Please Wait
7132
اگر کوئی شخص کتاب "الخميني و الدولة الاسلامية" کا مطالعہ کرے، تو اسے معلوم ھوگا کہ شیخ جواد مغنیہ پر یہ الزام سفید جھوٹ ہے- انھوں نے اس کتاب میں ان دو شخصیتوں کا بالکل موازنہ نہیں کیا ہے، بلکہ وہ اپنی کتاب میں صراحت کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ایک عالم دین اور مرجع تقلید کا ایک معصوم انسان سے موازنہ کرنا، حتی کہ معاشرہ میں عمل کے مقام پر، یعنی دینی سرگرمیوں اور ان کے نتائج و برکات کے دائرے میں بھی ممکن نہیں ہے، معنوی مقام و منزلت کی بات ہی نہیں- مغنیہ، یہاں پر دوقسم کے غضب بیان کرتے ہیں، جو صالح اور عصمت والے انسانوں سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے وقت صادر ھوتے ہیں- اس لحاظ سے جب وہ امام خمینی کی محمد رضا شاہ کے مقابلے میں امر بالمعروف کی صفت بیان کرنا چاہتے ہیں، تو اس سلسلہ میں کہتے ہیں:" یہ صفت اور خصوصیت غضب کی ان قسموں میں سے نہیں ہے جو جلدی زائل ھوتی ہیں، بلکہ ان محکم غضبوں کی قسم ہے جو نابود نہیں ھوتی ہے، مگر یہ کہ زمانے کا طاغوت یعنی ایران کا بادشاہ نابود ھوجائے، جیسے حضرت موسی نے فرعون کے مقابلے میں انجام دیا-
اس سوال کا جواب، کئی محوروں میں قابل بحث و تحقیق ہے:
۱-شیعہ علماء پر جھوٹا الزام اور ان کے کلام میں تحریف
۲-انبیائے الہی، خاص کر حضرت موسی{ع} کے بارے میں شیخ جواد مغنیہ کے نظریہ کی طرف اشارہ-
۳ -معصوم اور غیر معصوم کے بارے میں شیخ مغنیہ کے نظریہ پر ایک نظر-
۴-جس موضوع کے بارے میں بعض افراد نے حضرت موسی{ع} پر امام خمینی کی برتری کا استنباط کیا ہے، اس کے بارے میں شیخ جواد مغنیہ کی مراد-
ہم اسی ترتیب سے مندرجہ بالا موضوعات پر بحث و تحقیق کرتے ہیں:
اولا: ظاہر ہے کہ جب وہابی، شیعوں کے محکم افکار و دلائل کے مقابلے میں علمی میدان میں بے بس ھوتے ہیں، تو تخریب کاری اور تحریف کے طریقوں کا سہارا لیتے ہیں اور شیعوں پر قسم قسم کے جھوٹے الزامات لگاتے ہیں- اس سلسلہ میں کافی ہے کہ ان کی کتابوں میں سے صرف ایک کتاب کا مطالعہ کیا جائے یا ان کی انٹرنیٹ کی ویب سائیٹوں کا مشاہدہ کیا جائے تاکہ یہ حقیقت واضح ھو جائے-
اس قسم کے جھوٹ اور نارواالزامات، ویسے ہی ہیں، جو شیعہ عالم دین شیخ جواد مغنیہ پر لگائے گئے ہیں اور وہ امام خمینی کی حضرت موسی{ع} پر برتری کا الزام ہے، جس پر ہم تفصیل سے روشنی ڈالیں گے-
ثانیا: انبیائے الہی، خاص کر حضرت موسی{ع} کے بارے میں شیخ جواد مغنیہ کا نظریہ: شیخ جواد مغنیہ، انبیائے الہی کی عصمت کے بارے میں رقمطراز ہیں: مسلمانوں کا اس عقیدہ پر اتفاق ہے کہ حضرت آدم{ع} انبیائے الہی میں سے ہیں اور انبیاء {ع} بھی گناہ و معصیت سے معصوم ہیں- عصمت کے معنی یہ ہیں کہ عقل کے حکم سے ایک پیغمبر کو، [جو کچھ دین و احکام الہی سے متعلق ہے، کے بارے میں] خطا و اشتباہ سے محفوظ ھونا چاہئے-[1] پیغمبر کی قداست، پاکی، خدا کی شناخت اور تکلیف الہی کو جاننے کے سلسلہ می ایک مقام پر فائز ھونا چاہئے-[2] عام انبیاء {ع} کے بارے میں شیخ جواد مغنیہ کا