Please Wait
10109
وجود کی دو قسمیں ہیں: وجود خارجی اور وجود ذہنی۔ عدم و نیستی کا وجود وجود خارجی کی صورت میں محال اور ناممکن ہے، کیونکہ اس طرح اجتماع نقیضین لازم آتا ہے۔ لیکن عدم کا وجود ذہنی کی صورت میں ہونا ممکن ہے۔ چنانچہ باری تعالیٰ کے شریک کا وجود، ذہنی ہے اور خارج میں ناممکن ہے کہ اس وجود سے کوئی استفادہ کیا جائے۔ دوسری جانب خداوندمتعال کے ثبوت کے برہان، خدا کا قدیم اور ازلی ہونا اور غیرخدا کے حادث ہونے کو بھی ثابت کرتا ہے۔
وجود کی کئی قسمیں اور مراتب ہیں۔ ایک تقسیم بندی کے مطابق وجود کو وجود خارجی اور وجود ذہنی میں تقسیم کیا گیا ہے[1]۔ وجود خارجی، یعنی خود شے خارج مِں موجود ہوتی ہے اور اس میں خارجی وجود کے تمام اثرات موجود ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آگ خارج میں موجود ہے، یہی خارج میں موجود آگ کے اپنے خاص اثرات، یعنی روشنی اور گرمی پائے جاتے ہیں، اس قسم کے وجود کو وجود خارجی کہتے ہیں۔ اب آپ اسی آگ کا ذہن میں تصور کیجئیے۔ تو آپ دیکھیں گے کہ آگ آپ کے ذہن میں موجود ہے، لیکن خارج میں موجود ہونے کے ساتھ اس کا فرق یہ ہے کہ اس سے متعلق اثرات یہاں پر نہیں پائے جاتے ہیں۔ یعنی ذہن میں موجود یہ آگ نہ جلاتی ہے اور نہ اس کی روشنی ہے۔ اس وجود کو وجود ذہنی کہا جاتا ہے۔ اور اس میں کوئی منافات نہیں ہے کہ ایک ناممکن امر ذہن میں ایک نفسانی کیفیت کے عنوان سے پیدا ہو جائے، لیکن خارج میں نہ ہو۔مثال کے طور پر ہم کہتے ہیں کہ خداوندمتعال کے لیے شریک کا وجود محال اور ناممکن ہے اور کبھی موجود نہیں ہوگا، جبکہ ہم اس پر بحث کرتے ہیں اور جس چیز پر بحث کرتے ہیں ، قطعاً اس کے وجود سے استفادہ کیا جاتا ہے، یہاں پر ہم کہتے ہیں کہ شریک باری تعالیٰ کا وجود خارج میں نہیں ہے، لیکن ذہن میں موجود ہے۔ اس بنا پر باری تعالیٰ کا شریک جو خارج میں ناممکن و محال امر ہے ، نفسانی کیفیت کے عنوان سے ذہنی وجود رکھتا ہے اور خود ممکن بالذات اور خداوندمتعال کی مخلوق ہے۔
پس، کلی طور پر جو کچھ ذہن میں آئے وہ ایک ذہنی امر اور ایک ذہنی اثر کے عنوان سے اپنی حد میں ایک ذہنی تصور ہے کہ نفسانی کیفیت کے عنوان سے وجود رکھتا ہے اور بہرحال انسان کے ذہن پر ایک بوجھ ہوتا ہے اگرچہ خارج میں ہرگز موجود نہ ہو۔
پس وجود و عدم کی سرحدیں واضح ہیں اور وجود یا خارجی ہوگا یا ذہنی اور اس کی کوئی تیسری قسم نہیں ہو سکتی ہے اور اس طرح واضح ہے کہ نیستی کے وجود ذہنی ہونے کے معنی ہیں نہ کہ خارجی وجود کے، اس بنا پر نیستی کا مفہوم بھی ایک ذہنی کیفیت کے عنوان سے دوسری تمام ذہنیات اور ذہنی کیفیات کے مانند اپنے لیے وجود رکھتا ہے اور اس کی اس سے کوئی منافات نہیں ہے کہ خارجی وجود نہ رکھتا ہو، کیونکہ اگر ہم یہ کہیں کہ نیستی کا خارجی وجود ہے تو اجتماع نقیضین لازم آئے گا، یعنی ایک چیز نیستی کے عنوان سے نہیں ہوگی اور وہی چیز وجود کےلحاظ سے موجود ہوگی اور اس قسم کی چیز عقل کے لحاظ سے ناممکن و محال ہے۔
دوسری جانب یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ تمام چیزیں اول سے موجود تھیں اور نتیجہ کے طور پر ہم اس طرح خداوندمتعال کے واحد ، قدیم اور ازلی ہونے کو زیر سوال قرار دیتے ہیں۔ حدوث عالم کو مختلف دلائل سے ثابت کیا جا سکتا ہے اور برہان امکان و وجوب ، کہ جس سے خداوندمتعال کا وجود ثابت ہوتا ہے، اسی پر مبنی ہے کہ خداوندمتعال کے علاوہ ہر چیز علل و اسباب کی محتاج ہے، یعنی کوئی چیز نہیںتھی اور ہوئی ہے۔