Please Wait
6049
اگر آپ اپنی شریک حیات کے انتخاب کے سلسلہ میں ابتدائی منزل پر ہوتے تو ہم آپ کو ضرور مشترک زندگی کو جاری رکھنے کی نصیحت کرتے۔ لیکن جب آپ تین سال سے اس عورت کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں اور اسے بخوبی پہچانتے ہیں اور آپ کے ہی بقول اعتقادی لحاظ سے بھی آپس میں متناسب ہیں اور منگیتر بن گیے ہیں، تو آپ کے مذکورہ امور کی وجہ سے اس سے جدا ہونا اور اپنی اس نامزدگی کو توڑنا ، شاید بے مروتی ہوگی۔ جیسا کہ بعض مراجع محترم تقلید کے استفتاء میں آیا ہے کہ، اگرچہ شرعی طور پر آپ کسی گنا ہ کے مرتکب نہیں ہوں گے، لیکن اگر ایمان اور ایک صالح شخص کی حیثیت سے نگاہ کریں تو بہتر ہے کہ آپ اس عورت کے ساتھ ازدواج کا اقدام کریں۔
مراجع تقلید کے دفاتر سے آپ کے اس سوال کے موصولہ جوابات حسب ذیل ہیں:
دفتر حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای {مدظلہ العالی}:
آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
دفتر حضرت آیت اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی {مدظلہ العالی}:
اگر وہ ایک باایمان اور صالح لڑکی ہے تو اس کے ساتھ ازدواج کا اقدام کیجیے اور اسے نہ چھوڑئیے۔
حضرت آیت اللہ مھدی ہادوی تہرانی کا جواب:
۱۔ اگر دائمی نکاح پڑھے گیے ہیں، تو طلاق دینا چاہئیے تاکہ جدائی عمل میں آئے اور اگر متعہ { وقتی نکاح} ہے تو مدت تمام ہونے یا مرد کی طرف سے باقی ماندہ مدت بخشی جانے سے یہ عقد ختم ہوتا ہے اور طلا ق کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کسی قسم کا عقد نہیں پڑھا گیا ہے تو روابط منقطع کرنے سے مسئلہ ختم ہوگا۔
۲۔ اگر مرد طلاق دیدے یا باقی ماندہ مدت کو بخش دے ، تو کوئی گناہ نہیں ہے، اگرچہ "طلاق" مبغوض ترین حلال الہٰی ہے۔
۳۔ اخلاقی حد میں دوسروں کے حقوق کی رعایت کرنا شرعی طور پر واجب نہیں ہے، البتہ انسان کی ذاتی زندگی میں ا سکے مثبت نتائج ہو سکتے ہیں۔ اپنی پوری زندگی میں موفق رہیں۔