Please Wait
16050
مباھلہ ، یعنی ایک دوسرے پر نفرین کرنا، تا کہ جو باطل پر ہے وہ غضب الہی سے دوچار ہوجائے اورجو حق پر ہے اس کی پہچان ہوجا ئے اور اس طرح حق و باطل کی تشخیص کی جاتی ہے۔
مباھلہ ، ایک قسم کی دعا ہے اور اس کے خاص خصوصیات اور شرائط ہوتے ہیں کہ ہم ان میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
یہ کہ مباھلہ کرنے والا اپنے آپ کی تین دن تک اخلاقی اصلاح کرے روزہ رکھے اور غسل کرے اور جس کے ساتھ مباھلہ انجام دینا چاہتا ہے وہ صحرا میں جائے اور پو پھٹنے سے سورج چڑھنے تک مباہلہ انجام پائے -
مباھلہ ، صرف پیغمبر اسلام )ص( کے زمانہ سے ہی مخصوص نہیں ہے، بلکہ دوسرے مومنین بھی مباہلہ انجام دے سکتے ہیں اس لحاظ سے اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے اور ہر شخص اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے مذکورہ شرائط کی رعایت کرتے ہوئے دین کے دشمنوں کے ساتھ مباھلہ انجام دے سکتا ہے البتہ جاننا چاھیئے کہ مباھلہ کے شرائط ، اخلاص اور خود اعتمادی جو مباھلہ کے لیے ضروری ہیں ہر شخص کے لیے آسانی کے ساتھ حاصل نہیں ہوتے ہیں اور اس سلسلہ میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاھیئے ممکن ہے اس صورت میں بر عکس نتیجہ نکلے .
ضمنا جاننا چاھیئے کہ مباھلہ ان دینی اختلافات اور تنازعوں سے مخصوص ہے کہ مد مقابل فریق منطقی اور علمی مباحث اور حق و حقیقت کو قبول نہ کرے اور اپنے باطل عقیدہ پر ھٹ دھرمی کا مظاھرہ کرے -
آیہ مباھلہ کی تفسیر کے پیش نظر معلوم ہوتا ہے کہ سر انجام پیغمبر اسلام )ص( کا مباھلہ پر امن صلح پر ختم ہوا ہے۔
چونکہ آپ کا سوال کئی حصوں پر مشتمل ہے، اس لئے ہم بھی ایک مختصر مقدمہ یبان کرنے کے بعد اسی ترتیب سے اس کا جواب دیں گے۔
لغت میں مباھلہ:
در اصل مباہلہ کا لفظ -- اھل کے وزن پر -- مادہ "بہل" سے آزاد کرنے اور کسی چیز سے قید و بند اٹھانے کے معنی میں ہے۔ اور اسی وجہ سے جب کسی حیوان کو آزاد چھوڑتے ہیں تا کہ اس کا نوزاد بچہ آزادی کے ساتھ اس کا دودھ پی سکے ، اسے "باھل" کہتے ہیں ، اور دعا میں "ابتھال" تضرع اور خداوند متعال پر کام چھوڑنے کو کہتے ہیں۔
اصطلاح میں مباہلہ:
آیہ مباہلہ سے معلوم ہونے والا مباہلہ کا رسمی مفہوم دو اافراد کے ایک دوسرے پر نفرین کرنے کے معنی میں ہے، اس طرح کہ جو افراد کسی مذھبی مسئلہ پر آپس میں اختلاف رکھتے ہیں ، ایک جگہ پر اکٹھا ہوتے ہیں اور بارگاہ الہی میں تضرع کی حالت میں درخواست کرتے ہیں کہ جھوٹے کو رسوا کرکے اس کو سزا دے ۔[1]
مباہلہ ، یعنی ایک دوسرے پر نفرین کرنا تا کہ جو باطل پر ہے اس پر خداوند ممتعال کا غضب ، نازل ہوجائے اور جو حق پر ہے اسے پہچانا جائے اور اس طرح حق و باطل کی تشخیص کی جائے۔ [2]
قدرتی بات ہے کہ مباھلہ کے طرفیین ، خدا کا اعتقاد رکھنے والے ہونے چاہئیں تا کہ ایسے کام کا اقدام کرسکیں ، کیوںکہ جو شخص خدا پرست نہ ہو ، وہ خداوند متعال سے کوئی درخواست نہیں کرسکتا ہے۔
