Please Wait
12515
اگرچه بیان کی گئی روایت سند کے اعتبار سے ضعیف هے لیکن اس سلسله میں جو دوسری روایات هیں وه اسکی سند کے ضعف کو ختم کر رهی هیں متن ومعنی کے اعتبار سے یه روایت اس ثروت کی ذخیره اندوزی کی طرف اشاره کر رهی هے جو غیر شرعی راستوں سے حاصل هوتی هے یا جس میں مالی واجبات ادا نهیں هوئے هیں جیسے خمس ، زکات و غیره کی ادائگی نهیں کی گئی هو ۔
اسلا م میں شرعی حدود کی رعایت کرتے هوئے ثروت کو وجود میں لانا اور مال یا سرمایه اکھٹا کرنا جایز هے مال اور ثروت کا رکھنا اسلام کی نظر میں برا نهیں هے ، بلکه دنیا پرستی اور دنیا کی آخرت پر ترجیح اچھا عمل نهیں هے ۔
مال و ثروت کو ایک وسیله کی حیثیت سے دیکھنا چاهیے جو اخروی سعادت کو حاصل کرنے کا ایک ذریعه هے اگر اس نظر سے مال و ثروت کو دیکھا جائے تو حصول مال ، طلب دنیا شمار نهیں هوگا بلکه یه بھی طلب آخرت هے ۔
جهاں تک علماءکی بات هے تو یهاں بھی محض انکے مالدار هونے میں کوئی برائی نهیں هے لیکن اس صنف سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی دنیا سے محبت اور دنیا کی طرف ان کی رغبت بهت زیاده نا پسند سمجھی گئی هے اور اسلامی تعیلمات نے بھی لوگوں کو دنیا پرست علماءسے دور رهنے کی دعوت دی هے نه که ان علماءسے جو دولت مند هیں ۔( دنیا پرستی اور صاحب ثروت هونا دو الگ الگ چیزیں هیں)
1- روایت کا جائزه :
بیان کی گئی روایت حضرت امیر المومنین علیه السلام سے بعض کتابوں میں یوں نقل هوئی هے :
1۔ میں نے کهیں نعمتوں کی ارزانی نهیں دیکھی مگر یه که اسکے ساتھ کسی کاحق ضایع هوا هو۔[1]
یه روایت احادیث کی معتبر کتب میں نهیں پائی جاتی اور جس کتاب میں نقل هوئی هے وهاں بھی سند کے بغیر هے ، لهذا سند کے لحاظ سے ضعیف هے ، لیکن دیگر روایات کو دیکھتے هوئے جیسے ذکر هونے والی بعد کی روایت ، جو تقریبا اسی مضمون و مطلب کو بیان کر رهی هے اسکی سند کا ضعف دور هو جاتا هے ۔
2۔ خدائے متعال نے صاحب حیثیت لوگوں کے اموال میں ناداروں کے رزق کوواجب کیا هے پس کوئی فقیر بھوکا نهیں رهے گا مگر یه که تونگر اور صاحب ثروت نے اس تک اسکا رزق نهیں پهونچایا هے روز قیامت خداوند متعال تونگر سے بازپرس و مواخذه کرے گا ۔ [2]
یه روایت پهلی روایت کی به نسبت زیاده معتبر هے اور نھج البلاغه ، وسائل الشیعه ، بحار الانوار، غرر الحکم ، اور ارشاد القلوب جیسی مختلف احادیث کی کتابوں میں نقل هوئی هے ۔
ان تمام چیزوں کے علاوه یه بات بھی هے که اگر یه تمام روایات اپنی جگه صحیح هوں تب بھی ان میں مال سے مراد وه مال هے جس پر شرعی حکم نافذ هوتا هے جیسے خمس ، زکات، جن کو ادا نه کیا جائے یه روایات لوگوں کو ان کے ذمه واجب اموال کو ادا کرنے کی دعوت دے رهی هیں ۔
2- اسلام میں مال اور دولت :
