Please Wait
7347
- سیکنڈ اور
آیات قرآن اور ائمہ معصومین )ع( کی تعلیمات کے مطابق ، شیعہ امامیہ کا نظریہ، یہ ہے کہ: سفر کے دوران مسافر کو پانی مہیا ہونے کی صورت میں وضو کرنا چاھیئے اور اگر پانی مہیا نہ ہو تو تیمم کرنا چاھیئے۔
اھل سنت کے درمیان بعض کا نظریہ شیعوں کے نظریہ کے مطابق ہے، کہ اگر سفر کے دوران مسافر کو پانی مہیا نہ ہو تو اسے تیمم کرنا چاھیئے لیکن بعض حضرات جیسے رشید رضا صرف سفر کو ہی تیمم کرنے کا سبب جانتے ہیں چاہے پانی مہیا ہو یا نہ ہو۔
قرآن کریم میں خداوند متعال کا ارشاد ہے:
"اگر بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو اور کسی سے پاخانہ نکل آئے, یا عورتوں سے باہمی جنسی ربط قائم ہوجائے اور پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو اس طرح کہ اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرلو بیشک خدا بہت معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے"۔
علامہ طباطباِیی آیہ تیمم کی تفسیر کے ذیل میں رقمطراز ہیں : ان موارد کو جن کا آیہ شریفہ نے تردید کے ساتھ نام لیا ہے وہ حقیقی طور پر ایک دوسرے کے مد مقابل نہیں ہیں، کیونکہ بیماری اور سفر ، پاخانہ کے مقابلے میں محدث ہونے کا سبب نہیں ہیں، کہ انسان پر وضو یا غسل واجب ھوجائے بلکہ ان کا نام لینا اس لئے تھا کہ بیمار انسان یا مسافر ، یا اپنے آپ کو پانی سے نہیں دھوسکتا یا پانی اس کے لیے مہیا نہیں ہے اور ایسے افراد اگر حدث اکبر یا حدث اصغر سے محدث ہوجائیں تو انہیں وضو یا غسل یا تیمم کرنا چاھیئے ، پس آیہ شریفہ میں دو اور قسمیں جو پاخانہ یا عورتوں کو چھونا ہے، وہ پہلی دو قسموں کے مقابلے میں نہیں ہیں بلکہ پہلی دو قسمیں ہر ایک مزید دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہیں، جس کے معنی یہ ہیں کہ مسافر یا بیمار کی دو حالتیں ہیں یا وہ حدث اصغر سے محدث ہیں یا حدث اکبر سے محدث ہیں۔
اس لئے آیہ شریفہ کے معنی یوں ہیں: اگر تم بیمار ہو اور جنابت کی حالت یا غیر وضو کی حالت میں ہوں اور پانی تمہارے لئے مضر ہو، یا جب کہ تم سفر میں ہو اور پاخانہ آئے یا اپنی عورتوں کو چھوا اور پانی نہیں پایا تو پاک زمین سے تیمم کرو۔
شیعوں کی روایات اور بعض اھل سنت کی روایات ) جس کے بارے میں ہم تفصیلی بحث میں اشارہ کریں گے( ہماری اس بات کی تائید کرتی ہیں۔
چونکہ سوال کا موضوع ایک فقہی موضوع، یعنی سفر کے دوران تیمم کرنے کے بارے میں ہے، اس لیے سب سے پہلے ہم سفر کے دوران تیمم کے قائلین کے نظریات کو بیان کریں گے اس کے بعد اس مسئلہ پر بحث کریں گے۔
قرآن مجید میں ارشاد خداوند متعال ہے:
