Please Wait
6901
دینی تعلیمات کے مطابق، با ایمان افراد کے بارے میں بدگمانی نہیں کرنی چاہئیے، حتی کہ ان کے بارے میں ذہن میں بھی غلط فیصلہ نہیں کرنا چاہئیے، لیکن اس کے باوجود اگر دوسروں کے بارے میں اس قسم کے افکار ذہن میں پیدا ھو جائیں، تو ضروری نہیں ہے کہ ان افکار کے جزئیات طرف مقابل کے سامنے بیان کئے جائیں اور اس سے بخشائش طلب کریں- بلکہ ان گناہوں سے آلودہ افکار کی تلافی کرنے کے لئے اپنے اور جن کی بدگمانی کی ہے ان کے لئے خداوند متعال سے استغفار کریں اور معافی مانگیں کہ یہ استغفار گناھوں کا کفارہ ھوگا-
دوسری جانب، ہمیں اپنے تمام گناھوں کے بارے میں خداوند متعال سے عفو و بخشش کی درخواست کرنی چاہئیے اور جن مواقع پر کسی شخص کو مالی یا معنوی نقصان پہنچا ھو، تو ضروری ہے کہ اس سے بخشائش حاصل کی جائے اور حتی الامکان اس کی تلافی بھی کریں، اس کے علاوہ بدگمانی اور حسد جیسے مواقع پر بخشائش حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، البتہ اگر بخشائش کلی صورت میں انجام پائے اور طرفین کے درمیان روابط درہم برہم نہ ھوں، تو بہتر ہے کہ اس طریقہ سے استفادہ کیا جائے-
ضروری ہے کہ اس سلسلہ میں چار بنیادی اور اہم اصولوں کی یاد دہانی کرائی جائے نیز اجمالی جواب میں بیان کئے گئے خلاصہ کے دلائل اور استناد بیان کئے جائیں:
۱- بدگمانی کا حرام ھونا: بیشک اسلامی تعلیمات کے مطابق با ایمان افراد کو ایک دوسرے پر اعتماد کرنا چاہئے اور ایک دوسرے کو بدگمانی سے پرہیز کرنا چاہئیے-
خداوند متعال نے سورہ حجرات میں با ایمان افراد کے لئے واضح طور پر فہمائش کی ہے کہ ایک دوسرے کے بارے میں بدگمان نہ ھوں، کیونکہ ان بد گمانیوں میں سے بعض، گناہ شمار ھوتی ہیں-[1] اس آیت کے مشابہ مضمون، قرآن مجید میں دوسری جہگوں پر بھی پایا جاتا ہے [2]اور بے شمار روایتیں بھی اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں، من جملہ: مولائے متقیان حضرت علی {ع} فرماتے ہیں:" اگر اپنے بھائی کے کلام کے بارے میں مناسب توجیہ کرسکتے ھو، تو اس کے کلام کے بارے میں بد گمان نہ ھونا-"[3]
اس بنا پر کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ بدگمانی بذات خود ایک ناپسند کام ہے- خواہ ظاہر ھوکر عملی اقدام تک پہنچے، یا اسی فکر و خیال تک محدودو رہے-
۲- بخشائش طلب کرنا: جب کوئی شخص کسی برے عمل کا مرتکب ھوتا ہے، تو ممکن ہے اس کا یہ گناہ صرف اسے ہی نقصان پہنچائے اور بارگاہ الہی میں اس کے مقام و منزلت کو گرادے- یہ بھی ممکن ہے کہ اشارہ شدہ مورد کے علاوہ دوسروں کو بھی مادی یا معنوی نقصان پہنچا دے-
پہلے مورد کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ: گناہ کی تلافی صرف خداوند متعال سے معنوی رابطہ بر قرار کرنے اور استغفار سے ہی ممکن ہے اور دوسروں کو اس مرتکب شدہ گناہ سے آگاہ کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ ممکن ہے گناہ کو چھپانا واجب ھو اور دوسروں کو گناہ کے بارے میں آگاہ کرنا بذات خود گناہ شمار ھو -[4]
لیکن دوسرے مورد کے بارے میں، پہلے نقصان پہنچے ھوئے شخص کی نوازش اور دلجوئی کرنی چاہئیے اور اس کو پہنچے نقصانات کی تلافی کی جائے اور اس کے بعد بارگاہ الہی میں استغفار کیا جائے- اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ کون سے ایسے گناہ ہیں، جو دوسروں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں:
۲-۱- ابتدائی مرحلہ میں جو کچھ اس قسم کے نقصانات کے بارے میں ذہن میں آتا ہے، مادی نقصانات ہیں اور اتفاق سے حق الناس کے بارے میں نقل کی گئی روایتوں کی اکثر تعداد اسی قسم کے نقصانات سے متعلق ہے-[5]