لیکن آپ کے سوال میں بیان کئے گئے مطالب کی ترتیب سے آپ کا جواب حسب ذیل ہے:
۱۔ کیا مباھلہ کے لیے کوئی شرط ہے تاکہ کسی سے مباھلہ کیا جائے؟
جیسا کہ ہم نے مباھلہ کی تعریف میں کہا، مباہلہ ایک قسم کی دعا ہے ، اس لحاظ سے جو شرائط دعا کے لیے ذکر کئے گئے ہیں ، مباھلہ کے لئے بھی ضروری ہیں۔[3] لیکن چونکہ مباھلہ ایک خاص دعا ہے ، قدرتی طور پر اس کی خاص خصوصیات اور شرائط ہیں کہ ہم ان میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں"
الف: جو شخص مباہلہ انجام دینا چاہتا ہے وہ تین دن تک اپنے آپ کی اصلاح کرے۔
ب: روزہ رکھے
ج: غسل کرے،
د: جس کے ساتھ مباھلہ کرنا چاہتا ہے اس کے ھمراہ صحرا میں جائے
ھ مباھلہ انجام پانے کا وقت طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک ہے۔
و: اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو مد مقابل کے دائیں ہاتھ کی انگیوں میں ڈال دے۔
ز: اپنے سے شروع کرتے ہوئے کہے: خداوندا! تو سات آسمانوں اور سات زمینوں کا پروردگار ہے اور پوشیدہ اسرار سے واقف ہے اور رحمان و رحیم ہے اگر میرے مد مقابل نے کسی حق سے انکار کیا ہو اور باطل دعویٰ کررہا ہو تو آسمان سے اس پر ایک بلا نازل کرنا اور اسے درد ناک عذاب سے دوچار کرنا!
اس کے بعد دوبارہ اسی دعا کو دہرائے اور کہے: اگر وہ شخص حق سے انکار کرکے باطل کا دعویٰ کررہا ہے تو اس پر آسمان سے ایک بلا نازل کرکے اسے عذاب سے دوچار کرنا [4]-
۲۔ لیکن آپ کا دوسرا سوال کہ ، کیا ہر کوئی اپنے ایمان کو ثابت کرنے کے لیے مباھلہ کرسکتا ہے؟ بہ الفاط دیگر ، کیا مباھلہ ایک عمومی حکم ہے یا پیغمبر اکرم )ص( کے خاص زمانہ سے مخصوص ہے؟
آیہ مباہلہ کی شان نزول کے پیش نظر ، مباہلہ کے مخاطب صرف پیغمبر اکرم )ص( ہیں شاید یہ کہا جائے کہ مباہلہ صرف پیغمبر اسلام کے زمانہ سے مخصوص ہے ، لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے اور مباہلہ کو صرف پیغمبر کے زمانہ سے مخصوص نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ دوسرے مومنین بھی مباہلہ کرسکتے ہیں کیونکہ :
اولا: آیہ شریفہ کی شان نزول کی بناء پر آیت مخصوص نہیں ہوسکتی ہے،[5]
ثانیا: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آیہ شریفہ مباھلہ تمام مسلمانوں کو مباہلہ کی دعوت کا حکم نہیں دیتی ہے بلکہ اس کے مخاطب صرف پیغمبر اسلام ہیں، لیکن یہ موضوع اس امر میں رکاوٹ نہیں بن سکتا ہے کہ مباھلہ مخالفوں کے مقابلے میں ایک عمومی حکم ہو اور با ایمان افراد جن میں تقوی ، اور مکمل خدا پرستی ہو اگر ان کے استدلال کو مد مقابل ہٹ دھرمی سے جواب دے تو وہ مباھلہ کی دعوت دے سکتے ہیں[6]
ثالثاْ: اسلامی کتابوں میں نقل کی گئی ایک روایت کے مطابق بھی اس حکم کی عمومیت معلوم ہوتی ہے، مرحوم کلینی نے اپنی کتاب کافی میں حضرت امام صادق {ص} سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ اپ نے اپنے ایک صحابی سے مخاطب ہوکر فرمایا : " اگر مخالفوں نے آپ کی حق بات کو قبول نہ کیا تو انھیں مباھلہ کے لیے دعوت دینا [7] اس لحاظ سے اس کے قائل ہوسکتے ہیں کہ کوئی بھی شخص مذکورہ شرائط کی رعایت کرتے ہوئے اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے اپنے ایمان کے دشمنوں سے مباھلہ کرسکتا ہے۔[8]
