسی لئے اولیائے خدا نے لوگوں کی ﺴﻤﺠﮭ کے مطابق یعض احکام کے فلسفه اور سبب کی طرف اشاره کیا هے ۔
جب که دین و شریعت کا مقصد انسانوں کو علمی و عملی خوبیوں سے آراسته کر کے فکری وعملی برائیوں س دور کرن اهے اور یه مقصد شریعت پر عمل پیرا ره کر هی حاصل هو سکتا هے چاهے لوگ احکام کا فلسفه اور اسباب سے بے خبر کیوں نه هوں ۔
بالکل ایسے هی جیسے ایک بیما ر کو ڈاکٹر کے حکم پر عمل کرکے شفا حاصل هوتی هے چاهے وه دوا اور ڈاکٹر کے حکم کے فلسفه کو نهیں جانتا ۔
اس کے علاوه مؤمنین کو چونکه یه اطمینان و یقین هے که یه دینی احکام ان حضرات کی جانب سے صادر هوتے هیں جن کے علم و دانش میں خطا کی گنجائش نهیں هے ، لهٰذا انھیں ان احکام کے مفید اور موثر هونے کا بھی یقین هے۔