Please Wait
5826
خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: " انسانو، تم سب اللہ کی بارگاہ کے فقیر ھو اور اللہ صاحب دولت{ بے نیاز و غنی} اور قابل حمد و ثنا ہے-[1]
خداوند متعال کے غنی اور بے نیازہونے کی صفت، خداوند متعال کی صفات ثبوتیہ میں سے ہے- خداوند متعال کی صفات کو ثابت کرنا عام طور پر خداوند متعال کے وجود کو ثابت کرنے کے بعد ممکن ہے- غنی اور بے نیازی کی صفت بھی خدا کے وجود اور وحدانیت اور بے علت ھونے کو ثابت کرنے کے بعد ممکن ہے- ھم یہاں پر صرف وجوب و امکان کی برہان کو بیان کریں گے، جو پروردگار کی علت کے سلسلہ میں عدم احتیاج ہے اوریہ بے نیاز ھونا ہے-
و جوب و امکان کی برہان {فقر و غنی}-[2]
جن مخلوقات کا ھم اس کائنات میں مشاہدہ کررہے ہیں، وہ سب ایک دن معدوم تھیں، اور اس کے بعد انھوں نے وجود کا لباس زیب تن کیا ہے، یا دقیق تر الفاظ میں ایک دن کچھ نہیں تھیں اور اس کے بعد وجود میں آگئی ہیں، اور یہ اس کی دلیل ہے کہ تمام مخلوقات کسی دوسرے وجود کی
" معلول" ہیں اور اپنی طرف سے ہستی کی مالک نہیں ہیں- اور ھم بخوبی جانتے ہیں کہ ھر ایک معلول وابستہ اور اپنی علت پر قائم ھوتا ہے اور سرا پا نیازمند اور محتاج ہے-اور اگر یہ علت بھی کسی دوسری علت کی معلول ھو تو اپنی حیثیت سے محتاج اور نیازمند ھوگی، اور اگر یہ امر لامتناہی حد تک تسلسل پیدا کرے تو مخلوقات کا ایک مجموعہ محتاج اور فقیر ھوگا، مسلم ہے کہ اس قسم کا مجموعہ ھرگز موجود نہیں ھوگا، کیونکہ انتہائی محتاجی، نیازمندی ہے اور انتہائی فقر، فقر ہے- بے انتہا صفر سے کوئی عدد حاصل نہیں ھوتا ہے اور بے انتہا وابستگی سےکوئی آزادی حاصل نہیں ھوتی ہے-
اس سےھم نتیجہ حاصل کرتے ہیں کہ بالآخرھمیں ایک ایسے وجود تک پہنچنا چاہیئے جو اپنی ذات پر قائم ہے لیکن معلول نہیں ہے اور وہ واجب الوجود ہے- اس قسم کا وجود، جو علت مطلق ہے، سب سے بے نیاز ہے اور دوسری تمام مخلوقات اسی کے وجود سے موجود ہیں اور اسی کی محتاج ہیں-[3]
اس محتاجی کو اس لئے بیان کیا گیا ہے، کہ خداوند متعال تمام مخلوقات کا مبداء اور تمام کمالات بخشنے والا ہے، پس خود اس کے پاس ھر وہ چیز ھونی چاہیئے، جس کی دوسری مخلوقات محتاج ہیں، کیونکہ جو کوئی چیز عطا کرتا ہے، ھو نہیں سکتا کہ وہ چیز اس کے پاس نہ ھو- پس وہ مطلق غنی اور بے نیاز ہے، کیونکہ اگر وہ ایک لحاظ سے غنی اور ایک لحاظ سے محتاج ھو، تو اس جہت سے کمال عطا کرنے والا نہیں ھوسکتا ہے، اور یہ فرض کے خلاف ہے- کیونکہ ھم نے کہا کہ وہ ھر کمال کو عطا کرنے والا ہے-[4]
اس کے علاوہ ھماری اس سائٹ کے سوال : ۴۷۹{ سائٹ: ۵۲۰}، سوال: ۲۹۴۴{ سائٹ: ۲۱۶۷} اور سوال: ۳۴۳۸{ سائٹ: ۴۳۷۶} کو بھی ملاحظہ کر سکتے ھیں-[5]
[1] - فاطر، ۱۵
[2] - مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ ، ج۱۸، ص ۲۲-
[3] - ملاحظہ ھو: سائٹ اندیشہ قم-
[4] - طباطبائی، محمدحسین، ترجمہ المیزان، ج ۱۶، ص ۳۴۶-
[5] - ملاحظہ ھو: سائٹ حوزہ نٹ-