۳۔ لیکن جوآپ نے سوال کیا ہے کہ مباھلہ کس سلسلہ میں کیا جاسکتا ہے ؟ جیسا کہ مذکورہ مباھلہ سے متعلق آیہ شریفہ سےمعلوم ہوتا ہے کہ مباھلہ دینی اور مذھبی اختلافات کو حل کرنے سے متعلق ہے کہ اگر یہ اختلافات گفتگو اور بحث و مباحثہ سے حل نہ ہوں اور مسئلہ انکار تک پہنچ جائے تو مباھلہ سے کام لیا جاتا ہے[9]-
۴۔ لیکن آپ کا آخری سوال کہ قرآن مجید کی آیات کے مطابق رسول خدا کی طرف سے حقیقت میں مباھلہ انجام نہیں پایا ہے کیونکہ مد مقابل نے مباھلہ کی تجویز کو قبول نہیں کیا ، کیا یہ حقیقت ہے؟
اس سوال کے جواب کو واضح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ھم اصل مباھلہ کو بیان کریں:
آیہ شریفہ کی شان نزول کے سلسلے میں نقل کیا گیا ہے کہ یہ آیت اور اس سے پہلی والی آیات نجران کے گروہ کے بارے میں نازل ہوِئی ہیں۔۔۔۔۔۔ اور جب پیغمبر اسلام نے انھیں مباھلہ کے لیے دعوت دی تو نجران کے عیسائیوں نے دوسرے دن کی صبح تک آنحضرت {ص} سے مھلت مانگی اور نجران کی شخصیتوں کی طرف رجوع کرنے کے بعد، بڑے پادری ) ان کے بڑے عالم( نے کہا:
کل محمد )ص( کو دیکھنا ، اگر وہ اپنی اولاد اور خاندان کے ساتھ مباھلہ کے لیے آگئے تو ان سے مباھلہ کرنے سے ڈرنا۔ اور اگر اصحاب کے ساتھ آگئے تو مباھلہ کرنا ، کیونکہ اس صورت میں ان کے پاس کوئی چیز نہیں ہوگی، دوسرے دن جب صبح ہوئی ییغمبر )ص( تشریف لائے تو وہ حضرت علی بن ابیطالب )ع( کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور حسن )ع( و حسین )ع( ان کے آگے آگے چل رہے تھے اور حضرت زھراء )ع( ان کے پیچھے پیچھے تھیں، عیسائی بھی باہر آگئے اس وقت ان کے آگے ان کا پادری تھا، جب اس نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم ان چند افراد کے ہمراہ آرہے ہیں ، اس نے ان کے بارے میں پوچھا اور اسے جواب دیا گیا: کہ یہ ان کے چچیرے بھائی اور داماد ہیں جو آپ کے نزدیک محبوب ترین بندہ خدا ہیں اور یہ دو لڑکے آپ کی بیٹی اور علی کے بیٹے ہیں اور وہ جو ان خاتون آپ کی بیٹی فاطمہ ہیں، جو آپ کے نزدیک عزیز ترین فرد ہیں- پادری سے کہا گیا کہ مباھلہ کے لیے آگے بڑھیں اس نے جواب میں کہا کہ : " نہیں ، میں ایک ایسے شخص کو دیکھ رہا ہوں جو مباھلہ کے لیے سنجید گی کے ساتھ قدم بڑھا رہا ہے اور میں ڈر رہا ہوں کہ کہیں وہ راستگو نہ ہو اور اگر راست گو اور سچا ہو تو خدا کی قسم ایک سال کے اندر دنیا کے تمام عیسائیوں کی نسل ختم ہوجا ئے گی ،
پادری نے پیغمبر اکرم )ص( کی خدمت میں عرض کی:" اے ابو القاسم ، ہم اپ کے ساتھ مباھلہ نہیں کریں گے بلکہ صلح کریں گے اس لئے آپ ہمارے ساتھ صلح کریں۔ اس کے بعد آنحضرت )ص( نے ان کے ساتھ دو ہزار حلہ – اچھے کپڑے کا ایک ٹکرا – کہ ہر حلہ کی قیمت کم از کم چالیس درھم تھی ، اور تیس عدد زرہیں اورتیس نیزے ،اور تیس گھوڑے قرض کے طور پر حاصل کرکے صلح کی اور یہ شرط رکھی کہ سرزمین یمن میں مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش نہ کی جائے تو آنحضرت )ص( اس قرض کے ضامن ہوں گے تا کہ اسے واپس کریں اور اس سلسلہ میں ایک عھد نامہ تحریر کیا گیا۔ [10]
اس بنا پر نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مباھلہ کے تمام مقدمات انجام پا ئے تھے لیکن مد مقابل افراد پیغمبر کی خود اعتمادی سے ڈر گئے تھے اور حقیقت میں مباھلہ کے بغیر ہتھیار ڈال چکے تھے اس لئے مباھلہ کی ضرورت ہی نہیں تھی اور ہمیں اسلام میں مباھلہ واقع ہونے کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
[1] مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج 2، ص 578، دار الكتب الإسلامية، تهران، 1374 هـ ش، طبع اول.
[2] دوانى، على، مهدى موعود-ترجمه جلد سيزدهم بحار، ص 636، ناشر: دار الكتب الاسلاميه، تهران، 1378 ش، طبع: بيست و هشتم.
[3] ملاحظہ ہو سوال نمبر: 2622 (سایٹ: ur2785) (عنوان: شرایط استجابت حتمی دعا) و سوال نمبر: 2145 (سایٹ: 2269) (شرایط و راه های استجابت دعا)
[4] كمرهاى، محمد باقر ، اصول كافى-ترجمه كمرهاى، ج 2، ص 513 و 514، ج 6، ص 145، ناشر: انتشارات اسوه، قم، 1375 ش،طبع سوم.
[5] المورد لا یخصص الوارد، حکیم، سید محسن، حقائقالأصول، ج 2، ص 412، ناشر بصیرتی، 1408 هـ
[6] مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج 2، ص 589.
[7] کلینی، الكافي، ج 2، ص 513
[8] یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ اگر چہ قرآن مجید میں پیغمبر اسلام کے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباھلہ کا موضوع بیان ہوا ہے لیکن میاں بیوی کے درمیان شوہر کی طرف سے بیویوں پر بیگانہ مرد کے ساتھ عصمت فروشی کی تہمت جسے فقھی اصطلاع میں ملاعنہ کہا جاتا ہے کے سلسلہ میں پیدا ہوئے اختلفاف کے بارے میں ایک قسم کا مباھلہ ہے جو کچھ شرائط کے ساتھ جامع الشرائط حاکم شرع کے سامنے انجام پاتا ہے۔
[9] اصول كافى-ترجمه كمرهاى، ج 6، ص 629.
[10] رازی، ابو عبد الله فخرالدین محمد بن عمر، مفاتيح الغيب، ج 8، ص 248 یہ شان نزول کچھ فرق کے ساتھ احادیث اور تفسير کی کتابوں میں آئی ہے جیسے : صحیح مسلم، جزء 12، ص 129، ش 4420؛ سنن ترمذی، جزء 10، ص 260، ش 2925 و جزءالورد 12، ص 187، ش 3658؛ مسند احمد، جزء 4، ص 32، ش 1422؛ حاکم، المستدرک علی الصحیحین، جزء 11، ص 26، ش 4702، وہ کہتے ہیں کہ شیخین کی شرط کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے۔ ؛ اور انوار التنزيل و أسرار التأويل، ج2، ص: 20 و نیز معجم کبیر طبری؛ صحیح ابن حیان، مشکل الآثار طحاوی؛ ابو الفتوح رازى، و تفسير كبير میں ائی ہے ، فخر رازی اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں امام حسن )ع( و فاطمہ و علی کے بارے میں آیہ تطہیرکی شان نزول کے بعد کہتے ہیں : علمائے تفسیر کے درمیان یہ روایت متفقہ ہے۔