Please Wait
11452
عصر حاضر کے اکثر مراجع تقلید ، باکره لڑکی کے ساتھه عقد نکاح ( مؤقت یا دائم ) کو باپ کی اجازت اور باپ کے نھ ھونے کی صورت میں، دادا کی اجازت سے مشروط جانتے ھیں، لیکن اگر وه باکره نھیں یا اس کا باپ یا دادا نھیں،(فوت ھوئے ھیں) تو اجازت کی ضرورت نھیں ھے۔
عصر حاضر کے اکثر مراجع باکره لڑکی کے ساتھه عقد نکاح ( دائم یا مؤقت) کو باپ کی اجازت اور اس کے فوت ھونے کی صورت میں دادا کی اجازت سے مشروط جانتے ھیں۔ [1] لیکن اگر لڑکی "باکره" نھ ھو یا باپ اور دادا نھ ھو تو اجازت کی ضرورت نھیں۔
امام خمینی (رح) اور آیۃ اللھ سیستاتی فرماتے ھیں : جولڑکی بالغ ھے اور"رشیده" ھے یعنی اپنی مصلحت کو خود سمجھه لیتی ھے۔ اور وه شادی کرنا چاھتی ھے۔ تو اگر وه "باکره "[2] ھے تو اسے باپ یا دادا سے اجازت لینا ضروری ھے۔ [3] ۔
حضرت آیۃ اللھ العظمی خامنھ ای ، آیۃ اللھ فاضل لنکرانی ، آیۃ اللھ مکارم شیرازی، آیۃ اللھ صافی گلپائیگانی ، آیۃ اللھ وحید خراسانی ، اور آیۃ اللھ شیخ جواد تبریزی فرماتے ھیں: احتیاط واجب کی بنا پر اسے اپنے باپ یا دادا سے اجازت لینا چاھئے۔[4]
حضرت آیۃ اللھ بھجت: احتیاط کی بنا پر فرض کے طور پر اجازت شرط ھے۔[5]
حضرت آیۃ اللھ نوری ھمدانی : اقوی ( فتوٰی) یھ ھے کھ باپ یا داد کی اجازت شرط نھیں ھے ، اگر چھ بھتر یھ ھے کھ ان کی نظر اور اجازت کے بغیر شادی نھ کرے، لیکن وه باکره لڑکی جو"رشد" اور مصلحت جانے ماننے کی حد تک نھیں پھنچی ھے۔ اس کی شادی باپ اور دادا کی اجازت کے بغیر صحیح نھیں ھے۔ [6]
جیسا کھ ملاحظھ فرمایا: بعض مراجع لڑکی کا " رشیده" ھونا کافی نھیں جانتے ھیں لیکن بعض دوسرے اسے کافی جانتے ھیں۔ " رشیده" اس لڑکی کو کھتے ھیں۔ جو اپنی مصلحت سمجھه سکتی ھے اور جذبات اور شھوانی احساسات سے علیحده ره کر اپنے بارے میں فیصله کرسکتی ھے۔ اور اپنے مستقبل اور گھر والوں اور خاندان کی حیثیت کا خیال رکھتی ھے۔ لیکن جو لڑکی عقلی بلوغ نھیں رکھتی اوراپنے مستقبل کے بارے میں فیصلھ نھیں کرسکتی ، اور اپنے گھر والوں کی صلاح اور خیر کو نھیں سمجھه سکتی ، اگرچھ اس کی عمر زیاده ھی کیوں نھ ھو، وه "رشیده" نھیں ھے اور اپنے باپ اور دادا کی اجازت کے بغیر شادی نھیں کرسکتی ھے ۔
یھ بات قابل ذکر ھے کھ اکثر فقھاء اس مسئلھ میں اتفاق نظر رکھتے ھین ، اگر اس کا باپ اور دادا غائب ھوں اور ان سے اجازت لینا ممکن نھ ھو اور لڑکی کو شادی کرنے کی سخت ضرورت ھو۔ یا اس کو مناسب شوھر ملا ھو جو کھ شرعی اور عرفی لحاظ سے اس کا "کفو" ھے لیکن باپ اور دادا بغیر دلیل کے رکاوٹ بنے ھیں اور سختی کرتے ھیں[7] اس صورت میں باپ اور دادا کی اجازت کی ضرورت نھیں ھے۔ [8]