Please Wait
9880
عقل، (شاید فلسفه کی اصطلاح میں بھی وهی هے جو شرعی اصطلاح میں هے ، یعنی ملا ئکه و فرشته) ایک جو هر هے جو ذاتی طور پر بھی مجرد هے اور فعلا بھی ، یعنی نه خود مادی و جسمانی هے اور نه کسی کام کو انجام دینے کے لئے محتاج هے اس صورت میں که کسی بدن یا جسم سے مر تبط هوـ لیکن اس مجرد تام کی مخلوق کو انسان کی عقل سے مغالطه نهیں کر نا چاهئے جو نفس کی ایک قوت هے اور انسان اس کے ذریعه غور وفکر کرتا هے ـ اگر چه انسان کا نفس تعقل (کلی ادراک) کے مقام پر، مجرد موجودات اور عالم عقل سے رابطه بر قرار رکھ کے اپنی وجودی ظر فیت کے تناسب سے اس عالم سے اکتساب کر تا هے –
نظام خلقت میں " عالم عقول" کے نام پر ایک عالم هے اور یه عالم ادنی درجه کے عالم کی ایجاد کا سبب هےـ سب سے برتر عقلی مخلوق وهی " عقل اول" یا " اولین صادر" هے جو واحد اور بالفعل هے اور اس کا وجود ماده، مدت اور استعداد پر موقوف نهیں هے اور ایجاد و تاثیر میں خدا وند متعال کی ذات کے علاوه کسی کی محتاج نهیں هے ـ عقل اول میں حق تعالی کے تمام کمالات ظهور پیدا کر چکے هیں ـ یه مخلوق، عالم امکان کی مکمل ترین مخلوق هے اور ممکنات میں سب سے شریف تر ، کامل تر، بسیط تراور قوی تر هے لیکن اسی حالت میں واجب تعالی کی نسبت عین محتاج و وابسته ایک مخلوق هےـ
علت و معلول کی تغییر کی بناء پر ، علیت کی بحث (فلسفه میں ) میں ، معلول، علت کا جلوه، ظهور اور تجلی هو تا هےـ اور حقیقت میں معلول اپنی علت کا ادنی مر حله شمار هو تا هے ـ مذکوره اصول کے مطابق ، جس قدر علت عالی اور اشرف هو معلول کا وجود بھی عالی تر اور شریف تر هو گا اور برترین علت کا بر ترین معلول هو گا اس لحاظ سے حصرت حق کا سب سے پهلا معلول، عقل اول هے که حق تعالی کے تمام کمالات اس سے ظاهر ھو کر چکے هیں-
پیغمبر اسلام (ص) اور ائمه معصو مین علیهم السلام سے نقل کی گئی بعض روایتوں میں " اولین مخلوق" یا " اولین صادر" کے بارے میں مختلف تعبیریں بیان کی گئی هیں-ان میں سے بعض میں پروردگار عالم کی سب سے پهلی مخلوق پیغمبر اسلام (ص) کے نور کو بیان کیا گیا هےـ
عقل کی کیفیت : عقل، (فلسفیانھ اور شرعی اصطلاح میں ملک و فرشته) ایک ایسا جو هر هے جو ذاتی طور پر بھی مجرد هے اور فعلا بهی مجرد هے ـ نه خود مادی اور جسمانی جوهر هے اور نه کسی کام کو انجام دینے کے سلسلے میں کسی کا محتاج هے، اس معنی میں که بدن کے مانند کسی جسم یا بدن سے مرتبط هو اور اس سے وسیله کے طور پر استفاده کرے، خواه فطرت میں یا ماورائے فطرت میں اس قسم کی مجرد مخلوق کو " مجرد تام " بھی کهتے هیںـ عقل، طبیعت کی مخلوقات میں اثر ڈالتی هے لیکن خود ان سے کسی صورت میں متاثر نهیں هو تی هےـ بنیادی طور پر " مجرد تام" مخلوق، ثابت محض هے اور اس میں کسی قسم کے تغیر وتبدل کی گنجائیش نهیں هے اور چونکه زمان اور حرکت اس کے تابع هیں ، اس لئے مجرد تام زمان سے بھی فارغ هے اور زمان کی اس سے نسبت دینا بے معنی هےـ اس نکته کی طرف توجه کر نا ضروری هے که " موجود مجرد تام" کے معنی میں عقل کو " انسان کی عقل" سے مغالطه نهیں کر نا چاهئے ـ انسان کی عقل اس کے نفس کی ایک قوت هے اور وه اس کے ذریعه غور وفکر کرتا هےـ [1]