۲-۲- ممکن ہے کہ انسان غیبت و تہمت جیسے اعمال انجام دے کر دوسروں کو نقصان پہنچائے- ظاہر ہے کہ قصور وار شخص کو حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے کہ طرف مقابل کی اجتماعی حیثیت کو پہلی حالت میں پلٹا دے اور کم از کم کام جو وہ انجام دے سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ اس سے معافی مانگ کر بخشائش کی درخواست کرے-
اس سلسلہ میں امام صادق {ع} فرماتے ہیں:" جو شخص کسی مسلمان کے مال یا اس کی آبرو کو نقصان پہنچائے، اس پر واجب ہے کہ طرف مقابل سے بخشائش حاصل کرے-"[6]
۲-۳-جو افراد اپنی مشکوک باتوں سے لوگوں کو صراط مستقیم سے گمراہ کرتے ہیں، ان کی حقیقی معنوں میں توبہ تب قبول ھوتی ہے جب وہ اپنی غلطیوں سے مخاطب کو آگاہ کریں اور اس سے دوبارہ صحیح راستہ پر آنے کو کہیں-[7]
۳ -بعض غلطیوں کی کلی طور پر بخشائش: اس سلسلہ میں تیسرا اصول یہ ہے کہ پروردگار مہربان، اپنی لامتناہی رحمت و بخشش کے پیش نظر بہت سے انسانوں کی روز مرہ زندگی میں انجام پانے والے اشتباہات اور خطاوں کو کلی طور پر بخش دیتا ہے، ایسی خطاوں کے طور پر بدگمانیوں اور حسد کا نام لیا جاسکتا ہے کہ یہ برائیاں صرف انسان کے دل تک محدود ھوتی ہے اور طرف مقابل کو عملا کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہے-[8] بہ الفاظ دیگر، اس قسم کا کردار، اگر چہ ناپسند اور قابل مذمت ہے، لیکن خداوند متعال اسے بخش دیتا ہے-
شائد اس بخشش کے سبب کو اس امر میں پایا جاسکتا ہے کہ بدگمانی اور حسد کرنے والے شخص نے طرف مقابل کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے کہ اس سے معافی مانگنے کا ذمہ دار ھو جائے، بلکہ اس نے صرف ایک جہت سے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا ہے اور پیغمبر اسلام {ص} کے ارشاد کے مطابق اس قسم کے شخص کو زندگی کی کم از کم لذت حاصل ھوگی،[9] اور دوسری جانب، خداوند متعال کی فہمائش کی نا فرمانی کرنے کی وجہ سے ، اس نے اپنے پروردگار سے رابطہ کو نقصان پہنچایا ہے، لہذا صرف وہی {خدا} ہے، جو اسے بخشنے کا حق رکھتا ہے-
لیکن توجہ کرنی چاہئے کہ خداوند متعال کی اس بخشش کو اپنے اندر اس قسم کی نا پسند صفتوں کے استمرار کا بہانہ نہیں بنانا چاہئے، کیونکہ اگر باطنی وسوسے زیادہ دیرتک جاری رہیں، تو قدرتی طور پر اس کے ظاہری اثرات بھی نمودار ھوں گے، جن کی تلافی کافی مشکل ھوگی-
۴-دوستانہ روابط کو جاری رکھنے کی ضرورت: بخشائش حاصل کرنے کی ایک دلیل یہ ہے کہ افراد کے درمیان کسی وجہ سے مخدوش ھوئے دوستانہ تعلقات کو دوبارہ قائم کرکے " انما المومنون اخوۃ"[10] کی مثال قائم کریں- اس بنا پر، آپ کے سوال میں اشارہ کئے گئے موضوع کے سلسلہ میں طرف مقابل کو کوئی مالی اور معنوی نقصان نہیں پہنچا ہے،اس لئے دیکھنا چاہئے کہ اس کی طرف رجوع کرکے معافی مانگنے سے آپ دونوں کے درمیان دوستی مستحکم ھوسکتی ہے یا اس کے برعکس نتیجہ نکلے گا اور آپ کے بارے میں اس میں بدگمانی پیدا ھونے کا سبب بن جائے گا{ اس موضوع کو تشخیص کرنا خود آپ کے ذمہ ہے} پہلے فرضیہ کی بنا پر مناسب ہے کہ یہ کام انجام دیا جائے، لیکن دوسرے فرضیہ کے مطابق، جس میں کوئی خاص فائدہ نہیں ہے، بہتر ہے کہ بارگاہ الہی میں اس کے حق میں استغفار کرکے اپنی خطاوں کی تلافی کریں اور اس نکتہ پر توجہ کریں کہ اس طریقہ کار کی، حتی کہ غیبت جیسے بعض گناہاں کبیرہ کہ ان کے ظاہری اثرات بھی ھوتے ہیں، کے بارے میں بھی بعض مواقع پر ممانعت کی گئی ہے-[11]
