Please Wait
7184
شیعوں کے ضروری مذهبی عقیده کے مطابق- جو بهت سی آیات اور روایات نبوی(ص) سے ماخوذهے- امامت ایک الهی منصب هے –اس لحاظ سے اگر خدا کی طرف سے کسی شخص کے اس مقام پر نصب هونے کی تصدیق هو جائے، تو ایک مسلمان کو کسی چون و چرا کے بغیر، اطاعت طور پر، اس شخص کے احکام اور ولایت کے سامنے سر تسلیم خم کردینا چاهئے – کیونکه خدائے حکیم ومتعال" سب سے آگاه تر هے که رسالت و امامت کس کو عطا کرے-" [i]خدا وند متعال کی طرف سے کسی شخص کے اس مقام پر منصوب هو نے کی تصدیق کئی طریقوں سے حاصل هو سکتی هے:
١- روایات پیغمبرصلی الله علیه وآله وسلم-
٢-ائمه اطهار (ع)خاص کر ، ماقبل امام کی طرف سے تعارف اور تقرر۔
٣-امامت کی دوسری شرائط کا حامل هو نا، جیسے: علم لدنی ، هم عصر لوگوں میں اعلم هونا، عصمت، جسمانی و روحانی و نفسانی طور پر سالم و معتدل هو نا اور معجزه و غیر معمولی کام کو انجام دینا-
کم عمر اماموں – یعنی ٨ساله امام جواد(ع) ،٩ساله امام هادی(ع)، ٥ساله امام مهدی (ع) - کے هم عصرشیعه، ان امور سے غافل نهیں تھے بلکه انهوں نے کافی جستجو اور تحقیق کر کے ان کی امامت کے بارے میں مکمل یقین حاصل کر نے کے بعد هی ان کی ولایت و امامت کے سامنے سر تسلیم خم کیا هے- بعد والی نسلیں بھی ،تاریخ، پر اپنی تحقیقات پر اور منقول نصوص پر اعتماد کرتی هیں – دوسری جانب ،امامت کے مقام ومنصب اور ائمه اطهار(ع) کی نسبت غیبی و الهی تائیدات اور ان کی طرف سے غیر معمولی کام انجام دینے کے پیش نظر عام انسانوں سے ان کا موازنھ اور مقائسھ درست نهیں هیں - اس کے علاوه قرآن مجید پر اعتقاد- رکھنے والے ایک مسلمان کے لئے، ایک کم سن بچے کو خدا کی طرف سے حکمت، علم و عنایت پر مبنی کوئی مقام و منصب عطا کر نا تعجب انگیز نهیں هو نا چاهئے ، کیونکه حضرت عیسی(ع) ، حضرت یحیی(ع) اور حضرت سلیمان (ع) کی نبوت بھی ان کی کم سنی میں ثابت هو چکی هے –اسی لئے ائمه اطهار علیهم السلام کی طرف سے ان پر دلالت کر نے والی قرآن مجید کی آیات کو مکرر طور پر گواه کے عنوان سے پیش کیا جاتا رها هے-
شیعوں کے عقائد کے مطابق، ولی الله کی ولایت تمام انسانوں پر حاوی هے - [1]دوسرے الفاظ میں ، امامت، لوگوں کے دین و دنیا کو نظم و انتظام بخشنے اور انهیں سعادت و انسانیت کے عروج تک هدایت کر نے کا ایک الهی منصب هے- اس لئے امام، لوگوں کے توسط سے نه پھچنوایا جاتا ھے نه منتخب ھوتا هے، کیونکه علم لدنی و باطنی عصمت، ایسے مخفی امور هیں، که خدا کے سوا کوئی اور ان سے آگاه نهیں هے اور یه دوچیزیں ولی الله هو نے کے لئے اهم ترین لوازم میں سےهیں-
ایک موحد انسان، جس نے خدا وند متعال کی ولایت کو قبول کیا هو ، وه هر لحاظ سے اپنے پرور دگار کے اوامر و نواهی کا مطیع اور فر مانبردارهو تا هے – پس خدا وند متعال کی طرف سے معین ومقرر کئے گئے ولی و امام کی ولایت کو قبول کر نے میں بھی مکمل طور پر مطیع اور فر مانبردار هو نا چاهئے اور ان کی ولایت کے سامنے بھی سر تسلیم خم هو نا چاهئے اور ان کا دوسروں کے ساتھـ موازنه کر نے اور بے بنیاد چون وچرا کرنے سے اجتناب کر نا چاهئے-خداوند متعال کی طرف سے منصوب کئے گئے امام و والی کو پهچاننا چند طریقوں سے ممکن هے:
الف) منصوب امام کی سیرت اور اس کے طرز عمل کی تحقیق کرنا-