نقطہ نظر یہی ہے ، لیکن حضرت موسی{ع} کے بارے میں انھوں نے آپ {ع} کے شجاعانہ اور دلیرانہ کار ناموں پر کافی بحث کی ہے اور ہم یہاں پر اس کے صرف ایک نمونہ کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور وہ آپ {ع} کا فرعون کے ساتھ شجاعانہ مقابلہ ہے- شیخ محمد جواد مغنیہ، قرآن مجید کی اس آیہ شریفہ: "پھر ان سب کے بعد ہم نے موسی کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا، تو ان لوگوں نے بھی ظلم کیا- - -"[3] کی تفسیر میں کہتے ہیں:" " بعد ھم" کی ضمیر یا پانچ پیغمبروں ، یعنی نوح، ہود، صالح، لوط اور شعیب کی طرف یا ان کی قوم کی طرف پلٹتی ہے اور جن آیات اور نشانیوں کے ساتھ حضرت موسی{ع} مبعوث ھوئے، وہ آپ{ع} کے معجزات ہیں، اورفرعون کے پیرواعلی طبقہ کے افراد تھے، جن کے ہاتھ میں معاشرہ کی تقدیر تھی، معاشرہ کے افراد کا کام ان کی اطاعت کرنا اور ان کے سامنے سرتسلیم خم کیے بغیر کچھ نہیں تھا- آیہ شریفہ میں " ظلموا بھا" کے معنی، معجزات الہی کے سامنے ان کا انکار و کفر ہے-."فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ"؛[4] " دیکھ لو کہ مفسدین کا انجام کیسا ھوتا ہے" آیہ شریفہ میں مفسدین سے مراد، فرعون اور اس کے ساتھی ہیں کہ لوگوں سے غلامی کا کام لیتےتھے-
" موسی نے کہا: اے فرعون، میں پروردگار عالم کی طرف سے ایک پیغمبر ھوں"-[5] حضرت موسی {ع] نے اس عنوان {اے فرعون} سے اپنے زمانہ کے طاغوت اور ظالم سے خطاب کیا، یعنی کسی تعظیم و تکریم کے بغیر، کیونکہ وہ خدا کی زبان سے بات کر رہے تھے اور رسالت کی ذمہ داری نبھا رہے تھے، وہ خدا کے احکام کو پہنچاتے تھے، ہر بزرگ شخصیت جس کے مقابلے میں حقیر ھوتی ہے- فرعون بنی اسرائیلوں سے غلامی کا کام لیتا تھا اور ان سے سخت ترین کام لیتا تھا، حضرت موسی {ع} نے اس سے مطالبہ کیا کہ انھیں آزاد کرے یا ان سے ان کی شان کے مطابق کام لے یا انھیں آزاد چھوڑے، جہاں چاہیں جائیں – حضرت موسی {ع} کے اس مطالبہ کے جواب میں فرعون نے ان سے کہا: تم کون ھوتے ھو کہ مجھے ایسا حکم دیتے ہو؟ موسی {ع} نے جواب میں فرمایا: میں خدا کا پیغمبر ھوں- فرعون نے کہا: اپنے دعوی کے حق میں دلیل و شاہد پیش کرو-[6] اس بات سے معلوم ھوتا ہے کہ فرعون خیال کرتا تھا کہ حضرت موسی{ع} اپنی رسالت کے دعوی میں سچے نہیں ہیں، اور اس طرح لوگوں کے سامنے انھیں ذلیل و خوار کرنا چاہتا تھا- لیکن حضرت موسی {ع} نے اس کے مقابلے میں ایک مستحکم دلیل اور قابل یقین معجزہ پیش کیا:" اپنے عصا کو زمین پر مارا اور وہ ایک زندہ اژدہے میں تبدیل ھوا"-[7] یہ معجزہ تھا نہ کہ کوئی سحر و جادو تھا- یہاں پر فرعون حضرت موسی {ع} کے مقابلے میں ذلیل و خوار ھوا، لیکن بظاہر کوشش کی کہ اس نے شکست نہیں کھائی ہے، کیونکہ اس نے "اناربکم الاعلی" کا دعوی کیا تھا- حضرت موسی {ع} نے ایک دوسرا معجزہ پیش کیا اور انھوں نے اپنا ہاتھ باہر نکالا، دیکھنے والوں نے اسے سفید اور نورانی پایا"-[8]