البته جس طرح عالم خلقت اور عالم مخلوقات ایک صورت میں تین حصوں ، یعنی کلی ماده ، مثال اور عقل میں تقسیم هوتی هے اسی طرح انسان کا ادراک بھی حسی، خیالی اور عقلی ادراک میں تقسیم هو کر انسان کا نفس ادراک کے هر مقام پر اسی مقام کی مناسبت سے عالم کے ساتھـ ارتباط بر قرار رکھتا هےـ اس لحاظ سے انسان کا نفس اور اس کی ادراکی قوت، ادراک کلیات کے مقام پر عالم مجردات میں سے صرف (عالم عقل) سے ارتباط قائم کر کے اپنی وجودی ظرفیت کے تناسب سے اس عالم سے کسب فیض کرتی هے- [2]
عقل، اولین صادر: تمام الهی فلسفه ، من جمله، مشائی، اشراقی اور حکمت متعالیه کے معتقدین اس امر پر اتفاق نظر رکھتے هیں که عالم عقلی کا وجود هے اور یه عالم ، عالم ادنی سے ایجادی واسطه هے ( اگر چه عقول کی تعداد اور کثرت عقول کی کیفیت کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا هے) برترین عقلی مخلوق، وهی " عقل اول، یا" اولین صادر" هے که اولا، واحد هے ، ثانیا، بالفعل هے ، ثالثا، اس کا وجود ، ماده، مدت اور استعداد پر منحصر نهیں هے، رابعا ایجاد وتاثیر میں ذات الهی کے علاوه کسی کی محتاج نهیں هےـ
فلسفه میں علت و معلول کی بحث میں ثابت هوئے اصول یعنی " علت و معلول کا ایک جنس سے ھونا " ـ کے مطابق ، معلول، علت کا جلوه، ظهور اور تجلی هے، اور حقیقت میں اپنی علت کا ادنی مرحله شمار هو تا هے ـ مذکوره اصل کے مطابق، جس قدر علت اعلی و اشرف هو ، معلول کا وجود بھی عالی تر اور شریف تر هو گا اور برترین وقوی ترین علت کا معلول بھی برترین وقوی ترین هو گا – عقل اول میں ، حق تعالی کے تمام کمالات نے ظهور پیدا کیا هے ـ یه مخلوق، عالم امکان کی کامل ترین مخلوق هے اور ممکنات کے در میان ، سب سے شریف تر ، کامل تر، اوربسیط تر اور قوی تر هے – لیکن اس حال میں واجب تعالی کی نسبت ایک نیاز مند اور وابسته مخلوق هے اور اس لحاظ سے " اولین صادر" وجود کی تمام شدت کے ساتھـ ذاتی نقص اور ممکنه محدودیت کا حامل هےـ وه محدودیت جو اس کے معلول و مخلوق هو نے کا لازمه هے ـ اس امکانی محدودیت نے عقل اول کے وجودی مقام کو مشخص کیا هے اور اسے تعین بخشا هے اور ماهیت امکانی کا لازمه هے ، کیونکه ماهیت ، وجود کی حد هے ، اس لئے هر محدود موجود میں ماهیت هے –
عقل اول اگر چه ایک شخصی واحد هے ، لیکن اس میں ایک قسم کی کثرت پائی جاتی هے اور یهی کثرت اس میں سے کثیر کو صادر کر نے میں ممکن بنادیتی هےـ اس کے بر عکس واجب تعالی کی ذات میں کسی قسم کی کثرت کی مجال نهیں هےـ[3]
