Please Wait
12362
هر تاریخی واقعه کو اس زمانه کے سیاسی حالات کے پیش نظر جانچنا چاهئے- امام حسن علیه السلام نے حکو مت کو هاتھـ میں لینے کے بعد جو سب سے پهلا کام انجام دیا، وه معاویه کی لشکر کشی اور خطره کا مقا بله کر نے کے لئے ایک فوج کو آماده کر نا تھا – لیکن آپ (ع) نے معاشره کے حالات ، عالم اسلام کے مسائل کو هر اعتبار سےجانچنے اور معاویه کے مقا بلے میں اپنی حکو مت کی عسکری طاقت کے پیش نظر صلح کر نے کا فیصله کیا اور جنگ کو جاری رکھنے سے پر هیز کیا ، کیو نکه ان حالات میں جنگ کو جاری رکھنا مصلحت کے خلاف تھا-
تاریخ گواه هے که اولا: امام حسن علیه السلام مخلص دوستوں اور کمانڈروں کے فقدان کی وجه سے ، معا ویه اور اس کے ساتھیوں پر عسکری فتح پانے کی طاقت نهیں رکھتے تھے – ثانیا : ان حالات میں معا ویه کے ساتھـ جنگ کر نا عالم اسلام کے فائده میں نهیں تھا – ثالثا: معاویه کے ساتھـ امام حسن علیه السلام کی جنگ اور اس جنگ میں امام حسن علیًه السلام کا قتل هو نا مسلمانوں کے مر کز خلافت کی شکست کے مترادف تھا-
لیکن امام حسین علیه السلام کا زمانه اور حالات اس سے بالکل مختلف تھے- کیونکه اس مدت کے دوران لوگ بنی امیه کے ظلم وستم سے تنگ آچکے تھے اور امام حسین علیه السلام کی بیعت کر نا چاهتے تھے اور شهر کو فه حکو مت تشکیل دینے کے لئے آماده تھا، اس کے علاوه امام حسین علیه السلام کے مقا بلے میں یزید تھا ،جو احکام و آداب اسلامی میں سے کسی ایک کا بھی پابند نهیں تھا اور امام (ع) کی طرف سے اس کی بیعت کر نا ظلم وستم اورفسق و فجور کی تائید کر نے اور اسلام کی نابودی کے مترادف تھا-
اس لئے،امام حسن علیه السلام کی صلح اور امام حسین علیه السلام کا قیام دو تاریخی واقعات هیں اور ان دونوں واقعات میں سے هر ایک کو اس سے مر بو ط ز مانه کے سیاسی حالات کے پیش نظر جانچنا چاهیئے – هماری نظر میں یه دونوں امام ، معصوم اور بھول چوک سے پاک و منزه هیں اور اگر امام حسین علیه السلام حضرت امام علی علیه السلام کے جانشین کی حیثیت سے امامت کے عهده پر فائز هو تے ، تو آپ (ع) بھی وهی کام انجام دیتے جسے آپ (ع) کے بھائی حضرت امام حسن علیه السلام نے انجام دیا-
بنیادی طور پر اسلام، رحمت، صلح و امنیت کا دین هے، تاریخ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم اور ائمه اطهار علیهم السلام کی زندگی اور سیرت انهی معنی کو بیان کر تی هے ، مگر یه که پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم اور ائمه اطهار علیهم السلام بعض مواقع پر جنگ کر نے پر مجبور هو تے تھے اور یه جنگیں بھی دفاعی پهلو کے حامل تھیں- امام حسن علیه السلام جب خلافت پر فائز هو ئے ، تو آپ (ع) معاویه کی طرف سے مخالفت اور لشکر کشی سے دو چار هوئے ، اس لئے آپ (ع) نے بھی ایک فوج کو آماده کیا تا که دفاع کریں اور مقابله پر آئیں –لیکن اس جنگ کو جاری رکھنے میں کچھـ ایسے حالات رونما هوئے ،جن کی وجه سے امام حسن علیه السلام اسلام ایک دوسری صورت میں دفاع کر نے پر مجبور هوئے-[1]امام حسن علیه السلام کی صلح اور امام حسین علیه السلام کے قیام کےبارے میں کهنا چاهئے که: یه تاریخ کے دو الگ واقعات هیں جو اپنے زمانه کے سیاسی و اجتماعی حالات کےمعلول هیںاور ان دو واقعات کو ان سے مر بوط زمانه کے حالات کےپیش نظر جانچنا چاهئے-
همارے اعتقاد کے مطابق امام حسن اور امام حسین علیهما السلام ، دونوں معصوم اور هر قسم کے سهو و خطا سے پاک و منزه هیں-ان دو بزرگوں کی صلح و قیام کا راز ان کے زمانه سے مر بوط سیاسیی و اجتماعی حالات کے مختلف هو نے میں مضمر هے، که هم ذیل میں ان میں سے بعض کی طرف اشاره کر تےً هیں:
١- جوکچھـ تاریخ سے یقینی طور پر معلوم هو تا هے ، وه یه هے که معا ویه ایک مکار اور حیله ساز شخص تھا،وه اسلامی احکام کا بظاهر کسی حد تک خیال کر تا تھا – اس کے بر عکس ،یزید نه صرف ، اپنے باپ کے مانند، اپنی طینت میں اسلام سے دشمنی رکھتا تھا ، بلکه اس دشمنی کا کھلم کھلا اظهار بھی کر تا تھا اور اسلام کے مقدسات میں سے کسی ایک کا بھی پابند نهیں تھا-[2] یهی وجه هے که امام حسین علیه السلام نے معاویه کی زندگی میں ، اهل عراق کی طرف سے معاویه کے خلاف قیام کر نے کے خطوط ملنے کے باوجود بھی قیام نهیں کیا اور فر مایا: " آج قیام کا دن نهیں هے ، خدا آپ لوگوں پر اپنی رحمت نازل فر مائے جب تک معاویه زنده هے کوئی کام انجام نه دینا بلکه اپنے گھروں میں چھپے رهنا-" [3]
٢- خوارج کے وجود میں آنے ، مخلص اور جاں نثار[4] دوستوں اور کمانڈروں کے فقدان اور اندرونی خلفشار کی وجه سے امام حسن علیه السلام کی عسکری طاقت کمزور پڑگئی تھی ، اس کے علاوه لوگوں کی طرف سے معاویه کے ساتھـ جنگ میں لوگوں کا لیت و لعل کر نا [5] امام حسن علیه السلام کی صلح کے اسباب هیں – اس سلسله میں آپ (ع) خود فر ماتے هیں :" میں نے دیکھا که اکثر لوگ صلح چاهتے تھے اور جنگ سے بیزار اور متنفرتھے، میں یه پسند نهیں کر تا تھا که انھیں ایسے کام کو انجام دینے پر مجبور کروں جسے وه نهیں چاهتے تھے – لهذا میں نے اپنے ساتهیوں اور شیعوں کی ایک مختصر تعداد کی جان بچانے کے لئے صلح کی –"[6]
٣- امام حسن علیه السلام مسلمانوں کے خلیفه کے مقام پر فائز تھے اور حضرت (ع)کی معاویه سے جنگ اور آپ (ع) کا معاویه کی فوج کے هاتھوں قتل کیا جانا ، مسلمانوں کی خلافت کی شکست کے مترادف تھا -استاد شهید مطهری (رح) کے بقول ، یه وه چیز تھی که حتی کھ امام حسین علیه السلام بھی اس طرح قتل هو نے سے پر هیز کر تے تھے که کوئی پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی جانشینی کے عهده پر یا مسند خلافت پر قتل هو جائے-[7] اسی لئے امام حسین علیه السلام نے مکه مکرمه میں شهید هو نا پسند نهیں فر مایا ، کیونکه اس صورت میں مکه کا تقدس اور احترام پامال هو جاتا – لهذا اس قسم کے حالات میں کسی صورت میں جنگ کر نا مناسب نهیں تھا اور صلح ایک حکمت عملی تھی تاکه مسلمانوں کی حالت کوبهتر بنایا جائے اور اسلامی حکو مت کی بنیادوں کو مستحکم بنایا جائے –