اسلامی مآخذ میں مال و ثروت کے سلسله میں وارد هونے والی دو طرح کی روایتیں همیں نظر آتی هیں : روایات کی ایک قسم وه هے که جهاں منفی نقطه نظر سے مال کو دیکھا گیا هے ، چنانچه حضرت علی علیه السلام فرماتے هیں :
میں مومنین کا پیشوا هوں اور مال گنهگاروں کا رهبر و پیشوا هے[3] یعنی مؤمنین میری پیروی کرتے هیں لیکن گناه کار مال و ثروت کے مطیع هیں ۔
اسی طرح آپ فرماتے هیں : مال ،شهوات کی جڑ هے [4]
جو بھی درهم و دینار کو دوست رکھتا هو وه دنیا کا بنده هے [5]
رسول خدا (صل الله علیه و آله وسلم) فرماتے هیں : جو بھی درھم و دینار کا بنده هو وه ملعون هے اور رحمت خدا سے دور هے [6]
اسکے برخلاف اسلامی متون میں دوسری قسم کی روایات وه هیں جن میں مال ، ثروت ، اور دنیا کی مدح کی گئی هے هم قرآن میں پڑھتے هیں مال اور فرزند دنیاوی زندگی کی زینت هیں [7]اسی طرح ثروت کو چند مقامات پر خیر کها گیا هے جیسے اس آیت میں ” کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیراً[8]
اسی طرح بهت سے مفسرین نے خیر کو ذیل کی آیه کریمه میں مال کے معنی میں لیا هے ” انه لحب الخیر لشدید [9]
رسول خدا (صل الله علیه و آله وسلم) فرماتے هیں : پاک و صالح انسان کے لئے پاکیزه مال کتنا اچھا هے [10] امام باقر علیه السلام فرماتے هیں آخرت کے حصول کے لئے دنیا کی مدد کتنی اچھی هے [11] ان دو طرح کی روایات میں دقت اور غور و فکر سے یه بات واضح هوتی هے که اسلام میں محض مال اور ثروت کا هونا برا نهیں هے بلکه آخرت تک پهنچنے کا وسیله هونے کے اعتبار سے یه ممدوح اور مورد پسند هے ، اسی بنا پر جب حضرت علی علیه السلام نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو دنیا کی مذمت کر رها تھا تو فرمایا : کیا تو نے دنیا میں کوئی جرم کیا هے یا دنیا نے تیرے ساتھ جفا کی هے [12] اسلام میں حصول مال نه صرف یه که مذموم نهیں هے بلکه بعض جگهوں پر واجب هے ، جس چیز کی مذمت کی گئی هے وه خدا پرستی کے مقابل مال پرستی هے ، دین اسلام میں مال اخروی سعادت تک پهنچنے اور قرب خدا حاصل کرنے کا ذریعه هے نه که خود هدف و مقصد ۔[13]
قرآن کریم میں هم پڑھتے هیں : ائے ایمان لانے والو خبر دار تمهارے اموال اور تمهاری اولاد تمهیں یاد خدا سے غافل نه بنا دیں ۔[14]
”شهید مطهری “فرماتے هیں : اسلام میں مال اور دولت کو کبھی بھی حقارت کی نظر سے نهیں دیکھا گیا هے ، نه مال کی پیداوارو کونه اس کے مبادله کو اور نه هی اس کے مصرف کو بلکه ان سب کی اسلام نے تاکید کی هے اور ان کاموں کے لئے شرائط اورمعیار مقرر کئے هیں اسلام هرگز دولت اور ثروت کودور کرنے اور ان سے هاتھ جھاڑنے کی بات نهیں کرتا هے بلکه اسلام جس چیز سے خود کو دور رکھنے کی بات کرتا هے وه اسراف و فضول خرچی هے ،تبذیر اور مال کی بربادی هے جو که قطعا حرام هے ۔ [15]