عرفان کا نظریه: جس طرح عرفان کا موضوع، فلسفه کے موضوع سے برتر هے ، عرفان میں پیش کئے جانے والے فلسفیانه قواعد بھی ایک خاص قسم کے عرفانی رنگ کے حامل هیں جو اس کے فلسفیانه اسلوب سے باریک اور گھرے هیںـ صدور، جو قاعده " الواحد" [4] کے اصلی عناصر میں سے هے، فلسفه میں " ایجاد " ، " علیت" کی صورت میں اور اس کے مانند اپنے خاص معنی رکھتی هےاور هر گز اس کے عر فانی معنی کے عروج تک نهیں پهنچتی هے جو بیشک " تجلی " ، " تشان" ، " ظهور" اور اس کے مانند هےـ جب فلسفه وعرفان کے مذکوره قاعده میں عناصر محوری میں فرق هو تو عرفان میں ان کے معنی فلسفه میں ان کے مفاهیم سے برتر هوتے هیں ، کیونکه فلسفه و عرفان میں قانونی علیت کی اصل کی ایک حد میں تفسیر نهیں کی جاسکتی هے، اس لئے ضروری طور پر ان دو عقلی و شهودی امور میں قاعده " الواحد" کے معنی متفاوت هو تے هیں اور نتیجه کے طور پر " فلسفیانه لغت" میں " صادر اول" ، " مشهد عارف" کے" ظاهر اول" سے متفاوت هے ـ لهذا اگر ایک حقیقت کے مراتب تشکیک کے وجود وسیع هوں اور واجب تعالی ان کے اعلی مرتبه کا حامل هو، تو ایک وسیع تشکیکی واحد صدور کی تصویر جو اعلی مرتبه سے بالکل مر بوط هو مشکل بن جاتی هے اور اس بناپر کها جاسکتا هے که جو واحد واجب سے صادر هو تا هے وه وحدت تشکیکی ربطی هے اور عالی ترین مقام کی تشکیک کی اصل کا تصور تمام حقیقت هستی سے مرتبط هےـ واجب سے صادر هو نے والی وجود کی تشکیک کی بنیاد پر، مصداق حقیقی ایسا وجود هے جس کا واجب سے عین ربط هے اور اپنے آپ کسی قسم کا استقلال نهیں رکھتا هے اور اس بنیاد پروحدت مطلق ، بساطت مطلق اور ان کے مانند کی هرگز تصحیح نهیں کی جاسکتی هے اور نتیجه کے طور پر درج ذیل آیه شریفه کی کوئی دلچسپ تفسیر نهیں کی جاسکتی هے: " وما امر نا الا واحده"[5] کیونکه اس مکتب میں اگر چه واجب تعالی بسیط الحقیقه تصور کیا گیا هے، لیکن اس کی وسعت نسبی هے نه که نفسی و ذاتی، یعنی اپنے فیض کی نسبت کوئی محدودیت نهیں رکھتا اور بسیط محض هوگا لیکن چونکه خود کثرت کو مسترد کر نے کا مقید هے یعنی به شرط لا هے نه که لا به شرط ، پس اپنی ذات کے متن میں ایک قید رکھتا هے جو اس کےنفسی وذاتی اطلاق میں مانع بن جاتا هے اور جب وه مقید هو ، تو تمام اشیاء کا مقید طور پر حامل هے، نه که مطلق اور جو کچھـ اس سے صادر هو تا هے بیشک وه ایک وسیع واحد بند مدار هے اور اس میں هرگز وسیع فیض ، جو عرفان کا مشهود هے کی مطلق گنجائش نهیں هوگی ـ عرفان، جو عناصر محوری کی تفسیر میں مذکوره قاعده کے مطابق ایک بالاتر پیغام کاحامل هے اور قانون علیت کو بیان کر نے میں ایک نیا منصو به پیش کر چکا هے ، وه ایک ایسی وحدت کا خاکه پیش کرتا هے که نه صرف " فیض اقدس" و" مقدس" کی نسبت وسیع هے ، بلکه ان سے برتر بهی هے ـ کیونکه جس قدر وه تعین کا رنگ رکھتا هے اسی قدر نفس رحمانی اور وسیع فیض کے سائے میں قرار پاتا هے جس کے لئے کسی قسم کی قید نهیں هے مگر قید اطلا ق اور اس کے لئے کوئی تعین نهیں هے مگر تقید به انبساط اور اس کی ماهیت و مانند کے بارے میں کلام نهیں کیا جاسکتا هے ـ نتیجه کے طور پر نه صرف مشائین اور اشراقیین کے فلسفه کے مطابق ماهیت کی بحث اس میں ممکن نهیں هے بلکه حکمت متعالیه کے امکان فقری کی بحث بهی اس میں نهیں آتی ، کیونکه امکان فقری عین وجود رابط هے اور جو چیز وجود کے سلسله میں کسی قسم کا کردار نهیں رکھتی، اگر چه اس کا صرف مستقل سے ربط هو ، فقری فلسفه کے امکان کا حامل نهیں هے بلکه امکان فقری کا عرفان آیت کے ظاهر محض کے معنی میں هے که اس کے هونے اور وجود کا کوئی لطف نهیں هےـ بهر حال ظاهر اول میں وجود و ماهیت کی ترکیب کا شائبه اصلا زیر بحث نهیں هے اس طرح صادر دوم وسوم ...کے بارے میں سوال پیدا هونے کی گنجائش باقی نهیں رهتی هے ـ کیونکه جس طرح خداوند متعال عین اول میں ، آخر اور عین ظاهر میں باطن هے اور خداوند متعال کا کوئی ثانی نهیں هے ، اس کا وسیع فیض بھی اسی" هوالاول والاخرو الظاهر والباطن" [6] کا ظهور هے، اس کا هر گز ثانی، ثالث... نهیں هےـ [7]
اس کی عقل وهی نور محمدی (ص) هے:
عالم کبیر، روحانی وجسمانی کا مجموعه هے ـ عالم کبیر حقیقت انسانیت کی صورت اور خلیفه غیب هے، اور کیونکه انسان کامل حقیقت انسانیت کا مکمل مظهر هے ، اس لئے عالم کبیر کمالات کے مجموعه کا مظهر اور عالم مدیر هے اور اس کی حقیقت همیشه مخفی اور صفات الهی سے متصف هے اور حق کی یه هویت همیشه پوشیده هے ـ اسی طرح خلیفه ، فیض کاواسطه هے ، خواه ارواح پر یاغیر ارواح پر ، اور جو ان کو فیض پهنچاتا هے وه انسانیت کی حقیقت هے ـ کیونکه فیض کے سلسله میں واسطه اس کی عقل هے اور عقل اول انسانیت کی حقیقت کا اولین مظهر هے ، چنانچه رسول الله (ص) نے فر مایا: " اول ما خلق الله نوری" [8] اس لئےخلیفه غیب هے اور عالم ظاهر وشاهد ـ خلیفه روح عالم کے برابر هے جوغیب هے ( جس طرح بدن کے لئے روح غیب هے) [9]
خداوند متعال نے چونکه نور محمدی (ص) کو خلق کیا هے ـ اس نور محمدی (ص) کی روح کے ساتھـ جمیع انبیاء واولیاء کی ارواح کو جمع کیاـ ان کے وجود عینی کی تفصیل سے پهلے یه اس کی عقل اول کے مرتبه میں هےـ اس کے بعد لوح محفوظ کے مقام پر ارواح معین هو گئے ، جو نفس کلی هیں، بظاهر اپنے نور سے متمیز هوگئے اور عالم عنصری میں یکے بعد دیگرے اپنے مخصوص انوار میں ظاهر هو گئےـ [10]
اول فیضی که نمود ازازل آئینه معرفت لم یزل
صادر اول ز خدا عقل کل پادشه محفل تلک الرسل
نور هدی ختم رسل مصطفی هادی منهاج صفا و وفا
اصطلاحات کی وضاحت:
مراتب تشکیکی : وجود ایک واحد حقیقت هے لیکن اس میں ایک قسم کی کثرت پائی جاتی هےـ یه کثرت نه صرف وحدت وجود کے منافی نهیں هے بلکه اس کی تاکید بهی کرتی هے ـ اس کثرت میں " مابه الا متیاز " ، ما به الاشتراک " کی طرف پلٹتی هے ـ مختلف حقیقی کمالات کا ظهور، حقیقت میں وه گونا گون صفات هیں جو حقیقت واحد وجود میں پائی جاتی هیں ـ شدت وضعف ، تقدم و تاخر، قوه و فعل وغیره جیسی صفات ـ لهذا حقیقت وجود اپنی ذات میں وحدت وکثرت کی حامل هے اس طرح کی جو چیز دو وجودوں کو ایک دوسرے سے امتیاز بخشتی هے، وه وهی چیز هے جس میں وه مشترک هیں اور برعکس اور یهی تشکیک کے معنی ھیں ـ
بشرط لا و لا بشرط: اعتبار "بشرط لا" یعنی ایک چیز کو مدنظر رکھنا ، اس شرط اور قید پر که جو کچھـ اس کی ذات سے باهر هے اسے اس میں شامل نه کیا جائے ـ اور اعتبار " لابه شرط" یعنی ایک چیز کو مطلق اور آزاد صورت میں ملحوظ نظر رکھنا نه اس شرط پر که خاص عوارض اور لواحق کی حامل هو اور نه اس شرط پر که ان عوارض ولواحق سے فاقد هوـ
نفس رحمانی: نفس، یعنی سانس، حروف کی شکل اختیار نه کر نے کی صورت میں " قول" نهیں کهلایا جاتا هے بلکه صرف سانس اور نفس بے رنگ و بے تعین هے پس قول وهی سانس اور نفس هے جو معین هو چکی هو اور حروف و الفاظ کی صورت میں رونما هوتی هے ـ اور نفس ر حمانی وهی الهی نفس (سانس) هے جو ذات کی باطن کو اظهار کر نے کا سبب بن جاتی هےـ
امکان فقری: وجود ماهیت ، وجود علت سے ذاتی فقر اور ذاتی تعلق کے معنی میں هےـ
عالم کبیر: عالم، اجزاء کی هم آهنگی اور اس کی شکل ، مانند انسان هے، لهذا بعض لوگوں نے عالم کو " انسان کبیر" اور انسان کو " عالم صغیر" کها هےـ
مولانا رومی نے اپنی مثنوی کے چوتھے دفتر میں یوں کها هے:
پس به صورت عالم اصغر تویی پس به معنی عالم اکبر تویی
نفس کلی: نفس مدبر عرش کو نفس کلیه کهتے هیں –
[1] درآمدی بر فلسفه اسلامی ـ عبودیت عبدالرسول ، ص١٨٦، موسسه آموزشی و تحقیقاتی امام خمینی رحمهم ا لله-
[2] بدایت الحکمه ، مرحله یازدهم ، فصل دوم، ص١٤٣ـ١٤٠و مرحله دوازدهم ، فصل نهم،ص١٧٢- ١٧١، نهایه الحکمه ، مر حله یازدهم ، فصل سوم ، ص ٢٤٦ـ٢٤٣ و مرحله دواز دهم ، فصل نهم ، ص٣١٣ و٣٢٣ ، اسفار، ج١،ص٣٠٣، ج ٧، ص٢٧٦ـ، ٢٦٢تعلیقه نهایه الحکمه ، مصباح یزدی ، محمد تقی ، ش: ٣٣٥و ٤٦٠-
[3] ترجمه وشرح بدایه الحکمه ـ شیروانی ،علی، ج٤، ص٢٣٦، مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم ـ
[4] فلسفه میں پیش کئے جانے والے مباحث میں ، من جمله، قاعده " الواحد لایصد رعنه الواحد" هےـ ملاحظه هو: علامه طباطبائی ، بدایه الحکمه، مر حله هفتم ، فصل چهارم،ص١١٤ـ ا١٣و نهایه الحکمه ، مرحله هشتم ، فصل چهارم،ص ١٦٧ـ١٦٥و...
[5] قمر، ٥٠ـ
[6] حدید، ٣ـ
[7] تحریر تمهید القواعد، جوادی آملی، عبدالله، ص٥٣ـ٥٠، تلخیص، انتشارات الزهراءـ
[8] سیره حلبیه،ج١، ص١٥٩ـ
[9] ممد الهمم درشرح فصوص الحکم ، حسن زاده آملی ، حسن، ص٥٢، سازمان طبع و انتشارات وزارت فرهنگ وارشادـ
[10] شرح فصوص الحکم، جامی ـ