“وَ إِن كُنتُم مَّرْضىَ أَوْ عَلىَ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تجَدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَ أَيْدِيكُمْ إِنَّ اللَّهَ كاَنَ عَفُوًّا غَفُورً"[1] : اگر بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو اور کسی کے پاخانہ نکل آئے, یا عورتوں سے باہمی جنسی ربط قائم ہوجائے اور پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو اس طرح کہ اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرلو بیشک خدا بہت معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔
موضوع کا بیان:
مسافر کے لئے پانی مہیا نہ ہونے کی صورت میں کیا اسے وضو کرنا چاھیئے یا اس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ یا وضو کرے یا تیمم کرے ؟
آیات قرآن اور ائمہ معصومین [ع] کی تعلیمات کے مطابق شیعہ امامیہ ، کا نظریہ یہ ہے کہ مسافر کو پانی مہیا ہونے کی صورت میں وضو کرنا ہے اور پانی مہیا نہ ہونے کی صورت میں تیمم کرنا ہے - اھل سنت کے درمیان بعض حضرات کا نظریہ شیعوں کے نظریہ کے مطابق ہے کہ مسافر کو پانی مہیا ہونے کی صورت میں تیمم کرنا ہے[2]۔ لیکن بعض حضرات ، جیسے رشید رضا ، صرف سفر کو ہی تیمم کا جواز بتاتے ہیں ، چاھے پانی مہیا ہو یا نہیں۔
چونکہ آیہ تیمم سے مختلف فہم اور سمجھ، اس مسئلے میں اختلاف کا سبب بنی ہے ، اس لئے مسئلہ کے روشن ہونے اور صحیح نتیجہ تک پہونچنے میں مورد بحث آیہ شریفہ کا بیان کرنا اور اس کی تشریح و تفسیر ضروری ہے۔
خداوند متعال کا ارشاد ہے: "اگر بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو اور کسی سے پاخانہ نکل آئے, یا عورتوں سے باہمی جنسی ربط قائم ہوجائے اور پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو اس طرح کہ اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرلو بیشک خدا بہت معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔" [3]
نکات :
جو نکات اس آیہ شریفہ میں موجود ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ حکم : یعنی تیمم کا واجب ہونا،
۲۔ شرط: پانی مہیا نہ ہونا۔
۳۔ حکم کے اسباب: بیماری، سفر ، پاخانہ نکلنا، اور عورتوں کو چھونا۔
۴۔ حکم کے اسباب و اوصاف: پاخانہ نکلنا، اور عورتوں کا چھونا۔
اس تقسیم کے مطابق پاخانہ کا نکلنا اور عورتوں کو چھونا،بھی حکم کے مستقل اسباب میں سے ہیں اور پہلے سبب کے دو اوصاف میں سے بھی ہیں. [4] یعنی وہ بیمار جس کو حدث اصغر ) پاخانہ( یا حدث اکبر ) عورتوں کو چھونا( پیش آئے اور وہ بیمار جس کو حدث اصغر ) پاخانہ( یا حدث اکبر ) عورتوں کو چھونا( پیش آئے [5] ورنہ اگر ھم اب سب چار موارد کو ایک دوسرے کے مد مقابل قرار دیں گے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ان میں سے ہر ایک قسم تیمم کیلئے مستقل سبب (نہ کہ صفت( ہے، اور یہ باطل ہے۔ کیونکہ بے شک جب تک کہ مریض اور مسافر کے لیے حدث واقع نہ ہوا ہو اور وہ با طہارت ہوں گے تو ان پر تیمم واجب نہیں ہے اور وہ بالکل اس آدمی کی طرح ہیں کہ جو با طہارت سفر پر گیا ہے اور نماز پڑھنا چاھتا ہے اس صورت میں کوئی بھی اس مسافر کے لیے وجوب تیمم کا قائل نہیں ہے۔