ب) ماقبل ولی اور امام کی طرف سے اپنے ما بعد امام کے بارے میں بیان کی گئی خصو صیات اور نشانیوں کی طرف رجوع کر نا-
ج) معجزه کا مطالبه کرنا اور امامت کے لئے ضروری شرائط کے وجود کی تحقیق کر نا- اس سلسله میں سیرت اور تاریخ کی طرف رجوع کر کے پیش نظر امام و ولی کے حالات اور اس کی سیرت کے بارے میں معلو مات حاصل کئے جاسکتے هیں اور روایات سے مر بوط منابع کا مطالعه کر کے ، پیغمبر اکرم (ص)کی طرف سے اس سلسله میں نقل کی گئی روایتوں کو حاصل کیا جاسکتا هے اور اس کے بعد هر امام کی روایتوں کا مطالعه کر کے اس کے بعد آنے والے امام کو پهچانا جاسکتا هے – ائمه هدی (ع) اپنی زندگی کے دوران اور حتی که اپنی شهادت کے بعد بھی هر دور میں کرامتوں اور معجزات کے حامل هو تے هیں –ان کی طرف رجوع کر نے والوں کے لئے ان غیر معمولی امور کا واقع هو نا اس قدر زیاده هے که ان کا شمار نهیں کیا جاسکتا هے اور حقیقت کے هر متلاشی کے لئے یه امر قابل تجربه هے-
نتیجه یه که، مقام ولایت کی تصدیق کے لئے کسی خاص عمر کی شرط نهیں هے ، بلکه اس سلسله میں اسے پیدائش سے هی، ضرورت کے مطابق روحان ی، علمی اور فکری بلوغ، خدا دادصورت میں ، عطا کیا جاتا هے اور یه بذات خود ایک غیر معمولی امر هے، جو اس کی امامت کا ثبوت هے نه یه که اس کی امامت میں خلل پیدا کر نے والی کوئی چیز-
یھ واضح هے که ظاهری اور کوتاه بین نگاه کے مطابق ، بزرگوں، عالموں ، بوڑهوں اور جوانوں وغیره کے لئے ایک کم سن بچے کی ولایت کے سامنے سرتسلیم خم کر نا دشوار هے اور سن وسال کے لحاظ سے بزرگ اولیاء کی به نسبت اس قسم کی ولایت کو قبول کر نا عام لوگوں کے لئے مساوی نهیں هے – چھوٹی عمر میں امامت کے منصب پر فائز هو نے والے ائمه، کے هم عصر لوگوں کے لئے بھی یه امر مستثنی نهیں تھا ، چونکه امام جواد علیه السلام ٨سال کی عمر میں امامت پر فائز هوئے، امام هادی علیه السلام ٩سال کی عمر میں اور مام مهدی عجل الله تعالی فرجه الشریف٥سال کی عمر میں امامت کے منصب پر فائز هوئے ، اس لئے ان کے هم عصر لوگوں کے لئے بھی یه مسئله آسان نهیں تھا –امام رضا علیه السلام کی خد مت میںیهی سوال اور شبهه پیش کر کے لوگ وضاحت چاهتے تھے مثال کے طور پر مندرجه ذیل احادیث سے استشهاد کیا جاسکتا هے:
" حسن بن جهم سے روایت کی گئ هے که اس نے کها: میں حضرت امام رضاعلیه السلام کی خد مت میں تھا ، حضرت جواد علیه السلام بھی ، جو اس وقت ایک چھوٹے بچے تھے، حضرت علیه السلام کی خد مت میں حاضر تھے ایک طولانی گفتگو کے بعد حضرت رضا علیه السلام نے مجھـ سے فر مایا : اے حسن! اگرمیں تم سے کهوں که یه بچه تمھارا امام هو گا تو تم کیا کهو گے ؟ میں نے عرض کی : آپ(ع) پر قربان هو جاٶں ، جو کچھـ آپ(ع) فرمائیں گے ، میں بھی وهی کهوں گا – امام (ع) نے فر مایا : "صحیح کهتے هو" اس کے بعد امام رضا علیه السلام نے امام جواد(ع)کے کاندهے سے لباس هٹا کر دو انگلیوں کے مانند ایک رمز مجھے دکھا یا اور فر مایا: " حضرت موسی بن جعفر(ع) کے بدن پر بھی ، اسی جگه پر یهی رمز موجود تھا-" اس کے علاوه محمودی سے بھی روایت نقل کی گئی هے که اس نے کها :" میں طوس میں حضرت امام رضا علیه السلام کی خد مت میں تھا-حضرت(ع)کے اصحاب میں سے ایک نے کها : " اگر حضرت(ع)کے لئے کوئی حادثه پیش آئے توآپ(ع) کے بعد خدا کا منتخب امام کون هو گا؟!