یہاں پر فرعون حقیقی معنوں میں ذلیل و خوار ھو کر گر گیا اور اس کا ظاہری دبد بہ زمین بوس ھوگیا اور جو افرد اس جلسہ میں اس کے ارد گرد بیٹھے تھے، انھوں نے فرعوعن کی اس شکست کا مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ کس طرح حضرت موسی{ع} نے فرعون کو اپنے مقام سے نیچے گرا دیا، فرعون کے پیرووں نے اس کی مدد کرنے کی کوشش کی:" فرعون کی قوم کے روسا نے کہا کہ یہ تو سمجھدار جادو گر ہے- [9] اور یہ ایک ایسا الزام ہے جو پاک دامن انسانوں پر لگایا جاتا ہے - - -[10] اس بنا پر حضرت موسی{ع} نے سب سے بڑے طاغوت اور ظالم یعنی فرعون کو ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا اور ان کا غضب اس کے مقابلے میں الہی غضب تھا اور ان کا کام خدا کے لئے اور خدا کی طرف سے تھا، یہ تھا فرعون کے مقابلے میں حضرت موسی {ع} کا موقف- لیکن حضرت موسی{ع} کا اپنے بھائی سے برتاو اس وقت پیش آیا کہ لوگ گوسالہ پرست ھوچکے تھے- - - لما عبدوا العجل من بعده -
یہاں پر شیخ جواد مغنیہ کے کلام کو بیان کرنے کا مقصد یہ تہمت اور الزام لگانا ہے کہ انھوں نے امام خمینی{رح} اور حضرت موسی{ع} کا موازنہ کرکے امام خمینی کو حضرت موسی{ع} سے برتر پیش کیا ہے، اتفاق سے داستان کے اسی حصہ میں اس سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اس میں تحریف کی گئی ہے- پس ہم شیخ جواد مغنیہ کے کلام کا ایک جائزہ لیتے ہیں تاکہ دیکھ لیں کہ جناب مغنیہ حضرت موسی {ع} کی کیسے تعریف کرتے ہیں:" بیشک حضرت موسی {ع} مستحکم ارادہ، سنجیدہ عزم اور بلند خود اعتمادی کے مالک تھے، اور حضرت ہارون تمام فضائل کے باوجود نچلےمرتبہ پر تھے- اور میری رحمت ہر شے پر وسیع ہے جسے میں عنقریب ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو خوف خدا رکھنے والے زکوۃ ادا کرنے والے اور ہماری نشانیوں پر ایمان لانے والے ہیں جو لوگ کہ رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جس کا ذکر اپنے پاس توریت اور انجیل میں لکھا ھوا پاتے ہیں کہ وہ نیکیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتا ہے اور خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے اور ان پر سے احکام کے سنگین بوجھ اور قید و بند کر اٹھا دیتا ہے پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اس کا احترام کیا اس کی امداد کی اور اس نور کا اتباع کیا جو اس کے ساتھ نازل ھوا ہے وہی لوگ درحقیقت فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں-[11]
یہاں پر موسی {ع} نرم پڑگئے اور اپنے بھائی کی بہ نسبت مہربان ھوئے اور کہا: " پروردگار مجھے اور میرے بھائی کو معاف کردے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کرلے کہ تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے"-[12] اس نے اپنے بھائی کی نسبت مرتکب ھوئے قساوت قلب اور ڈرانے کے سلسلہ میں توبہ کی- - -
بےشک خداوند متعال نے حضرت موسی [ع] کی دعا قبول کی ، کیونکہ وہ ارحم الراحمین ہے اور وہ حضرت موسی اور ہارون کے ایمان و خلوص کے بارے میں علم رکھتا ہے -[13]