علامہ طباطبائی آیہ تیمم کی تفسیر کے ذیل میں رقمطراز ہیں: ان موارد کو جنہیں آیہ شریفہ نے تردید کے ساتھ بیان کیا ہے وہ ایک دوسرے کے مقابلے میں نہیں ہیں اور ان کے درمیان مقابلہ حقیقی قسم کا نہیں ہے، کیونکہ سفر اور بیماری ، پاخانہ کرنے کے مقابلے میں حدث کا سبب نہیں ہیں، جو انسان پر وضو یا غسل کو واجب کریں ، بلکہ ان کا ذکر کرنا ، اس لئے تھا کہ بیمار اور مسافر یا اپنے بدن کو پانی سے نہیں دھو سکتے ہیں یا ان کے لیے پانی مہیا نہیں ہے اور ایسے افراد کو اگر حدث اصغر یا حدث اکبر پیش آئے تو انہیں وضو ، غسل یا تیمم کرنا ہے، پس دوسری دو قسمیں جو پاخانہ کرنا یا عورتوں کو چھونے سے عبارت ہیں وہ پہلی دو قسموں کے مقابلے میں نہیں ہیں بلکہ پہلی دو قسمیں ہر ایک مزید دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ مسافر یا بیمار کی دو حالتیں ہیں یا وہ حدث اصغر سے محدث ہے یا حدث اکبر سے محدث ہے -[6]
شرط "فلم تجدوا ماء" ) پانی مہیا نہ ہونا( کے بارے میں چار احتمال متصور ہیں اور برھان سبر و تقسیم کی بنا پر تین احتمال بحث کی حدود سے خارج ہیں اور صرف ایک احتمال باقی رہتا ہے۔
پانی مہیا نہ ہونے کی صورت میں چار احتمال ہیں:
۱۔ کسی بیمار اور مسافر سے متعلق نہیں ہے۔
۲۔ صرف بیمار سے متعلق ہے۔
۳۔ دونوں سے متعلق ہے
۴۔ صرف مسافر سے متعلق ہے۔
پہلی صورت صحیح نہیں ہے کیونکہ آیہ شریفہ میں حرف "فاء" تفریع اور نتیجہ ہے پس یہ مستقل جملہ نہیں ہے اسلئے یہ کسی خاص چیز پر متفرع ہونا چاھیئے۔ اسی طرح ضمیر جمع "واو" "فلم تجدوا " میں ضمیر فاعلی ہے اس سے پہلے فاعل ذکر ہوا ہے تا کہ ضمیر کا مرجع بن جائے اور مرجع کے بغیر ضمیر کا ذکر لغو اور باطل ہے۔
دوسری صورت بھی ترجیح بلا مرجح ) یعنی ایک طرف کو بغیر دلیل لینا( جو کہ مرجوح اور قبیح ہے کیونکہ مشہور قاعدہ ، " الاقرب یمنع الابعد" کی بناء پر اگر ضمیر دو مرجع میں ایک کی طرف لوٹتی ہے تو اسے نزدیکی مرجع یعنی "مسافر" کی طرف لوٹنا ہے نہ کہ دور والے مرجع کی جانب جو کہ "مریض" ہے۔
بعض لوگوں نے یہ کہنا چاہا ہے کہ مشروط دونوں )بیمار اور مسافر( سے متعلق ہے۔[7]
اس لحاظ سے آیہ شریفہ کے معنی یہ ہیں: اگر تم بیمار تھے تو تم یا جنب کی حالت میں یا غیر وضو کی حالت میں ہو، اور پانی تمہارے لئے مضر ہے، یا سفر کی حالت میں ہو اور تم نے پاخانہ کیا ہے یا عورتوں کو چھوا ہے اور پانی تمہارے لئے مہیا نہیں ہے ، تو پاک زمین پر تیمم کرو۔ [8]
لیکن نتیجہ کے طور پر بحث میں کوئی فرق نہیں ہے چاھے تیسری صورت صحیح ہو متعلق شرط )فلم تجدوا ماء ا( دونوں )مریض اور بیمار( ہوں یا چوتھی صورت صحیح ہو متعلق شرط )فلم تجدوا ماءا(صرف مسافر ہو ، ہمارا مطلوب تیمم مشروط ) پانی مہہا نہ ہونے کی صورت میں تیمم کا واجب ہونا ( مسافر کے لیے ثابت ہے۔
اھل سنت کی روایات
بحث کو واضح کرنے کے لیے ہم اھل سنت حضرات کی چند روایات کو ذکر کرتے ہیں:
عبد الرزاق ، مجاھد سے آیہ شریفہ " وان کنتم مرضی" کے بارے میں نقل کرتا ہے : وہ ایک ایسا بیمار ہے جو جنب ہوا ہے اور پانی کے استعمال سے اس کو اپنے لیے خوف ہو، تو وہ تیمم کرسکتا ہے، بالکل اس مسافر کی مانند جس کے لیے پانی مہیا نہیں ہے۔
ابن ابی شیبہ سعید بن جبیر اورمجاھد سے نقل کرتا ہے کہ ان دونوں نے فرمایا: جو بیمار جنب ہوا ہے اور پانی کے استعمال کرنے سے ڈرتا ہے وہ اس مسافر کے مانند ہے جس کے لیے پانی مہیا نہیں ہے -[9]
بھر حال یہ دو روایتیں اس بات کو روشن کرتی ہیں کہ مسافر کےلیے تیمم کرنا مطلق اور بغیر کسی قید کے نہیں ہے، بلکہ پانی میہا نہ ہونے سے مشروط ہے۔
فخر رازی اس سلسلے میں رقمطراز ہیں : بیمار پانی مہیا ہونے کی صورت میں بھی تیمم کرسکتا ہے کیونکہ خداوند متعال کا ارشاد ہے وَ إِن كُنتُم مَّرْضىَ أَوْ عَلىَ سَفَرٍ وہ لکھتا ہے کوئی ایسا نہ کہے کہ : تیمم پانی مہیا نہ ہونے کی شرط میں واجب ہے کیونکہ پانی کا نہ ہونا بھی، تیمم کرنے کا سبب ہے ، بغیر اس کے کہ وہ مریض ہو اور پانی کا نہ ہونا سفر سے متعلق ہے نہ کہ بیماری سے -[10]
جو غلطی فخر رازی نے کی ہے وہ یہ ہے کہ پانی مہیا نہ ہونے کو حقیقی طورپر پانی کے نہ ہونے کو لیا ہے اور اس لئے اسے یہ مشکل پیش آئی ہے لیکن اگر پانی کا نہ ہونا شانی ہو ، یعنی بیمار کے لیے جب پانی کا استعمال مضر ہے اور وہ اپنے بدن کو نہیں دھوسکتا ہے تو وہ بھی اس شخص کے مانند ہے جس کے لیے پانی مہیا نہیں ہے[11] ، پس بیمار کا حکم بھی پانی مہیا نہ ہونے کی طرح ہے اور اس صورت میں کوئی اشکال پیش نہیں آتا ہے۔
شیعہ روایات
اما م صادق )ع( تیمم کے مسئلے میں فرماتے ہیں: اگر وضو کے لیے پانی نہیں ملا اور تیمم کرنا چاھا تو آخر وقت تک رک جاو اگر آخر وقت تک پانی نہ ملے تو تیمم کی مٹی تمہارے لیےکافی ہے- [12]
کلینی )رح( فرماتے ہیں: راوی نے امام سے پوچھا: ایک شخص سفر میں تھا اس کے ھمراہ پانی تھا لیکن وہ بھول گیا اور اس نے تیمم کیا اور نماز ادا کی ، لیکن اس سے پہلے کہ نماز کا وقت گزر جائے اسے یاد آیا؟ تو اس کا حکم کیا ہے؟ امام نے فرمایا: اسے چاہیے کہ وضو کرے اور نماز پڑھے۔[13]
آیہ شریفہ اور روایات سے تیمم کے بارے میں یوں استنباط ہوتا ہے کہ تیمم ان موارد سے متعلق ہے کہ پانی مہییا نہ ہو اور پانی مہیا ہونے کی صورت میں تیمم کرنا صحیح نہیں ہے ، اور سفر کے دوران تیمم کے صحیح ہونے میں شک کی صورت میں ) اگر پانی مہیا ہو( اگر تیمم کے ساتھ نماز پڑھی جائے تو بری الذمہ ہونا مشکل ہے کیونکہ اصل وضو کرنا ہے اور تیمم بدل اور مجببوری ہے اور مشہور فقہی قاعدہ کے مطابق ، اشتغال یقینی برائت یقینی کا موجب ہے۔[14]
[1]سورہ نساء / ۴۲۔
[2] سیوطی ، جلال الدین ، الدر المنثورفی تفسیر الماثور ، ج ۳، ص ۱۶۶، کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی ، قم ، ۱۴۰۴ھ ؛ رازی ، ابو عبد اللہ فخر الدین محمد بن عمر، مفاتیح الغیب ، ج ۱۱، ص ۳۰۹ ، دار احیاء الثراث العربی، بیروت ، چاپ سوم ۱۴۰۳ ھ۔
[3] سورہ مائدہ، آیہ ۶''وَ إِن كُنتُم مَّرْضىَ أَوْ عَلىَ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تجَدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا۔''
[4] مجمع البیان کے مولف اس سلسلے میں فرماتے ہیں: بعض نے کہا ہے کہ "او" ، "واو" کے معنی میں ہے ، جیسے : " و ارسلنا الی مائۃ الف او یزیدون" اور انہیں ایک لاکھ یا اس سے زیادہ کی قوم کی طرف نمائندہ بناکر بھیجا (سورہ صافات ۱۴۷) کیونکہ پاخانہ کرنا ، بیماری اور سفر کے مانند نہیں ہے کہ اس کا عطف کرنا ان پر صحیح ہو، کیونکہ بیماری اور سفر تیمم کے مباح ہونے کے اسباب میں سے ہیں ، اور پاخانہ کرنا تیمم کے واجب ہونے کا سبب ہے، ، طبرسی ، فضل بن حسن ، مجمع البیان فی تفسیر القرآن ، مترجمان، ج ۵ ، ص ۱۶۳، انتشارات فراھانی ، تھران، طبع اول ، ۱۳۶۰ش۔
[5] یہ دو مورد مثال اور تغلیب کے باب سے بیان ہوئے ہیں ، کیونکہ بیشک حدث اصغر اور حدث اکبر ان دو موارد سے بہت زیادہ ہیں۔
[6] طباطبایی، محمد حسین، ترجمہ المیزان، ج ۵ ص ۳۶۶، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم ، قم سال ۱۳۷۴ ش ، طبع پنجم۔
[7] طباطبایی ، محمد حسین، ترجمہ المیزان ، ج ۵، ص ۳۷۷ ، " اور اس مسئلہ کی بناء پر پانی کا نہ ہونا اس بات سے کنایہ ہے کہ انسان جب پانی کا استعمال نہیں کرسکتا ہے، چاھے اس کے پاس پانی مہیا نہ ہو ، یا پانی کا استعمال اس کے لیے مضر ہو، یا وضو اور غسل کرنے کا وقت اس کے پاس نہیں بچا ہے، اگر قرآن مجید میں ان موارد کی طرف اشارہ اس عبارت سے کیا ہے کہ "اگر پانی نہیں پایا" وہ اس لئے ہے کہ اکثر موارد میں جہاں انسان وضو یا غسل نہیں کرتا ہے وہ پانی نہ ہونے کی صورت میں ہے،اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ پانی کا مہیا نہ ہونا ان امور چہارگانہ کے لیے قید ہو حتی کہ بیمار کے لیے بھی۔
[8] راوندی ، قطب الدین سعید بن عبد اللہ بن حسین فقہ القرآن فی شرح آیات الاحکام ج ۱ ص ۳۵ ، کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجی ، قم ،طبع دوم ۱۴۰۵ ھ،
[9] سیوطی، جلال الدین ، ، الدر المنثور فی تفسیر الماثور ج ۳ ، ص ۱۶۶۔
[10] رازی ، ابو عبد اللہ فخر الدین محمد بن عمر ، مفاتیھح الغیب، ج ۱۱ ، ص ۳۰۹۔
[11] قطب راوندی ، فقہ القرآن ، ج ۱، س ۷۵ ، بیمار کبھی ضعف اور ناتوانی کی وجہ سے پانی تک نہیں پہنچ سکتا ہے ، اور کبھی پانی اس کے لیے مہیا ہے لیکن بیماری زخم وغیر کی وجہ سے اسے استعمال نہیں کرسکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اسے تیمم کرنا ہے۔
[12] کلینی ، کافی، ج ۳، ص ۶۳ ، دار الکتب الاسلامیۃ ، تھران ، ۱۳۶۵ ھ۔
[13] ایضا۔ ص ۶۵۔
[14] وحید بہبہانی ، محمد باقر بن محمد اکمل ، الفواد الحائریۃ ، ص ۷۹ ، مجمع الفکر الاسلامی، قم ، ایران طبع اول ۱۴۱۵ ھ، الاشغال الیقینی یستدعی الفراغ الیقینی۔