حضرت(ع) نے اس کی طرف ایک نظر ڈال کر فر مایا : " میرے بعد امر رسالت کے سلسله میں ، میرے بیٹے حضرت جواد(ع) کی طرف رجوع کیا جانا چاهئے –" سائل نے کها : امام جواد (ع) کی عمر توکم هے ؟! حضرت امام رضا علیه السلام نے فر مایا : "خداوند متعال نے حضرت عیسی بن مریم کو پیغمبری کے مقام پر مبعوث فر مایا ، جبکه ان کی عمر امام تقی علیه السلام سے بھی کم تر تھی-" [2]
لیکن امام رضا علیه السلام کے بعض شیعوں نے ، خدشات کے پیش نظر ،نصوص کی موجود گی کے باوجود ، بعد والے امام کی تلاس وکوشش اور ان کو پهچاننے کا اقدام کیا ، اس لئے " ان میں سے بعض امام رضا علیه السلام کے بھائی عبدالله بن موسی کے پیچھے گئے، چونکه وه دلیل کے بغیر کسی کی امامت کو قبول کر نے کے لئے آماده نهیں تھے ، اس لئے ان میں سے بعض نے ان سے چند سوالات کئے اور جب ان کو اپنے سوالات کا جواب دینے میں بے بس پایا، تو ان سے دوری اختیات کی[3]" ، کیونکه جس چیز کی اهمیت تھی ، وه اس مظهر الهی کا ظاهر هو نا تھا جو اماموں کے علم ودانش میں هو نا چاهئے تھا...اس لئے وه تمام اماموں کے بارے میں اس اصول کی رعایت کرتے تھے اور ان سے مختلف قسم کے سوالات کرتے تھے اور صرف اس وقت شیعوں کی طرف سے امام معصوم کے عنوان سے پهچانے اور قبول کئے جاتے تھے ، جب وه (اپنی امامت کے بارے میں نص کے باوجود) ان کے سوالات کا بخوبی جواب دینے میں کامیاب هو تے تھے- [4] کم عمر والے امام بھی اس امر سے مستثنی نهیں تھے ، اور شیعوں کی بزرگ شخصیتوں کی طرف سے ان کے بارے میں باریک بینی سے تلاش وجستجوکی گئی هے اور انھوں نے ان کی علمی توانائیوں ، کرامتوں اور معجزوں کا مشاهده کر نے کے بعد یقیین پیدا کیا ھے۔
دوسری جانب سے ائمه اطهار(ع) کے دشمن، جو همیشه ان کو عضو معطل کر نے اور ان کے اطراف سے شیعوں کو پرا گنده کر نے کی کوششوں میں لگے رهتے تھے، بیکار نهیں بیٹھے تھے، بلکه انهوں نے علمی اجتماعات وغیره تشکیل دے کر ان اماموں کی کم عمری کا بهانه بناکر ان کو معاشرے سے بالکل حذف کر نے کی زبر دست کوششیں کیں – لیکن انهوں نے اس سلسله میں جس قدر بھی کو شش کی، خود رسوا هو کر ره گئے اور اس کے بر عکس اماموں کی اعلمیت تمام معاصر علماپر زیاده سے زیاده واضح اور ثابت هوئی- [5]
مذکوره مطالب کے علاوه قرآن مجید اور انبیاء علیهم السلام کی داستانوں سے شغف رکھنے والوں پر یه امر مخفی نهیں هے که بعض انبیاء علهیم السلام بهت هی چھوٹی عمر میں نبوت و رسالت کے مقام پر فائز هو چکے هیں ، بلکه امامت کے مقام تک بھی پهنچے هیں، جیسے: حضرت عیسی (ع)[6] و حضرت یحیی(ع)[7] وغیره، جبکه اکثر انبیاء علیهم السلام ادھیڑ عمر میں ، یعنی چالیس سا ل کی یا اس سے زیاده عمر میں اس مقام پر مبعوث هوئے هیں-
