Please Wait
11374
" تزکیھ " یعنی نفس کو آلودگیوں اور ناپاکیوں سے پاک کرنا۔ قرآن مجید میں تزکیھ نفس (تصفیھ نفس) کی اھمیت کے بارے میں بھت سی آیات بیان ھوئی ھیں۔ لیکن اس بات کا خیال رکھنا چاھئے کھ خود سازی اور تزکیھ کا نقطھ آغاز مختلف افراد کیلئے مختلف ھے۔ جوابھی تک اسلام نھیں لایا، اس کے لئے پھلا قدم اسلام لانا ھے۔ مؤمنوں کیلئے نفس کو پاک کرنے کی جانب پھلا قدم تنبیھ اور بیداری ھے ، اور اس بات سے آگاه ھونا کھ اپنے نفس کو پاک کرنا ھے۔ اس کے ساتھه مختلف مسائل میں غور و فکر کرنا، جیسے میں کیوں خلق ھوا ھوں؟ کائنات کیوں خلق ھوئی ھے؟ خلقت کا مقصد کیا ھے ؟ اور انبیاء علیھم السلام کی بعثت کا مقصد کیا ھے؟ وغیره ، اس بیداری اور آگاھی کی افزائش کا سبب بنتا ھے۔
دوسرا قدم توبھ کرنا ھے۔ اپنے گزشتھ اعمال سے توبھ کرنا اور آئنده اس کی تلافی کرنے کا اراده کرنا، ان افراد کے حقوق کی تلافی جن کے حق کو ضائع کیا ھے۔ خدا کے حقوق کی ادائیگی جو ھمارے شانوں پر ھے۔
تیسراقدم: اپنے علم کے مطابق واجبات کو انجام دینا اور حرام کاموں سے دوری کرنا، جن واجبات کا علم ھے انھیں انجام دینا اور اس راه میں ثابت قدم رھنا۔ ان اعمال کو ھمیشه انجام دینے سے خداوند متعال ھمیں نئے علوم عطا کرتا ھے اور اس طرح ھم اپنے سیر و سلوک کی راه میں ترقی کرسکتے ھیں ۔
خداوند متعال نے قرآن کی بعض آیات میں ان بندوں کو جو اپنے نفس کے ساتھه جھاد میں مصروف ھیں ، اپنی حمایت کی بشارت دی ھے۔
قرآن مجید میں ، خود سازی کا مسئلھ " تزکیھ" اور "تزکّٰی" کے عنوان سے بیان ھوا ھے۔ جس کے لغوی معنی " اپنے آپ کو ناپاکیوں سے پاک کرنے " [1]کے ھیں۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں آلودگیوں سے پاک ھونے پر تاکید کی گئی ھے جیسے کھ سوره والشمس میں ارشاد ھے" بیشک وه کامیاب ھوا جس نے نفس کو پاکیزه بنالیا، اور وه بے مراد ھوگیا جس نے اسے آلوده کیا" [2]
اسی طرح سوره فاطر کی آیت نمبر ۱۹ اور سوره اعلٰی کی آیات ۱۴ اور ۱۵ میں بھی اس کی تاکید کی گئی ھے ، پس خود سازی اور تزکیھ نفس مطلوب اور شرع مقدس میں بھی ایک پسندیده کام ھے۔ لیکن اس بات کی طرف توجھ کرنا ضروری ھے کھ خود سازی اور نفس کو پاک کرنا مختلف افراد کیلئے مختلف ھے۔ غیر مسلمان کیلئے اس کو شروع کرنے کا پھلا قدم اسلام لانا ھے۔ اور اس کی مختلف علماء اخلاق نے درجھ بندی کرکے فرمایا ھے : پھلا اسلام لانا، پھر "ایمان" ، اور تیسرے "ھجرت" اور اس کے بعد خدا کی راه میں "جھاد" کرنا شامل ھے۔ [3]
لیکن جو لوگ اسلام اور ایمان کی سلامتی کے حدود میں داخل ھوئے ھیں۔ قرآن مجید ان سے ارشاد کرتا ھے۔ " اے ایمان والو اپنے نفس کی فکر کرو" [4] اور " اے ایمان والو ، ایمان لے آؤ " [5] اس سلسلے میں خود سازی کی پھلی منزل "بیداری" اور "تنبھ" ھے ، یعنی تزکیھ نفس کو شروع کرنے کی ضرورت اور اپنے آپ کو آلودگیوں سے پاک کرنے کی طرف توجھ۔ اس بیداری کے بعد یھ سوال اٹھتا ھے کھ کھاں سے شروع کریں ؟ یعنی اس سوال کرنے والے نے پھلا مرحلھ گزارا ھے کیوں کھ وه غور اور فکر سے اس نتیجے پر پھنچا ھے کھ " یھ عالم رھنے کی جگھ نھیں اور سب وسائل اور انبیاء علیھم السلام کا مبعوث ھونا حیوان رھنے کیلئے نھیں ھے " [6]
اس منزل ( بیداری اور تفکر ) کے بعد تیسری منزل آتی ھے ، جو " توبھ" کی منزل ھے یعنی جو کچھه ھاتھه سے چلا گیا ھے، اسکی تلافی کرنا۔ دوسرے لوگوں کے حقوق کی تلافی ، جن کو ضائع کیا ھے ، اور خداوند متعال کے حقوق جو ھماری گردن پر ھیں۔
لیکن یھ " توبھ" عزم اور ارادے کے ساتھه کرنا ھے ، اس چیز سے " توبھ " جو کچھه میں نے انجام دیا ھے اور اس چیز کا عزم جس کی جانب میں روان دوان ھوں۔ اسی لئے بعض علماء اخلاق نے تیسری منزل کا نام " توبھ " [7]اور بعض دوسرے علماء نے اس کو " عزم " [8] کی منزل بتایا ھے۔
حضرت امام خمینی ( رض) عزم کے بارے میں جس کی اس منزل سے نسبت ھے فرماتے ھیں : "معصیتوں کو ترک کرنے کی بنا رکھنا اور واجبات کو انجام دینا اور مافات ( گذشتھ ) کی تلافی کرنا اور اس بات کا "عزم" کرنا کھ اپنے ظاھر اور صورت کو عقلی اور شرعی بناؤں گا " [9]
روز مبعث کی دعا میں ارشاد ھے: " بیشک ھم نے جان لیا کھ تمھاری راه میں سالک کا بھتریں توشھ ، عزم اور اراده ھے جس کے ذریعے وه صرف تمھیں منتخب کرے" [10]
اس کے بعد والی منزل "معصیت سے دوری" اور "واجبات پر عمل کی منزل"ھے۔
حضرت آیۃ اللھ بھجت ایک سوال کے جواب میں، جب ان سے پوچھا گیا : " میرا اراده سیر و سلوک کرنے کا ھے ، میں کھاں سے شروع کروں " فرماتے ھیں: پوری عمر کیلئے معصیت کو ترک کرنا کافی ھے ، اگرچھ ایک سال ھی ھو۔ [11]
پس اس مرحلھ میں ان واجبات کو جن کا ھمیں علم ھے انجام دیں اور اپنے علم کے مطابق حرام کاموں سے دوری کریں ۔ یھ مسئلھ سبب بنتا ھے کھ خداوند متعال ھمیں جدید علوم سے آراستھ کرتا ھے۔ اور اس طرح ھم اپنے سیر و سلوک میں ترقی کرسکتےھیں ، جس کا ھمیں علم ھے اس پر عمل کریں اور خداوند غیر معلوم چیزوں کا علم بھی ھمیں عطا کرے گا۔ جب تک که ھم اپنے فرائض پر عمل کریں یھ دائره چلتا رھے گا۔
پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے فرمایا: جو کوئی بھی علم رکھتا ھے اس پر عمل کرے اور خداوند متعال مجھولات کا علم اسے عطا کرے گا۔ [12]
یھ روایت اس آیھ قرآنی کے مطابق ھے جس میں ارشاد ھوا ھے"اور جن لوگوں نے ھمارے حق میں جھاد کیا ھے ھم انھیں اپنے راستوں کی ھدایت کریں گے اور یقینا اللھ حسن عمل والوں کے ساتھه ھے" [13]
اس کے علاوه جاننا چاھئے که انسان جب تک زنده ھے کبھی وه ساکن نھیں ھے۔ یا نور(ھدایت) کی جانب حرکت میں ھے ، یا ظلمت ( گمراھی ) کی جانب ، اور اھم مسئلھ اس حرکت کو نورکی طرف لے جانا ھے۔
اس سلسلے میں مزید معلومات حاصل کرنے کیلئے رجوع کریں ، رسالھ لب اللباب ، حسینی تھرانی ، سید محمد حسین۔ ج ۱ ص ۸۷۔
آخر میں ضروری ھے کھ یاد آوری کریں کھ آپ کو جواب، عمومی طورپر دیا گیا ھےاگر آپ اس سےاوپر والی سطح کا جواب چاھتے ھیں تو اپنی تعلیمی قابلیت کا ذکر کرکے، ھمارے ساتھه خط و کتابت کریں۔
[1] " التزکیۃ التطھیر مں الاخلاق الذمیمۃ " مجمع البحرین ، ج ۱ ص ۲۰۳۔
[2] " قد افلح من زکیھا و قد خاب من دسیھا " شمس ، ۸أ ۱۰۔
[3] 'حسینی طھرانی ، سید محمد حسین ، رسالھ لب الباب ۔ ص ۵۵۔
[4] "یا ایھا الذین امنوا علیکم انفسکم " مائده ، ۱۰۵۔
[5] "یا ایھا الذین امنوا امنوا " نساء ۱۳۶۔
[6] امام خمینی ، چھل حدیث، ص ۷۶۔
[7] ملکی تبریزی ، میرزا جوا، رسالھ لقاء اللھ ، ص ۵۲۔
[8] چھل حدیث ، ص ۷۔
[9] و ایضا ،
"[10] و لقد علمت افضل زاد الراحل الیک عزم ارادۃ یختارک بھا"؛ مفاتیح الجنان ، دعای روز مبعث و الاقبال بالاعمال الحسنۃ ، ص ۲۷۷۔
[11] بھ سوی محبوب ( دستور العمل ھا و راھنمایی ھای حضرت آیۃ اللھ بھجت ) ص ۵۸۔
[12] " من عمل بما علم ورثه اللھ علم ما لا یعلم ، " المحجۃ البیضاء ج ۶۔ ص ۲۴، ، بحار الانوار ، ج ۸۹، ص ۱۷۲۔ و الخرائج ، ج ۳ ص ۱۰۵۸۔
[13] "الذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا"، سوره عنکبوت ، / ۶۹۔