Please Wait
کا
6206
6206
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2015/05/30
سائٹ کے کوڈ
fa1012
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
2267
- سیکنڈ اور
سوال کا خلاصہ
کیا شفا پانے کے لیئے انسان کوڈاکٹر کے پاس جانا چاہئے یا خاک قبر امام حسین علیہ السلام کو تناول کرے اور دعا کا سہارا لے ؟
سوال
کیا شفا پانے کے لیئے انسان کوڈاکٹر کے پاس جانا چاہئے یا خاک قبر امام حسین علیہ السلام کو تناول کرے اور دعا کا سہارا لے ؟
ایک مختصر
ان تینوں امور میں سے ہرایک مریض کی شفا کے لیئے ایک علٰحدہ سبب بھی ہوسکتا ہے اور یہ امور ایک ساﺗﻬ جمع بھی ہوسکتے ہیں لیکن بہتر اور مناسب یہ ہے کہ دعا (یعنی خدا سے رابطہ اور اس سے براہ راست درخواست کرنا) من جملہ ان دونوں وسیلوں سے فائدہ حاصل کرنے کے ہمراہ ہونا چاہئے کیونکہ ڈاکٹر کی تشخیص،دوا کی تاثیر اور امام حسین علیہ السلام کی شفاعت نیز ان کی خاک قبر کا اثر و غیرہ ،خدا کی قدرت اور اسکے ارادے سے جدا نہیں ہیں لہذا ان امور کی تاثیر خدا کی مصلحت اور مشیت پر موقوف ہے۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم دعا،اور ائمہ علیہم السلام کی شفاعت اور ان کے توسل کو صرف ان مصیبتوں اور مشکلوں سے مربوط جانیں ،جن کے حل کے لیئے ہم عام راستوں سے مایوس ہوگئے ہو اور مصیبتوں میں صرف انھیں اسباب کو اختیار کریں ۔ جیسا کہ دعا اور توسلات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عام وسایل سے فائدہ نہ اٹھایا جائے اور ہاﺗﻬ روک لیا جائے ،اور کاہلی اور سستی کی جائے کیونکہ خدا کی مشیت یہی ہے کہ تمام امور عمومی ذرائع کے تحت انجام پائیں ۔ لہذا ان تینوں امور کو ایک جگہ جمع کیا جاسکتا ہے دعا اور خاک قبر امام حسین علیہ السلام کے ساﺗﻬ ساﺗﻬ ڈاکٹر کا علاج اور دوا کا استعمال ضروری ہے تا کہ پروردگار ،شفاعت ائمہ علیہم السلام کی قبولیت اور اس سے مناسب اور مطلوب اثر کو ڈاکٹر کے علاج میں ہمارے لیئے سبب قرار دے۔
بہر حال کبھی اور کسی بھی مصیبت میں خدا کی رحمت و عنایت اور اماموں علیہم السلام کی شفاعت سے ناامید اور مایوس نہیں ہونا چاہیئے اور اسی طرح عام اسباب اور اس کے فائدے سے ہاﺗﻬ نہیں روکنا چاہیئے ۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم دعا،اور ائمہ علیہم السلام کی شفاعت اور ان کے توسل کو صرف ان مصیبتوں اور مشکلوں سے مربوط جانیں ،جن کے حل کے لیئے ہم عام راستوں سے مایوس ہوگئے ہو اور مصیبتوں میں صرف انھیں اسباب کو اختیار کریں ۔ جیسا کہ دعا اور توسلات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عام وسایل سے فائدہ نہ اٹھایا جائے اور ہاﺗﻬ روک لیا جائے ،اور کاہلی اور سستی کی جائے کیونکہ خدا کی مشیت یہی ہے کہ تمام امور عمومی ذرائع کے تحت انجام پائیں ۔ لہذا ان تینوں امور کو ایک جگہ جمع کیا جاسکتا ہے دعا اور خاک قبر امام حسین علیہ السلام کے ساﺗﻬ ساﺗﻬ ڈاکٹر کا علاج اور دوا کا استعمال ضروری ہے تا کہ پروردگار ،شفاعت ائمہ علیہم السلام کی قبولیت اور اس سے مناسب اور مطلوب اثر کو ڈاکٹر کے علاج میں ہمارے لیئے سبب قرار دے۔
بہر حال کبھی اور کسی بھی مصیبت میں خدا کی رحمت و عنایت اور اماموں علیہم السلام کی شفاعت سے ناامید اور مایوس نہیں ہونا چاہیئے اور اسی طرح عام اسباب اور اس کے فائدے سے ہاﺗﻬ نہیں روکنا چاہیئے ۔
تفصیلی جوابات
امراض سے شفا پانے کے لیئے ،ڈاکٹر کا علاج ،اولیائے خدا سے توسل ہیں ۔ جب کہ اس کی حتمی موت کا وقت نہ آگیا ہو ۔اور یہ اسباب جس طرح سے خدا کے ارادے کے ساﺗﻬ انفرادی صورت میں اثر رکھتے ہیں یعنی اگر ایک وسلیہ سے فائدہ اٹھایا تو ہم دوسرے دو وسائل کی ضرورت سے بے نیاز ہوجاتے ہیں ،اسی طرح تینوں کی مجموعی صورت بھی (علت تام کے عنوان سے) مریض کی شفا کا سبب ہوسکتی ہے یعنی دعا،
امام حسین علیہ السلام کی شفاعت کے قبول ہونے ؛ اور ان کی خاک قبر کے اثرانداز ہونے کا سبب ہے اور امام حسین علیہ السلام کی شفاعت ان کی خاک قبر کی تاثیر ڈاکٹر کے علاج کے نتیجہ خیز ہونے کا سبب ہے کی جس کے توسط سے علاج کے مراحل آسانی کے ساﺗﻬ طے ہوتے ہیں۔
لیکن اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ ڈاکٹر کا علاج ،دوا کا اثر ،حتی امام حسین علیہ السلام کی شفاعت اور انکی خاک قبر کا اثر ،خدا کی اجازت پر موقوف ہے ۔ ڈاکٹر کے نسخے ، امام حسین علیہ السلام کی خاک قبر سے فائدہ اٹھانے میں دعا خاص اہمیت کی حامل ہے کیونکہ دعا خدا سے براہ راست رابطہ رکھنا اور غیر خدا کو مستقل نہ جاننے (توحید افعالی) میں اثرانداز ہوتی ہے۔
لہذا ہر کام کے آغاز میں حتی اماموں علیہم السلام سے توسل اور ان سے شفاعت کی درخواست کرتے وقت دعا یعنی خدا سے مدد طلب کرے اور اس سے کامیابی کی درخواست کرنے کی شدت سے تاکید کی گئی ہے۔
بالخصوص لائق طبیب کا میّسر ہونا ،بیماری کی صحیح تشخیص دینا ،اثر آمیز دواؤں کو معین کرنا اور صحیح علاج ہونا یہ سب ایسے مشکل امور ہیں جن میں خدا سے مدد مانگنا بہت ضروری ہے ۔
ان امور کے علاوہ ،خاک قبر امام حسین علیہ السلام کے اثر انداز ہونے کے لیئے مندرجہ ذیل شرائط ہیں کہ جن کا حصول اس زمانے میں مشکل کام ہے۔
1۔ وہ خاک حائر[1] حسینی (امام حسین علیہ السلام کی قبر کے اطراف) سے اٹھائی جاے جس کا رنگ سرخ ہو۔
2۔ خاک کے اطراف قبر سے جدا ہونے کے بعد شیاطین اور جنات جو دشمن شیعہ ہیں اور خاک کو مس کرنے کی تاک میں رہتے ہیں،اسے مس نہ کریں ( پوشیدہ حالت اور مناسب پوشش کے ساﺗﻬ منتقل کی جاے) اوراس کا اثر زائل نہ ہوا ہو۔
3۔ وہ بہت کم استعمال کی جاے
4۔ خالص اور نیک نیتی کے ساﺗﻬ ،اسکے اثر انداز ہونے میں کسی شک و شبہہ کے بغیر استعمال کی جاے۔
5۔ خدا کو امام حسین علیہ السلام کے حق کا واسطہ دے کر دعا کے ساﺗﻬ استعمال کی جاے[2]۔
اور یہ بات مسلم ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور اسی طرح تمام اولیائے خداسے توسل ،اور ان سے منسوب خاک کو تبرکاًً و تیمناً استعمال کرنا بے فائدہ نہیں ہے اور اس کا اثر بعض مواقع پر ظاہربھی ہوا ہے۔
البتہ دعا کے مستجاب ہونے ،اولیا نے خدا کے ذریعہ شفاعت کے قبول ہونے اور ان کی شفاعت میں مرضی خدا شامل ہونے کے مندرجہ ذیل شرائط ہیں :
1۔ پوری توجہ اور خلوص دل سے دعا کی جائے ۔ دعا ،صلوات،(درود)،استغفار اور حقیقی توبہ کے ساﺗﻬ ہونی چاہیئے ۔
2 ۔ حقوق خدا ،عبادتیں اور اسلامی مالیات جیسے خمس و زکات کو ادا کرتا ہو۔
3 ۔ پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم اور معصوم علیہم السلام کی سنتوں کا مخالف نہ ہو۔
4 ۔ دعا کرنے والا قرآن مجید پر عمل کرتا ہو۔
5 ۔ ہر حال میں خدا کا شکر گزار ہو ۔
6 ۔ نیکیوں کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے والا ہو۔
7 ۔ دعا مادی اور روحانی امکانات کے ہمراہ ہو(سستی اور کاہلی یا بے جا توقع کی بنیاد پر نہ ہو)
8 ۔ اس کے مال و متاع میں حق الناس (لوگوں کا حق) نہ ہو
9 ۔ وعدہ کی وفا کا پابند ہو و غیر۔ ۔ ۔[3]
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مذکورہ شرایط نہیں پائے جاتے مگر دعا یا توسل اثر انداز ہوتے ہیں کہ دعا کرنے والوں کے دلوں کو جذب کیا جائے ایسا اس لیئے ہے یا ان پر اتمام حجت ہوجائے ۔ تاکہ ان کے لیئے اپنی گذشتہ غلطیوں سے پلٹنے کا کوئی عذر باقی نہ رہ جاے ،کیونکہ جب عام اسباب کے ذریعہ مصیبتیں اور مشکلیں بر طرف نہیں ہوتیں تو خدا اور اسکے اولیاء علیہم السلام کا لطف و کرم زیادہ ہوجاتا ہے اور شک کرنے والوں پر ہر طرح کی توجیہہ اور شکایت کا راستہ بند ہوجاتا ہے اور بسا اوقات یہ تاثیر جزا اور انعام کے طور پر دی جاتی ہے یعنی کسی شخص نے اپنی زندگی میں اتفاقاً کوئی نیک عمل انجام دیا ہے یا کسی موقع پر اولیائے خدا کا احترام کیا ہے اس لیئے دعا کا قبول اور مشکل کا دور ہونا اس کار خیر کا بدلہ ہے تا کہ آخرت میں شفاعت اور عنایت کا حقدار نہ ہو۔
اہم مسئلہ یہ ہے کہ اولیائے خدا علیہم السلام سے توسل یا دعا کا مطلب عام اسباب سے ہاﺗﻬ روکنا ، اور ان سے فائدہ نہ اٹھانا ، سستی اور کاہلی کرنا، سارے کام خدا کے حوالے کردینا نہیں ہے ۔
کیونکہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :خدا کو اس شخص کا کام پسند نہیں ہے جو اپنے کام کو اسباب بغیر انجام دیتا ہے[4] بلکہ بہترین نتیجہ اور توفیق الٰہی کے لیئے اس وقت ظاہری اسباب کے ساﺗﻬ دعا اور توسل کو
مد نظر رکھنا ضروری ہے ہم کو دعا اور توسل سے صرف اس وقت فائدہ اٹھانا چا ہیئے جب ہماری امید ظاہری اسباب اور عمومی ڈاکٹر کے علاج سے منقطع ہوگئی ہو اور ہم ظاہری اسباب کے مشکل کو دور کرنے کے لیئے ناتواں اور سارے کارساز راستوں کو اپنے اوپر بند تصور کریں اور اس کے بعد دعا اور توسل جیسے اسباب کو وسیلہ بنایئں اور مشکل برطرف ہونے کے بعد سب ﻜﭽﻬ فراموش کریں ۔ کیونکہ تمام روایات اور قرآن مجید کی آیات[5] میں اس حالت اور کیفیت کی شدید مذمت ہوئی ہے ایسی صورت میں یہ شفاعت اور قبولیت دعا انسان پر اتمام حجت کا سبب اور آخرت میں اس پر سخت عذاب کا باعث ہے لیکن اس کے باوجود بھی انسان کو کبھی شفاعت یا قبولیت دعا سے نا امید نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ اگرچہ نظٓم عالم میں سبب اور مسبب کا نظام ہے لیکن خدا کی ذات أقدس مسبب الاسباب ہے وہ تمام اسباب کو سببیّت دیتا ہے ،ہر مسبب اس کے سبب سے ہے اور ہر چھوٹا اسکی قیّومیّت سے زیادہ نزدیک ہے کیونکہ وہ ساری کائنات کا قائم کرنے والا ہے ( اور وہ سبب ساز ہے امور کو ظاہری اسباب کے ذریعہ تحقق بخشتا ہے) اور کبھی وہ سبب سوز بھی ہے یعنی وہ تمام ظاہری اسباب کے اثر کو بے اثر کردیتا ہے ،جیسے ذبح اسماعیل علیہ السلام یا جناب ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں جانا اور کبھی ظاہری اسباب کے بغیر براہ راست غیبت سے فیض پہنچا ہے یا ظاہری اسباب ایجاد کئے بغیر ایک نامعلوم سبب کے ذریعہ مسبب کو پیدا کرتا ہے[6] جیسے جناب صالح علیہ السلام کا ناقہ یا جناب موسیٰ علیہ السلام کے عصاء کا سانپ (اژدہا) میں بدل جانا و غیرہ ۔
بہر حال ان تمام مطالب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اپنے تمام امور میں ظٓاہری اسباب سے فائدہ اٹھانے کے علاوہ اللہ اور اسکے اولیاء علیہم السلام سے رابطہ کو فراموش نہ کریں ۔ مصیبتوں کے وقت مایوس و نا امید نہ ہوں اوراللہ کی قدرت اور ائمہ علیہم السلام سے امید لگائے رہیں ۔
مزید مطالعہ کے لیئے مندرجہ ذیل کتابوں کی جانب رجوع کریں :
1 ۔ مراحل اخلاق در قرآن (قرآن میں اخلاق کے مراحل) مؤلف آیت اللہ عبد اللہ جوادی آملی،ناشر،اسراء قم
2 ۔ جامی از زلال کوثر۔ مؤلف محمد تقی مصباح یزدی۔ ناشر(ادارہ تعلیم و تربیت)مؤسسہ آموزشی و پژوہشی ،امام خمینی قم۔
3 ۔ انگیزہ پیدایش مذاہب ۔ مؤلف آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی ناشر مطبوعاتی ہدف۔قم۔
4 ۔ کامل الزّیارات، مؤلف ابن قولویہ قمی ،ترجمہ محمد جواد ذہنی تہرانی ،ناشر پیام حق ،تہران۔
5 ۔ اشک رواں بر امیر کارواں ۔ مؤلف شیخ جعفر شوشتری ،ترجمہ میرزا محمد حسین شہرستانی ،ناشر دارالکتاب جزائری ۔ قم۔
امام حسین علیہ السلام کی شفاعت کے قبول ہونے ؛ اور ان کی خاک قبر کے اثرانداز ہونے کا سبب ہے اور امام حسین علیہ السلام کی شفاعت ان کی خاک قبر کی تاثیر ڈاکٹر کے علاج کے نتیجہ خیز ہونے کا سبب ہے کی جس کے توسط سے علاج کے مراحل آسانی کے ساﺗﻬ طے ہوتے ہیں۔
لیکن اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ ڈاکٹر کا علاج ،دوا کا اثر ،حتی امام حسین علیہ السلام کی شفاعت اور انکی خاک قبر کا اثر ،خدا کی اجازت پر موقوف ہے ۔ ڈاکٹر کے نسخے ، امام حسین علیہ السلام کی خاک قبر سے فائدہ اٹھانے میں دعا خاص اہمیت کی حامل ہے کیونکہ دعا خدا سے براہ راست رابطہ رکھنا اور غیر خدا کو مستقل نہ جاننے (توحید افعالی) میں اثرانداز ہوتی ہے۔
لہذا ہر کام کے آغاز میں حتی اماموں علیہم السلام سے توسل اور ان سے شفاعت کی درخواست کرتے وقت دعا یعنی خدا سے مدد طلب کرے اور اس سے کامیابی کی درخواست کرنے کی شدت سے تاکید کی گئی ہے۔
بالخصوص لائق طبیب کا میّسر ہونا ،بیماری کی صحیح تشخیص دینا ،اثر آمیز دواؤں کو معین کرنا اور صحیح علاج ہونا یہ سب ایسے مشکل امور ہیں جن میں خدا سے مدد مانگنا بہت ضروری ہے ۔
ان امور کے علاوہ ،خاک قبر امام حسین علیہ السلام کے اثر انداز ہونے کے لیئے مندرجہ ذیل شرائط ہیں کہ جن کا حصول اس زمانے میں مشکل کام ہے۔
1۔ وہ خاک حائر[1] حسینی (امام حسین علیہ السلام کی قبر کے اطراف) سے اٹھائی جاے جس کا رنگ سرخ ہو۔
2۔ خاک کے اطراف قبر سے جدا ہونے کے بعد شیاطین اور جنات جو دشمن شیعہ ہیں اور خاک کو مس کرنے کی تاک میں رہتے ہیں،اسے مس نہ کریں ( پوشیدہ حالت اور مناسب پوشش کے ساﺗﻬ منتقل کی جاے) اوراس کا اثر زائل نہ ہوا ہو۔
3۔ وہ بہت کم استعمال کی جاے
4۔ خالص اور نیک نیتی کے ساﺗﻬ ،اسکے اثر انداز ہونے میں کسی شک و شبہہ کے بغیر استعمال کی جاے۔
5۔ خدا کو امام حسین علیہ السلام کے حق کا واسطہ دے کر دعا کے ساﺗﻬ استعمال کی جاے[2]۔
اور یہ بات مسلم ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور اسی طرح تمام اولیائے خداسے توسل ،اور ان سے منسوب خاک کو تبرکاًً و تیمناً استعمال کرنا بے فائدہ نہیں ہے اور اس کا اثر بعض مواقع پر ظاہربھی ہوا ہے۔
البتہ دعا کے مستجاب ہونے ،اولیا نے خدا کے ذریعہ شفاعت کے قبول ہونے اور ان کی شفاعت میں مرضی خدا شامل ہونے کے مندرجہ ذیل شرائط ہیں :
1۔ پوری توجہ اور خلوص دل سے دعا کی جائے ۔ دعا ،صلوات،(درود)،استغفار اور حقیقی توبہ کے ساﺗﻬ ہونی چاہیئے ۔
2 ۔ حقوق خدا ،عبادتیں اور اسلامی مالیات جیسے خمس و زکات کو ادا کرتا ہو۔
3 ۔ پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم اور معصوم علیہم السلام کی سنتوں کا مخالف نہ ہو۔
4 ۔ دعا کرنے والا قرآن مجید پر عمل کرتا ہو۔
5 ۔ ہر حال میں خدا کا شکر گزار ہو ۔
6 ۔ نیکیوں کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے والا ہو۔
7 ۔ دعا مادی اور روحانی امکانات کے ہمراہ ہو(سستی اور کاہلی یا بے جا توقع کی بنیاد پر نہ ہو)
8 ۔ اس کے مال و متاع میں حق الناس (لوگوں کا حق) نہ ہو
9 ۔ وعدہ کی وفا کا پابند ہو و غیر۔ ۔ ۔[3]
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مذکورہ شرایط نہیں پائے جاتے مگر دعا یا توسل اثر انداز ہوتے ہیں کہ دعا کرنے والوں کے دلوں کو جذب کیا جائے ایسا اس لیئے ہے یا ان پر اتمام حجت ہوجائے ۔ تاکہ ان کے لیئے اپنی گذشتہ غلطیوں سے پلٹنے کا کوئی عذر باقی نہ رہ جاے ،کیونکہ جب عام اسباب کے ذریعہ مصیبتیں اور مشکلیں بر طرف نہیں ہوتیں تو خدا اور اسکے اولیاء علیہم السلام کا لطف و کرم زیادہ ہوجاتا ہے اور شک کرنے والوں پر ہر طرح کی توجیہہ اور شکایت کا راستہ بند ہوجاتا ہے اور بسا اوقات یہ تاثیر جزا اور انعام کے طور پر دی جاتی ہے یعنی کسی شخص نے اپنی زندگی میں اتفاقاً کوئی نیک عمل انجام دیا ہے یا کسی موقع پر اولیائے خدا کا احترام کیا ہے اس لیئے دعا کا قبول اور مشکل کا دور ہونا اس کار خیر کا بدلہ ہے تا کہ آخرت میں شفاعت اور عنایت کا حقدار نہ ہو۔
اہم مسئلہ یہ ہے کہ اولیائے خدا علیہم السلام سے توسل یا دعا کا مطلب عام اسباب سے ہاﺗﻬ روکنا ، اور ان سے فائدہ نہ اٹھانا ، سستی اور کاہلی کرنا، سارے کام خدا کے حوالے کردینا نہیں ہے ۔
کیونکہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :خدا کو اس شخص کا کام پسند نہیں ہے جو اپنے کام کو اسباب بغیر انجام دیتا ہے[4] بلکہ بہترین نتیجہ اور توفیق الٰہی کے لیئے اس وقت ظاہری اسباب کے ساﺗﻬ دعا اور توسل کو
مد نظر رکھنا ضروری ہے ہم کو دعا اور توسل سے صرف اس وقت فائدہ اٹھانا چا ہیئے جب ہماری امید ظاہری اسباب اور عمومی ڈاکٹر کے علاج سے منقطع ہوگئی ہو اور ہم ظاہری اسباب کے مشکل کو دور کرنے کے لیئے ناتواں اور سارے کارساز راستوں کو اپنے اوپر بند تصور کریں اور اس کے بعد دعا اور توسل جیسے اسباب کو وسیلہ بنایئں اور مشکل برطرف ہونے کے بعد سب ﻜﭽﻬ فراموش کریں ۔ کیونکہ تمام روایات اور قرآن مجید کی آیات[5] میں اس حالت اور کیفیت کی شدید مذمت ہوئی ہے ایسی صورت میں یہ شفاعت اور قبولیت دعا انسان پر اتمام حجت کا سبب اور آخرت میں اس پر سخت عذاب کا باعث ہے لیکن اس کے باوجود بھی انسان کو کبھی شفاعت یا قبولیت دعا سے نا امید نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ اگرچہ نظٓم عالم میں سبب اور مسبب کا نظام ہے لیکن خدا کی ذات أقدس مسبب الاسباب ہے وہ تمام اسباب کو سببیّت دیتا ہے ،ہر مسبب اس کے سبب سے ہے اور ہر چھوٹا اسکی قیّومیّت سے زیادہ نزدیک ہے کیونکہ وہ ساری کائنات کا قائم کرنے والا ہے ( اور وہ سبب ساز ہے امور کو ظاہری اسباب کے ذریعہ تحقق بخشتا ہے) اور کبھی وہ سبب سوز بھی ہے یعنی وہ تمام ظاہری اسباب کے اثر کو بے اثر کردیتا ہے ،جیسے ذبح اسماعیل علیہ السلام یا جناب ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں جانا اور کبھی ظاہری اسباب کے بغیر براہ راست غیبت سے فیض پہنچا ہے یا ظاہری اسباب ایجاد کئے بغیر ایک نامعلوم سبب کے ذریعہ مسبب کو پیدا کرتا ہے[6] جیسے جناب صالح علیہ السلام کا ناقہ یا جناب موسیٰ علیہ السلام کے عصاء کا سانپ (اژدہا) میں بدل جانا و غیرہ ۔
بہر حال ان تمام مطالب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اپنے تمام امور میں ظٓاہری اسباب سے فائدہ اٹھانے کے علاوہ اللہ اور اسکے اولیاء علیہم السلام سے رابطہ کو فراموش نہ کریں ۔ مصیبتوں کے وقت مایوس و نا امید نہ ہوں اوراللہ کی قدرت اور ائمہ علیہم السلام سے امید لگائے رہیں ۔
مزید مطالعہ کے لیئے مندرجہ ذیل کتابوں کی جانب رجوع کریں :
1 ۔ مراحل اخلاق در قرآن (قرآن میں اخلاق کے مراحل) مؤلف آیت اللہ عبد اللہ جوادی آملی،ناشر،اسراء قم
2 ۔ جامی از زلال کوثر۔ مؤلف محمد تقی مصباح یزدی۔ ناشر(ادارہ تعلیم و تربیت)مؤسسہ آموزشی و پژوہشی ،امام خمینی قم۔
3 ۔ انگیزہ پیدایش مذاہب ۔ مؤلف آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی ناشر مطبوعاتی ہدف۔قم۔
4 ۔ کامل الزّیارات، مؤلف ابن قولویہ قمی ،ترجمہ محمد جواد ذہنی تہرانی ،ناشر پیام حق ،تہران۔
5 ۔ اشک رواں بر امیر کارواں ۔ مؤلف شیخ جعفر شوشتری ،ترجمہ میرزا محمد حسین شہرستانی ،ناشر دارالکتاب جزائری ۔ قم۔
[1] فقہی اور شرعی اصطلاح میں حریم امام حسین علیہ السلام کا دائرہ ،اسکے اطراف ،قبر مطہر ، صحن ،اسکے ایوان اور میوزیم وغیرہ کو شامل ہوتا ہے چاہے نیا، حصہ ہو یا پرانا حصہ ، حائر اطلاق ہوتا ہے۔ بعض حضرات صرف حریم حسین
علیہ السلام کے دائرے کو حائر سمجھتے ہیں اس سے زیادہ نہیں ۔
علیہ السلام کے دائرے کو حائر سمجھتے ہیں اس سے زیادہ نہیں ۔
[2] کتاب کامل الزّیارات ،مترجم ذہنی تہرانی ،محمد جواد ،باب 91 ۔95 صفحہ 832 و867 ناشر پیام حق و بحار الانوار ،جلد 98 صفحہ 132 و 128 ۔
[3] کتاب انگیزہ پیدایش مذاہب ، مؤلف آیت اللہ مکارم شیرازی صفحہ 112 ،90 ۔
[4] کتاب کافی ، جلد 1 صفحہ 183 ۔
[5] سورہ روم آیت 32 ، سورہ لقمان آیت 32 ، سورہ عنکبوت آیت 65 ، سورہ یونس آیت 12 ، 23 ، 22 ۔
[6] کتاب مراحل اخلاق در قرآن ، مؤلف آیت اللہ جوادی آملی عبد اللہ ، صفحہ 63 ۔
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے