Please Wait
6791
قرآن مجید میں بہشت و جہنم کو خداوند متعال نے مادی اوصاف سے بھی یاد کیا ہے اور روحانی اور معنوی اوصاف سے بھی مادی نعمتوں سے توصیف اس لحاط سے کی گئی ہے کہ بہت سے لوگوں کے لیے روحا نی اور معنوی نعمتوں کی توصیف سے پہچان حاصل کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے کیوں کہ انسانوں کے ذھن زیادہ مادیات سے مانوس ہوتے ہیں اور اس وجہ سے بہشت کے بلند معنوی مقامات کو سمجھنے سے قاصر اور عاجز ہیں۔
قرآن مجید نے کبھی مادی اوصاف سے بہشت و جہنم کی توصیف کی ہے اور کبِھی ان کی روحانی اور معنوی اوصاف سے توصیف کی ہے کبھی بہشتی باغوں لذت بخش سایوں ، مختلف قسم کے کھا نوں اور برتنوں ، پاک و طاہر شراب زینت بخش اور فاخر لباس ، خوبصورت بیویوں وغیر کا ذکر کیا ہے اور کبھی رضوان الہی ، باطنی نشاط و غیرہ کا ذکر کیا ہے۔ معنوی اور روحانی بہشت ، رتبہ اورمقام کے لحاظ سے مادی بہشت کی بہ نسبت بلند ہے کیوںکہ خداوند متعال سورہ توبہ میں مادی نعمتوں کو بیان کرنے کے فورا بعد ارشاد فرماتا ہے: و رضوان من اللہ اکبر " یعنی پروردگار کے رضوان اور خوشنودی کا مقام ان مذکورہ نعمتوں سے بالاتر ہے"[1]-
لیکن بہشت کے بعض معنوی مراتب بعض مومنین کے لیے مخصوص ہیں نہ کہ تمام مومنین کے لیے ، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: "کیا ان میں سے ہر ایک کی طمع یہ ہے کہ اسے جنت النعیم میں داخل کردیا جائے ، ہر گز نہیں ، انھیں تو معلوم ہے کہ ہم نے انھیں کس چیز سے پیدا کیا ہے" [2]
بہشتیوں کے مراتب اور ان کی نعمتوں میں تفاوت کے پیش نظر ، بہشت کو قرآن مجید میں چار ناموں سے یاد کیا گیا ہے، جنت عدن ، جنت فردوس ، جنت نعیم اور جنت ماوی- امام باقر)ع( سے نقل کی گئی ایک روایت میں آیا ہے کہ: " جن بہشتوں کا قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے وہ بہشت عدن ، بہشت فردوس، بہشت نعیم اور بہشت ماوی ہیں" [3]
قرآن مجید میں بہشت کی مادی نعمتوں سے بھی توصیف کی گئی ہے اور معنوی نعمتوں سے بھی، لیکن یہ کہ بہشت کی زیادہ تر مادیات سے توصیف کی گئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ انسانوں کے ذھن زیادہ تر مادیات اور دنیوی امور سے مانوس ہیں اس لئے بہت سے لوگوں کے لیے معنوی اورصاف سے بہشت کو پھچاننا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے اور اکثر انسان بہشت کے بلند مقامات اور درجوں کو معنوی توصیف سے پھچاننے میں عاجز ہیں۔
قرآن مجید اس سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے: " پس کسی نفس کو نہیں معلوم ہے کہ اس کے لیے کیا کیا خنکی چشم کا سامان چھپا کر رکھا گیا ہے جو ان کے اعمال کی جزا ہے"[4] اس طرح حدیث نبوی میں آیا ہے: " پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے: میں نے اپنے بندوں کے لیے ایسی چیزیں فراھم کی ہیں جنھیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ ہی انسان کے دل میں ان کا تصور پیدا ہوا ہے، "[5]
اس لحاظ سے چونکہ بہشت کی معنوی نعمتوں کا تصور کرنا بہشت مشکل ہے اس لئے خداوند متعال نے تمام لوگوں کو اچھی طرح سمجھانے کے لے مادی نعمتوں کی توصیف سے استفادہ کیا ہے جوسب کے لئےقابل فھم ہیں اور معنوی اور روحانی نعمتوں کا خلاصہ کے طور پر ذکر کیا ہے۔
[1] توبه، 72.
[2] معارج، 38 و 39، "أَ يَطْمَعُ كُلُّ امْرِئٍ مِنْهُمْ أَنْ يُدْخَلَ جَنَّةَ نَعيمٍ، كَلا".
[3] کليني، محمدبن يعقوب، الکافي، ج 8، ص100، نشر اسلاميه، تهران، 1362.
[4] سجده، 17، "فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ ما أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ".
[5] علامه مجلسي، محمدتقي، بحارالانوار، ج 8، ص92، موسسة الوفاء، بيروت، 1404.