Please Wait
10717
سیاست سے دین کی جدائی کا نظریہ، ایک ایسا تفکر ہے، جس کا مقصد زندگی کے مختلف ابعاد میں دین کے رول کو حذف کرنا ہے- اس نظریہ کی بنیاد اس فکر و اندیشہ پر ہے کہ انسان اپنی عقل ودانش کے بل بوتے پر معاشرہ کی ثقافت ، سیاست، عدلیہ، اقتصاد، لین دین اور آداب و معاشرت وغیرہ کے بارے میں قوانین کی پہچان حاصل کرکے قوانین وضع کرسکتا ہے اور اس کی زندگی میں دین کی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے-
اس طرز و تفکر کا سرچشمہ قرون وسطی اور اس کے بعد تحریف شدہ مسیحیت، کلیسائی استبداد کی حاکمیت اور عقل و علم کے انجیل کی تعلیمات سے تعارض میں پایا جاسکتا ہے-
اسلام میں دین کی سیاست سے جدائی کا نظریہ تین طبقات کی طرف سے پیش کیا گیا ہے:
۱- ظالم حکام ، جو خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرنا چاہتے تھے-
۲- خارجی استعماری طاقتیں-
۳- بیمار ترقی پسند تحریک-
دین کی سیاست سے جدائی کے طرفداروں کے جواب میں مفصل استدلال بیان کئے گئے ہیں کہ ہم ذیل میں ان میں سے دو اہم طریقوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
۱- اسلامی روایات، متون اور منابع کی طرف رجوع کرنا-
۲- پیغمبر اسلام {ص} اور ائمہ معصومین{ع} کی سیرت اور طریقہ کار-
اس سلسلہ میں غور کرنے سے بخوبی معلوم ھوتا ہے کہ اسلام کے بارے میں دین کا سیاست سے جدا ھونا ، کسی صورت میں سچ نہیں ہے، کیونکہ اسلام کے معارف اور تعلیمات کا ایک بڑا حصہ سیاسی اور اجتماعی مسائل سے متعلق ہے-
اس کے علاوہ دین کی سیاست سے جدائی کے حامیوں کے استدلال کی کیفیت سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے ، ہم ان کے ایک اہم استدلال پر تفصیلی جواب میں تنقید پیش کریں گے-
اس سوال کا جواب واضح ھونے کے لئے پہلے ہم، دین کی سیاست سے جدائی کے نظریہ کے سرچشمہ پر بحث کریں گے اور اس کے بعد دین اسلام کے سیاست سے جدا نہ ھونے کے مسئلہ پر بحث کریں گے:
دین کا سیاست سے جدا ھونے کا نظریہ یعنی سیکو لرازم {secularism}: یہ ایک ایسا تفکر ہے جو انسان کی زندگی کے مختلف ابعاد، جیسے سیاست، حکومت، علم اخلاق وغیرہ میں دین کو حذف کرنے یا بے اعتنائی برت کر اسے بالائے طاق رکھنے کی طرفداری کی ترویج کرتا ہے، اس نظریہ کی بنا پر، انسان اپنی عقل اور تجربی علم کے بل بوتے پر، جس طرح فطرت کو پہچاننے میں کامیاب ھوا ہے، اسی طرح معاشرہ کی ثقافت، سیاست، عدلیہ، اقتصاد، لین دین اور آداب و معاشرت وغیرہ کے بارے میں بھی قوانین کی پہچان حاصل کرکے ان قوانین کو وضع کرسکتا ہے اور اس کی زندگی میں دین کی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے-
ملا حظہ ھو آکسفورڈ ڈکشنری میں سیکو لرازم کی یوں تعریف کی گئی ہے:" اس اعتقاد پر کہ تعلیم و تربیت وغیرہ کے قوانین ، علمی حقائق پر مبنی ھونے چاہئیں نہ کہ مذہب کی بنیاد پر"- یہ حقیقت میں دین کی سیاست سے جدائی کا مغربی نظریہ ہے-
قرون وسطی میں اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے ایسے اسباب و عوامل پیدا ھوئے، جن کے نتیجہ میں مغربی تمدن کا غلبہ پیدا ھوا- ایک جانب تحریف شدہ مسیحیت اپنے ناروا اور نا معقول مفاہیم اور اس کے ضمن میں کلیسا کی استبدادی حکمرانی اور دوسری جانب عقل و علم کا انجیل کی تعلیمات سے ٹکراو، دین اور تجدد کے درمیان اختلافات رونما ھونے کا سبب بنا- اس ٹکراو اور تعارض کا نتیجہ علم اور دین کی جدائی نکلا اور اس طرح دین نے معاشرہ کے تمام شعبوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی جو علم کے دائرے میں آتے تھے-
عالم اسلام میں، دین کی سیاست سے جدائی کا نظریہ تین طبقات کی طرف سے پیش کیا گیا ہے:
۱- خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرنے والے ظالم حکام: پہلے وہ حکام ہیں جو صدر اسلام میں خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرنا چاہتے تھے- مثال کے طور پر جب معاویہ نے سنہ چالیس ہجری میں خلافت پر قبضہ کیا، تو اس نے عراق آکر یوں کہا:" میں تمہارے ساتھ نماز اور روزوں کے لئے جنگ نہیں کر رہا ھوں بلکہ میں تم لوگوں پر حکومت کرنا چاہتا ھوں اور میں اپنے اس مقصد کو حاصل کرچکا ھوں-"[1] اس کے بعد اسلامی معاشرہ میں، حکومت، دین سے جدا ھوئی اور سلطنت میں تبدیل ھوئی – یہی وجہ ہے کہ ہر دور کے سلاطین علمائے دین سے لڑنے کے لئے ہمیشہ سیاست کو دین سے جدا کرکے علماء کی حیثیت کو سیاست میں مداخلت کرنے سے بلندتر متعارف کرتے تھے-[2]
۲- خارجی{ اجنبی} استعماری طاقتیں: دوسرا گروہ، خارجی استعماری طاقتیں تھیں- استعماری طاقتوں پر اسلامی ممالک کی طرف سے جو سب سے کاری ضرب لگی تھی وہ دینی تعلیمات کی وجہ سے تھی جن کی راہنمائی دینی علماء کرتے تھے، اس لئے استعماری طاقتوں کی طرف سے اسلامی ممالک کو جس تمدن کا نسخہ دیا گیا وہ دین کو سیاست سے جدا کرنےکا نسخہ تھا-[3]
۳- بیمار ترقی پسند تحریک: تیسرا گروہ، بیمار ترقی پسند تحریک تھی، یہ تحریک مغرب میں تعلیم یافتہ افراد کے ذریعہ شروع ھوئی اور انھوں نے وہی مغربی تمدن میں رائج شدہ دین کی، سیاست سے جدائی کا نسخہ اسلامی ممالک میں رائج کرنا چاہا اور وہ اس امر سے غافل رہے کہ اولا: اسلام، مسیحیت نہیں ہے-
ثانیا: جو چیز قرون وسطی میں مسیحیت کے نام سے تھی، وہ اصلی مسیحیت نہیں تھی-
ثالثا: علمائے اسلام نہ صرف استبدادی اور ظلم پر مبنی حکومت نہیں کرتے تھے اور کبھی علم سے ٹکر نہیں لیتے تھے، بلکہ جب بھی علمائے اسلام کے ہاتھ میں اقتدارتھا، وہ علم و ادب کے فروغ کا دور شمار ھوتا تھا-
بہرحال کلی طور پر دین کی، سیاست سے جدائی کے نظریہ کے خلاف مفصل استدلال پر مبنی جوابات دئے گئے ہیں، کہ ان سب پر بحث کرنا اس مقالہ کی گنجائش کی حد میں نہیں ہے- لہذا ہم کلی طور پر اس سلسلہ میں دواہم طریقوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
۱- اسلامی روایات، متون اور منابع کی طرف رجوع کرنا:
۲- پیغمبر اسلام {ص} اور ائمہ معصومین کی سیرت اور طریقہ کار:
دین اسلام میں اجتماعی اور سیاسی مسائل کے بارے میں وسیع پیمانے پر احکام کی موجودگی کے پیش نظر اس دین کے اصلی مقصد کو آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے-
امام خمینی{رح} اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:" اسلام، سیاست کا دین ہے، سیاست کے تمام پہلو اسلام میں موجود ہیں- یہ نکتہ ہر اس شخص کے لئے واضح ھوگا، جو اسلام کے حکومتی، سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی احکام کے بارے میں تھوڑا سا مطالعہ کرے، پس جو شخص یہ تصور کرتا ہے کہ دین سیاست سے جدا ہے، وہ نہ دین کو پہچان سکا ہے اور نہ سیاست کو-"[4]
اسلامی قوانین اور قرآن مجید کی آیات پر سر سری نظر ڈالنے سے معلوم ھوتا ہے کہ اسلام ایک ایسا دین ہے، جس نے معاشرہ اور انسانی زندگی کے { انفرادی، اجتماعی، دنیوی، اخروی، مادی اور معنوی} تمام پہلووں کو مد نظر رکھا ہے اور جس طرح لوگوں کو خدا کی عبادت اور یکتا پرستی کی دعوت دیتا ہے اور اخلاق و خود سازی کے بارے میں دستور رکھتا ہے، اسی طرح حکومتی ، سیاسی ، اقتصادی، اجتماعی، عدالتی اور بین الاقوامی روابط جیسے مسائل کے بارے میں بھی احکام اور قواعد و ضوابط رکھتا ہے اور عدلیہ کے امور ، اجتماعی اور اقتصادی مسائل اور تعلیم و تربیت کے بارے میں با ضابطہ قوانین رکھتا ہے- ظاہر ہے کہ اس قسم کے قوانین اور احکام کو نافذ کرنا ان کے نفاذ کے لئے قدرت حاصل کئے بغیر ممکن نہیں ہے اور صحیح معنوں میں دینی حکومت، وہ حکومت ہے جو معاشرہ کے نظم و نسق کو قوانین الہی کے مطابق چلائے اور انسان کی رشد و بالیدگی اور کمال تک پہنچنے کی استعدادوں کو فروغ بخشے اور لوگوں کے لئے ایک صالح اور شائستہ معاشرہ تشکیل دے اور اخلاقی و اجتماعی برائیوں اور فساد وغیرہ سے مبارزہ کرے-
قرآن مجید نے مردان الہی کی توصیف میں ارشاد فرمایا ہے :" "الَّذينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقامُوا الصَّلاةَ وَ آتَوُا الزَّكاةَ وَ أَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَوْا"الَّذينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقامُوا الصَّلاةَ وَ آتَوُا الزَّكاةَ وَ أَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَوْا"الَّذينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقامُوا الصَّلاةَ وَ آتَوُا الزَّكاةَ وَ أَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَوْا عن المنکر و للہ عاقبۃ الامور"[5] یعنی:" یہی وہ لوگ ہیں جنھیں ہم نے زمین میں اختیار دیا تو انھوں نے نماز قائم کی اور زکوۃ ادا کی اور نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا اور یہ طے ہے کہ جملہ امور کا انجام خدا کے اختیار میں ہے-"
رسول اکرم {ص] کی سیرت سے بھی معلوم ھوتا ہے کہ دین، سیاست سے جدا نہیں ہے،کیونکہ خود آنحضرت {ص} نے حکومت تشکیل دینے کے ضمن میں نظم و انتظام اور عدلیہ کی مسئولیت خود سنبھالی- امیرالمومنین علی {ع} نے بھی عدل و انصاف اور دستور الہی کو نافذ کرنے کے لئے حکومت تشکیل دی اور امام حسن {ع} کی مختصر مدت تک حکومت، امام حسین {ع} کا قیام اور دوسرے ائمہ اطہار {ع} کی طرف سے وقت کی حکومتوں کو جائز اور قانو نی نہ جاننا سب اس حقیقت کی حکایت ہے کہ حکومت تشکیل دینا اسلام کی ضروریات میں سے ہے- اس سلسلہ میں متعدد آیات پائی جاتی ہیں، من جملہ: ۱-" لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَيِّناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتابَ وَ الْميزانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَ أَنْزَلْنَا الْحَديدَ فيهِ بَأْسٌ شَديدٌ وَ مَنافِعُ لِلنَّاسِ...[6] " یعنی:" بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں اور ہم نے لوہے کو بھی نازل کیا ہے جس میں شدید جنگ کا سامان اور بہت سے دوسرے منافع بھی ہیں-" 2- " يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامينَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالْقِسْطِ وَ لا ...[7]"یعنی: ایمان والو خدا کے لئے قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والو بنو- - -.3- " وَ لَقَدْ بَعَثْنا في كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولاً أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ...[8]" یعنی:" اور یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو- - -"4- « وَ ما لَكُمْ لا تُقاتِلُونَ في سَبيلِ اللَّهِ وَ الْمُسْتَضْعَفينَ مِنَ الرِّجالِ وَ النِّساءِ وَ الْوِلْدانِ الَّذينَ يَقُولُونَ رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْ هذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُها وَ اجْعَلْ لَنا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَ اجْعَلْ لَنا مِنْ لَدُنْكَ نَصيراً " اور آخر تمھیں کیا ھوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کے لئے جہاد نہیں کرتے ھو جنھیں کمزور بنا کر رکھا گیا ہے اور جو برابر دعا کرتے ہیں کہ خدا یا ہمیں اس قریہ سے نجات دیدے جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لئے کوئی سر پرست اور اپنی طرف سے مدد گار قرار دیدے-[9] 5- " يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا أَطيعُوا اللَّهَ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ... "[10] یعنی:" ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمھیں میں سے ہیں " اور اس کے علاوہ بہت ساری آیات ہیں جن میں کتاب ، میزان، لوہے اور ان کے منافع، عدل و انصاف کی گواہی ، طاغوت سے اجتناب، خدا کی راہ میں اور مستضعفین کے لئے جنگ کرنے، محرومین کی نجات ، راہ خدا میں ہجرت کرنے وغیرہ کے بارے میں بات کہی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اجتماعی مقو لات ہیں ، کہ جن کے بارے میں کتاب خدا میں حکم دیا گیا ہے- البتہ ان آیات کے بارے میں پیغمبر اکرم {ص} اور رہبران الہی کے توسط سے پیش کی گئی شرح تفسیر اور حکومت تشکیل دینے کی ضرورت کی کیفیت کے بارے میں مفصل بحث کرنے کی ضرورت ہے کہ یہاں پر اس کی گنجائش نہیں ہے- اس لئے ہم یہاں پر صرف تشکیل حکومت اور دین وسیاست کے درمیان رابطہ کے بارے میں اسلام کے سیاسی نظریہ کے اہم ترین بنیادی اصولوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
۱- خدا اور رسول خدا {ص} اور اولیائے خاص کے لئے ، مادی ، معنوی، دنیوی اور اخروی، غرض ہر جہت سے حاکمیت، رہبری اور سرپرستی کا اثبات –
{ مائدہ/ ۵، یوسف/۴۰، مائدہ/ ۴۲ و ۴۳}
۲- پیغمبر{ص} ائمہ معصومین {ع} اور ان کی طرف سے منصوب افراد کے لئے امامت اور سیاسی و اجتماعی رہبری کا اثبات-{ نساء/ ۵۸ و ۵۹، مائدہ/ ۶۷}
۳- حضرت داود{ع} اور حضرت سلیمان{ع} جیسے بعض انبیاء کے لئے زمین پر حکومت و خلافت کرنے کا اثبات { نمل/ ۲۶ و ۲۷، نساء/ ۵۴}
۴- قرآن مجید، انبیائے الہی{ع} کو لوگوں کے درمیان اختلافات اور لڑائی جھگڑوں کے بارے میں فیصلہ اور حل و فصل کرنے کے ذمہ دار کی حیثیت سے اعلان کرتا ہے-{ نساء/ ۵۸ و ۶۵، مائدہ/ ۴۲، انبیاء/ ۶۸ و انعام/۸۹}
۵- شوری اور اجتماعی صورت میں کام کرنے کی دعوت { شوری/۳۸، آل عمران/ ۱۵۹}
۶- فساد، تباہی، ظلم و زیادتی سے مبارزہ کرنا اور عدل و انصاف بر قرار کرنا اہل ایمان کے بنیادی فرائض ہیں-{ بقرہ/ ۲۷۹، ہود/ ۱۱۳، نساء/ ۵۸، نحل/ ۹۰، ص/ ۲۸، حج/ ۴۱}
۷- انسانوں کے حقوق کا احترام کرنا اور انسانوں کو کرامت بخشنا، ادیان الہی کا بنیادی موقف ہے-{ اسراء/ ۷۰، آل عمران/ ۹، نساء/ ۷۵، انفال/ ۶۰، اعراف/ ۵۶}
۸- طاغوتوں، مستکبرین اور ظالموں سے مبارزہ اور جہاد کرنے اور دفاعی تیاری کا حکم { بقرہ/ ۲۰۸، تحریم/۹، نساء/ ۷۵، انفال /۶۰، اعراف/ ۵۶}
۹- عزت و سر پرستی کو خدا اور اہل ایمان سے مخصوص جاننا اور ہر قسم کی ذلت اور تسلط کی نفی کرنا-{ منافقوں/۸، محمد، ھود/ ۱۱۳، آل عمران/ ۱۴۶ و ۱۴۹}
۱۰- حاکم اور عوام کے متقابل حقوق کا بیان اور تعین-{ نہج البلاغہ، خطبہ ۲۱۶}
۱۱- طالوت اور ذوالقرنین جیسے صالح و عادل حکام کے لئے سلطنت و حکومت کا اثبات-{ بقرہ/ ۲۴۶ و ۲۴۷، کہف/ ۹۸-۸۳}
۱۲- اہم اور بڑے مالی امور کا معاشرہ کی مصلحت میں خرچ کرنے کے لئے ولی امر مسلمین اور حکومت اسلامی سے مخصوص ھونا { اصول کافی، باب صلۃ الامام و باب الفیء و الانفال و تفسیر خمس}
مذکورہ بیانات سے واضح ھوتا ہے کہ اسلام کے بارے میں دین کا سیاست سے جدا ھونا کسی صورت میں صحیح نہیں ہے اور اسلام کے معارف اور تعلیمات کا ایک بڑا حصہ سیاسی اور اجتماعی مسائل پر مشتمل ہے- حضرت امام خمینی {رح} کے بقول، تقریبا ۵۷ یا ۵۸ فقہی کتابوں میں سے صرف ۷ یا ۸ کتابیں عبادی مسائل سے متعلق ہیں اور باقی تمام کتابیں سیاسی، اجتماعی، عدلیہ اور بنیادی منصوبوں کے بارے میں ہیں-
آخر میں ہم، دین کے سیاست سے جدا ھونے کے نظریہ کے طرفداروں کی ایک اہم دلیل پر مختصر صورت میں تنقید کرتے ہیں:
علی عبدالرزاق، دین کے سیاست سے جدائی کے نظریہ کے قائل ہیں اور وہ قرآن مجید کی بعض آیات سے تمسک کرتے ہیں، جیسے قرآن مجید کی یہ آیات:" قل لست علیکم بوکیل"[11]" ان علیک الا البلاغ"[12] ان کا دعوی ہے کہ قرآن مجید نے پیغمبر {ص} سے دین کے علاوہ مسئولیت کو اٹھا لیا ہے-[13] انجینئر مھدی بازرگان بھی قرآن مجید کی ایات سے یہی تصور کرتے ہیں-[14]
اس کے جواب میں کہنا ہے کہ قرآن مجید کے بارے میں یہ تفسیر اس کتاب مقدس کے بارے میں سطحی سوچ کا نتیجہ ہے- یہ آیات پیغمبر {ص} کی رسالت و انداز کے فریضہ کو حقیقی صورت میں حصر نہیں کرتی ہیں کہ پیغمبر اکرم {ص} کے دوسرے مقامات اور منصبوں سے منافات ھو- ہماری یہ بات دوسری آیات کے قرینہ سے آنحضرت {ص} کے قضاوت و حکومت کے مقام کو ثابت کرتی ہے اسے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے- جو آیات بلا واسطہ اس امر کو بیان کرتی ہیں بہت زیادہ ہیں، ہم خلاصہ کے پیش نظر ان آیات میں سے صرف ایک آیت کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں: " النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَ ..."[15] یہ آیہ شریفہ وجود مبارک پیغمبر اکرم {ص} کو مومنین کے امور میں تصرف کرنے میں مستحق تر جانتی ہے- یہ اولویت قطعی طور پر آنحضرت { ص} کے مقام نبوت کے علاوہ ہے-
امام باقر {ع} سے ایک روایت ہے کہ حضرت {ع} نے مذکورہ آیہ شریفہ کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ: " یہ آیت ریاست اور حکومت کے بارے میں نازل ھوئی ہے-"[16]
قرآن مجید کی بعض آیات کے مطابق پیغمبر اسلام پر فرض عائد ھوچکا ہے کہ معاشرہ میں عدل و قسط نافذ کریں: " لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَيِّناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتابَ وَ الْميزانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَ أَنْزَلْنَا الْحَديدَ فيهِ بَأْسٌ شَديدٌ وَ مَنافِعُ لِلنَّاسِ...[17] " بیشک ہم نے اپنے رسول کو واضح دلائل دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب [اور انصاف کی] ترازد نازل کی تا کہ لوگ انصاف پر قائم رہیں اور ہم نے لوہے کو بھی نازل کیا ہے جس مِں شدید جنگ کا سامان اور بہت سے دوسرے منافع بھی ہیں"- کیا معاشرہ کی اصلاح کے بغیر اور حکومت کی تشکیلات کو ہاتھ میں لئے بغیر عدل وانصاف کو متحقق کیا جا سکتا ہے؟
اس کے علاوہ خداوند متعال قرآن مجید کی آیات میں سے ایک آیت میں ، پیغمبر {ص} کو بھیجنے کے مقصد کو یوں بیان فرماتا ہے: " كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرينَ وَ مُنْذِرينَ وَ أَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فيمَا اخْتَلَفُوا فيهِ وَ....[18] " اس آیہ شریفہ میں لوگوں کے درمیان اختلافات کو دور کرنا، پیغمبر اکرم {ص} کی بعثت کے مقصد کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے- اگر انسانوں کے درمیان اختلافات، ایک فطری اور قطعی امر ہے اور اختلافات کو دور کرنا انسانی معاشرہ میں نظم و انتظام بر قرار کرنے اور ہرج و مرج سے اجتناب کرنے کے لئے ایک ضروری امر ہے، تو صرف موعظہ اور نصیحت اور مسئلہ بیان کرنا معاشرہ کی مشکل کو حل نہیں کرسکتے ہیں- اس لحاظ سے کوئی ایسا صاحب شریعت پیغمبر نہیں آیا ہے، مگر یہ کہ اس نے لوگوں کو بشارت اور ڈرانے کے علاوہ حاکمیت کا مسئلہ بھی پیش کیا ہے- خداوند متعال اس آیہ شریفہ میں یہ نہیں فرماتا ہے کہ پیغمبر {ص} تعلیم و تربیت ، بشارت اور ڈرانے کے ذریعہ ، معاشرہ کے اختلافات کو دور کریں گے، بلکہ فرماتا ہے کہ " حکم' کے ذریعہ اختلافات کو دور کریں گے، کیونکہ اختلافات کو حل کرنا، حکم اور حکومت کے بغیر، کہ جس میں نفاذ کی ضمانت ہے، ممکن نہیں ہے- اس بنا پر جوبھی مکتب بشریت کے لئے پیغام لانے والا ھو، یقینا، انفرادی اور اجتماعی احکام کو اپنے ساتھ لاتا ہے اور یہ احکام اسی صورت میں مفید اور کارآمد ھوسکتے ہیں کہ انھیں نافذ کیا جاسکے، اور قانون اور احکام الہی کے نفاذ کے لئے، حکومت کا ھونا ضروری ہے، جو اس نفاذ کی ضامن ھو- اگر ایسا نہ ھو تو یا بنیادی طور پر دینی احکام نافذ نہیں ھوتے اور یا اگر ان کا نفاذ عام لوگوں کے ہاتھ میں ھو تو معاشرہ میں ہرج و مرج پیدا ھوتا ہے صرف قانون کا ھونا، معاشرہ میں موثر نہیں ھوسکتا ہے مگر یہ کہ ایک طاقتور اور غیب سے رابطہ رکھنے والا شخص، تعلیم ، تحفظ اور نفاذ کا مسئول ھو-
سوال: اگر سیاسی قیادت اور حکومت کی تشکیل نبوت کے فرائض کا ایک حصہ ہے تو کیوں بعض انبیائے الہی کے ہاتھ میں حکومت نہیں تھی؟
جواب: اس سلسلہ میں کئی احتمال پائے جاتے ہیں: اولا: ممکن ہے کسی پیغمبر کے لئے حکومت تشکیل دینا کچھ خاص شرائط میں ممکن نہ ھو، جیسے: رسول اکرم {ص} اپنی رسالت کے ابتدائی چند برسوں کے دوران حکومت تشکیل دینے سے محروم تھے-
ثانیا: ممکن ہے کسی عظیم پیغمبر کے زمانہ میں، کہ وہ معاشرہ کی قیادت سنبھالے ھوئے تھے، ان کی رسالت کے تحت بعض دوسرے انبیائے الہی بھی ھوں اور وہ صرف دین کے احکام کی تبلیغ کی ذمہ داری رکھتے ھوں اور انھیں حکومت تشکیل دینے کا براہ راست اختیار نہ ھو، جیسے حضرت لوط [ع} کہ ان کی نبوت ، حضرت ابراھیم {ع} کی نبوت کے مجموعہ کے تحت تھی-قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے:" فامن لہ لوط و - - -"[19]اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، کیونکہ اس قسم کے افراد کی نبوت، اسی بڑے پیغمبر کی نبوت کی ایک کرن ہے جو اپنی رسالت کےعلاقہ کا حاکم ھوتا ہے اور قرآن مجید واضح الفاظ میں حضرت ابراھیم {ع} کے خدا کی طرف سے معاشرہ کی امامت و رہبری کے لئے منصوب ھونے کو بیان کرتا ہے:" قال انی جاعلک للناس اما ما- - -"[20]
اس بنا پر کوئی نبوت حکومت کے بغیر نہیں تھی، خواہ براہ راست اور مستقل طور یا وابستہ صورت میں، جیسا کہ مذکورہ مثال میں اشارہ کیا گیا کہ حضرت لوط {ع} حضرت ابراھیم {ع} کی حکومت کے تحت اپنی اور دوسروں کی سیاسی و اجتماعی زندگی اپنے مخصوص ماحول میں منظم کر رہے تھے- اسی لحاظ سے، سیاسی اور اجتماعی میدان میں پیغمبروں کا حضور موجبہ جزئیہ کی صورت میں قرآن مجید میں آیا ہے:" وکاین من نبی قاتل معہ ربیون کثیر"[21] یعنی:" اور بہت سے ایسے نبی گزر چکے ہیں جن کے ساتھ بہت سے اللہ والوں نے اس شان سے جہاد کیا ہے - - -" اب اگر حضرت نوح و عیسی[ع} اور بعض دوسرے انبیائے الہی کے بارے میں واضح طور