Please Wait
11682
مذکورہ روایت، اولا: سند اور متن کے لحاظ سے ضعیف ہے اور مرسلات میں سے ہے، جو حجت نہیں ہے، کیونکہ عیاشی سے ابو بصیر تک سند اور واسطہ معلوم نہیں ہے اور اگر کہا جائے کہ بعض مرسلات قابل قبول ہیں، عیاشی ان افراد میں سے نہیں ہے کہ سند کے بغیر اس کی مرسل حدیثیں حجت ھوں- ثانیا: روایت میں عمر بن خطاب کے کفر کی صراحت نہیں کی گئی ہے-
لیکن اس روایت کا معتبر نہ ھونا، اس دلیل پر مبنی نہیں ہے کہ شیعہ خلیفہ دوم کے تمام کاموں کو قبول کرتے ہیں، بلکہ وہ بہت سے مواقع پر شیعوں کی کتابوں کی قطعی دلائل سے اور حتی کہ اہل سنت کی کتابوں کے مطابق بھی خطا اور اشتباہات سے دوچار ھوئے ہیں، اور پیغمبر اکرم {ص} کی طرف سے مختلف مواقع پر حضرت علی اور فاطمہ زہراء {ع} کے حق میں کیے گئے ارشادات کے سلسلہ میں ان کا عمل منفی تھا-
ضمنا قابل ذکر ہے کہ کسی کا مذہبی یا حدیث کی کتاب میں صرف ایک حدیث دیکھنا اس امر کی دلیل نہیں بن سکتی ہے کہ وہی اس حدیث کا محتوی اس مذہب کا اعتقاد ھو-
یہ روایت، جس طرح سوال میں ذکر ھوئی ہے { نام کی صراحت کے بغیر} نقل کی گئی ہے-[1]
لیکن جو روایت تفسیر عیاشی میں اس سلسلہ میں ذکر کی گئی ہے اس پر سند، متن اور دلالت کے لحاظ سے بحث کرنے کی ضرورت ہے- تاکہ معلوم ھوجائے کہ کیا اس قسم کی چیز شیعوں کے اعتقاد کا حصہ ہے یا نہیں؟
روایت کی سند:
عیاشی نے کسی واسطہ کے بغیر اس روایت کو ابوبصیر سے نقل کیا ہے اورابو بصیر اور عیاشی کے درمیان روایتیں معلوم نہیں ہیں، اس لحاظ سے یہ روایت مرسلہ ہے اور مرسلہ روایت ہر کسی کے حق میں حجت نہیں ہے، بلکہ امامیہ ، مشہور بزرگوں کی ایک جماعت کی مرسلہ روایتوں کو قابل حجیت جانتے ہیں، جو عام طور پر ثقہ افراد کے علاوہ کسی سے حدیث نقل نہیں کرتے تھے-[2] اور عیاشی ان افراد میں سے ، یعنی مرحوم کلینی اور مرحوم شیخ طوسی جیسے نہیں ہیں- مثال کے طور پر مرحوم کلینی نے احادیث جمع کرنے میں کافی دقت سے کام لیا ہےاور کتاب الکافی کو تالیف کرنے کے لئے، بیس سال تک محنت کی ہے اور اسے قابل اعتماد اصول سے جمع کیا ہے اور موثق روایت کو پہچنوانے کے لئے علم رجال کی کتاب سے استفادہ کیا ہے،[3] لیکن عیاشی کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے- اس کے علاوہ شیعوں کے علم رجال اور حدیث کی کتابوں میں ایسی شخصیتوں کا نام لیا گیا ہے، جنھیں ابو بصیر کہا جاتا تھا،[4] " ابو بصیر" سے مراد معلوم نہیں ہے کہ وہ کون تھے، کیونکہ ابو بصیر کئی افراد کی مشترک کنیت ہے کہ ان میں سے بعض کی توثیق نہیں کی گئی ہے-
متن روایت:
متن اور عبارت کے لحاظ سے ، یہ روایت مبہم ہے اور سوال میں ذکر شدہ مطلب کے مطابق اس کا استناد نہیں کیا جاسکتا ہے، اسی لئے مرحوم علامہ مجلسی نے اس روایت کی توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے-[5]
اس کے علاوہ یہ روایت شیعوں کے مسلم اعتقادات کے موافق نہیں ہے، اور ایسی حدیث پر اعتبار کرنا چاہئے، جس میں شرائط موجود ھوں، ان میں سے بعض شرائط حسب ذیل ہیں:
۱- حدیث کا محتوی اور معنی، عقل یا حس و مشاہدہ کے خلاف نہ ھو-
۲- حدیث کا مضمون تاریخ کے مسلم منقولات کے خلاف نہ ھو،
۳- حدیث ایسے امور پر مشتمل نہ ھو جو عقلا کی سیرت اور قول و فعل کے خلاف ھو-
۴- حدیث قرآن مجید اور متواتر احادیث کے خلاف نہ ھو-
۵- حدیث قطعی سنت کے موافق ھو-[6]
اس کے علاوہ دوسری شرائط علم حدیث کی کتابوں میں درج ہیں-
مذکورہ روایت کامتن مندرجہ بالا شرائط کے تحت نہیں ہے-
اس روایت کے بارے میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اس روایت میں عمر بن خطاب کے کفر کے بارے میں کوئی صراحت نہیں کی گئی ہے-
لیکن اس روایت کا معتبر نہ ھونا، اس دلیل پر مبنی نہیں ہے کہ شیعہ خلیفہ دوم کے تمام کاموں کو قبول کرتے ہیں، بلکہ وہ بہت سے مواقع پر شیعوں کی کتابوں کی قطعی دلائل سے اور حتی کہ اہل سنت کی کتابوں کے مطابق بھی خطا اور اشتباہات سے دوچار ھوئے ہیں[7]، اور پیغمبر اکرم {ص} کی طرف سے مختلف مواقع پر حضرت علی اور فاطمہ زہراء {ع} کے حق میں کیے گئے ارشادات کے سلسلہ میں ان کا عمل منفی تھا-
ضمنا قابل ذکر ہے کہ کسی کا مذہبی یا حدیث کی کتاب میں صرف ایک حدیث دیکھنا اس امر کی دلیل نہیں بن سکتی ہے کہ وہی اس حدیث کا محتوی اس کےمذہب کا اعتقاد ھو-
اور اس موضوع سے متعلق عنوان: " کفر و نفاق صحابہ از نگاہ شیعہ" سوال : ۲۷۹۱ { سایٹ: ۳۵۰۰}-
[1] بحار الانوار، ج30، ص 232 و 233:« إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ يُؤْتَى بِإِبْلِيسَ فِي سَبْعِينَ غُلًّا وَ سَبْعِينَ كَبْلًا، فَيَنْظُرُ الْأَوَّلُ إِلَى زُفَرَ فِي عِشْرِينَ وَ مِائَةِ كَبْلٍ وَ عِشْرِينَ وَ مِائَةِ غُلٍّ، فَيَنْظُرُ إِبْلِيسُ فَيَقُولُ: مَنْ هَذَا الَّذِي أَضْعَفَهُ اللَّهُ الْعَذَابَ وَ أَنَا أَغْوَيْتُ هَذَا الْخَلْقَ جَمِيعاً. فَيُقَالُ: هَذَا زُفَرُ.فَيَقُولُ: بِمَا جُدِرَ لَهُ هَذَا الْعَذَابُ؟!. فَيُقَالُ: بِبَغْيِهِ عَلَى عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ... ».
[2] ملاحظہ ھو: سبحانی، جعفر، کلیات فی علم الرجال، از ص 203 تا233، مؤسسه نشر اسلامی، طبع پنجم، 1423 ه.؛ مدیر شانه چی، کاظم، علم الحدیث، ص 187 تا 191، دفتر انتشارات اسلامی، طبع شانزدهم، 1381 شمسی.
[3] علم الحدیث، ص 95.
[4] ابوبصیرعبدالله بن محمد اسدی کوفی (كشى، ابو عمرو محمد بن عمر بن عبد العزيز،رجال الکشی، ص 174، محقق / مصحح: مصطفوی، حسن، مؤسسه نشر در دانشگاه مشهد)؛ ابوبصیر لیث بن بختری مرادی (شیخ طوسی، الفهرست، ص 130، المكتبة الرضوية، نجف عراق)؛ ابوبصیر یحیی بن ابی القاسم اسدی کوفی(جمعى از بزرگا ن، تأریخ الفقهاء و الرواة، حاشیة خلاصة الاقوال، ص 1084؛ سبحانی، جعفر،موسوعة طبقات الفقهاء، ج2، ص 632.)؛ ابو بصیر یوسف بن حارث (خويى، سيد ابو القاسم موسوی، معجم رجال الحدیث، ج21، ص177و178).
[5] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج30، ص 234، مؤسسه الوفاء، بیروت، 1404 هـ .
[6] علم الحدیث، ص 146 - 149.
[7] اگر ملاحظہ کرکے نہ کہیں کہ بعض مواقع پر قطعا گناہ تھا-