شیخ جواد مغنیہ کے کلام کے مذکورہ دونوں اقتباسات کو بیان کرنے کے بعد ہمیں معلوم ھوتا ہے کہ ان کی نظر میں حضرت موسی{ع} میں دوقسم کے غضب تھے، ایک وہ غضب تھا جو دائم اور راسخ تھا اور فرعون کی نابودی اور بنی اسرائیل کی نجات اور وعدہ الہی کے متحقق ھونے کے بغیر خاموش نہیں ھوسکتا تھا، ان کے غضب کی دوسری قسم وہ غضب تھا، جو چند لمحوں کے بعد خاموش ھوتا ہے اور ان کا وہ غضب ان کے بھائی ہارون کی نسبت تھا- ظاہر ہے کہ حضرت موسی {ع} کے وقت کے طاغوت کے خلاف غضب اور اپنے بھائی کی نسبت دکھائے گئے غضب ایک ہی قسم کے نہیں ھونے چاہئیں، اور بیشک غضب کی یہ دونوں قسمیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے باب میں سے ہیں-
ثالثا: معصوم اور غیر معصوم کے درمیان فرق کے بارے میں شیخ جواد مغنیہ کا نظریہ: شیخ جواد مغنیہ اپنی کتاب "الخمینی و الدولة الاسلامیه" میں فقیہ اور معصوم کے درمیان فرق کے قائل ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ فقیہ اور معصوم کو مقام و منزلت کے لحاظ سے ایک ہی درجہ پر قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ، اگر چہ وہ فقیہ رتبہ اور مقام کے لحاظ سے کسی بلند مقام پر بھی فائز ھو- وہ اس سلسلہ میں یوں کہتے ہیں:" معصوم اور فقیہ کے درمیان مقام و منزلت میں فرق، ناچار آثار و نتائج میں بھی فرق ھوگا- اس لحاظ سے کہ معصوم چھوٹے ، بڑوں حتی کہ عادل مجتہد پر بھی ولایت رکھتا ہے، جبکہ فقیہ و مجتہد ایک بالغ انسان پر ولایت نہیں رکھتا ہے، یہ اس لئے ہے کہ معصومین اور فقیہ کے درمیان نسبت، بالکل شخص قاصر اور فقیہ کے درمیان نسبت کے مانند ہے-[14]
رابعا: جس موضوع کے بارے میں بعض افراد نے حضرت موسی{ع} پر امام خمینی کی برتری کا استنباط کیا ہے ، اس سے متعلق شیخ جواد مغنیہ کی مراد:
مذکورہ بیان سے واضح ھوا کہ شیخ جواد مغنیہ حضرت موسی {ع} اور امام خمینی کا موازنہ کرنا نہیں چاہتے ہیں، بلکہ دو قسم کے غضب کو بیان کرنا چاہتے ہیں، جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے وقت اولیائے الہی سے صادر ھوتے ہیں- انھوں نے امام خمینی کے امر بالمعروف کی خصوصیات بیان کرتے ھوئے کہا ہے: یہ صفت امام میں ان اوصاف میں سے نہیں ہے جو جلدی ختم ھو جائے-[15] بلکہ ان اوصاف میں سے ہے جو ختم نہیں ھوتی ہے، مگر یہ کہ وقت کا طاغوت یعنی محمد رضا شاہ نابود ھو جائے { جیسے فرعون کے مقابلے میں حضرت موسی تھے}
حقیقت مطلب واضح ھونے کے بعد ہم آخر میں " کتاب الخمینی و الدولة الاسلامیه" میں شیخ مغنیہ کا اصل کلام نقل کرتے ہیں تاکہ معلوم ھوجائے کہ کس طرح ایک گروہ کے لوگ حقائق کو الٹا دکھانے کے درپے ھوتے ہیں اور حقائق کا انحراف کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں-
امر بالمعروف:
فقہا کہتے ہیں: امر بالمعروف واجب ھونے کے شرائط میں سے ایک شرط نقصان پہنچنے کا خوف نہ ھونا ہے، جبکہ امام خمینی {رح} کہتے ہیں کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لئے نقصان اور ضرر کا خوف رکاوٹ نہیں بن سکتا ہے- امر بالمعروف واجب ہے حتی کہ اگر اس کے لئے زندان جانا، جلاوطن ھونا اور قتل ھونا بھی پڑے، کیونکہ اولیائے الہی اس راہ میں خدا کی خوشنودی کے لئے اپنی جانیں نچھاور کرتے ہیں-
یہ کلام راہ حق میں صرف ناپائیدار اور جلدی ختم ھونے والا غضب نہیں ہے کہ تھوڑے سے مقابلہ کے نتیجہ میں پسپائی اختیار کرے، جیسا کہ حضرت موسی{ع} نے اپنے بھائی ہارون کے ساتھ برتاو کیا، بلکہ اس غضب کی حمایت مستحکم اور قوی علم و منطق پر مبنی ہے- امام خمینی کی مراد یہ ہے کہ انفاس قدسیہ کے مالک اور اولیائے الہی اور حقیقی مومن، حق بات کہنے میں شک و تذبذب سے دوچار نہیں ھوتے ہیں اور اپنے راسخ عقیدہ و ایمان کی وجہ سے شدید ترین مشکلات کا صبر و شکیبائی سے مقابلہ کرتے ہیں- قرآن مجید اس سلسلہ میں ارشاد فر ماتا ہے:" اور میں تم لوگوں کا امتحان لیتا ھوں تاکہ تم میں سے مجاہدین اور صبر کرنے والے معلوم ھوجائیں اور ہم ان کی بات کو آشکار کردیں گے"- امام فرماتے ہیں:" اگر علماء ظالموں کے مقابلے میں ایک ہی صف میں کھڑے ھو جائیں اور اپنے پیغام کو پوری دنیا میں پہنچا دیں اور ظالموں کے ظلم و بے انصافی کے بارے میں بیزاری کا اعلان کریں تو انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا- کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب طاغوت ڈرپوک ہیں، لیکن جب وہ ہماری کمزوری اور سستی کو دیکھتے ہیں تو اپنے ظلم کو جاری رکھتے ہیں، وہ انسانوں کے ڈر اور سستی سے امید باندھے ھوئے ہیں، طاغوتوں کو اگر معلوم ھوجائے کہ ان کے مخالفوں میں ایسے افراد بھی ہیں جو موت سے نہیں ڈرتے ہیں، تو وہ پسپائی اختیار کرتے اور ظلم و ستم سے ہاتھ کھینچ لیتے- جی ہاں، جو معاشرہ ظالموں اور ستمگروں کے مقابلے میں خوف زدہ ھوجائے، وہ زندہ معاشرہ نہیں ہے- اور ظالم اور ظلم کے مقابلے میں خوف و سستی کا مظاہرہ کرنے کا نتیجہ ذلت و خواری کے علاوہ کچھ نہیں ہے-
افسوس ہے اس معاشرہ پر جس کے مرد و زن نے ناپائدارلذت حاصل کرنے کے لئے زندگی قبول کی ہے اور انسان کی آزاد ی و کرامت کو کھو دیا ہے-[16]
شیخ جواد مغنیہ کا یہ کلام جو ہم نے نقل کیا، کیا کوئی انصاف پسند انسان اس کلام میں امام خمینی کے حضرت موسی{ع} سے موازنہ اور حضرت موسی {ع} پر ان کی برتری کا مشاہدہ کرسکتا ہے؟؛
[1] انبیاء {ع} کی عصمت کی حدود کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف نظر ہے کہ یہاں پر اس پر روشنی ڈالنے کی گنجائش نہیں ہے-
[2] مغنیه، محمد جواد، تفسیر الکاشف، ج 1، ص 86.
[3] اعراف، 103.
[4] اعراف، 103.
[5] اعراف، 104.
[6] "اس نے کہا اگر تم معجزہ لائے ھو اور اپنی بات میں سچے ھوتو معجزہ پیش کرو-" اعراف، ۱۰۶-
[7] اعراف، 107؛ الشعراء، 32.
[8] اعراف، 108؛ اشعراء، 33.
[9] اعراف، 109.
[10] تفسير الكاشف، ج3، ص 375- 378.
[11] اعراف، 150.
[11] اعراف، 151.
[12] تفسير الكاشف، ج3، ص 397- 39
[14]مغنیه، محمد جواد، الخميني و الدولة الاسلامية، ص61- 62، دارالعلم للملایین، الطبعة الاولی، بیروت.
[15] یہ حضرت موسی{ع} کی فرعون پر غضب کی تشبیہ ہے-
[16] الخميني و الدولة الاسلامية، ص107-108.