Please Wait
10405
یہ سوال مدینہ فاضلہ )مثالی شھر(Model city یا آزادی فکر کا دوسرا بیان ہے ، افلاطونی مدینہ فاضلہ سب سے قدیمی اور انسانی بلندی کا سب سے مشھور نمونہ ہے، جس کا خاکہ افلاطون نے اپنی کتاب " جمھوری" میں کھینچا ہے ، اسلامی دنیا کے فلاسفہ جیسے فارابی نے بھی اپنی کتاب "آراء اھل مدینہ فاضلہ" میں اسلامی نمونہ شھر اور اسکی ریاست کے بارے میں بحث کی ہے۔ فارابی اسلامی دنیا کے ایک ایسے عظیم فلسفی ہیں، جںھیں باقی فلاسفہ نے معلم ثانی کا لقب دیا ہے، )معلم اول ارسطو ہیں( اس عظیم فلسفی نے "مدینہ فاضلہ " کو اسلامی ڈھانچہ میں پیش کیا ہے ، دونوں مدینہ فاضلوں ، افلاطونی یا فارابی ، میں حکیم رھبر، سماج کے کمال کا نمونہ جانا جاتا ہے، جس کو سماج کی تربیت کرکے اسے اپنا جیسا بنانا ہے اس لئے رھبر کو انسانیت کا اسوہ کامل ھونا چاھیئے۔
آج کی دنیا میں مدینہ فاضلہ کے بارے میں دو نظریات موجود ہیں، جو سماج کو نجات دینے کا دعوا کرتے ہیں، لیبرل ڈموکریٹک ) سرمایہ داری اور امییرلیزم ( اور سوشلسٹ )جس کی دو شاخیں ڈموکریٹک اور کمونیسٹ ہیں(۔
تیسرا نظریہ جو ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے ساتھ ساتھ معرض وجود میں آیا اسلامی نظریہ ہے ۔ لیکن بد قسمتی سے انقلاب کے بعد سیاسی مسائل کی یلغار کی وجہ سے اس نظریہ کے حدود و صغور کو وسیع پیمانے پر مدون کرنے میں غفلت ہوئی ہے. اس مقالے میں فارابی کے اسلامی بلندی کے نمونے کا پرچم دار ہونے کو مد نظر رکھ کر سوال کے جواب کو اسی کے فلسفیانہ نظریات کے مطابق دو حصوں میں مدینہ فاضلہ اور انسانی شناسی میں دیا جائے گا ، مزید وضاحت کیلئے تفصیلی جواب ملاحظہ کیجئے۔
مقدمہ
یہ سوال مدینہ فاضلہ یا نظریہ نجات دھندہ کی دوسری تعبیر ہے ، مدینہ فاضلہ ، مثالی شھر ، یا اتوبیا، حکمت قدیم کے مسائل کا اھم ترین موضوع رھا ہے جو آج تک زندہ ہے، افلاطون کا مدینہ فاضلہ ، انسانی بلندی کا سب سے قدیمی اور مشہور نمونہ ہے جو کتاب " جمھوری " میں بیان ہوا ہے ۔ افلاطون کا مثالی سماج ایک دھقانی اور غلامی کا سماج ہے اور یہ مدینہ فاضلہ بنیادی طور پر اشراف ، افسر شاھی اور غلامی کے نظام کو اور بھی مستحکم بناتا ہے جسے اپنی رعایا کے ساتھ مھربان ہونا چاھئے۔ البتہ اس حکومت کی باگ ڈور فلاسفہ کے ہاتھ میں ہونی چاھیئے ، آج کے دور میں اس طرح کی جمھوریت کو انسانوں کی کوئی بھی جماعت بالکل نھیں مانتی ہے اور اس کے شرائط بھی موجود نہیں ہیں۔ مدینہ فاضلہ کا تصور جو یونانی فلسفہ کے سنھری دور کے بعد فراموش کیا گیا، دوبارہ وسطی قرون میں مورد توجہ قرار پایا اور "آگوست کنت" جیسے مفکر نے اپنی کتاب "شھر خدا" میں خدائی شھر کا معنوی نمونہ پیش کیا ، اسی دور میں ، اسلامی دنیا میں فارابی جیسے عظیم فلسفی نے اپنی کتاب "آراء اھل مدینہ فاضلہ "میں اسلامی نمونہ شھر اور اس کی ریاست کے بارے میں بحث کی ہے ، فارابی نے عالم اسلامی کے ایک بلند پایہ فلسفی ہونے کے ناطے ، جس کو باقی فلاسفہ نے معلم ثانی کا لقب دیا ہے )معلم اول ارسطو ہیں( افلاطونی مدینہ فاضلہ کو اسلامی سانچے میں ڈھالا ہے۔ لھذا ان کا مدینہ فاضلہ حقیقت سے نزدیک اور زیادہ عالمانہ تھا افلاطون اور فارابی، دوںوں کے مدینہ فاضلوں میں ، حکیم رھبر، سماج کا نمونہ کامل جانا جاتا ہے جس کو سماج کی تربیت کرکے، اپنا جیسا بنانا چاھئے لھذا سماج کے راھنما اور رھبر کو انسانیت کا کامل نمونہ ھونا چاھئے ، فارابی نے اپنے استعاراتی بیان میں مدینہ فاضلہ کو انسانی بدن کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور لکھا ہے ، بدن کے اندر ایک دل ھوتا ہے جس کی سب اعضاء پیروی کرتے ہیں ، مدینہ کا سرپرست سماج کے دل کے مانند ہے [1] فارابی ، اسی طرح ان سماجوں کے بارے میں بھی گفتگو کرتے ہیں جو مدینہ فاضلہ کے مقابلے میں ہیں اور ان کے نام مدینہ جاھلہ ، مدینہ فاسقہ ، مدینہ ضالہ ، مدینہ متبدلہ جیسے رکھتے ہیں۔
آج کی دنیا میں اس نمونہ شھر کے بارے میں دو نظریئے سماج میں موجود ہیں جو ایک معاشرے کو نجات دینے کا دعوا کرتے ہیں، لیبرل ڈموکریٹک ) سرمایہ داری اور امپریلیزم( سوشلسٹ) جس کے دوحصے دموکریٹک اور کمونیسٹ( ہیں ، تیسرا نظریہ جو ایران میں انقلاب اسلامی کی پیداوار ہے ، اسلامی نظریہ ہے جس کی منطم تدوین کیلئے کوششں جاری ہیں۔ مقالہ حاضر میں اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ فارابی مدینہ فاضلہ کے حدود و صغور کو معین کرنے میں سب سے پیش پیش تھے۔ اس لئے ہم مںدرجہ بالا سوال کے جواب میں ان کے فلسفیانہ نظریات کی بنیاد پر ، دو حصوں ، نمونہ شھر ، اور انسان شناسی میں بحث کریں گے۔
نمونہ شھر
مسلمانوں کے اھم مفکروں ، جنھوں نے انسانی بلندی کا نمونہ یا مدینہ فاضلہ کےبارے میں نظریہ پیش کیا ہے ، ابو نصر فارابی ، ابن سینا ، ابن رشد، اور ابن خلدون ہیں، ان کے درمیان فارابی ایک پایہ گزار کی حیثیت رکھتے ہیں ، فارابی وہ فلاسفر ہیں جنھوں نے پھلی بار فلسفہ سیاست کو مدون طریقے سے اسلامی دائرے میں پیش کیا اور دوسرے مفکرین جیسے ابن سینا۔ ابن باجہ، ابن طفیل اور ابن رشد کا فلسفہ فارابی سے ھی متاثر ہے، اسلامی ثقافت کے سنہرے دور میں مشرقی ایران کے ایک پاکباز حکیم ، ابو نصر فارابی نے مدینہ فاضلہ کے نظریہ کو اپنی کتاب " آراء اھل مدینہ فاضلہ" کی صورت میں پیش کیا ، اور سماج کو فلسفیانہ فکر اور شریعت اسلامی کے سانچے میں ڈھال دیا ، فارابی کے سیاسی فلسفے کی اصطلاحیں عام طور پر قرآن مجید سے لی گئی ہیں، " فاضلہ" کی صفت، سماج کیلئے مطلوب کمال کی جستجو کو حکیم کے نصب العین کے ذریعہ بیان کرتا ہے ، یہ منظر، اسلامی مفھوم ، " دار الاسلام" سے سرچشمہ حاصل کرنے کے علاوہ ، قوموں ، کے جغرافیائی حدود سے کافی وسیع ہے ، کامل سماج سے فارابی کی مراد ، ایک ایسا عظیم سماج ہے جس نے اپنے اندر بھت سی قوموں کو سمیٹ لیا ہے اور ایک مثالی رھبر ، حکومت کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتا ہے جس کے حدود و صغور میں مدینہ فاضلہ متحقق ہوتاہے ، فارابی کا مدینہ فاضلہ ایک روحانی سماج ہے جس کے جزئیات کا تصور دشوار ہے ، اگرچہ ان کی بحث مفصل اور وسیع ہے لیکن وہ ہر جگہ صرف کلیات کے بیان پر ہی اکتفاء کرتے ہیں جبکہ محسوس سیاسی اور سماجی روابط کو بیان نھیں کرتے ہیں مدینہ فاضلے کے طبقانی نظام کو سمجھنے کیلئے فارابی کے فلسفہ کا اجمالی علم ضروری ہے کیوںکہ ان کے مثالی شھر ) مدینہ فاضلہ ( کی بناوٹ کائنات کے نظام سے ان کے عقلی احساس پر مبنی ہے ، فارابی کے فلسفیانہ نظام میں پوری کائنات خدائی فیض سے وجود میں آئی ہے اور عالم کے موجودات اس سے نچلے نظام میں قرار پاتے ہیں، اس طرح کہ خدا کی ذات مبدا المبادی ہے اور باقی موجودات کا سلسلہ "قاعدہ الانقص فالانقص" ، کے مطابق کمال سے نقصان کی طرف رواں دواں ہے یھاں تک کہ وہ ایک ایسے مرتبہ تک پھنچ جاتاہے جس سے ایک قدم نیچے عدم اور نیستی ہے ، اسی لئے فارابی کے مدینہ فاضلہ میں افضل خیر ) انسان کی ابدی سعادت اور نیکی( صرف مدنی سماج میں حاصل ہوتا ہے نہ کہ اس اجتماع میں جو اس سے ناقص یا کم تر ہو اور انسان اپنی فطرت کے حکم کے مطابق کمال تک پھنچنے کیلئے سماج کی تشکیل میں تعاون کا محتاج ہے، انسان کی ضروریات اتنی زیادہ اور متنوع ہیں کہ کوئی بھی اکیلے ان کو پورا نھیں کرسکتا ہے [2]
اور جو چیز ہر کسی کو اپنی ضروریات پوری کرنے میں کامیاب کرتی ہے وہ سماج اور سماج میں کام اور تعاون ہے پس مدنی سماج ، اجتماعی تعاون کا ثمرہ ہے اور صرف اسی سماج میں انسان اس کمال اور سعادت کو حاصل کرسکتا ہے جو اس کے لایق شان ہے۔
فارابی نے ابن سینا اور خواجہ نصیر الدین طوسی کے مانند سماج میں فرد کی بنیاد کو اس کی لیاقت اور صلاحیت کے مطابق قرار دیا ہے اور اس کی نظر میں اگر فرد سماج میں طبیعت کے متقاضی کام میں مشغول ہوجائے اور سیاسی اور اجتماعی مراتب اور عہدے افراد کی لیاقت اور شائستگی سے تشکیل پائیں ، تو زمین پر مدینہ فاضلہ متحقق ہوگا۔
فارابی کی نظر میں سیاست مقصد نہیں ہے بلکہ مقصد سعادت ہے اور وہ سماج میں رہنے کے بغیر حاصل نھیں ہوسکتی [3]
فارابی نے سیاسی نظام کے مقصد و غایت کی بنیاد پر ، سیاسی نظاموں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
۱۔ فاضلہ سیاسی نظام
۲۔ غیر فاضلہ سیاسی نظام
فاضلہ سیاسی نظام میں حقیقی سعادت مقصد ہے اور غیر فاضلہ سیاسی نظام می ظنی اور وھمی سعادت مورد نظر ہے [4]
فارابی کی نظر میں مدینہ فاضلہ کی حکومت ایک ایسی حکومت ہے جو افعال، سنن، اور ارادی خصوصیات کو ملک، قوم اور حکومت میں پروان چڑھائے تا کہ انسان اور سماج ان کے سائے میں دنیوی اور دینی اموردوںوں میں حقیقی سعادت کو حاسل کرسکے۔ لھذا ایک ایسی حکومت یا سیاسی نظام کو جو اس طرح کی عظیم ذمہ داری نبھا سکے ، اسے فاضلہ سیاسی نظام کھتے ہیں ،یہ نظام ایک مکمل اور معتدل نظام ہے اور جو قومیں اور ملک اس حکومت کے زیر سایہ ہوں انھیں ملک یا قوم فاضلہ کھتے ہیں[5]۔
مدینہ فاضلہ کے مکینوں کا مقدر آپس میں جڑا ہوا ہے فارابی کے مثالی شھر میں ایسا ممکن نھیں ہے کہ ایک آدمی سعید اور ایک شقی ہو یا سب اھل مدینہ شقاوت اور گمراھی میں مبتلا ہوں۔ اس بیان سے یہ معین ہوتا ہے کہ مدینہ فاضلہ اورایک کامیاب معاشرے میں ایسا ممکن نھیں ہے کہ ایک جماعت آسودہ حال اور نیک بخت ہوں اور لوگوں کی اکثریت مفلس نادار اور بد بخت ہوں لھذا فارابی اس طرح کی مدنیت کو باطل جانتے ہیں اور ان کا نظریہ یہ ہے کہ سعادت ایک کل کی طرح ہے جس میں سماج کے ہر فرد کے درمیان مساوات برقرار ھو[6] اس بنا پر اس طرح کے سماج کی خصوصیت اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہے فارابی فاضلہ سیاست اور رھبر کے بارے میں کہتے ہیں : "اس مدینہ میں ، رھبر حکومت کرتا ہے جو باقی انسانوں سے افضل ہے اور اس کی سیاست بھی فاضلہ سیاست ہےجو صرف اسی مدینہ کے ماحول میں تحقق پذیر ہے ۔[7]
اس مدینہ میں بیرونی تغیر کے بدلے اندرونی تغیر واقع ہوتا ہے اسی لئے انسانی عقل حقایق کو قبول کرنے کیلئے استدلال کی محتاج اور ا سکا دل قانع اور قائل ہونا چاھتا ہے ، فارابی تسلط کو ہر ممکن راہ میں چاھے وہ زبردستی سے ہو یا حیلہ اور ریاکاری سے ہو ، اسے شرافت اور انسانی کرامت کا دشمن اور مدنیت کیلئے ایک ناسازگار علاج جانتے ہیں جو کچھ اس مثالی شھر کے شھریوں کو دوسرے شھروں سے الگ کرتا ہے وہ آسمانی اصولوں کی نظریاتی معرفت اور فضائل و مکارم اخلاق کی عملی پابندی ہے ، فارابی مدینہ کے اجزا ) عملے (کی کام کی نوعیت کے لحاظ سے اور جو خدمات وہ مدینہ کی انجام دیتے ہیں طبقہ بندی کرتے ہیں۔ [8]
مدینہ فاضلہ کا وجودی فلسفہ ، لوگوں کو سعادت تک پھنچانا ہے، اور مدینہ پر حکومت کا مقصد بھی اس کے لوگوں کے لئے سعادت کی راہ کو آسان کرنا ہے ، لہذا فارابی کے فلسفہ مدنی کو کامل طور پر سمجھنے کیلئے اس کے فکری نظام میں "سعادت" کے مطلب کو سمجھنا ضروری ہے۔ فارابی کی تعریف کے مطابق " سعادت " ایک جیسا بننا ہے، مادہ کے مرتبہ احتیاج سے اوپر آکر اور مادہ سے مفارقت حاصل کرکے انسان کے وجودی کمال تک پہنچنا اور اسی حال میں باقی رہںا ہے، سعادت بعینہ خیر ، اور اشیاء کا انتھائی مقصد جسے ایک انسان حاصل کرسکتا ہے اور سعادت کو حاصل کرنے کی راہ بھی نیک اعمال کو انجام دینا اور بافضیلت کردار کا پابند ہونا ہے نیز شرور اور رذائل ، شقاوت اور برے اعمال سے دوری اختیار کرنا ہے ۔ سعادت حقیقت میں نیک کاموں کو انجام دینا اور ھوای نفسانی سے دوری اختیار کرنا ہے[9]
فارابی جس بنیادی اصل کو دوںوں مدینوں میں پیش کرتے ہیں وہ" سعادت" ہے ، لیکن فارابی کی نظر میں حقیقی سعادت جو ترقی ، سیاسی وسعت، عادتوں کے رواج ، سنن ، ثقافت ، ملکوں اور قوموں میں فاضلہ نظام کا سبب بن سکتی ہے وہ صرف فاضلہ کے سیاسی نظام میں قابل تحقق ہے ، لھذا فارابی اپنے سیاسی فلسفہ کے اصول کی پہلی اصل کو "سعادت" ، سعادت کی پہچان اور اس کا تعارف نیز حقیقی سعادت اور وہمی سعادت کے درمیان فرق میں قرار دیتے ہیں ، فارابی اپنے مدینہ فاضلہ کے سیاسی نظام کی خصوصیات کو ذکر کرنے کے بعد " مدینہ فاسدہ" کی خصوصیات کو بیان کرتے ہیں ۔ وہ اپنے سیاسی فلسفہ میں چار مدینہ فاسدہ کے قائل ہیں۔
پہلا: مدینہ جاھلہ : وہ مدینہ ہے کہ جس کے لوگ نہ سعادت کو جانتے ہیں اور نہ ہی ان کے ذھنوں میں سعادت کا تصور آتا ہے اور یہ سب چیزوں میں صرف لذات کو سمجھ سکتے ہیں۔
۲۔ مدینہ فاسقہ : جس مقدار میں مدینہ فاضلہ کے لوگوں نے خدا اور عقل فعال [10] کو پہچانا ہے وہ بھی اسی مقدار میں پہچانتے ہیں لیکن ان کے اعمال جاھلہ مدینہ کے مانند ہیں یعنی وہ کھتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے ۔
۳۔ مدینہ متبدلہ : ان کی رای اور کردار مدینہ فاضلہ کے لوگوں کے مانند ہے لیکں انھوں نے اس میں تصرف کرکے اس کو فساد سے آلودہ کیا ہے۔
۴۔ مدینہ ضالہ : اس مدینہ کے لوگ خدا اور عقل کے بارے میں باطل عقیدہ کا اظہار کرتے ہیں اور ان کا سر پرست بھی وحی اور نبوت کا جھوٹا مدعی ہے۔[11]
انسان شناسی
فارابی کی انسان بینی بھی ارسطو کے مانند ہے کیونکہ وہ انسان کی ذات کو بالطبع مدنی جانتا ہے اس کا نظریہ یہ ہے کہ انسان اپنی بقا اور اپنے انسانی کمالات کو حاصل کرنے کیلئے ایسی ضرورتوں کا محتاج ہے کہ جن کو وہ اکیلے پورا نھیں کرسکتا ہے حقیقی طور پر انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے ایک ایسے سماج کے تشکیل کی ضرورت ہے جس کا ہر ایک عضو اس سماج کی بعض ضرورتوں کو پورا کرنے کی ذمہ داری لے ، لھذا ہر انسان اپنی فطرت میں سماج اور معاشرے کی جانب میلان رکھتا ہے وہ اپنی نوع کے افراد کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاھتا ہے حقیقت میں انسانوں میں ایک دوسرے کی ضرورت ہی سماج کی تشکیل کا سبب بنا ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے سے قریب ہو کر ایک دوسرے کے تعاون سے کمال اور سعادت سے نزدیک ہوجائیں۔ [12]
فارابی عقل، وحی ، سیاست ، شریعت کے مفاھیم کے درمان جدائی کے قائل ںہیں ہیں بلکہ انہیں ھم آھنگ کرنے کیلئے اپنی کوشش کرتے ہیں ، اصولی طور پر فارابی کی اصلی ذمہ داری سیاست کو حکمت کے ساتھ منسلک کرنا ہے کیوںکہ فارابی انساںوں کے مقصد کو سعادت اور سعادت کے متحقق ہوںے کو حکیمانہ سیاست کی روشںی میں جانت ہیں تو اس صورت میں سیاست کی حکمت کے ساتھ نسبت ضروری ہے۔ فارابی کی نظر میں انسان کو حقیقی سعادت کے حصول کرنے تک پھنچنے کا واحد ذریعہ عدالت ہے اور انسان کو کمال اور سعادت تک پھنچنے کا مرکز بھی عدالت ہی ہے۔[13]
فارابی کی نظر میں ، سعادت حاصل کرنے کی شرط اجتماعی رای اور سب شھریوں کا ارادہ ہے ، یعنی ایک مصلح کی اصلاح طلبی اور خیر اندیشوں کی ایک جماعت کی ہمراہی ، یہ مصلح جو مدینہ فاضلہ کا سرپرست بھی ہے ایک ایسا کامل انسان ہے جو عقل بھی ہے اور معقول بھی، یہ ایک ایسا فرد ہے جس کی روح عقل فعال سے متصل ہے اور وہ معرفت کو وحی کے ذریعے عقل فعال سے لیتا ہے مدینہ کا سرپرست یا پیغمبر ہے یا امام۔[14]
[1]حسینی کوھساری ، اریک فلسفہ اسلامی ، ص ۸۹ تھران ، نشر بین الملل، ۲۰۰۵ء
[2]فارابی ، آراء اھل مدیںۃ الفاضلۃ ، ص ۷۸ - ۷۷
[3]حسینی کوھساری ، اریک فلسفہ اسلامی ، ص ۸
[4] کیخا ، عصمت ، "نگاھی بہ یوند قدرت و اخلاق در فلسفہ سیایس فارابی" ، پگاہ حوزہ ، مئی ۲۰۰۵ ء نمبر ۱۸۲
[5]ایضا
[6] ایضا
[7] فارابی ، آراء اھل مدیںۃ الفاضلۃ ، ص ۸۶
[8]کیخا ، عصمت ، "نگاھی بہ یوند قدرت و اخلاق در فلسفہ سیاسی فارابی"
[9] ایضا
[10] عقل فعال ، عقول کے سلسلے میں دسویں عقل کا نام ہے اور فارابی کی تعبییر کے مطابق ، روح الامین یا روح القدس ، آسمانی عقول کی آخری عقل مفارق ہے جو نہ مادہ میں ہے اور نہ ھی مادہ میں ہوگی یہ عقل ھمیشہ فعال ہے ، فارابی عقل فعال کو واھب الصدور سے جانتا ہے جہاں پر صرف معقولات موجود ہیں اور وہ عقل ہے جو معقولات کو انسانی عقل سے جوڑتی ہے۔
[11]حسینی کوھساری ، اریک فلسفہ اسلامی ، ص ۸
[12] نوروزی ، فرشاد، "بررسی و مطالعہ شخصیت و اندیشہ ھای سیاسی اجتماعی فارابی و آیۃ اللہ خمینی" ، سایت رسمی انجمن احیاگران فلسفہ
[13] ایضا
[14] فارابی ، آراء اھل مدینہ فاضلہ ص ۸۶