اسی لئے همارا اعتقاد هے که : اگر امام حسین علیه السلام امام حسن علیه السلام کی جگه پر هو تے ، تو وه بھی یهی کام انجام دیتے-
اس سلسله میں هماری دلیل یه هے که امام حسن علیه السلام کی صلح کے بعد بعض افراد امام حسین علیه السلام کی خد مت میں حاضر هو کر بو لے که: "م صلح کو قبول نهیں کر تے هیں کیا هم آپ (ع) کی بیعت کریں؟"
حضرت امام حسین علیه السلام نے جواب میں فر مایا :" نهیں جو کچھـ میرے بھائی نے انجام دًیا هے میں اسی کا تابع هوں-"[8]
لیکن مندرجه ذیل دلائل کی بناپر امام حسین علیه السلام کےزمانه کے حالات امام حسن علیه السلام کے حالات سےبالکل مختلف تھے:
١- امام حسین علیه السلام کے زمانه کے حالات کا امام حسن علیه السلام کے حالات سے ، سب سے پهلا فرق یه تھا که یزید نے امام حسین علیه السلام سے بیعت کا مطالبه کیا تھا اور امام حسین علیه السلام کی طرف سے اسلامی احکام اور ظواهر کو پیروں تلے روند نے والے یزید جیسے شخص کی بیعت کر نا ظلم وستم اور فسق و فجور کی تائید کرنا تھا اور یه اسلام اور دینی تقدس کے نابود هو نے کے مترادف تھا – جبکه معاویه نے حضرت امام حسن علیه السلام سے بیعت کا مطالبه نهیں کیا تھا اور صلح نامه کی ایک شق معاویه کی طرف سے امام حسن علیه السلام سے بیعت کا مطالبه نه کر نا تھی-
٢- وهی لوگ جو امام حسن علیه السلام کے زما نه میں معاویه سے لڑنے کے لئے آماده نهیں تھے،[9] معاویه کی بیس ساله حکمرانی کے دوران بنی امیه کے ظلم وستم سے تنگ آچکے تھے اور کوفه امام حسین علیه السلام کی طرف سے اسلامی حکومت تشکیل دینے کے لئے تقریبا آماده تھا اور امام حسین علیه السلام کے لئے یه ایک حجت تھی اور آپ(ع) کو اس سلسله میں اقدام کر نا چاهئے تھا-[10]
٣- امام حسین علیه السلام کے قیام کا سب سے اهم عامل ،امر بالمعروف اور نهی عن المنکر تھا-
معاویه نے اپنی حکو مت کی بیس ساله مدت کے دوران ، اسلام کے خلاف عمل کیا تھا ، ظلم وستم کیا تھا ، اسلامی احکام میں تبدیلی لائی تھی ، بیت المال میں لوٹ مچائی تھی ، لوگوں کا ناحق خون بهایا تھا اور صلح نامه کے مطالب ، قرآن مجید اور پیغمبر اکرم کی سنت کے خلاف عمل کر چکا تھا اور اس کے علاوه اپنے بعد اپنے شراب خوار اور سگ پسند بیٹے ، یزید کو اپنے جانشین کے طور پر پیش کر چکا تھا – اس لئے امام حسین علیه السلام نے ایک فریضه شرعی کے عنوان سے قیام کیا تاکه امر بالمعروف اور نهی عن المنکر کریں- جبکه معاویه کے زمانه میں لوگوں کے لئے یه حالت واضح نهیں هوئی تھی اور شائد اسی لئے کهاجاتا هے : " امام حسن علیه السلام کی صلح امام حسین علیه السلام کے قیام کا پیش خیمه تھا- یعنی حضرت امام حسن علیه السلام کے توسط سے صلح نامه میں لائے گئے مطالب نے معاویه کے لئے فریب کاری کے تمام راستے کسی حد تک بند کئے ، اگر چه معاویه نے بعد میں صلح نامه کے مطالب کی پابندی نهیں کی، لیکن یه چیز اس کے لئے اسلامی معاشره میں رسوائی کا سبب بنی اور امام حسین علیه السلام کےلئے اس کے بیٹے کے خلاف قیام کر نے کا پیش خیمه ھوئی - امام حسن علیه السلام کے صلح نامه کے بعض مطالب حسب ذیل تھے:
١- معاویه خدا کی کتاب اور رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی سنت کے مطابق عمل کر ے گا –
٢- اس کے بعد خلافت امام حسن علیه السلام کو منتقل هو گی اور کسی حادثه کے رونما هونے کی صورت میں حضرت امام حسین علیه السلام کو منتقل هو گی-
٣- حضرت علی علیه السلام کے خلاف منبروں سے اور نماز میں برا بھلا اور دشنام دینا ممنوع هو گا-
٤- کو فه کے بیت المال میں – جو پچاس لاکھـ درهم کی رقم هے- سے چشم پوشی کی جائے گی-
٥- حضرت علی علیھ السلام کے پیرو امن وامان میں هوں گے –
اس صلح نامه کے مطالب سے صاف ظاهر هے که امام حسن علیه السلام ، هر گز ، معاویه کی خلافت کو استحکام بخشنے کے حق میں نهیں تھے ، بلکه صرف اسلام و مسلمین کی مصلحت اور زمان ومکان اور مسلمان معاشره کے حالات کے پیش نظر یه کام انجام دینے پر مجبور هوئے-
اس لئے،امام حسن علیه السلام کے زمانه میں اسلامی معاشره پر حاوی حالات کے پیش نظر امام حسن علیه السلام نے عهده خلافت پر فائز هوتے هوئے معاویه کے ساتھـ صلح کی ، کیونکه حالات مختلف تھے ، اور آپس میں اختلاف رکھتے تھے ، لهذا امام حسن علیه السلام کے زمانه کے حالات کا تقاضا صلح اور امام حسین علیه السلام کے حالات کا اقتضا قیام تھا-
مزید معلو مات حاصل کر نے کے لئے ، شهید مرتضی مطهری کی کتاب " سیری در سیره ائمه اطهار علیهم السلام " ص٥١- ٩٧ ملاحظه هو-
[1] -رضوانی ،علی اصغر ،پاسخ به شبهات واقعه عاشورا،ص٣٥-
[2] - ایضا ،ص٣١٩-
[3] - المجمع العالمی لاهل البیت (ع) اعلام الهدایھ ، امام حسین (ع) ،ص١٤٧-
[4] - کها گیا هے که : امام حسین علیه السلام نے کئی کمانڈر معین کئے که معاویه نےان سب کو رشوت دے کر خرید لیا –رضوانی ، علی اصغر ، پاسخ به شبهات واقعه عاشورا ،ص ٣١٦-
[5] - امام علی علیه السلام کے زمانه میںتین جنگوں: جنگ جمل، جنگ صفین، اور جنگ نهروان کا واقع هو نا ، حضرت امام حسن علیه السلام کے ساتھیوں میں جنگ کی نسبت بد دلی اور تھکاوٹ پیدا هو نے کا سبب بن چکا تھا-
[6] - المجمع العالمی لاھل البیت (ع) اعلام الهدایھ ، امام حسین (ع) ،ص ١٤٧-
[7] - مطهری ، مرتضی سیری در سیره ائمه اطهار (ع) ، ص٧٧-
[8] - مطهری ، مرتضی ، سیری در سیره ائمه اطهار (ع) ،ص٩٦-
[9] - امام حسن علیه السلام نے اپنے آخری خطبه میں جنگ کے بارے میں لوگوں کی رائے پوچھـ لی – انهوں نے چاروں طرف سے فریاد بلند کی " که هم زنده رهنا چاهتے هیں"، اس لئے آپ صلح نامه پر دستخط کیجئے- رضوانی، علی اصغر ، پاسخ به شبهات واقعه عاشورا ،ص ٣١٦-
[10] - مطهری ، مرتضی ،سیری در سیره ائمه اطهار (ع) ،ص٨١-