مال سے دفاع جهاد کے حکم میں قرار دیا گیا هے اور اس راه میں قتل هو جانے کا اجر شهادت کے درجه پر فائز هونے کا اجر هے ۔ [16]
3- اسلام میں ثروت کی پیداوار ۔
اسلام نے مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے انکے انفرادی اور اجتماعی دونوں پهلوؤں کے مدنظر ثروت پید اکرنے کی دعوت دی هے رسول خدا فرماتے هیں : حلال رزق کا حصول هر مسلمان مرد اور عورت پر واجب هے [17] اس حدیث میں مرد اور عورت دونوں کے ثروت کی پیداوار کے سلسله میں مساوی طور پر ذکر هونے سے یه سمجھ میں آتا هے که ثروت کی پیداوار صرف مردوں سے مخصوص نهیں هے ، اسی طرح رزق حلال حاصل کرنے کو عبادات میں افضل شمار کیا گیا هے [18]
سماج کی حیات اور اس کا تحرک اسکے اقتصادی استقلال اور ثروت مند هونے میں هے نیاز مندی اسارت اور غلامی کے برابر هے چنانچه حضرت علی علیه السلام فرماتے هیں : فقر اور تنگدستی سب سے بڑی موت هے [19] اسلام هرگز اس بات کی اجازت نهیں دیتا هے که غیر مسلمان مسلمان پر تسلط رکھے ۔[20]
اسلام کا یه مقصد که کوئی ان پر مسلط نه هو سکے اس وقت پورا هو سکتا هے جب مسلمان بیگانو ں کی طرف اپنے هاتھوں کو نه پھیلائیں اور اقتصادی اعتبار سے خود مستقل رهیں ثروت کی پیداوار اس مقصد کے حصول کے اسباب فراهم کرتی هے ۔ شهید مطهری کے بقول ” اسلامی مقاصد بغیرصاف ستھرے اقتصاد اور بغیر مستقل اقتصادی طاقت کے پورے نهیں هو سکتے[21]
اسلام میں ثروت کی پیداوار کے لئے مختلف قسموں جیسے زراعت ، جانور پالنا ، صنعت ، وغیره کے سلسله میں سفارش کی گئی هے ۔ پیغمبر اسلام کھیتی باڑی کرنے والے کسان کے کھردرے اور سخت هاتھوں کو چومتے تھے یه امر اسلامی سماج میں پیداوار کی اهمیت کو بیان کرتا هے ۔
معصومین علیهم السلام کی سیرت کی طرف رجوع کرنے سے همیں معلوم هوتا هے که یه مقدس هستیاں بھی ثروت کی پیداوار کے سلسله میں جدو جهد کرتی تھیں ، روایت میں هے که امیرالمومنین علیه السلام کی زراعت سے حاصل هونے والی آمدنی 40 هزار دینار تھی [22] ، ایک اور روایت میں نقل هوا هے که” فدک “کی ایک سال کی آمدنی چار هزار دینار تھی اور دوسری روایت میں اسی آمدنی کو ستّر هزار دینار بیان کیا گیا هے [23]
اسلام میں ثروت کی تقسیم :
ثروت کی پیداوار کے بعد دوسرا مرحله معاشرے میں عدالت و توازن کے ساتھ اس کی تقسیم کرنا هے اسلام کے اقتصادی نظام میں دو چیزوں کو اصلی مقصد کے عنوان سے پیش کیا گیا هے ۔ 1- معاشرے کے اندر اقتصادی عدالت کا قیام ۔ 2- معاشرے کے باهر ایک اقتصادی طاقت کے روپ میں ظاهر هونا [24] امام صادق علیه السلام فرماتے هیں اگر لوگوں کے درمیان عدالت قائم هو جاتی تو لوگ بے نیاز هو جاتے ۔ [25]
قرآن کریم کا ارشاد هے : تاکه سارا مال محض دولت مندوں کے هاتھوں میں هی گھومتانه ره جائے [26] بلکه ضرورت مندوں تک اس کا پهنچنا ضروری هے چنانچه اسلام میں مختلف مالی احکام وضع کئے گئے جیسے زکات ، خمس ، صدقه ، تاکه معاشره کی ثروت فقرا تک بھی پهونچ سکے اور سماج کے افراد ایک سطح پر اقتصادی ترقی حاصل کر سکیں اور ان کے درمیان طبقاتی شگاف کم سے کم هو جائے اور سر انجام ختم هو جائے ۔
اسلام میں ثروت کا حصول اور مال اندوزی :
اگر کوئی شرعی قوانین کے دائره میں ره کر مالدار هوتا هے تو اس میں اسلام کی نظر میں کوئی برائی نهیں هے ، اسلام ثروت کی عادلانه تقسیم کے لئے جس طریقه کار کو پیش کرتا هے وه ثروت اور دولت حاصل کرنے والے صاحب صلاحیت افراد کو انکی راه میں آگے بڑھنے سے نهیں روکتا بلکه ان کے لئے کچھ مالی وظائف اور قوانین معین کرتا هے [27] قرآن کریم جهاں حضرت سلیمان علیه السلام حضرت داود علیه السلام اور ذوالقرنین علیه السلام جیسی دولت مند شخصیتوں کا ذکر کرتا هے جو اهل ایمان تھے وهیں اسکے مقابل قارون جیسے کافر ثروت مند شخص کا بھی تذکره کرتا هے قرآن کریم میں هم پڑھتے هیں :”تمهیں کثرت مال و اولاد کے باهمی مقابله نے غافل بنا دیا یهاں تک کے تم نے قبروں سے مالاقت کر لی“ ۔ [28]
مال اندوزی اگر انسان کو یادخدا سے غافل کر دے تو مذموم و بری هے اور اسلام نے ایسے مال کی جمع آوری سے روکا هے ، ثروت سے دل لگانا اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دینا صحیح نهیں هے،
لیکن اگر یهی ثروت راه خدا میں صرف هو تو بهت پسندیده هونے کے ساتھ قابل تعریف هے جناب خدیجه علیھا السلام ان ثروت مندوں میں تھیں جنهوں نے اپنے مال کو اسلام کی ترقی اور اس کی تبلیغ و ترویج اور توسیع کے لئے صرف کر دیا
قرآن کریم نے بھی ان لوگوں کو دردناک عذاب سے ڈرایا هے جو مال کو جمع کرتے هیں لیکن اس کو راه خد امیں صرف نهیں کرتے” اور جو لوگ سونے چاندی کا ذخیره کرتے هیں اور اسے راه خدا میں خرچ نهیں کرتے پیغمبر آپ انهیں درد ناک عذاب کی بشارت دے دیں “[29]اسی آیت کے مفهوم کو پیغمبر اسلام ( ص) یوں بیان فرماتے هیں : هر وه مال جسکی زکات ادا کر دی گئی هو اس آیت کا حکم اس کو شامل نهیں هے [30] اگر ثروت کی جمع آوری شرعی قوانین کے دائره میں هو اور وه احتکار کے زمره میں نه آئے اور اس کی مالی ذمه داریوں کو ادا کر دیا گیا هو جیسے زکات اور خمس تو ایسی ثروت کی پیداوار اور اس کی جمع آوری میں کوئی مضائقه نهیں هے ۔
ثروت اور علماء
بیان شده مطالب کی روشنی میں یه بات واضح هو جاتی هے که اگر کوئی عالم دین ثروت مند هو تو اس میں کوئی حرج نهیں هے ، جو کچھ مذموم هے وه عالم کا دنیا پرست هونا اور دنیا سے دل لگانا هے جب دنیا پرستی اور مال پرستی عام لوگوں کے لئے روا نهیں هے تو دین سے تعلق رکھنے والے علماءکے لئے تو اور بھی اچھی نهیں هے ، چنانچه حضرت عیسی علیه السلام سے نقل هوا هے که آپنے فرمایا : دینار دین کی بیماری هے اور عالم دین کا طبیب هے جب تم یه دیکھو که طبیب نے مرض کو خود سے چپکا لیا هے تو اسے متھم جانو اور اس سے بدبین هو جاﺅ اور یه جان لو که وه دوسروں کی بھلائی نهیں چاهتا هے [31]
اس دلنشین حدیث میں همیں نظر آتا هے که دنیا سے محبت اور دینی علماءکی دنیا پرستی کی مذمت کی گئی هے ۔
[1] شمس الدین ، محمد مهدی ، دراسات فی نهج البلاغه ، ص 40، بیروت ، دارالزهرا ، چاپ دوم ، 1392ھ ق / جرداق ، جارج ، روائع نھج البلاغه ، بی جا ، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیه ، چاپ دوم ، 1375، ص 233” ما رایت نعمة موفورة الا و بجانبه حق مضیع “
[2] سید رضی ، نهج البلاغه ، کلمات قصار ، ح 32 ” ان الله سبحانه فرض فی اموال الاغنیاءاقوات الفقراءفما جاع فقیر الا بما منع به غنی والله تعالی جده سائلھم عن ذالک “
[3] نھج البلاغه ، کلمات قصار ، ح 308 ” انا یعسوب المومنین والمال یعسوب الفجار “
[4] مجلسی ،محمد باقر ، بحار الانوار ، ج 69 ص 67 المال مادة الشهوات “
[5] ایضاّ ، جلد2، ص 107 ” من احب الدینار الدرھم فهوا عبد الدنیا “
[6] کافی ، جلد 2، ص 270 ”ملعون ملعون من عبد الدینار وا لدرھم
[7] کھف، 46، المال والبنون زینة الحیاة الدنیا
[8] بقره ِ 180
[9] العادیات،8۔
[10] بحار الانوار ، ج69، ص 59 ” نعم المال الصالح للرجل الصالح “
[11] کافی ، ج،5،ص 72 ”نعم العون الدنیا علی طلب الآخرة
[12] نهج البلاغه ، صبحی صالح ، خ 131
[13] رک: مکتب و نظام اقتصادی اسلام ، مهدی هادوی ، تهرانی ، ص108
[14] منافقین ، 9، یا ایھا الذین آمنوا لا تلھکم اموالکم ولا اولادکم عن ذکر الله
[15] مطهری ، مرتضی ، نظری به نظام اقتصادی اسلام ، ص 17 ، تهران ، صدرا ، بهار68 ، چاپ اول
[16] بحار الانوار ، ج، 10، ص 100” المقتول دون ماله شهید “
[17] جامع الاخبار ، ص 139” طلب الحلال فریضة علی کل مسلم و مسلمة “
[18] کافی ، ج 5، ص 78
[19] نهج البلاغه ، کلمات قصار ، ح 154 ” الفقر الموت الاکبر “
[20] نساء، 141، و لن یجعل الله للکافرین علی المومنین سبیلا
[21] مطهری ، مرتضی ، نظری به نظام اقتصادی اسلام ، ص 26 ، تهران ، صدرا بهار 68 ، چاپ اول
[22] قمی ، شیخ عباس ، سفینة البحار ، ج، 8،ص 137
[23] ایضاّ ص 138
[24] رک: هادوی تهرانی ، مهدی مکتب و نظام اقتصادی اسلام ، ص 56 ، قم ، خانه خرد ، چاپ دوم
[25] کافی ج ،1،ص541”لو عدل فی الناس لاستغنوا “
[26] حشر، 7، کی لا یکون دولة بین الاغنیاءمنکم
[27] هادوی ، تهرانی ، ایضا، ص 74
[28] تکاثر ، 1و2 الھاکم التکاثر حتی زرتم المقابر
[29] توبه ، 34 ، والذین یکنزون الذھب والفضة ولا ینفقونها فی سبیل الله فبشرھم بعذاب الیم
[30] وسائل الشیعه ، ج ،9 ص 30 ” کل مال یﺅدی زکاته فلیس بکنز “
[31] بحار الانوار ، ج،2، ص 107” الدینار داءالدین والعالم طبیب الدین فاذا رایتم الطبیب یجر الداءالی نفسه فاتھموه واعلموا انه غیر ناصح لغیره