Please Wait
کا
6126
6126
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2009/09/22
سوال کا خلاصہ
اگر یہ طے پایا ہے کہ دعا کرنے سے مشکلات حل ھو جائیں تو زندگی میں خود ہمارا رول کیا ہے؟
سوال
سلام علیکم، اگر یہ طے پایا ہے کہ دعا کرنے سے مشکلات حل ھو جائیں ، تو زندگی میں خود ہمارا رول کیا ہے؟ کیا بہتر نہیں ہے کہ انسان دعا کرنے کے بجائے جس کام کو وہ صحیح سمجھتا ہے اسے مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے انجام دے؟
ایک مختصر
دین اسلام، ظاہر و باطن کو اکھٹا کرنے کا دین ہے، مادی اور معنوی امور کو اکھٹا کرنے کا دین ہے۔ جس طرح پروردگار عالم ، ھوا اور بادلوں کا خالق ہے اور بارش کچھ قوانین کے تحت برستی ہے جنھیں پروردگار عالم نے طبیعت اور فطرت میں قرار دیا ہے، لیکن اسی اثنا میں خداوند متعال نے بارش برسنے کی علت لوگوں کا ایمان و تقوی بیان کیا ہے۔[1]
پروردگار عالم نے، کائنات کے تمام امور کو ایک خاص نظم و حکمت کی بنیاد پر تدبیر کیا ہے اور ہر مظہر اور واقعہ کے لئے کوئی نہ کوئی علت و سبب قرار دیا ہے کہ مقصد تک پہنچنا علل و اسباب کے بغیر نا ممکن ہے۔
انسان کو اول حرکت کرنی چاہئیے، پھر خدا وند متعال سے درخواست کرنی چاہئیے کہ اس حرکت کو صحیح راستہ پر قرار دے اور حقیقی مطلوب تک پہنچ جائے۔ تمام کاموں میں خداوند متعال سے دعا و مدد طلب کرنا اسی معنی میں ہے ۔ دعا اس وقت قبول ھوتی ہے ، جب ہم مقصد تک پہنچنے کے لئے اسباب و علل کو فراہم کرنے کے طریقہ سے تلاش و کوشش کریں اور خداوند متعال سے مقصد تک پہنچنے کی کوششوں کا نتیجہ حاصل کرنے کے لئے مدد طلب کریں۔ جو انسان، کسی خاص موضوع کے سلسلہ میں دعا کرتا ہے، وہ اپنے مصمم ارادے پر زور لگاتا ہے، تاکہ وہ کام متحقق ھو جائے، لیکن چونکہ امور کا متحق ھونا، صرف ہمارے ارادہ اور فیصلہ تک محدود نہیں ہے، اور اس سلسلہ میں بہت سے دوسرے اسباب کا ر فرما ھوتے ہیں، اس لئے ہم خداوند متعال ، جو مسبب الاسباب ہے، سے درخواست کرتے ہیں، کہ ہمارے اختیار سے خارج امور کو ہمارے اس کام کے متحقق ھونے کے لئے فراہم کرے۔ اتفاق سے ہماری روایتوں میں انسان کے عمل اور ارادہ کو دعا سے جمع کرنے کا مسئلہ بخوبی حل ھوا ہے ۔ایک جانب ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اپنے مطالبات کو تحقق بخشنے کے لئے دعا کرنی چاہئے اور دوسری جانب حکم دیا گیا ہے کہ ہمیں اس کے متحق ھونے کے لئے کوشش کرنی چاہئے
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:“ خدا وند متعال کسی کام کو اسباب سے استفادہ کئے بغیر انجام نہیں دیتا ہے”۔[2]
بعض دوسری روایتوں میں ایسے افراد کا ذکر کیا گیا ہے، جن کی دعا قبول نہیں ھوتی ہے، من جملہ، وہ افراد، جو اپنے ارادہ و کوشش کی طرف توجہ نہیں کرتے ہیں اور سب کچھ پروردگار عالم سے چاہتے ہیں۔ جو شخص کسب و کار کے سلسلہ میں تلاش و کوشش نہیں کرتا ہے اور صرف خداوند متعال سے رزق و روزی کی درخواست کرتا ہے، اس کی دعا قبول نہیں ھوتی ہے۔[3]
اس بنا پر، ہماری مشکلات کو حل کرنے میں دعا کا اہم رول ہے، لیکن اس کے ہرگز یہ معنی نہیں ہیں کہ انسان کے مطالبات پورے ھونے میں اس کی اپنی کوششوں اور ارادہ کا کوئی رول نہیں ہے۔ اس موضوع سے متعلق قابل مطالعہ دوسرے عناوین حسب ذیل ہیں:
١- سؤال 197 (سایت: 983)، شرایط استجابت دعا.
2- سؤال 2145 (سایت: 2269)، شرایط و راههای استجابت دعا.
3- سؤال 793 (سایت: 852)، رابطۀ دعا و تلاش برای ازدواج.
پروردگار عالم نے، کائنات کے تمام امور کو ایک خاص نظم و حکمت کی بنیاد پر تدبیر کیا ہے اور ہر مظہر اور واقعہ کے لئے کوئی نہ کوئی علت و سبب قرار دیا ہے کہ مقصد تک پہنچنا علل و اسباب کے بغیر نا ممکن ہے۔
انسان کو اول حرکت کرنی چاہئیے، پھر خدا وند متعال سے درخواست کرنی چاہئیے کہ اس حرکت کو صحیح راستہ پر قرار دے اور حقیقی مطلوب تک پہنچ جائے۔ تمام کاموں میں خداوند متعال سے دعا و مدد طلب کرنا اسی معنی میں ہے ۔ دعا اس وقت قبول ھوتی ہے ، جب ہم مقصد تک پہنچنے کے لئے اسباب و علل کو فراہم کرنے کے طریقہ سے تلاش و کوشش کریں اور خداوند متعال سے مقصد تک پہنچنے کی کوششوں کا نتیجہ حاصل کرنے کے لئے مدد طلب کریں۔ جو انسان، کسی خاص موضوع کے سلسلہ میں دعا کرتا ہے، وہ اپنے مصمم ارادے پر زور لگاتا ہے، تاکہ وہ کام متحقق ھو جائے، لیکن چونکہ امور کا متحق ھونا، صرف ہمارے ارادہ اور فیصلہ تک محدود نہیں ہے، اور اس سلسلہ میں بہت سے دوسرے اسباب کا ر فرما ھوتے ہیں، اس لئے ہم خداوند متعال ، جو مسبب الاسباب ہے، سے درخواست کرتے ہیں، کہ ہمارے اختیار سے خارج امور کو ہمارے اس کام کے متحقق ھونے کے لئے فراہم کرے۔ اتفاق سے ہماری روایتوں میں انسان کے عمل اور ارادہ کو دعا سے جمع کرنے کا مسئلہ بخوبی حل ھوا ہے ۔ایک جانب ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اپنے مطالبات کو تحقق بخشنے کے لئے دعا کرنی چاہئے اور دوسری جانب حکم دیا گیا ہے کہ ہمیں اس کے متحق ھونے کے لئے کوشش کرنی چاہئے
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:“ خدا وند متعال کسی کام کو اسباب سے استفادہ کئے بغیر انجام نہیں دیتا ہے”۔[2]
بعض دوسری روایتوں میں ایسے افراد کا ذکر کیا گیا ہے، جن کی دعا قبول نہیں ھوتی ہے، من جملہ، وہ افراد، جو اپنے ارادہ و کوشش کی طرف توجہ نہیں کرتے ہیں اور سب کچھ پروردگار عالم سے چاہتے ہیں۔ جو شخص کسب و کار کے سلسلہ میں تلاش و کوشش نہیں کرتا ہے اور صرف خداوند متعال سے رزق و روزی کی درخواست کرتا ہے، اس کی دعا قبول نہیں ھوتی ہے۔[3]
اس بنا پر، ہماری مشکلات کو حل کرنے میں دعا کا اہم رول ہے، لیکن اس کے ہرگز یہ معنی نہیں ہیں کہ انسان کے مطالبات پورے ھونے میں اس کی اپنی کوششوں اور ارادہ کا کوئی رول نہیں ہے۔ اس موضوع سے متعلق قابل مطالعہ دوسرے عناوین حسب ذیل ہیں:
١- سؤال 197 (سایت: 983)، شرایط استجابت دعا.
2- سؤال 2145 (سایت: 2269)، شرایط و راههای استجابت دعا.
3- سؤال 793 (سایت: 852)، رابطۀ دعا و تلاش برای ازدواج.
[1] ۔ اعراف، 96
[2] ۔ كافى، ج 1، ص 183. با استفاده از سؤال 2900 (سایت: 3109). البته اغلب ایسا ہے، یعنی اغلب مواقع پر ایسا ھوتا ہے، لیکن انسان اپنے مادی مطالبات کو متحقق کرنے کے لئے صرف مادی امور سے وابستہ نہ رہیں اور رفتہ رفتہ خداوند متعال کے رول کو فراموش نہ کریں، اس لئے خداوند متعال بعض امور کو ان کی فطری راہ سے ہٹ کر ، حضرت عیسی ﴿ع﴾ کی ﴿ باپ کے بغیر﴾پیدائش کے مانند انجام دینا ہے۔
[3] ۔ کافی ، ج5، ص 77
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے