اعلی درجے کی تلاش
کا
14857
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2008/04/24
 
سائٹ کے کوڈ fa1229 کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ 2346
سوال کا خلاصہ
آپ، سوره شوری کی آیت نمبر ٢٣میں لفظ "القربی" سے کیوں اهل بیت کا مراد استنباط کرتے هیں؟
سوال
آپ، سوره شوری کی آیت نمبر ٢٣میں لفظ "القربی" سے کیوں اهل بیت کا مراد استنباط کرتے هیں؟
ایک مختصر

هر کلام اور جمله میں اگر بولنے والے کی مراد ،اس جمله یا اس میں استعمال هوئے الفاظ سے معلوم نه هوتی تا هوتو ، ان قرینوں کی تلاش کرنی چاهئے جو اس کلام سے بولنے والے کی  مراد واضح کریں ـ اور سوره شوری کی آیت نمبر ٢٣" قل لا اسئلکم علیه اجرا الا الموده فی القربی" کے سلسله میں چند قرائن اور علامتیں موجود هیں جو همیں لفظ "القربی" سے خدا وند متعال کی حقیقی مراد کو حاصل کر نے میں مدد کرتی هیں:

١) اهل لغت کے مطابق لفظ " القربی" کی معنی نسبی رشته دار اور اقرباء هیں  اور قرآن مجید میں بھی موضوع سوال آیت کے علاوه یه لفظ اسی معنی میں استعمال هوا هے ـ آیه مودت کے علاوه دوسری آیات میں اس لفظ کے ساتھـ ، "ذی" یا " ذوی" اور یا " اولی" کے الفاظ اضافه کئے گئے هیں ـ اس اضافه کے باوجود اس کا مفهوم " ذوی القربی" یعنی رشته دار هے اور اسی لئے محقیقین نے زیر بحث آیت میں لفظ "اهل" اور یا "ذوی" و ... کو زیر نظر رکھا ھے۔

لهذا هم اس تفسیر کو قبول نهیں کر سکتے هیں ، جس میں " القربی" کے معنی قرب الهی یا دوسرے کوئی معنی بتائے گئے ھوں  ـ

٢) بعض قرائن اس امر کے شاهد هیں که آیت میں رشته داروں سے مراد پیغمبر اسلام (ص) کے رشته دار هیں اور آیت کے  یه معنی نهیں هیں که هر مسلمان پر لازم هے که اجر رسالت کے عنوان سے اپنے رشته داروں سے محبت کرے ـ

٣) فعل "لا اسئلکم " کا ذکر اس بات کی علامت هے که "القربی" سے مراد سائل کے اقرباء هیں اور یه منسوب الیه کو معین کر نے کے طریقه سے صاحب قرابت کا تعین هے، اس کے مانند سوره توبه کی آیت ١١٣ اور سوره حشر کی آیت نمبر ٧ هےـ

٤) اجر رسالت کے سلسله میں نازل هوئی آیات پر غور کر نے سے ، هم اس نتیجه پر پهنچتےهیں که"القربی" سے مراد اهل بیت پیغمبر (ص) هیں ،کیو نکه قرآن مجید نے ایک طرف اجر رسالت کو پیغمبر اسلام (ص) اور دوسرے انبیاء سے طلب کرنے کی نفی کی ھے اور دوسری طرف پیغمبر اکرم (ص) کے بارے میں فر مایا هے : میں آپ سے کوئی اجر نهیں چاهتا هوں مگر میرے رشته داروں کی دوستی اور تیسری جانب پیغمبر (ص) کی دعوت کو قبول کر نا اور خدا کی راه کو انتخاب کر نا اجر رسالت کے عنوان سے بیان هوا هے اور چوتھی جانب خدا وند متعال نے اپنے پیغمبر(ص) سے چاها هے که لوگوں کو پهنچادے که: "جو اجر میں نے تم سے چاها هے صرف تمهارے فائده میں هے، میرا اجر خداوند متعال پر هے ـ"  ان آیات کو آپس میں ربط دینے سے هم اس نتیجه پر پهنچتے هیں که: ذوالقربی ، خدا کی راه هے اور اس راه الهی کی پیروی کر نا لوگوں کے  فائده میں هے اور ان کی اطاعت کر نا ، دعوت الهی کو قبول کر نے کا واضح مصداق هےـ

سر انجام قابل اعتبار روایتوں سے معلوم هو تا هے که: اس قسم کے امتیاز کے حامل صرف پیغمبر اکرم (ص) کے اهل بیت هیں ـ

تفصیلی جوابات

هر لفظ اور جمله میں اگر کلام کے بولنے والے که  مراد معلوم نه هو سکے تو همیں قرائن اور ایسے مسائل کی تلاش کر نی چاهئے جو اس کے مراد و مقصود کو همارے لئے واضح کریں ـ زیر سوال[1] آیت میں ، بعض قرائن[2] پائے جاتے هیں جو لفظ "القربی" میں خداوند متعال کی  مراد تک پهنچنے میں  ھماری راهنمائی کر تے هیں:

١) اهل لغت کے مطابق لفظ "القربی" نسبی قرابتداری کے معنی میں هے [3] اور قرآن مجید میں بھی ایسے افراد کے بارے میں استعمال هوا هے که جو صاحب اقربا هیں خاص کر جو رشته دار رکھتے هیں ، اس لئے کبھی لفظ" ذی" اس پر اضا فه کیا گیا هے [4]اور کبھی " ذوی" [5] اور بعض اوقات لفظ " اولی "[6] اس پر اضافه کیا گیا هے صرف ایک جگه هے جهاں پر یه لفظ کسی اضافه کے بغیر استعمال هوا هے اور یه وهی آیت هے جس کے بارے میں سوال کیا گیا هے "... الا الموده فی القربی ـ "اس لئے ضروری هے که " القربی" سے پهلے " اهل"،   [7] یا " ذوی" جیسے کسی لفظ کو زیر نظر رکھا جائے ـ اور اس طرح " الموده فی القربی" کے  معنی  ھوں گے (پیغمبر (ص) کے) اقرباء اور رشته داروں کی محبت ، جو وهی پیغمبر (ص) کے اهل بیت و عترت هیں ـ

اس لئے ، جنهوں نے اس آیت میں " القربی" سے قرب الهی کی [8]  تفسیر کی هے ، وه صحیح نهیں هیں  ـ [9] کیونکه اس تفسیر کی بناپر لفظ "قربی" کے  معنی نزدیک کر نے والا هو گا کھ نه اقربا و رشته دار ، اور یه اس چیز کے خلاف هے جسے ارباب لغت نے بیان کیا هےـ

اس کے علاوه، اس قسم کے معنی آیت میں ابهام پیدا هو نے کا سبب بن گئے ھیں ، نتیجه کے طور پر مشرکین آیت کے مخاطب نهیں هو سکتے هیں ، کیونکه وه تقرب الهی کے منکر نهیں تھے ، بلکه ، تقرب الهی حاصل کر نے کے لئے بتوں اور خداٶں کی پرستش کرتے تھے[10]

ممکن هے ، یه کها جائے که " القربی" مصدر هے اور یه مصدر اقربا اور رشته داری کے معنی میں هے نه رشته کے معنی میں اور " فی" بھی سببیت کے معنی میں هے اور اس نظریه کے مطابق آیت کے مفهوم میں تین احتمال پائے جاتے هیں: الف)آیت قریش سے مخاطب هے اور ان سے چاهتی هے : اگر پیغمبر (ص) پر ایمان نه لاٶ گے ں تو کم از کم رشته داری کے لحاظ سے انهیں دوست رکھو اور انهیں تکلیف نه پهنچاؤ ـ ب) آیت انصار سے مخاطب هے اور ان سے کها گیا هے که پیغمبر (ص) کی رشته داری کی وجه سے، ان سے محبت کریں...[11] ج) آیت کے مخاطب قریش هیں اور " الموده فی القربی " سے مراد پیغمبر (ص) کی محبت هے نه که قریش کی ، یعنی میں تم " قریش " سے اجر نهیں چاهتا هوں لیکن تماری نسبت میری محبت تماری میرے ساتھـ رشته داری کی وجه سے هے اور یه چیز مجھے اجازت نهیں دیتی هے که تماری نسبت لا پر وائی سے کام لوں ، بهر حال رشته داری مجھے مجبور کر تی هے که تماری هدایت کروں نه تم لوگوں سے اجرت لینے کے لئے ـ

اگر چه یه تین احتمال ممکن هے ابتداء میں معقول اور دلکش دکھائی دیں ، لیکن تھوڑا سا غور کر نے کے بعد واضح هو تا هے که ان میں سے کوئی ایک بھی صحیح نهیں هے ، کیونکه اگر آیت سے  مراد کفار قریش هو ں تو، انهوں نے تو پیغمبر (ص) سے کوئی بھی چیز قبول نهیں کی هے جس کی اجرت ادا کرنا ضروری ھو  اور اگر مقصود قریش میں سے بعض افراد هوں جو پیغمبر(ص) پر ایمان لائے ھیں  هے تو اس صورت میں کوئی بغض تصور نهیں کیا جاسکتا هے که ان سے مطا لبه کیا جائے که رسالت کی اجرت کے بدلے مین اس بغض سے دست بردار هو جائیں ، پس پهلا احتمال رد هو گا ـ اور اسی طرح پیغمبر اکرم (ص) کی نسبت انصار کی دوستی اس قدر واضح تھی که کسی سے مخفی نهیں تھی ـ اس لئے یه بے معنی هے که پیغمبر اکرم (ص) اس قرابت کی دوری کی وجه سے ان سے محبت کا مطا لبه کریں ـ اس کے علاوه عرب، ماں کی طرف سے رشته داری کو کوئی خاص اهمیت نهیں دیتے تھے ، [12] اور یه اسلام هے جو اس قسم کی قرابت کو اهمیت دیتا هے – اس لئے دوسرا احتمال بھی معقول نهیں هے ـ لیکن تیسرے احتمال کی تنقید کے بارے میں کها جاسکتا هے : کیا اس قسم کا احتمال پیغمبر اکرم (ص) کی شان اور قرآن مجید کی آیات کے منافی نهیں هے؟ کیا قرآن مجید نے بارها نهیں فر مایا هے که آپ کا فریضه صرف دعوت هے اور هدایت خدا کے هاتھـ میں هے اور پیغمبر(ص) کو کفار کے لئے غمگین نهیں هو نا چاهئے، یه کیسے باور کیا جاسکتا هے که پیغمبر اکرم (ص) رشته داری کی وجه سے بعض لوگوں کو هدایت کریں اور بعض لوگوں کے ساتھـ بغض کی وجه سے ان کی هدایت نه کریں ـ[13]

٢) اب جبکه آیت میں موجود " القربی" سے کیا مراد ھے ، یھ معلوم ھوگیا تو ، یه سوال پیدا هوتا هے که، نسب میں اقرباء اور رشته دار کون هیں؟ جواب یه هے که اس آیت میں اصلی مقصود اهل بیت پیغمبر (ص) هیں کیونکه :

اولا ، منسوب الیه کا معین هو نا ، صاحب قرابت کے معین هو نے کے لئے خود قرینه هے ـ کبھی کلام میں منسوب الیه ذکر هوتا هے اور یه خود اس امر کی علامت هو سکتی هے که اقربا ء سے  مراد کون لوگ هیں ، مثال کے طور پر قرآن مجید کی اس آیت : " ماکان للنبی والذین آمنوا ان یستغفروا للمشرکین ولو کانوا اولی قربی "[14] میں، " نبی" اور "الذین آمنوا" کا ذکر اس نکته کے گواه هیں که " اولی قربی" سے  مراد هر انسان کے رشته دار هیں ـ اور یا آیه: "ما افاء الله علی رسوله من اهل القری فا لله وللرسول والذی القربی"[15] میں ، "علی رسوله" اس امر کا قرینه هے که " لذی قربی" سے  مراد، رسول الله کے رشته دارهیں اور آیه شریفه : قل لا اسئلکم علیه اجرا..." میں بھی فعل " لا اسئلکم" کا مقدم قرار پانا اس بات کی علامت هے که " القربی" سے  مراد سائل کے رشته دار هیں ـ [16] پس خود آیت میں قرینه موجود هے جو اس امر کی گواهی دیتا هے که " القربی" سے  مراد اهل بیت اور رسول الله (ص) کے عزیز و اقارب هیں ـ اس لئے یه احتمال نهیں دیا جاسکتا هے که آیت میں رشته داروں کی محبت اجر رسالت کے عنوان سے بیان کی گئی هے اور یه آیت مسلمانوں سے مطالبه کرتی هے که اپنے رشته داروں سے محبت کریں ـ [17]

ثانیا ، قرآن مجید میں اجر رسالت کے بارے میں جو آیتیں نازل هوئی هیں، وه مندرجه ذیل مطالب پر مشتمل هیں:

١ ـ انبیاء کی طرف سے[18] اور اسی طرح پیغمبر اسلام (ص)[19] کی طرف سے اجر و جزا کی نفی کرتی هیں ـ

٢ـ پیغمبر اکرم (ص) کے بارے میں آیا هے که: "میں تم لوگوں سے کوئی اجرت نهیں مانگتا هوں ، مگر میرے اقربا سے محبت ـ

٣ـ مزید بیان هوا هے که : " میری اجرت وه لوگ هیں جنھوں نے میری دعوت کو اپنے  اختیار سے قبول کیا هے ـ "[20]

٤ـ ایک دوسری آیت میں آیا هے که:" جو اجرت لوگوں سے طلب کی گئی هے وه خود ان کے فائدے میں هے اور پیغمبر(ص) کی اجرت اور جزا صرف خدا کے پاس هےـ [21]

مذکوره آیات کو ایک دوسرے سے ملحق  کر نے سے یه نتیجه حاصل کیا جاسکتا هے که پیغمبر اسلام (ص) نے دوسرے انبیاء کے مانند اپنے لئے کسی اجرت کا مطالبه نهیں کیا هے بلکه اپنے عزیز و اقارب (عترت واهل بیت) کی محبت کا مطالبه کیا هے اور یه خدا کی جانب ایک راه هے اور حقیقت میں خود لوگوں کے فائده میں هے ، کیونکه یه محبت امامت ، خلافت اور پیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی اور لوگوں کی هدایت کے مسئله کی طرف ایک دریچه هےـ اور یه محبت دعوت قبول کر نے کا نتیجه هےـ [22]

ایک جهت سے "اجر" ایک ایسا لفظ هے جو " اجر دنیوی" پر بھی لاگو هو تا هے اور"اجر اخروی" پر بھی اور جس چیز کی ان آیات میں نفی کی گئی هے ، وه اجر دنیوی هے ، کیونکه ان آیات میں آیا هے که: "میں تم لوگوں سے کسی اجرت کا مطالبه نهیں کرتا هوں ، میں نے اجرت نهیں مانگی هے" ، یه اجر دنیوی کی دلیل هے اور پیغمبر اسلام (ص) کی زندگی اس معنی کی گواه هے [23] ، که آپ(ص) دنیوی اجر کے طالب نهیں تھے ـ اور دوسری جانب سے : حقیقی اجر و جزا ، اس وقت متحقق هوتا هے جب اجر کا فائده اجر حاصل کر نے والے کو ملے ، جبکه " ذوی القربی" کی مودت و محبت ، محب یعنی محبت کر نے والے کے فائده میں هے نه که پیغمبر اکرم (ص) کے فائدے میں کیونکه ذوی القربی کی محبت ، محبت کر نے والے کے لئے اپنی زندگی میں ذوالقربی کی پیروی کر نے کا سبب بن جاتی هے تاکه انھیں اپنے لئے نمونه عمل قرار دیں اور شیطان کے پھندے سے رهائی پائیں ـ[24]

پس پیغمبر اسلام (ص) نے لوگوں سے اجر دنیوی کا مطالبه نهیں کیا هے اور ان سے اپنے اقرباء سے مودت و محبت کا مطالبه کیا هے ، یه حقیقی اجر نهیں هے کیونکه قرآن مجید نے فر مایا هے که اس کا فائده خود لوگوں کو پهنچتا هے ـ

اب سوال پیدا هوتا هے که کن لوگوں کی محبت اور پیروی کر نا لوگوں کے فائدے میں هے؟ اور کن لوگوں کی مودت و محبت کر نا پیغمبر اسلام کی دعوت کو قبول کر نے کا مصداق هے؟ اور کیا جهل و گمراهی کے بھنور میں پھنسے لوگوں کی محبت کر نا دوسروں کے لئے نجات کا سبب بن سکتا هے؟ اور کیا اندھے کے عصا کو پکڑ نے والا بھی اندھا هو تو انسان کی منزل مقصود تک راهنمائی ممکن هے؟

انسانوں کے لئے الهی هدایت ، رسالت کا اجر هے اور یقینی طور پر یه لوگوں کے فائدے میں هے اور یه امر بھی ایسے افراد کی هدایت کی روشنی میں متحقق هوتا هے جو پیغمبر (ص) کی نفس و جان ، [25] چراغ هدایت، [26] نجات کی کشتی، [27] باب علم [28] اور حق کی راه [29] و...هوں ـ اور کیا یه افراد پیغمبر اسلام (ص) کے اهل بیت کے علاوه کوئی اور هو سکتے هیں ؟

ثالثا، اس سلسله میں شیعه وسنی منابع سےنقل کی گئی بهت سی روایتیں ، واضح طورپر "قربی" کی مراد بیان کر تی هیں که هم ان میں سے چند ایک کی طرف ذیل میں اشاره کرتے هیں:

١ـ حاکم حسکانی اس آیت کے ذیل میں چند روایتیں نقل کر تا هے جن سے معلوم هوتا هے که " ذوی القربی" سے  مراد کون لوگ هیں ـ [30] جیسے: ابن عباس کهتے هیں جب آیه "قل لا اسئلکم علیه اجرا الا الموده فی القربی" نازل هو ئی ، تو اصحاب نے آپ(ص) سے سوال کیا ، که خدا وند متعال نے جن لوگوں کی محبت کر نے کا همیں حکم دیاهے وه کون هیں : آنحضرت (ص) نے فر مایا: "علی(ع) اور فاطمه(ع) اور ان دونوں کے فر زند ـ "

٢ـ سیوطی نے اس آیت کے ذیل میں پیغمبر اکرم (ص) سے ایک روایت نقل کی هے که آنحضرت(ص) نے فر مایا: " اس آیت سے  مراد یه هے که میرے حق کو میرے اهل بیت میں محفوظ کریں ـ"[31]

٣ ـ احمد بن حنبل نے " فضا ئل الصحابه" میں اور قرطبی نے اس آیت کی تفسیر میں روایت نقل که هے که اس سے علی(ع) و فاطمه(ع) اور ان کے دو بیٹے مراد هیں ـ[32]

٤ـ زمخشری [33] اور فخررازی [34] نے بھی پیغمبر اکرم (ص) سے چند روایتوں سے استناد کر کے آیه " ذوی القربی" کو علی(ع) و فاطمه(ع) اور ان دونوں کے بیٹوں سے مخصوص جاناهے ـ

البته "الموده فی القربی" کی تفسیر کے بارے میں بعض اعتراضات کئے گئے هیں ،من جمله اس کے که یه قبول نهیں کیا جاسکتا هے که "الموده فی القربی" سے مراد اهل بیت هوں ، کیونکه مذکوره آیت سوره شوری میں هے اور یه سوره مکی هے اور مکه میں فاطمه زهراء (ع) اور حسنین (ع) نهیں تھے که ان کی مودت رسالت کا اجر قرار پاتی !

اس کا جواب یه هے که: اولا، بهت سے مفسرین نے کها هے که سوره شوری کی یه چار آیتیں مدنی هیں نه کھ مکی ـ ثانیا بهت سی ایسی روایتیں موجود هیں جو ان آیات کے نزول کو مدینه بتاتی هیں ـ ثالثا ، ممکن هے ان آیات کا مکی هو نا ، قبل از هجرت نه هو، یعنی هجرت کے بعد مکه میں نازل هوئی هوں، یعنی حجه الوداع میں فاطمه (ع) و حسن (ع) و حسین(ع) کی ولادت کے بعد نازل هوئی هوں ـ [35]

دوسرے اعتراضات پر غور کر کے ان کے جواب دینے کی یهاں پر گنجائش نهیں هے بلکه اس کے لئے مزید فرصت کی ضرورت هےـ هم یهاں پر خلاصه کے پیش نظر اسی مقدار پر اکتفا کرتے هیں اور جو قارئین اس سلسله میں مزید تحقیق و مطالعه کے خواهشمند هوں وه درج ذیل منابع کی طرف رجوع کر سکتےهیں:

١ – احیاء المیت بفضائل اهل البیت ، سیوطی ، ص٨ ـ

٢ـ الصواعق المحر قه ، ابن حجر ، ص ١٠١ـ

٣ـ المیزان ، علامه طباطبائی ، ج١٨، ص٥٣ـ ٥١ـ

٤ـ اهل البیت مقامهم ، منهجهم ، مسارهم ، ص١٩ـ ١٤ـ

٥ـ پیام قرآن ، مکارم شیرازی ، ج٩ ، ص٢٣٧ ـ٢٢٥ـ

٦ـ تفسیر قرطبی ، ج٨ ، ص٥٨٤٣، ج١٦، ص٢٢ـ ٢١ـ

٧ـ تفسیر نمو نه ، ج٧، ص١٧٤ و ج ١١، ص٣٦٩ و ج ١٢، ص ٩٥ـ

٨ ـ جامع البیان ، طبری ، ج٢٥، ص١٦ـ

٩ـ حاکم، مستدرک الصحیحین، ج٣، ص١٧٣ـ

١٠ـ حلیه الاو لیاء ، حافظ ابو نعیم اصفهانی ، ج٣، ص٢٠١ـ

١١ـ ذخایر العقبی ، محب الدین طبری ، ص١٣٨ـ

١٢ـ روح المعانی ، ج٢٥، ص٣٢ـ

١٣ـ کنز العمال ، ج١ ، ص ١١٨ ـ

١٤ـ مجمع البیان ، ج٩، ص٢٨ و ٢٩ و ٥٠، ج٧ و٨ آغاز سوره مٶمن، ص٥١٢ـ

١٥ـ مجمع الزوائد، ج٩، ص١٦٨ـ



[1] "قل ما اسئلکم علیه اجرا الاالموده فی القربی " (شوری/ ٢٣)ـ

[2]  قرائن دو قسم کے هیں: وه قرائن جو خود کلام یا جمله میں موجود هوں اور یا خارج میں موجود هوں لیکن کلام ان سے  متعلق هے ، که اس قسم کے قرائن کو قرینه متصله کهتے هیں، اور جو قرائن کلام میں موجود نه هوں اور بولنے والا انهیں کهیں اور سے حاصل کر تا هو تو ایسے قرائن کو قرینه منفصله کهتے هیں ـ

[3]  مقاییس اللغه نے کها هے: "فلان ذوقربی هو من یقرب منک رحما" وه اس کے ضمن میں کهتا هے: " القربی و القرابۃ به کے  ایک هی معنی هیںـ"لسان العرب اس سلسله میں بیان کرتا هے :" قرابت وقربی نسبی رشته کے معنی میں هیں اور دوسرا کهتا هے : و(القربی) فی الرحم و(القربه) فی المنزله والاصل واحد (اقرب الموارد ، ج٢، ص٩٧٨)

[4]، بقره/ ٨٣- " و بالوالدین احسانا وذی القربی والیتامی "

[5]  و آتی المال علی حبه ذوی القربی والیتامی '، بقره/ ١٧٧-

[6] " ماکان للنبی (ص) والذین آمنوا ان سیتغفروا للمشرکین ولو کانوا اولی قربی "، توبه/ ١١٣ـ"

[7] اس سلسله میں زمخشری کهتا هے : القربی مصدر کالزلفی و البشری ، بمعنی القرابه

المراد فی الایه " اهل القربی" الکشاف ، ج٣،ص٨١، سوره شوری کی آیت ٢٣ کی تفسیر کی ذیل میں ـ

[8] یه تفسیر آیت کے مفهوم کو : ، " ان امور سے محبت کر نا جو انسان کو قرب الهی کی دعوت دیتے هیں ـ" جانتی هے ـ

[9]  البته اس نظریه میں ایک اور مشکل بھی هے ، که اس کو اپنی جگه پر بیان کیا گیا هے ، مثال کے طور پر محبت و مودت کی تعبیر اس معنی کے مناسب نهیں هے ، کیونکه جو قرب الهی کا سبب هے نماز و ... پر عمل کر نا هے نه ان کی محبت و مودت اور اس کے علاوه کیا پیغمبر (ص) کے مخاطبین میں کوئی ایسا فرد تھا جو ان امور سے دلچسپی نهیں رکھتا تھا اور آیت اس کے بارے میں نازل هوئی هو تا که... ( ملاحظه هو: المیزان ، ج١٨، ص ٤٦ـ ٤٥ ، تفسیر موضوعی پیام قرآن ، ج٩، مکارم شیرازی ، ص٢٣٧- ٢٢٥) ـ   

[10]  ملاحظه هو : طباطبائی، محمدحسین ، تفسیر المیزان، ج١٨، ص٤٥و ٤٦ـ

[11] چونکه پیغمبر اکرم (ص) ماں کی جانب سے اور سلمی بنت زید النجاریه کی جانب سے انصار کے ساتھـ قرابت رکھتے تھےـ

[12]  مثلا اعراب کهتے هیں : بنو نا بنو ابنا ئنا و بناتنا بنو ھن ابنا ء الرجال الابا عد " یعنی هماری بیٹیوں کے فرزند، اجنبی مردوں کے فرزند هیں "

[13] ملا حظه هو: المیزان ، ج١٨، ص٤٥ـ ٤٣ تفسیر موضوعی پیام قرآن ، ج٩، ص٢٣٧ـ ٢٢٥ـ

[14] سوره توبه/١١٣ " نبی اور صاحبان ایمان کی شان یه نهیں هے که وه مشرکین کے حق میں استغفار کریں چاهے وه ان کے قرابتدار هی کیوں نه هوں ـ"

[15] " جو کچھـ بھی الله نے اهل قریه کی طرف سے اپنے رسول کو دلوایا وه سب الله ، رسول اور رسول کے قرابتدار و... کے لئے هےـ

[16]  ملاحظه هو: مفاهیم القران ، ج١٠، جعفر سبحانی ،ص٢٦٩- ٢٦٨ـ

[17]  اس احتمال کی نه صرف خود آیت میں تائید نهیں هوتی هے بلکه اجر رسالت سے بھی متناسب نهیں هےـ اس کے علاوه کیا قریش کے تمام افراد (اگر آیت کا خطاب قریش کی طرف هو) تمام انسان( اگر آیت کا خطاب عام لوگوں سے هو) مومنین کے ساتھـ رشته داری رکھتے هیں که محبت کی راه سے انھیں اجر رسالت دیا جائے ـ ملاحظه هو :المیزان، ج١٨، ص٤٥، پیام قرآن، ج١٠، ص٢٣٧ ـ ٢٢٥

[18] ھود/، ٢٩ و٥١، شعراء /١٠٩ و١٢٧و ١٤٥ و١٦٤ و١٨٠ـ

[19] انعام /٩٠ـ

[20] فرقان/ ٥٧" قل مااسالکم علیه من اجر الامن شاء ان یتخذ الی ربه سبیلا"آپ کهدیجئے که میں تم لوگوں سے کوئی اجر نهیں چاهتا مگر یه که جو چاهے وه اپنے پروردگار کا راسته اختیار کرے ـ" یعنی میری اجرت یهی هے که تم میں هرایک خدا کی راه کو اپنائے اور میری دعوت کو اختیار سے قبول کرے ، پس دعوت کے علاوه ، کسی قسم کی اجرت کا وجود نهیں هے ـ

[21] سباء /٤٧ "قل ما سالتکم من اجرفهو لکم ان اجری الا علی ا لله وهو علی کل شیء شهید"

[22] ملاحظه هو: المیزان، ج١٨، ص٤٢ـ ٤٩ ، مفاهیم القرآن ج١٠، ص٢٧٤ـ ٢٦١، پیام قرآن ، ج٩، ص٢٢٥- ٢٣٧ـ

[23] السیره النبویه، ج١، ص٢٩٤ـ ٢٩٣ـ شیخ مفید (رح) اس سلسله میں فر ماتے هیں : "عمل خدا کے لئے اور مخلصانه هو نا چاهئے اور جو کچھـ خدا کے لئے هے، اس کا اجر بھی خدا پر هے نه که کسی اورپر اور پیغمبر اکرم (ص) اپنی پوری زندگی میں ایسے هی تھے ـ (تصیح الاعتقاد، ص ٦٨)

[24]  حضرت امام صادق علیه السلام ایک روایت میں فر ماتے هیں :"مااحب الله عز وجل من عصاه ـ" اس کے بعد یه شعر پڑھا ـ تعصی الاله وانت تظهر حبه

هذا محال فی الفعال بدیع

لو کان حبک صادقا لاطعته

ان المحب لمن یحب مطیع

(سفینته البحار ، ماده حبب) یعنی محبت اطاعت کی  مراد میں هے اور اطاعت هدایت کی  مراد میں اور اسے دعوت قبول کر نا کهتے هیں جو سوره فرقان کی آیت نمبر ٥٧ میں آیا هے ـ

[25] آیه مباهله میں علی(ع) کی نفس پیغمبر(ص) سے تعبیر کی گئی هےـ

[26]  ان الحسین مصباح الهدی و سفینه النجاه " سفینه البخار، ج ١، ص ٣٨٧ -

[27] سنائی: بحر پر کشتی است لیکن جمله را گرداب خوف

بی سفینه نوح نتوان چشم معبر داشتن ـ

پیغمبر اکرم (ص) نے فر مایا" مثل اهل بیتی فیکم مثل سفینه نوح، من رکبها نجا" کنزل العمال ، ج٦، ص ٢١٦ـملاحظه هو :اهل بیت مقامهم ، منهجهم ، ، مسارهم ،ص ٤٦ـ ٤٤ـ

[28] پیغمبر اکرم (ص) نے فر مایا "انا مدینه العلم و علی بابها ..."

[29] دعائے ندبه میں آیا هے "فکا نوا هم السبیل الیک والمسلک الی رضوانک "

[30] شواهد التنزیل ، ج٢ ،ص١٣٠ و ١٣٥ ـ١٣١ و١٤١ـ

[31] الدر المنثور،ج٦،ص٧ـ

[32] احقاق الحق، ج٣، ص ٢، غایه المرام، تفسیر آیه ـ

[33] تفسیر کشاف ، ،ج ٤ ، ص٢٢١ـ ٢٢٠ـ

[34] تفسیر کبیر مخر رازی، ج٢٧، ص١٦٧ـ ١٦٥ـ

[35] ملا حظه هو: جوادی آملی ، عبدالله، تفسیر موضوعی قرآن کریم، ج ٨، ص٣٤١ـ

دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

زمرہ جات

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا