Please Wait
6773
سلطان محمد گنا بادی ، ملقب به سلطان علی شاه ، طریقت نعمت اللهی میں حالیه صدی کے عرفا میں شمار هو تے هیں – وه ٢٨ جمادی الثانی سنه ١٢٥١ هجری قمری میں خراسان کے گناباد علاقه میں پیدا هوئے – دینی تعلیم حاصل کر نے کے لئے حوزه علمیه مشهد اور نجف اشرف چلے گئے اور قدرتمند فلاسفر، ملاهادی سبزواری سے علوم عقلی کا درس حاصل کیا اور وادی عرفان میں قدم رکها اور محمد کاظم سعادت علی شاه سے اذکار قلبی کی تر بیت حاصل کر نے میں کامیاب هوئے- ان کی خصوصیات میںذریعه معاش کے لئے کهیتی باڑی کے کام میں تلاش وکوشش، زهد ،تقوی، دوسروں کی مدد کر نا ، مذهبی تقریبات اور شعائر دینی کی مجلسیں منعقد کر نا شامل هے – ان کی تالیفات میں گراں قیمت تفسیر " بیان السعادۃ "، " سعادت نامه" اور " مجمع السعادت" وغیره جیسی کتابیں قابل ذکر هیں- وه ٧٦سال کی عمر میں قتل کئے گئے اور محله گناباد میں قبرستان بیدخت میں سپرد خاک کئے گئے-
لیکن ان کے بارے میں دو نکتے قابل توجه هیں :
١- انهوں نے قرآن مجید کی بعض آیات کی ولایت سے تعبیر کی هے ( جیسے لفظ " "الله" لفط "کا علی " سے تاویل کرنا) اور یهی امر سبب بنا هے که بعض لوگوں نے انهیں غلو کر نے کا الزام لگایا هے-
٢- عرفان کی پوری تاریخ میں همیشه بعض لوگوں نے اپنے ناپاک عزائم تک پهنچنے کے لئے عرفا کے بیانات کی غلط تعبیرات کی هیں ، ایسے افراد کے مقاصد مسلمانوں کی صفوں میں اختلاف ایجاد کر نا ، نوجوانوں کو گمراه کر نا اور اپنے غلط اعمال کی توجیه کر نا هو تا هے –اس لئے ممکن هے کچھـ لوگ گنابادی کے کلام سے ناجائز فائده اٹهائیں اور لوگوں میں اختلاف پیدا کر نے اور بعض لوگوں کو گمراه کر نے کے لئے کچھـ افراد کو اکسائیں –
الحاج سلطان محمد گنابادی ملقب به سلطان علی شاه ، نعمت اللی طریقت اور چودهویں صدی هجری کے ایک بڑے عالم اور عارف هیں – وه ٢٨ جمادی الاول سنه ١٢٥١ هجری قمری میں گنا باد میں پیدا هوئے هیں – وه تین سال کے تھے ، که ان کے والد هندوستان چلے گئے اور اس کے بعد لاپته هوئے- لهذا ان کی سر پرستی کی ذمه داری ان کے بهائی ملا محمد علی نے سنبهالی – چھـ سال کی عمر میں قرآن مجید سیکها ، لیکن فقر وتنگدستی جیسی مشکلات کی وجه سے ١٧ سال کی عمر تک تعلیم کو جاری نه رکھـ سکے، اس کے بعد انهوں نے ادبیات کو اپنے آبائی وطن میں سیکها اور تعلیم جاری رکهنے کے لئے مشهد چلے گئے اور اس کے بعد دینی علوم کو پائے تکمیل تک پهنچانے کے لئے نجف اشرف چلے گئے – انهوں نے علوم عقلی اور سیر عرفانی کو حکیم توانا حاج ملا سبز واری سے حاصل کر نا شروع کیا اور ایک مدت کے بعد اصفهان چلے گئے اور وهاں پر اپنے استاد محمد کاظم سعادت علی شاه سے ذکر قلبی کی تعلیم حاصل کر نے میں کامیاب هوگئے –سنه ١٢٩٤ھ-ق میں اپنے استاد کی طرف سے اوراد واذکار کے ارشاد کی اجازت حاصل کی – وه درویشی کے سلسله شاه نعمت اللهی سے تعلق رکهتے تهے اور مشهور طائفه بیچاره کے توسط سے امیر محمد سے ,منسوب تهے –امیر محمد، امیر سلیمان کی اولاد سے تهے اور امیر سلیمان ، امام رضا علیه السلام کے خراسان میں داخل هونے کے زمانه سے، آپ(ع) کے خدمتگاروں میں تهے – سلطان محمد گنابادی نے فلسفه مشاء اور اشراق میں کافی کامیابی حاصل کی- دوسرے علوم جیسے ریاضی ، نجوم ، طب ، اسطر لاب اور مغربی علوم بهی سیکهے اور شیخ انصاری کی خد مت میں حاضر هوگئے اور ان سے فقهی علوم سیکهے اور اجتهاد کا اجازتنامه حاصل کیا- عرفانی درجات حاصل کر نے کے علاوه شرعی علوم میں بهی کمال رکهتے تهے ، عتبات علیات کے اپنے ایک سفر میں اعلم ومجتهد زمان میرزائے شیرازی کی عنایت حاصل کر نے میں کامیاب هوئے- تهوڑی هی مدت کے اندر اس کے عرفانی اور معنوی فضائل کو ایران اور بعض اسلامی ممالک میں چارچاند لگ گئے اور یهی امر عرفان کے دشمنوں کے لئے ان کے تئیں حسد وکینه کا سبب بنا[1]- اس زمانه کے بهت سے علماء جیسے: آیت الله شیرازی ، حاج ملاعلی سمنائی، حاج میرزاحسین سبزواری، آخوند ملا محمد کاشانی ، شیخ زین العابدین مازندرانی اور ان کے فرزندوں نے ان کے فضل اور نابغه هو نے کا اعتراف کیا هے[2]-
صاحب" ریحانۃ الاد ب" انهیں چودهویں صدی هجری قمری کے علمائے عرفان کے اکابر میں سے جانتے هیں جو علوم معقول و منقول اور ظاهر وباطن کے جامع تهے[3]- واقعات لکهنے والوں نے اعتراف کیا هے که فقیه فاضل سے لے کر عارف کامل تک جو بهی انهیں دیکهتا تها ، اس کا گر ویده هو تا تها اور اس کے علمی صلاحیتوں کا اعتراف کرتا تها[4]- امام خمینی(رح) سوره حمد کی تفسیر میں فر ماتے هیں : " جو عرفا ان چند صدیوں کے دوران پیدا هوئے هیں اور قرآن مجید کی تفسیر کی هے، جیسے محی الدین ابن عربی ، عبدالرزاق کا شانی اور ملا سلطان محمد گنابادی ---نے اچها لکها هے[5]"-
صاحب " طرائق الحقائق" نے ان کے بارے میں لکها هے : " وه نیک اخلاق اور مقدس قدروں کی حفاظت کے سلسله میں بهت سنجیده تهے-اور اس سلسله میں کسی قسم کی کوتاهی نهیں کرتے تهے اور صاحب کرامت تهے[6]-
جب وه ایران تشریف لائے تو کچھـ دیر تک تهران میں ٹهرے ، علمی، فقهی اور سیاسی شخصیتیں ان کی ملاقات کے لئے آگئے ، یهاں تک که ایران کا بادشاه ، ناصر الدین شاه بهی ان سے ملنا چاهتا تها لیکن انهوں نے اسے ملنے کی اجازت نهیں دی – سر انجام ٢٦ ربیع الاول سنه ١٣٢٧هـ -ق کو ٧٦ سال کی عمر میں انهیں قتل کیاگیا اوراس وقت محله گناباد میں قبرستان بیدخت کے آخری حصه میں مد فون هیں- اس عارف معاصر کی خصوصیت میں سے یه تھی که ذریعه معاش کے لئے کهیتی باڑی کرتے تهے ، بیکاری گوشه نشینی اور رهبانیت کو پسند نهیں کرتے تهے- کام کر نے کے دوران مطالعه ،تدریس ، تالیف ، لوگوں کو ارشاد کرنے اور حاجتمند وں کی مدد کر نے سے کبهی غافل نهیں رهتے تھے، یهاں تک که بیماروں کا علاج معالجه بهی کرتے تهے کیونکه وه علم طب میں بهی شهرت رکهتے تهے – وه انتهائی زاهد وعابد تهے، کبھی تهجد اور سحر خیزی کو ترک نهیں کرتے تهے اور شعائر دینی ومذهبی ، جیسے نماز جماعت ، مجالس ذکر وقرائت قرآن اور ائمه اطهار علیهم السلام کی عزاداری کی مجلسیں منعقد کر نے میں بڑی تلاس وکوشش کرتے تهے – دنیوی امور، جیسے خوراک اور لباس وغیره کے سلسله میں کم از کم پر اکتفا کرتے تهے، کسی خاص قسم کا لباس نهیں پهنتے تهے- اپنے پیرٶں اور مریدوں کو دینی آداب ، واجبات و مستحبات کو انجام دینے اور محرمات کو ترک کر نے کی تاکید فر ماتے تهے- انهوں نے کافی کتابیں تالیف کی هیں ، من جمله : " سعادت نامه" " مجمع السعادات" " بیان السعادت" نامی تفسیر، " ولایت نامه" اور " بشارۃ المو منین تنبیه الصا ئبین وغیره-" اس کی سب سے اهم تالیف" بیان السعادۃ فی مقامات العبادۃ" نامی تفسیر هے-که حاج محسن مجتهد عراقی اور آخوند ملا محمد کاشانی جیسے عظیم علماء نے اسے " سلطان التفاسیر" کا لقب دیا هے ، اور آیت الله جوادی آملی نے اپنی تفسیر تسنیم میں اس میں سے ( مصنب کا نام لئے بغیر ) بعض مطالبه کا ذکر کیا هے[7] – اور ان کی تفسیر کے بارے میں کهاگیا هے که : " اس کا مولف عالم جلیل اور عارف نامور ملا سلطان محمد گنا بادی هیں- اس تفسیر میں عرفان ، فلسفه اور ادیبات سے مر بوط بهت سے دقیق نکات پائے جاتے هیں ، که ان سب کو مٶلف نے تازه تخلیق اور روایات کے مکمل تر جموں سے حاصل کیا هے[8]-"
البته بعض افراد نے اس بات سے انکار کیا هے که تفسیر " بیان السعادۃ" ان کی تالیف هے – صاحب الذریعه لکهتے هیں : " کتاب بیان السعادۃ فی مقامات العباده یا تفسیر منیر سنه ١٣١٤ ھ ق میں عارف معاصر مولی سلطان محمد گنا بادی خراسانی کے پیرٶں کے ذریعه شائع کی گئی هے ، لیکن ممکن هے یه ان کی تالیف نه هو [9]–" اسی طرح صاحب کتاب " اطفاء المکائد و اصلاح المفاسد" بهی اس قسم کی تالیف کے مرحوم گنابادی سے مربوط هونے کے منکر هوئے هیں اور کها هے که یه کتاب قدیمی تهی، جسے مر حوم گنابادی نے اپنے نام سے شائع کیا هے[10]-"
لیکن صاحب الذریعه ، اپنی کتاب کی بعد والی جلدوں میں وضاحت کرتے هیں که کتاب بیان السعاده کا گنابادی سے منسوب هو نا سچ هے اور اس میں شک کر نا صحیح نهیں هے[11]-" " اور گنابادی کے نواسوں میں سے ایک نے کوشش کی هے که اس تفسیر کو ان کی تالیف ثابت کریں، مزید معلو مات حاصل کر نے کے لئے اس کتاب کا مقدمه ملاحظه هو[12]-
گنابادی نے اس تفسیر میں عقائد ، ایمان اور کفر سے مربوط آیات کو ولایت سے تفسیر کر نے کی کوشش کی هے اور اس میں حضرت علی علیه السلام اور ان کی اولاد کے حق میں پورا اهتمام کیا هے، ان کی نظر میں خدا پر ایمان، عین ولایت پر ایمان هے اور ولایت کا انکار خدا کا انکار هے-
اسی وجه سے بعض افراد گنا بادی پر غلو کا الزام لگاتے هیں اور کهتے هیں که آیات کی تفسیر میں بعض جهگوں پر وه اعتدال سے خارج هوئے هیں اور اس کا کلام غلو سے شباهت رکهتا هے – مثال کے طور پر آیه " ومن الناس من یقول آمنا با الله [13]" میں " الله" کو " علی" کی تفسیر کی هے –
اگر چه ممکن هے کها جائے : " جو کچھـ گنا بادی نے آیات کی تفسیر میں بیان کیا هے وه ان عرفانی عقائد پر مبنی هے جو حضرت علی علیه السلام کو خدا وند متعال کا مظهر جانتے هیں – پس ان کی نظر میں ان آیات کے مجازی معنی مد نظر هیں یعنی ظاهری ذکر سے مظهر کا اراده کیا هے-
لیکن اس قسم کی تاویل ( لفظ " الله" سے " علی" مراد لینا) کے بارے میں لگتا هے تهوڑا اعتدال سے خارج هو نا هے اور اسے روایات کے ذریعه استدلال نهیں کیا جاسکتا هے[14]-
لیکن ایک بنیادی نکته کی طرف توجه کی جانی چاهئے ، اور وه یه هے که عرفان کی پوری تاریخ میں همیشه بعض لوگوں نے اپنے ناپاک عزائم تک پهنچنے کے لئے عرفا کے بیانات کی غلط تعبیرات کی هیں ، ایسے افراد کے مقاصد مسلمانوں کی صفوں مین اختلاف ایجاد کر نا، نوجوانوں کو گمراه کر نا اور اپنے غلط اعمال کی توجیه کر نا هو تا هے- اس لئے ممکن هے کچھـ لوگ گنابادی کے کلام سے ناجائز فائده اٹهائیں اور لوگوں میں اختلاف پیدا کر نے کے لئے اور بعض لوگوں کو گمراه کر نے کے لئے بعض افراد کو اکسائیں – اس کے علاوه ایک انسان جس قدر عظمت اور اعتبار کا مالک هو، پهر بهی اس کے طرز تفکر کے بارے میں تنقید کر نے کی گنجائش هو تی هے اور اس سلسله میں همارا معیار معصومین علیهم السلام کے فر مائشات هیں –
مزید معلو مات حاصل کر نے کے لئے درج ذیل منابع ملاحظ هوں :
١- کتاب تفسیر " بیان السعادۃ " کا مقدمه، تالیف سلطان محمد گنابادی-
٢- " چوتهی صدی حجری میں علم وعرفان کا نابغه "، تالیف: حسین نابنده گنابادی-
٣-"طریقت وعرفان کے قائدین"، تالیف: حاج میرزا محمد باقر سلطان، ص٢٣٥کے بعد-
٤- " الذریعه الی تصانیف الشیعه " ،تالیف : آقا بزرگ طهران، ج٣-
[1] - دایرۃ المعارف فارسی ،( غلامحسین مصاحب) ،ج١،ص١٣٢٥، دایرۃ المعارف شیعه، ج٩ ( بهاء الدین خرمشاهی- کامران خانی- سید جوادی)-ص ٢٥٣-
[2] - حسن الامین ،دایرۃ المعارف اعیان الشیعه ، ج٣،ص ٨٤ تا ٨٧، طبع بیروت-
[3] - محمد علی مدرس ،ریحانه الادب ،ج١،ص٤٣١-
[4] - مکارم الآثار ، ج٤،ص١٣٨٤( معلم حبیب آبادی، در احوال رجال قرن ١٣ و١٤)-
[5] - امام خمینی (رح) تفسیر سوره حمد ،ص٩٣-
[6] - میرزا نائب الصدر شیرازی معصوم علیشاه ، طرائق الحقائق ،ج٣،ص٢٥٢ ،طبع رحلی-
[7] - تسنیم ،ج٢،ص١٤٧ و٢٢٤ و٦٠١-
[8] - عقیقی بخشایشی ، طبقات مفسرین شیعه ،ج٤،درباره تفسیر بیان السعادۃ-
[9] - آقا بزرگ طهرانی ،الذریعۃ الی تصانیف الشیعه ،ج٣،ص١٨٢-
[10] - مقد مه تر جمه کتاب بیان السعادۃ،ص٧٩-
[11] - الذریعه ،ج٤،ص٤٤٩-
[12] - مقد مه تر جمه کتاب بیان السعادۃ ،ص٧٨- یه کتاب ڈاکٹر سید جعفر شهیدی کی تقریظ کے ساتھـ شائع هوئی هے-
[13] سوره بقره، ٨-
[14] - جیسے یه روایت : محمد بن یحیی عن احمد بن محمد عن ابن محبوب عن الحسین بن نعیم الصحاف قال سآ لت ابا عبدالله ع عن قول الله عزوجل فمنکم کافر و منکم مٶمن ، فقال عرف الله ایمانهم یولا یتنا وکفرهم بها یوم اخذ علیهم المیثاق فی صلب آدم ع وهم ذر ،اصول کافی ،ج١،ص٤٣١-