لهذا اس امر کو حکمت وعلم الهی سے مربوط جاننا چاهئے اور تشخیص کے مرحله میں قرائن، ادله اور شواهد کی طرف رجوع کر نا چاهئے- چنانچه قرآن مجید میں ارشاد فر ماتا هے: " (پیغمبر) آپ کهئے که خدا یا !تو صاحب اقتدار هے جس کو چاهتا هے اقتدار دیتا هے اور جس سے چاهتا هے سلب کرلیتا هے ، جس کو چاهتا هے عزت دیتا هے اور جس کو چاهتا هے ذلیل کر تا هے – سارا خیر تیرے هاتھـ میں هے اور توهی هر شے پر قادر هے-"[8]اور بنی اسرائیل کے شبهه اور جواب کی قرآن مجید یوں تشریح کرتا هے : "ان کے پیغمبر نے کها که الله نے تمهارے لئے طالوت کو حاکم مقرر کیا هے – ان لوگوں نے کها که: یه کس طرح حکومت کریں گے ، ان کے پاس تو مال کی فراوانی نهیں هے ، ان سے زیاده تو هم هی حقدار حکو مت هیں – نبی نے جواب دیا که: انهیں الله نے تمهارے لئے منتخب کیا هے اور انهیں علم و جسم میں وسعت عطا فر مائی هے اور الله جسے چاهتا هے اپنا ملک دیتا هے که وه صاحب وسعت بھی هے اور صاحب علم بھی – اور ان کے پیغمبر نے یه بھی کها که ان کی حکو مت کی نشانی یه هے که یه تمهارے پاس وه تابوت لے آئیں گے جس میں پروردگار کی طرف سے سامان سکون اور آل موسی اور آل هارون کا چھوڑا هوا ترکه بھی هے – اس تابوت کو ملا ئکه اٹھائے هوئے هوں گے اور اس میں تمهارے لئے قدرت پروردگار کی نشانی بھی هے اگر تم صاحبان ایمان هو-"[9]
اس بناپر، امام زمانه عجل الله تعالی فرجه الشریف کی سن طفولیت میں امامت کے منصب پر فائز هو نے کے سلسله میں کسی قسم کا منفی پهلو نهیں پایا جاتا هے-
مطالعه کے لئے منابع و ماخذ:
١- فاضل،جواد، معصومین١٤ گانه-
٢- پیشوایی ، مهدی، سیره پیشوایان،ص٥٥٥- ٥٣١-
٣- نجفی،محمد جواد، ستار گان درخشان ، ج١١ و١٤، ج ١١، ص٢٥- ٢٢، ج١٤، ص٦٩- ٦٧-
٤- جمعی از نویسندگان ، معارف اسلامی ، ج٢، معارف( نهاد رهبری در دانشگاه ها، ص١٢٣- ١٢٢-
٥- قمی ، شیخ عباس ، منتهی الامال ، ص٩٥٥- ٩٤٣-
٦- جعفر یان ، رسول، حیات سیاسی و فکری ، انصاریان ، چ ١٣٨١قم، ص٤٧٣- ٤٧٢-
٧- عاملی ، جعفر مرتضی ، ترجمه حسینی، سید محمد، زندگانی سیاسی امام جواد(ع) ،ص١٠٩-٦٨-
[1] - ملاحظه هو: اشاره: معنای ولایت ، سوال نمبر ١٢٨-
[2] - نجفی ، محمد جواد، ستا ره گان درخشان، ج ١١{سر گزشت حضرت امام محمد تقی(ع)} ص ٢٤- ٢٥-
[3] - جعفر یان ،رسول، حیات فکری وسیاسی امامان شیعه(ع) ،ص٤٧٣-
[4] - جعفر یان ، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه(ع) ،ص٤٧٤-
[5] - ملا حظه هو: شیخ عباس قمی، منتهی الامال، ص٩٤٣- ٩٥٥، ونیز عاملی ، جعفر مرتضی ، ترجمه حسینی، سید محمد، زندگانی سیاسی امام جواد(ع)، ص٦٨- ١٠٩-