Please Wait
7066
الھی قوانین میں مختلف فلسفے اور حکمتیں موجود ھیں۔ وه کبھی بھی بے بنیاد اور بغیر حکمت کے نھیں بنائی گئ ھیں۔ اگر چھ ھم ان سب حکمتوں کا انکشاف نھیں کرسکتے۔ کیونکھ ھمیں اس بات کا علم ھے کھ خداوندِ عادل و حکیم نے انسان کے لئے کسی قانون کو بغیر حکمت کے قرار نھیں دیا ھے ۔ اس لئے ھم ھر اس حکمت کے پابند ھیں جو قرآن مجید اور معتبر روایات ، نیز عقلی اور یقینی علوم سے ثابت ھے۔
اس کے علاوه ھم یھ بھی کهه سکتے ھیں کھ احکام کی تشریع کی ایک حکمت ، اقتصادی اعتدال قائم کرنے اور معاشرے میں طبقاتی فاصلوں کو ختم کرنے، لوگوں مخصوصا غربت اور افلاس میں رھنے والے لوگوں کا روحانی اور ذھنی سکون پیدا کرنے کے لئے ھے ۔
اس کے علاوه علمی تحقیقات میں مرد کے سونا استعمال کرنے سونے کے استعمال سے بعض نقصانات کا انکشاف بھی ھوا ھے۔
الھی قوانین مختلف حکمتوں اور فلسفوں کے تابع ھیں۔ اور وه کسی بھی طرح سے بے بنیاد اور بغیر حکمت کے نھیں بنائے گئے ھیں۔ اسلامی دستور حقیقی اسباب و علل کے تابع ھیں اور ان کی جڑیں جسمانی روحانی ، اقتصادی ، سماجی حقایق میں پیوست ھیں ، بنیادی طور پر انسان کے اعمال کی اھمیت اُس کے علم اور ایمان کی میزان سے وابستھ ھے ، اور ا سکا لازمھ دینی احکام اور قوانین کے فلسفے کے بارے میں تحقیق کرنا ھے تا کھ ھم جان سکیں کھ یھ قوانین کس لئے بنائے گئے ھیں اور کس سمت ھماری ھدایت کرتے ھیں ، البتھ احکام کے فلسفے اور اسرار میں مروجھ علوم کو کافی نھیں جاننا چاھئے اور سائنسی دنیا کی آخری ایجادات کے مطابق الھی احکام اور قوانین کے بارے میں فیصلھ نھیں کرنا چاھئے۔ کیونکھ:
اولا ً : الھی قوانین انسان کی روحانی اور جسمانی پھلوؤں کی ھدایت کیلئے بنائے گئے ھیں۔
ثانیا: اس بات کا اعتراف کرنا چاھئے کھ ھمارے گرد و پیش کی دنیا کی پھچان کے بارے میں، (من جملھ انسان کی روحانی اور جسمانی حقایق کے) ھماری اطلاعات اور علمی ادراک بھت ھی ناچیز ھیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ھے: اے لوگو! آپ ایک مریض کے مانند اور پروردگار ایک طبیب کے مانند ھے جو آپ کا علاج کرتا ھے۔ [1]
یھ بات ظاھر ھے کھ جب بیمار کو اپنے ڈاکٹر کی مھارت اور علم پر یقین ھوگا تو جو بھی نسخھ ڈاکٹر اس کے لئے لکھ دے گا وه اسےبغیر چون و چرا کے استعمال کرنا ھوگا اگرچھ بیمار نھ بھی جانتا ھو کھ رنگ برنگ دوا کا کیا اثر ھے اور بیولوجی کے لحاظ سے اس کے اندر کونسی تبدیلیاں لاتا ھے۔ لیکن چونکھ وه ڈاکٹر کی تشخیس کو صحیح مانتا ھے اس لئے نسخھ کو دل لگا کر استعمال کرتا ھے۔ ھاں اگر بیمار دواؤں کے بارے میں اور ڈاکٹر کے نسخے کے فلسفے کے بارے میں مطالعھ کرنا چاھے تو اور بھتر ھوگا۔ لیکن ایسا نھیں سوچنا چاھئے کھ اگر اس کے اثرات کے فلسفے تک نھ پھنچ سکا تو اس پر عمل نھیں کروں گا، کیوں کھ ھمین یقین کرنا چاھئے کھ انسان کا علم اوراس کی آگاھی اس حد تک نھیں ھے کھ وه الھی قوانین کے ھر ایک فلسفھ کا انکشاف کرکے اس کا ادراک کرسکے۔ [2]
پس ھم نے قرآن مجید ، صحیح روایات ، یقینی علوم اورعقل سے جو بھی حکم اخذ کیا ،اس پر عمل کریں اگر چاھے اس کے فلسفه اور حکمت کو نھ بھی جان سکیں۔
البتھ سونے کے برتنوں کا استعمال حرام ھونے کا ایک واضح اثر یھ ھے کھ معاشرے میں ایک قسم کا اقتصادی اعتدال پیدا کرنے اور طبقاتی فاصلوں کو ختم ھونے کا سبب بنے بلکھ اس طرح غریب لوگ حقارت اور ذلت کا احساس نھ کریں۔ اور معاشرے میں ذھنی ، اجتماعی ، اقتصادی سکون فراھم ھوجائے۔ اس کے علاوه علمی تحقیقات میں مرد کیلئے سونے کا استعمال کرنا بھی نقصان ده ثابت ھوا ھے۔ [3]
[1] یا ایھا الناس انتم کالمرضی و رب العالمین کالطبیب، ، طبرسی ، احمد بن علی ، احتجاج ، بیروت، دار النعمان ، ج ۱ ص ۴۵، میرزا حسین نوری ، مستدرک الوسائل ، قم ، آل الیبت ،چاپ دوم ، ۱۴۰۸ ج ۳ ، ص ۱۷۷۔
[2] دشتی ، محمد ،فلسفھ اجتھا و تقلید ، قم موسسھ تحقیقاتی امیر المومنیں ، چاپ اول ، ص ۱۶۳، مطھری ، مرتضی ، اسلام و نیازھای زمان ، تھران ، صدرا، چاپ شانزدھم ، ص ۳۰ ھادوی تھرانی مھدی، باور ھای و پرسشھا ، قم خانھ خرد، چاپ سوم ، ص ۵۱ ۔۔ ۵۵۔
[3] رجوع کرین ، عنوان، فلسفھ حرمت طلا بر مرد، سوال نمبر 3623 (3890)۔