آخر پر ہم آپ کے سوال سے متعلق ایک تاریخی واقعہ کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرتے ہیں:
شفیق بلخی روایت کرتے ہیں کہ میں ایک سال حج پر گیا تھا- راستہ میں لوگوں کی ایک جماعت میں موجود ایک خوبصورت نوجوان پر میری نظر پڑی جس کا بدن ضعیف تھا اور اونی لباس پہنے ہوئے تنہا ایک کونے میں بیٹھا تھا- میں نے اپنے دل میں سوچا کہ ضرور یہ جوان ایک صوفی ہے اور اس سفر میں دوسروں کے لئے بوجھ بننا چاہتا ہے، مجھے اس کے قریب جاکر اس کی سرزنش کرنی چاہئے؛ جب میں اس کے قریب گیا{ اس سے پہلے کہ میں زبان کھولوں اور کچھ کہوں} اس نے اس آیہ شریفہ کی تلاوت کی جس میں دوسروں کے بارے میں بدگمانی کرنے کی نفی کی گئی تھی، اس کے بعد مجھے اپنے حال پر چھوڑ کر وہ دور چلا گیا- میں نے اپنے دل میں کہا : تعجب کی بات ہے ؛ اس جوان نے مجھے پہچانا اور جو کچھ میرے دل میں تھا اس کی بھی خبر دیدی، بیشک وہ ایک نیک بندہ ہے، مجھے ضرور اس کے پاس جاکر معافی مانگنی چاہئے- اس کےبعد بڑی تیزی کے ساتھ میں اس کی طرف بڑھا، لیکن وہ جوان نہیں ملا، یہاں تک کہ دوسرے پڑاو پر میں نے اسے پھر دیکھا، وہ نماز پڑھنے میں مشغول تھا، اس کا بدن کانپ رہا تھا اور اس کی آنکھیں پر نم تھیں- جب اس نے نماز ختم کی تو میں اس کی طرف بڑھا، جب اس نے مجھے اپنے سامنے دیکھا، تو قرآن مجید کی ایک دوسری آیت کی تلاوت فرمائی، جس کا مضمون یہ تھا؛ :" اور میں بہت زیادہ بخشنے والا ھوں اس شخص کے لئے جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل انجام دے اور پھر راہ ہدایت پر ثابت قدم رہے-"[12] اس کے بعد وہ بزرگ شخص پھر مجھ سے دور ھوگیا- - - آخر کار معلوم ھوا کہ وہ پیشوائے الہی امام موسی کاظم {ع} تھے-[13]
جو کچھ ہمیں ساتویں امام {ع} کے کردار سے معلوم ھوتا ہے، وہ یہ ہے کہ اپنے مومن بھائی کے بارے میں ہرگز بدگمانی نہیں کرنی چاہئے، اور اگر اپنے مومن بھائی کو عملا کوئی نقصان پہنچایا ھو تو، مخلصانہ طور پر توبہ کرنی چاہئے خداوند متعال اس توبہ کو قبول کرے گا اور بخشائش یا معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے { غور کیجئے امام نے نہیں فرمایا ہے کہ میں نے تجھے بخش دیا، بلکہ انھوں نے صرف قرآن مجید کی ایک ایسی آیت کی تلاوت کی جو افراد کے حقیقی توبہ کو قبول کئے جانے کے بارے میں تھی}
[1] حجرات، 12؛ " يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثيراً مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْم".
[2] نور، 12؛ فتح، 12.
[3] کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج 2، ص 362، ح 3، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1365 ه ش.
[4] حر عاملی، وسائل الشیعة، ج 16، ص 63، ح 20990، مؤسسة آل البیت، قم، 1409 .
[5] ایضا، ص 52، باب 78.
[6] دعائم الاسلام، ج 2، ص 485، ح 1731، دار المعارف، مصر، 1385 ھ .
[7] وسائل الشیعة، ج 16، ص 54، باب 79.
[8] کافی، ج 2، ص 463، ح 2.
[9] شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، ج 4، ص 394، انتشارات جامعه مدرسین، قم، 1413 ه ق، "أقل الناس لذة الحسود".
[10] حجرات، 10.
[11] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 72، ص 42، 241، 252، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 ھ .
[12] طه، 82؛ "وَ إِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى".
[13] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 48، ص 80، ح 102.