پر حکومت و سیاست کے بارے میں کوئی مطلب قرآن مجید میں نہ آیا ھو، تو یہ ان کے زمانہ میں حکومت نہ ھونے کی عدم صراحت نہیں ہے،بلکہ:' - -- وَ رُسُلاً لَمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ وَ ..." [22] کے مانند ہے، یعنی جو بعض انبیائے الہی تاریخ بشریت میں موجود تھے اور ان کا نام قرآن مجید میں نہیں آیا ہے، پیغمبروں کی تمام خصوصیات بیان کی گئی ہیں اور قرآن مجید میں بھی یہ خصوصیات ذکر کی گئی ہیں، اس بنا پر ہر حکومت کی تشکیل انبیائے الہی کے توسط سے ھونا ایک ضروری امر تھا اور انھوں نے بھی حالات اور اپنی توانائیوں کے مطابق اقدام کیا ہے، اور اس سلسلہ میں قرآن مجید کی متعدد آیات کی دلیلوں کے علاوہ، حکومت تشکیل دینے میں پیغمبر اسلام {ص} کی سیرت ایک بہترین گواہ ہے، لہذا قرآن مجید کی آیات سے اس کے برعکس تفسیر کرنا کسی صورت میں صحیح نہیں ہے-[23]
اس موضوع کے بارے میں مزید آگاہی حاصل کرنے کے لئے ہماری اسی سائٹ کے سوال: ۷۸۸۳، عنوان:" نقد ادلہ سکو لارلیسم " اور اس کے علاوہ مندرجہ ذیل کتابوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے:
. امام خمینی و حکومت اسلامی، شماره 1، مبانی کلامی، کنگره امام خمینی و اندیشه حکومت اسلامی
2. کاظم قاضی زاده، اندیشههای فقهی - سیاسی امام خمینی3
3. امام خمینی، ولایت فقیه
4. آیتالله جوادی آملی، ولایت فقیه
5. آیتالله مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج 2
6. محمد جواد نوروزی، نظام سیاسی اسلام
7.نبی الله ابراهیمزاده آملی، حاکمیت دینی
8۔ علی ذوعلم، مبانی قرآنی ولایت فقیه
9- عبدالله نصری، انتظار بشر از دین، ص 307
10. حسن قدردان قراملکی، سکولاریسم در اسلام و مسیحیت. امام خمینی و حکومت اسلامی، شماره 1، مبانی کلامی، کنگره امام خمینی و اندیشه حکومت اسلامی
2. کاظم قاضی زاده، اندیشههای فقهی - سیاسی امام خمینی3
3. امام خمینی، ولایت فقیه
4. آیتالله جوادی آملی، ولایت فقیه
5. آیتالله مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج 2
6. محمد جواد نوروزی، نظام سیاسی اسلام
7.نبی الله ابراهیمزاده آملی، حاکمیت دینی
8- علی ذوعلم، مبانی قرآنی ولایت فقیه
9- عبدالله نصری، انتظار بشر از دین، ص 307
10. حسن قدردان قراملکی، سکولاریسم در اسلام و مسیحیت
"[1] ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج 4، ص 160
[2] صحیفه نور / ج 83، ص 217: آیت الله کاشان کے بارے میں رضاشاہ کا بیان
[3]سروش، محمد ، دین و دولت در اندیشه اسلامی، ص 120 ـ 126
[4] صحیفه نور، ج 1، ص 6
[5] حج، 41
[6]. حدید، 25
[7]. مائده، 8
[8]. نحل، 36
[9] نساء، 75
[10]. نساء، 59
[11] انعام، 66.
[12] شوری، 48
[13] علی عبدالرزاق، الاسلام و اصول الحکم، ص 171.
[14] . مجله کیان، شماره 28، ص 51
[15] . احزاب، 6
[16] مجمعالبحرین،ج1، ص 457،ماده "ولی"
[17]. حدید، 25
[18] بقره، آیه 213
[19] عنکبوت، ۲۶۷
[20] بورہ، ۱۲۴
[21] آلعمران، ۱۴۶
[22] نساء، آیه 164
[23] مقالہ "دین وسیاست" سے مخوذ